donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title :
   Kamal Haasan Ki Film Ka Qazia Publicity Ka Aik Harba To Nahi

 

 کمل ہاسن کی فلم کا قضیہ پبلسٹی کا ایک حربہ تو نہیں !!
 
  اس ہفتے کمل ہاسن اپنی فلم’ وِشوروپم‘ کے حوالے سے پورے ملک میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ بلکہ وہ اپنی اس قیمتی فلم، جس میں انہوں انے اپنی زِندگی کا کل اثاثہ لگا دِیا ہے ایک اِطلاع کے مطابق فلم پر پابندی کے خدشے کے صدمے سے وہ بہت پریشان بھی ہیں۔ مبینہ طور پر اُن کی فلم ” وِشوپورم‘ میں مسلمانوں کی خراب شبیہ پیش کی گئی ہے یا شبیہ خراب ہو سکتی ہے۔         مختلف ٹی وی چینلس پر تقریباً روزانہ ہی اس فلم پر مباحثہ ہورہا ہے۔لوگ اپنے اپنے انداز سے اپنی اپنی بولی بول رہے ہیں۔ جس میں ہر فرقے اور ہر شعبہ ¿ حیات کے ممتاز افراد شامل ہیں انہی میں فلم کے ایک مشہور ہدایت کار رمیش سِپّی بھی شریک تھے جنہوں نے مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے ’ کمل ہاسن ‘کے بارے میں یہ بھی کہا کہ ” وہ تو خود مسلمان ہیں۔“                 ۱۹۸۱ میں کمل ہاسن کی مشہور فلم ’ایک دوجے کے لئے ‘ ( جس میں اُن کےمقابل رتی اگنی ہوتری نے ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا )  راقم بھی دیکھ چکا ہے۔ جسے فلم فئیر کابیسٹ فلم ایوارڈ بھی ملا تھا۔اُس زمانے میں اکثرمسلم ناظرین کمل ہاسن کو ’کمال حسن‘ ہی سمجھ رہے تھے اور خوش ہورہے تھےکہ ایک اور اچھا فلم اداکار مسلمان نکلا۔یہ باتیں یوں یاد آئیں کہ کل ایمسٹر     ڈم سے مشہور صحافی اسد مفتی کا فون آیاجس میں اُنہوں نےخاکسار سے سوال کیا کہ کمل ہاسن کیا مسلمان ہے اور اس کا نام’ کمال حسن‘ہے۔؟ ہمارا جواب یہی تھا کہ وہ کمال حسن نہیں کمل ہاسن ہیں۔ ہمارے جواب پراسد مفتی نے بتایا کہ مشہور اور سینئر صحافی کلدیپ نیر نے اُنھیں بتایا
ہے کہ وہ(کمل ہاسن) مسلمان ہی ہے۔ حیرت ہوئی کہ کلدیپ نیر جیسے سینئرصحافی کو یہ غلط فہمی کیسے ہوئی؟ مگر غلط فہمی تو کسی کو بھی ہو سکتی ہے! کہ ہمارے بعض ساتھی آج بھی کمل ہاسن کو مسلم ہی سمجھ رہے ہیں۔         ہم نے وِکی پیڈیا(انٹر نیٹ) پرSearch کیا تو جو باتیں سامنے آ ئیں توخیال گزرا کہ کیوں نہ اپنے قارئین تک بھی ان باتوں کو پہنچایا جائے۔ وِکی پیڈیا کے مطابق کمل ہاسن کے والد جو ایک برہمن خاندان سے تعلق رکھتے تھے، ان کے ایک دوست یعقوب حسن جو جنگ ِ آزادی میں ان کے ساتھ تھے اور اسی جنگ کے پاداش میں جیل بھی گئے جہاں دونوں نے ایک ساتھ قید وبند کی صعوبتیں بھی جھیلیں ۔         لوگوں کا خیال تھا کہ کمل ہاسن کے والد نے اپنے اسی دوست کی یاد میںاپنے بیٹے کا نام کمال حسن رکھا تھا۔
        کمل ہاسن نے جو بالاعلان اپنے آپ کو دہریہ (Atheist) کہتے ہیں،
الیکٹرانک میڈیا کے مشہور جرنلسٹ کرن تھاپر سے ایک اِنٹرویو کے دوراناپنے نام کے بارے میںبہت واضح طور پر کہا تھا کہ میرا نام ’ہاسن ‘ہے اوریہ سنسکرت زبان کے شبد (لفظ) ’ہاسیہ‘ سے ماخوذ ہے اور میرے والد اور اُن کے دوست یعقوب حسن کے بارے میں جو کہانیاں سنائی جاتی ہیں وہ محض من گھڑت ہیں۔         پتہ چلا کہ ان کا نام کمل ہاسن ہی ہے ناکہ کمال حسن۔ فلم انڈسٹری ہی کیا اب تو ہر شعبے میں شہرت کےلئے کسی بھی انداز سےباتیں پھیلائی جاتی ہیں بلکہ منفی طریق بھی اختیار کرنے میں تردد نہیںکیا جاتا اور پھر جب وہ موضوع گرم ہوجا تا ہے تو تردید کر دی جاتی ہے ،اس دوران جو شہرت ملتی ہے اس سے ان کا مطلوبہ نشانہ(ہدف) تو حاصل ہو ہی جاتاہے۔ تلمیذِ مرزا غالب، نواب مصطفےٰ علی خاں شیفتہ کابہت مشہور شعر ہے :                                         ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام ٪ بدنام اگر ہوںگے توکیا نام نہ ہوگا ہمارے ایک ساتھی نے جب یہ بات کہی کہ ہو سکتا ہے کہ کمل ہاسن نے اپنی فلم” وِشو پورم‘ کی پبلسٹی کےلئے از خود ” مسلم مخالف“ شوشہ چھڑوایا ہوکہ اس طرح فلم کی جو پبلسٹی ہو گی وہ کروڑوں روپے خرچ کرکے بھی نہیں ملےگی۔ یہ الگ بات ہے کہ اب یہ شوشہ اُن کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ اس بات کو مفروضہ کہیں مگر کیا یہ ممکن نہیں کہ یہ بات سچ ہی ہو؟ 
 
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 553