donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Ab Kya Hinduyon Ke Teoharon Par Hi Sarkari Chhutti Rahegi


اب کیا ہندووں کے تیوہار پر ہی سرکاری چھٹیاں رہیںگی؟


سرکار کے نشانے پر اقلیتوں کے تیوہار کیوں؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    مرکزی سرکار اقلیتوں کے تہواروں کو چھوٹا کرنے کی کوشش میں لگی ہے؟ گزیٹیڈ چھٹیوں کو دوسرے مقصد میں استعامل کرنے کا پلان ہے؟ کیا کرسمس کے دن اٹل بہاری واجپائی کا جنم دن منایا جایے گا تو عید کے دن بھی کسی کا برتھ ڈے منانے کی تیاری ہے؟ کیا اس ملک میں اب صرف ہندووں کے تہواروں پر ہی مکمل چھٹیاں رہیں گی اور دوسرے مذاہب کے تہواروں پر چھٹیاں نہیں رکھی جائینگی؟ آخر مرکزی سرکار کے منتریوں نے اس معاملے پر پارلیمنٹ کے اندر جھوٹ کیوں بولا؟کیا وہ ایوان کو گمراہ کرنا چاہتے تھے یا پورے ملک کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچنے کے لئے انھوں نے میڈیا اور ایوان کے سامنے جھوٹی بات کہہ دی؟ پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کو کئی ہنگاموں کے لئے یاد رکھا جائے گا ، جس میں سے ایک کرسمس کی چھٹی کے ایشو پر ہنگامہ بھی یادگار رہے گا۔ مرکزی سرکار نے خفیہ طور پر اس بات کی کوشش کی کہ کرسمس کو چھوٹا کردیا جائے اور اس دن کو حضرت عیسیٰ کے یومِ پیدائش کے بجائے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور پنڈت مدن موہن مالویہ کے جنم دن کے طور پر منایا جائے۔ اسی مقصد سے وزارت برائے فروغ انسانی وسائل نے مرکز کے تحت چلنے والے تمام سنٹرل اسکولوں، نودیاودیالیوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو سرکلر جاری کرکے کہا کہ وہ ۲۵ دسمبر کو ’’گڈ گورننس ڈے‘‘ کے طور پر منائیں اور اس دن تحریری و تقریری مقابلے کریں اور دوسرے قسم کے پروگراموں کا انعقاد کریں۔ اس بارے میں جب میڈیا میں خبر آئی تو پارلیمنٹ میں بھی آواز اٹھی اور حکومت سے جواب مانگا گیا۔ تب وہ بوکھلاگئی اور ایسا عذر گناہ پیش کرنے لگی جو گناہ سے بھی بدتر تھا۔ اس نے جو بات کہی وہ حقیقت سے پرے تھی اور جھوٹ تھی جس پر اپوزیشن کو غصہ آگیا اور پارلیمنٹ میں اس موضوع پر مذمتی قرار داد لانے کی بات اٹھنے لگی۔ اب ایسے میں سرکار کی کرکری لازمی تھی۔ پارلیمنٹ میں کئی موضوعات پر سرکار کو اپوزیشن گھیرتا رہا اور وہ ایک معاملے سے نکلنے کی کوشش کرتا تو دوسرے میں پھنس جاتا اور دوسرے سے نکلنے کی کوشش کرتا تو تیسرے میں پھنس جاتا۔ اس بار سرکار کو پھنسانے میں خود بھاجپائیوں کا ہی ہاتھ رہا جو الٹی سیدھی باتیں کرکے اس کے لئے مسائل کھڑے کرتے رہے۔

