donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Aam Aadmi Ki Ummidon Par Kejriwal Ne Pheri Jhadu


عام آدمی کی امیدوں پر کجریوال نے پھیری جھاڑو


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے


    عام آدمی پارٹی میں ان دنوں بھونچال سال آگیا ہے۔ یوگندر یادو اور پرشانت بھوشن کو ’’غدار‘‘ کا خطاب دے کرحاشیے پر ڈال دیا گیا ہے۔ انجلی دمانیہ نے بددل ہوکر استعفیٰ دیدیا ہے۔ شاذیہ علمی تو پہلے ہی باہر جاچکی تھیں مگر اب سابق ایم ایل اے گرگ کو بھی’’گُرگ‘‘ قرار دے کر کجریوال کا اسٹنگ آپریشن کرنے کے جرم میں تڑی پار کردیا گیا ہے۔آئے دن نئے نئے جھگڑے سامنے آرہے ہیںاور عام آدمی پارٹی جس سے عوام کو بہت امیدیں تھیں وہ بھی دوسری پارٹیوں کی طرح خود غرضی کے طور پر سامنے آرہی ہے۔’’آپ‘‘ بھی دوسری سیاسی پارٹیوں کے راستے پر چل پڑی ہے؟کیا کجریوال نے کروڑوں ہندوستانیوں کی امیدوں پر اوس ڈال دیا ہے جو ملک میں ایک نئی قسم کی سیاست کی امید لگائے بیٹھے تھے؟ عام آدمی پارٹی کو کانگریس، بی جے پی کا متبادل سمجھا جارہا تھا اور اروند کجریوال کو نریندر مودی کو ٹکر دینے والے لیڈر کے طور پر دیکھا جارہا تھا مگر انھوں نے پارٹی پر اپنا قبضہ مضبوط کرنے کے لئے جس طرح یوگندر یادو اور پرشانت بھوشن کو کنارے لگایا اس سے اندازہ ہونے لگا ہے کہ اب کجریوال بھی پارٹی کو ذاتی ملکیت سمجھنے لگے ہیں اور وہ ان لوگوں کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں جن سے کسی تنقید کی امید ہو۔ سوال یہ بھی ہے کہ کجریوال نے فی الحال دولیڈروں کو حاشیئے پر ڈالا ہے مگر عنقریب سنجے سنگھ، آسوتوش، کمار وشواس جیسے لوگوں کو بھی وہ کنارے کریں گے جو ابھی ناک کے بال بنے ہوئے ہیں؟ کیا اروند کجرایول کو دلی اسمبلی الیکشن کی کامیابی ہضم نہیں ہوئی ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے ایسے لوگوں کو پارٹی سے الگ تھلگ کرنے کی کوشش شروع کردی ہے جنھوں نے عام آدمی پارتی کو کھڑا کرنے اور جیت دلانے میں اثر دار رول ادا کیا تھا؟ اب تو یہ بھی سوال پوچھا جارہا ہے کہ کیا کجریوال اب مینک گاندھی کو بھی پارٹی سے باہر کا راستہ دکھائیں گے، جنھوں نے خود بھی اسی قسم کے سوال اٹھائے ہیں جس قسم کے یوگندر یادو اور پرشانت بھوشن نے اٹھائے تھے؟ ادھر پارٹی کی اساسی ممبروں میں سے ایک انجلی دمانیہ نے بھی پارٹی سے استعفیٰ دے دیا ہے اور آنسووں کے ساتھ انھوں نے دل ٹوٹنے کی داستان سنائی۔    

