donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Syed Fazil Husain Parwez
Title :
   K C R - Babu Ka Takrao


کے سی آر۔ بابو کا ٹکراؤ


فون ٹیاپنگ…اور گھر کے بھیدی؟

 

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز۔ ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی، حیدرآباد۔

فون:9395381226

    آندھراپردیش تقسیم ہوگیا۔

    دو ریاستیں وجود میں آگئیں۔ دونوں نے اپنے پہلے سال کی تکمیل کی‘ مگر باہمی نفرت، رقابت برقرار ہے بلکہ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا ہی جارہا ہے۔ دونوں ریاستوں کے وزراء اعلیٰ دو دیرینہ دشمن پڑوسیوں کی طرح ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں۔

    تلنگانہ قانون ساز کونسل کے انتخابات میں تلنگانہ کے ارکان سے ’’نوٹ کے بدلے ووٹ‘‘حاصل کرنے تلگودیشم کی مبینہ سازش کے بین قاب ہونے کے بعد معاملہ نے طوالت اور شدت اختیار کرلی ہے جبکہ اسٹیفنس آڈیوٹیپ منظر عام پر لایا گیا جس سے ’’نوٹ کے بدلے ووٹ‘‘ معاملہ میں چندرا بابو نائیڈو کے ملوث پائے جانے کو ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تحقیقات تو ہوںگی‘ حقائق آج نہیں تو کل منظر عام پر آجائیںگے‘ تاہم اس وقت تک دونوں ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ ہی نہیں حکومتوں کا نظم و نسق بھی متاثر رہے گی۔ لفظی تکرار، الزامات، جوابی الزامات میں اُلجھ کر رہ جانے کی وجہ سے سیاسی قائدین کی اپنی توجہ عوامی مسائل پر مکمل طور پر مرکوز نہیں رہے گا۔ وہیں عوام کی توجہ بھی حکومت کی کارکردگی کے مقابلہ میں ان کے آپسی ٹکرائو پر رہے گی۔

    یہ واقعات ایک ایسے وقت رونما ہورہے ہیں جب دونوں ریاستیں اپنی پہلی سالگرہ کا جشن منارہی ہیں۔ عوام کے سی آر، بابو کے اختلافات اور ذرائع ابلاغ کے ذریعہ چھیڑی گئی جنگ میں اس قدر الجھ گئے ہیں کہ انہیں دونوں ریاستوں کی ایک سالہ کارکردگی کا جائزہ لینے کا بھی موقع نہیں مل سکا۔

    کے سی آر‘ آندھرا کے وزیر اعلیٰ بابو کے مقابلہ میں کہیں زیادہ کامیاب مطمئن اور مسرور ہیں‘ کیوں کہ تلنگانہ کی تشکیل ان کی جدوجہد کا ثمر ہے۔ یہ ان کی کامیابی کی سالگرہ ہے۔ دوسری طرف چندرا بابو نائیڈو کے لئے ان کی حکومت کا پہلا سال تو مکمل ہوا مگر نہ تو آندھراپردیش کے عوام خوش ہیں اور نہ خود بابو‘ کیوں کہ آندھرا اور رائلسیما کے عوام ریاست کی تقسیم کے مخالف رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے سال کا جشن کم منایا گیا‘ غم زیادہ۔ ریونت ریڈی کی گرفتاری، چندرا بابو نائیڈو کے آڈیو ٹیپ کے منظر عام پر آنے کے بعد ریاست کی تقسیم کا غم بھی بڑھا‘ زخم بھی ہرا ہوگیا۔

    چندرا بابو نائیڈو اقتدار کے باوجود ’’تنہا‘‘ ہوگئے ہیں۔ کیوں کہ ایک طرف جگن موہن ریڈی دوسری طرف کانگریس اس بحران اور نازک ترین مرحلہ میں ان سے اپنا حساب بیباق کرنے میں لگی ہے۔ چندرا بابو نائیڈو مرکزی حکومت کے حلیف ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی سے قربت ہے تاہم بی جے پی اس نازک ترین آزمائشی مرحلہ میں اپنا دامن بچائے رکھے گی‘ کیوں کہ وہ کانگریس کی پیش رو ’’سوٹ کیس‘‘ حکومت کو موضوع بحث بنائے ہوئے ہے۔ صاف ستھری، رشوت خوری، بے قاعدگیوں، بدعنوانیوں سے پاک و صاف انتظامیہ و حکومت کا وہ وعدہ کررہی ہے۔ اگر اس مرحلہ پر وہ چندرا بابو نائیڈو کی پشت پناہی کرتی ہے تو خود اس کی اپنی ساکھ متاثر ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔

    بابو کے مقابلہ میں آج کی تاریخ میں کے سی آر کو اپنی ریاست کی اپوزیشن جماعتوں کی بھی اخلاقی طور پر تائید و حمایت حاصل ہے جس سے ان کی طاقت میں اضافہ ہوگیا ہے۔

    چندرا بابو نائیڈو نے کے سی آر پر ان کی جاسوسی کا الزام عائد کیا ہے۔ ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں فون ٹیاپنگ یا سیاسی قائدین کی نگرانی اور جاسوسی کوئی نئی بات نہیں ہے۔

    1965ء اور 1968 کے دوران فون ٹیاپنگ کے واقعات کا انکشاف پہلی بار ہوا تھا جب امریکی حکومت کی جانب سے مارٹن لوتھر کنگ کے فون ٹیپ کئے گئے تھے۔ جب ڈیجیٹل ٹکنالوجی عام ہوئی اور موبائل فونس کا چلن شروع ہوا فون ٹیاپنگ بہت آسان ہوگئی ہے۔ 1995ء میں Bell's South Advance Tech کے ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والے Wayne Howe اور Dale Malik نے اڈوانس انٹلی جنٹ نیٹ ورک AIN کی ایجاد کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس ٹکنالوجی نے ترقی کی اور اب فون ٹیاپنگ سافٹ ویر بھی آچکے ہیں جس میں کال خود بخود ٹیپ کی جاتی ہے۔ Pen register اور Trap & Trace Device کے استعمال سے کیبل ٹی وی نیٹ ورکس فون ٹیاپنگ کرتے ہیں جس کی وجہ سے کئی بڑے بڑے اسکامس بے نقاب ہوئے ہیں۔

    جہاں تک ہندوستان میں فون ٹیاپنگ کا تعلق ہے‘ اکتوبر 2007ء میں بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا فون ٹیپ کیا گیا تھا حالانکہ یہ فون کسی اور عہدہ دار کا تھا جس کے ذریعہ نتیش کمار مرکزی فنڈز کے حصول سے متعلق بات چیت کررہے تھے۔ اسی سال ڈگ وجئے سنگھ کا فون ٹیپ کیا گیا جس میں انتخابی امیدواروں سے متعلق وہ ایک ریاست کے وزیر اعلیٰ سے بات کررہے تھے۔ 2008ء میں پرکاش کرات کی فون پر بات چیت خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی جب وہ ہند۔امریکہ نیوکلیر معاملت سے متعلق حکمت عملی پر بات کررہے تھے۔ 2010ء میں آئی پی ایل کے سربراہ للت مودی کی بات چیت ٹیپ کی گئی تھی جس کی اساس پر شرد پوار کو للت کو عہدہ سے ہٹانا پڑا تھا۔

    مسٹر نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے سے کچھ عرصہ پہلے گجرات کی ایک خاتون کی جاسوسی یا نگرانی کا تنازعہ پیدا ہوا تھا۔ امیت شاہ نے مبینہ طور پر فون پر کسی ’’صاحب ‘‘کا ذکر کیا تھا جن کی ہدایت پر اس خاتون کی نگرانی کی گئی تھی۔ کافی عرصہ تک یہ معاملہ میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔

    راڈیہ ٹیپس نے کئی سیاستدانوں، فنکاروں کی پول کھول دی تھی۔ کئی صحافی بھی بے نقاب ہوئے تھے۔ بہرحال چندرا بابو نائیڈو کے فون ٹیاپنگ کا واقعہ کوئی نیا نہیں ہے۔ ایک ریاست کے وزیر اعلیٰ کے فون‘ دوسری ریاست کی جانب سے ٹیپ کئے جانے سے متعلق کیا فیصلہ ہوتا ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ دستور ہند کی دفعہ 21کے تحت کسی بھی فرد کو اس کی زندگی اور شخصی آزادی سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ شخصی آزادی سے مراد اس کی Privacy بھی ہے۔ تاہم ناگزیر حالات میں انڈین ٹیلی گرافک ایکٹ 1885 کی دفعہ (2)5 کے تحت مرکز اور ریاست حکومتوں کو مشکوک افراد کے فون ٹیپ کرنے کی اجازت ہے۔ چندرابابو نائیڈو کا فون ٹیپ کرنے کاحکومت تلنگانہ کو اختیار ہے یا نہیں یہ ایک علیحدہ سوال ہے۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ بابو کا فون ٹیپ کیسے ہوا؟ ان کے گھر کا بھیدی کون ہے جو ان کی لنکا کو ڈھانے میں مددگار ثابت ہوا۔ ’’اندرونی‘‘ اورقریبی بااعتماد افراد کی مدد کے بغیر ایک ریاست کے وزیر اعلیٰ کے فون ٹیپ کرنا آسان نہیں ہے۔ ریونت ریڈی معاملہ میں کون کون ملوث ہیں اور اسے منظر عام پر لانے کے لئے ’’بابو‘‘ کے کن قریبی عناصر نے اہم رول ادا کیا یہ منظر عام پر آنا چاہئے اور جب یہ حقائق منظر عام پر آئیںگے تو بابو کو اور بھی زیادہ تکلیف پہنچے گی۔ کسی کی اعتماد شکنی کی وجہ سے۔سیاست ہو یا کوئی اور شعبہ‘ ہمیشہ بہت زیادہ قابل اعتماد لوگ ہی نقصان پہنچاتے ہیں یا تختہ اُلٹ دیتے ہیں۔ عام طور پر سیاست دانوں اور بڑے صنعت کاروں کے ڈرائیورس، سیکوریٹی گارڈس، گھریلو ملازمین جن سے عموماً یہ بڑے لوگ کوئی بات بھی راز میں نہیں رکھتے‘وہ اپنے مفادات کی خاطر ایسے راز ان کے سیاسی اور کاروباری حریفوں کو فروخت کردیتے ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو کے معاملہ میں بھی کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔


*****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 583