کجریوال کھاگئے اپنے محسنوں کو

    یوگندر یادو کو سیاسی تجزیہ کار کے طور پر شہرت ملی ہوئی ہے۔ وہ پہلے اپنے خیالات تی وی چینلوں پر پیش کرتے دکھائی دیتے تھے مگر پہلی بار انھیں عوامی تحریک میں تب دیکھا گیا جب اناہزارے نے رام لیلا میدان میں کرپشن کے خلاف بھوک ہڑتال شروع کی۔ حالانکہ پرشانت بھوشن کی پہچان ایک بیباک قانون داں کی رہی ہے۔ ان کے والد شانتی بھوشن، جنتا دل سرکار میں وزیر قانون تھے مگر پرشانت بھوشن عام آدمی پارٹی سے پہلے سیاست سے دور رہے۔ انھوں نے عام آدمی پارٹی کو قائم کرنے میں سرگرم رول نبھایا اور ابتدا میں ہی اس کے فنڈ میں ایک کروڑ روپئے کا چندہ دیا۔وہ سماجی انصاف کے لئے سرگرم رہے ہیں اور ان بے قصوروں کو سزا سے بچانے کی کوشش کرتے رہے ہیں جنھیں دہشت گردی کے جھوٹے الزامات کے تحت جیلوں میں بند کیا گیا ہے۔ وہ بہت دن سے کجریوال کی نظروں میں کھٹک رہے تھے کیونکہ وہ بغیر کسی جھجھک کے کجریوال کو ان کی غلطیوں پر ٹوک دیتے تھے۔حالانکہ چند دن کی کشمکش اور سیاسی بیان بازیوں کے درمیاں یوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن کو پارٹی کی سیاسی معاملات کی کمیٹی پی اے سی سے ہٹا دیا گیا ہے۔ عام آدمی پارٹی کی قومی مجلس عاملہ میں آٹھ ووٹ یوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن کے حق میں اور 11 ووٹ ان کے خلاف پڑے۔میڈیا میں قیاس آرائیاں چل رہی تھیں کہ عام آدمی پارٹی توٹ جائے گی مگر یوگیندر یادو نے ٹوئیٹر پر اپنا موقف واضح کردیا تھا ’’نہ توڑیں گے نہ چھوڑیں گے ،سدھریں گے اور سدھاریںگے۔‘‘ان کا مزید خیال تھا کہ’’ سازشیں تلاش کر نے والے قابل رحم ہیں ، آج کا یہ وقت بڑی فتح کے بعد، بڑے دل سے، بڑے کام کرنے کا ہے‘‘ انھوں نے لکھا کہ نئی نئی کہانیاں گڑھی جا رہی ہیں، الزام لگائے جا رہے ہیں، سازشیں تلاش کی جا رہی  ہیں۔ یہ سب پڑھ کے ہنسی بھی آتی ہے اور دکھ بھی ہوتا ہے۔ ہنسی اس لئے آتی ہے کہ کہانیاں اتنی منگڑھت اور فرضی ہیں۔لگتا ہے کہانی بنانے والوں کے پاس ٹائم کم ہو گا اور تصور زیادہ،لیکن ان الزامات اور کہانیوں کی نیت کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ دہلی کے عوام نے ہمیں اتنی بڑی جیت دی ہے۔ملک نے ہم سے بڑی امیدیں لگائی ہے۔ میں یہی اپیل کر سکتا ہوں کہ ہم اپنی چھوٹی حرکتوں سے اپنے آپ کو اور اس امید کو چھوٹا نہ ہونے دیں۔ بس سدبدھ کی دعا کر سکتا ہوں".

مینک گاندھی نے کھولی کجریوال کی پول

     عام آدمی پارٹی کی پی اے سی سے دو سینئر ارکان یوگیدر یادو اور پرشانت بھوشن کو باہر کرنے کے بعد بھی پارٹی کا تنازعہ تھمتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ پی اے سی کے رکن اور پارٹی کے بڑے چہرے مینک گاندھی نے اب یادو اور بھوشن کو ہٹانے کے طریقے پر اعتراض ظاہر کرتے ہوئے قومی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں ہوئی باتیں عام کردی ہیں۔انھوںنے پارٹی کی ہدایات کو درکنارکرتے ہوئے کارکنوں کے نام لکھے کھلے خط میں یہ باتیں کہی ہیں۔مینک کے مطابق یوگیندر اور بھوشن خود ہی پی اے سی سے کنارے ہونے کو راضی تھے لیکن کیجریوال انہیں باہر کرنے پر اڑے ہوئے تھے اور اسی کے چلتے ان کی پی اے سی کا تنظیم نو کرنے کی مانگ نہیں مانی گئی اور سیدھے سیدھے برخاستگی کی تجویز پیش کر دی گئی۔انھوں نے پارٹی کارکنان کے نام کھلا خط لکھا ہے جس میں تحریر ہے کہ
    عزیز کارکنان!میں معافی چاہتا ہوں کہ قومی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں کل جو کچھ ہوا اسے باہر کسی کو نہ بتانے کی ہدایات کو توڑ رہا ہوں۔ ویسے میں پارٹی کا ایک ڈسپلن کا پابند سپاہی ہوں۔

2011    ء میں جب اروند کیجریوال لوک پال کے لئے بنی جوائنٹ ڈرافٹ کمیٹی کے اجلاس سے باہر آتے تھے تو کہتے تھے کہ کپل سبل نے ان سے کہا ہے کہ اجلاس میں جو کچھ ہوا اسے وہ باہر نہ بتائیں، لیکن اروند کہتے تھے کہ یہ ان کا فرض ہے کہ وہ ملک کو اجلاس کی کارروائی کے بارے میں بتائیں کیونکہ وہ کوئی لیڈر نہیں تھے بلکہ لوگوں کے نمائندے تھے۔ اروند نے جو کچھ کیا وہ واقعی سچ اور شفافیت تھی۔قومی مجلس عاملہ میں میری موجودگی کارکنوں کے نمائندے کے طور پر ہی ہے اور میں ایماندار نہیں ہوں گا اگر میں یہ ہدایات مانتا ہوں۔ کارکنوں کو کسی مساوات سے نہیں ہٹایا جا سکتا۔ وہ پارٹی کے ذریعہ ہیں۔انھوں نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے کہ ،پچھلی رات مجھ سے کہا گیا کہ اگر میں نے کچھ بھی انکشاف کیا تو میرے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔ اب جو ہو، میری پہلی وفاداری حق کے تئیں ہے۔ میں قومی مجلس عاملہ سے درخواست کروں گا کہ میٹنگ کی تفصیلات ریلیز کی جائیں۔

    مختصر طورپردہلی کی انتخابی مہم کے دوران پرشانت بھوشن نے کئی بار دھمکی دی کہ وہ پارٹی کے خلاف پریس کانفرنس کریں گے کیونکہ انہیں امیدواروں کے انتخاب پر کچھ اعتراض تھا۔ ہم میں سے کچھ کسی طرح اس مسئلے کو انتخابات تک ٹھنڈا رکھنے میں کامیاب رہے۔ الزام تھا کہ یوگیندرر یادو، اروند کیجریوال کے خلاف سازش کر رہے ہیں اور اس کے کچھ ثبوت بھی رکھے گئے۔ اروند کیجریوال اور پرشانت بھوشن ویو گیندرر یادو کے درمیان اختلافات سلجھنے کی حد سے باہر چلے گئے اور ان کے درمیان اعتماد کا بحران تھا۔ 26 فروری کی رات جب قومی مجلس عاملہ کے رکن ان سے ملنا چاہتے تھے، اروند نے یہ پیغام دیا کہ اگر یہ دو رکن پی اے سی میں رہیں گے تو وہ کنوینر کے طور پر کام نہیں کر پائیں گے۔ 4 مارچ کو ہوئی قومی مجلس عاملہ کی میٹنگ کا یہی پس منظر تھا۔مینک گاندھی نے اپنے طویل خط کے اخیر میں لکھا ہے کہ یہ کوئی بغاوت نہیں ہے اور نہ ہی پبلیسٹی کا قدم ہے۔ میں پریس میں نہیں جاؤنگا۔ میرے اس قدم کے چلتے میرے خلاف براہ راست یا بالواسطہ کارروائی ہو سکتی ہے، تو ایسا ہو جائے۔

’’آپ‘‘ میں بوال پر سوال

    سیاسی پارٹیوں کے اندر اختلافات کوئی نئی بات نہیں ہیں مگر انھیں بات چیت سے سلجھا لیا جاتا ہے۔ اروند کجریوال چونکہ رائج الوقت سیاست سے مختلف طرز پر چلنے کی بات کہ رہے تھے لہٰذا ان سے عوام کو بہت سی امیدیں تھیں۔اب ایسا لگتا ہے کہ یہ سب ان کے دکھانے کے دانت تھے ۔ دلی میں جیت کے بعد ہی ان کا اصلی چہرہ سامنے آنے لگا ہے۔ دوسری سیاسی پارٹیوں کے لیڈران اب بغلیں بجا رہے ہیں۔بی جے پی، کانگریس اور جے ڈی (یو) نے عام آدمی پارٹی پر پرشانت بھوشن اور یوگیندر یادو کے پی اے سی  سے اخراج پر متفقہ طور پر تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ پارٹی میں کوئی داخلی جمہوریت نہیں ہے۔ اور اس اقدام سے عوام کے جذبات مجروح ہوں گے۔ بی جے پی کے سینئر لیڈر وجئے گوئل نے کہا کہ یادو اور بھوشن کا کمیٹی سے اخراج مزید تنازعہ پیدا کرے گا۔ عام آدمی پارٹی کے ان وعدوں کا کیا ہوا جن پر عوام نے آنکھیں بند کرکے یقین کرلیا تھا۔ کانگریس نے بھی عام آدمی پارٹی پر زبردست تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی میں کوئی داخلی جمہوریت نہیں ہے۔ عام آدمی پارٹی میں بھی بی جے پی کی طرح ہی ’’آمریت‘‘ موجود ہے۔ جنتادل (یونائیٹیڈ) کے جنرل سکریٹری کے سی تیاگی نے کہا کہ یہ عام آدمی پارٹی کا داخلی معاملہ ہے لیکن جو کچھ ہورہا ہے بہت بدبختانہ ہے۔ پارٹی قائدین کے درمیان شخصی اختلافات کوئی اچھی بات نہیں ہے۔

’’عام سلطنت‘‘ پر بادشاہ کجریوال کا قبضہ

    جس وقت عام آدمی پارٹی کو اروند کجریوال کی ضرورت تھی ، ٹھیک اسی وقت کجریوال کو اپنی کھانسی کی یاد آگئی اور انھیں علاج کرانے کے لئے راجدھانی دلی میں کوئی اسپتال نہیں ملا بلکہ بنگلور کے اسی اسپتال میں جانا پڑا جہاں علاج کرانے کی نصیحت انھیں وزیر اعظم مودی نے کی تھی۔پارٹی کے اندر جو کچھ ہوا اس کے لئے خود کجریوال ذمہ دار تھے مگر انھوں نے اسے ہونے دیا کیونکہ اسی صورت میں ان کا منشا پورا ہوسکتا تھا۔کجریوال نے اسمبلی الیکشن میں ٹکٹ تقسیم کرنے میں منمانی کی تھی اور انھیں لگتا ہے کہ اگر پرشانت بھوشن اور یوگندر یادو جیسے لوگ پارٹی کے اندر رہے تو انھیں منمانی کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ گویا اب عام آدمی پارٹی اور دوسری پارٹیوں میں کوئی فرق نہیں رہا اور وہ ’’عام سلطنت‘‘ کے بادشاہ بننے کے راستے پر چل پڑے ہیں۔انھوں نے بس ایک ٹویٹ کیا،کہ ‘پارٹی کے اندر جو بھی چل رہا ہے اس سے میں بہت دلبرداشتہ ہوں اور مجھے گہری چوٹ لگی ہے، لیکن میں اس گندی جنگ میں نہیں پڑنا چاہتا، میں اپنا پورا خیال کام پر لگائوںگا اور عوام کے بھروسے کو نہیں ٹوٹنے دوں گا۔


رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 557