وزارت کے سرکلر میں کیا تھا؟

    میڈیا میں جب کرسمس کی چھٹی کی جگہ مرکزی اسکول، کالج اور یونیورسٹیز کے کھولنے کی خبر آئی تو واویلا مچ گیا اور وزیر فروغ انسانی وسائل نے اس کی تردید کی نیز میڈیا کو ہی جھوٹا قرار دے دیا۔ انھوں نے کہا کہ اس خبر میں تھوڑی سی بھی سچائی نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ میڈیا نے یہ بھی تکلیف گوارہ نہ کی کہ وزارت کے دفتر میں رابطہ قائم کرکے سچائی معلوم کرلے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر صرف آن لائن مقابلے ہونے ہیں جن کے لئے طلبہ کو اسکول کالج آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس مقابلے میں حصہ داری بھی لازمی ہیں بلکہ اختیاری ہے۔ دوسری طرف پارلیمانی معاملوں کے وزیر وینکیا نائیڈو نے بھی کرسمس کے دن کی چھٹی کی جگہ کچھ اور پروگرام ہونے کی بات سے انکار کیا۔ ادھر وزیر خازانہ ارون جیٹلی کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایسا کوئی سرکلر جاری نہیں کیا ہے۔ حالانکہ جلد ہی اپوزیشن کے ہاتھ وہ سرکلر لگ گیا جو حکومت کی طرف سے جاری کیا گیا تھا۔ ایک سرکلر سی پی آئی ایم کے راجیہ سبھا ایم پی سیتارام یچوری نے پیش کیا جو ۱۰،دسمبر کو تمام سنٹرل اسکولوں اور نودیا ودیالیوں کو جاری کیا گیا تھا۔ اس  پر جوائنٹ سکریٹری اسکول ایجوکیشن جے عالم کا دستخط تھا۔ اس میں تحریر تھا کہ ۲۵ دسمبر کو اٹل بہاری واجپائی اور پنڈت مدن موہن مالویہ کے یوم پیدائش کو گڈ گورننس ڈے کے طور پر منایا جائے۔ اس دن طلبہ کی سرگرم حصہ داری کو لازم کیا جائے۔ اس دن مسابقتی مقابلے ہوں، کوئز کونٹسٹ ہوں، فلم اسکریننگ ہو اور دیگر قسم کے پروگرام ہوں۔یہ سرکلر تقریباً ایک ہزار سنٹرل اسکولوں اور نوودیاسسکولوں  کو بھیجا گیا تھا۔ اسی قسم کا ایک دوسراسرکلر تمام سنٹرل یونیورسیٹیوں کے وائس چانسلرس کو ۱۲ دسمبر کو بھیجا گیا تھا۔ ان سے کہا گیا تھا کہ اس دن سیمنار کئے جائیں اور گڈ گورننس میں جدید ٹکنالوجی کے استعمال کی اہمیت سے طلبہ کو آگاہ کیا جائے۔ حکومت نے ان طلبہ کے لئے انعام کے طور پر ۱۵ہزار، ۱۰ ہزار اور ۵ ہزار روپئے کے انعامات کا علان بھی کیا تھا جو کچھ نیا آئیڈیا پیش کرتے ہیں۔ اس سرکلر میں کہیں نہیں کہا گیا تھا یہ سب رضاکارانہ اور اختیاری پروگرام ہے۔ مرکزی سرکار کے حکم کے مطابق دلی یونیورسٹی کی طرف سے اپنے تمام کالجوں کو بھی سرکلر جاری کیا گیا اور اس دن پروگرام کرنے کا حکم دیا گیا۔ دین دیال اپادھیائے کالج کے پرنسپل ایس کے گرگ کا کہنا ہے کہ ، اب ہم نے نیا حکم پایا ہے کہ ۲۴ دسمبر کو اساتذہ ہی ایک پروگرام کرلیں۔  غور طلب ہے کہ وزارت کی طرف سے آل انڈیا کونسل آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کو بھی سرکلر جاری کیا گیا تھا ارو ۲۵ دسمبر کو پروگرام کے انعقاد کا حکم دیا گیا تھا۔ آئی آئی ٹی دہلی نے بھی مانا ہے کہ اسے سرکلر موصول ہوا ہے۔

سرکار نے پارلیمنٹ میں جھوٹ کیوں بولا؟

    باوجود اسے کے تمام مرکزی سرکار کے تعلیمی ادارے کہہ رہے ہیں کہ انھیں سرکلر ملا ہے اور ان کی کاپیاں پارلیمنٹ میں سی پی آئی ایم کے سیتارام یچوری، ترنمول کانگریس کے ڈیرک اوبرائن اور پروفسیر سوگت رائے نے پیش کردی ہیں تو اس میں شک نہیں کہ مرکزی سرکار پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جھوٹ بول رہی ہے اور اس قسم کے سرکلر سے انکار کررہی ہے۔ وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے راجیہ سبھا اور پارلیمانی امور کے وزیر وینکیا نائیڈو نے لوک سبھا میں اس حکم سے انکار کردیا جو وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کی طرف سے جاری کیا گیا تھا۔ حالانکہ اب سچائی سامنے آچکی ہے اور یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ مرکزی سرکار جھوٹ بول رہی ہے لہٰذ ا یہ بھی پارلیمنٹ کو گمراہ کرنے کا معاملہ بنتا ہے اور اس پر اپوزیشن سرکار کو بخشنے کے موڈ میں نہیں لگتا۔ پہلے ہی بی جے پی نیتائوں کی بیان بازیون کے سبب پارلیمنٹ کے کئی ہفتے برباد ہوچکے ہیں اور انھیں معافیاں مانگنی پڑی ہیں۔ اب اس کے سر یہ بھی ایک نیا معاملہ آگیا ہے جو کسی بھی طرح سرکار کے لئے فخر کی بات نہیں ہے۔

سنگھ پریوار کا اگلا نشانہ کس تہوار پر؟

    اگر بی جے پی اپنے کسی نیتا کا برتھ ڈے منائے تو اس میں کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے مگر جس طرح سے اس نے کرسممس کی چھٹی کے دن کو اس کے لئے استعمال کرنا شروع کیا ہے وہ قابل اعتراض ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اس دن کو چھوٹا کرنا چاہتی ہے کیونکہ یہ تیوہار ہندووں کا نہیں بلکہ عیسائیوں کا ہے اور سنگھ پریوار کا نظریہ رہا ہے کہ ہندوستان صرف ہندووں کا ہے لہٰذا اس کے وسائل پر بھی انھیں کا حق ہے۔ وہ اقلیتوں کو نمبر دو کا شہری مانتا رہا ہے۔ اٹل بہاری واجپائی خود اپنا برتھ ڈے کبھی نہیں مناتے تھے بلکہ وہ ۲۵ دسمب ر کو کرسمس منایا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ کا تذکرہ برمحل ہوگا کہ ایک بار ایڈیٹر ’’نئی دنیا‘‘ شاہد صدیقی کسی پروگرام کے لئے مدعو کرنے کی غرض سے ان کے پاس گئے۔ اٹل جی نے ۲۴ دسمبر کی تاریخ دے دی۔شاہد صدیقی نے یاد دلایا کہ ۲۵ دسمبر کو ان کا برتھ دے ہے، اس پر اٹل بہاری واجپائی بولے نہیں اس سے کچھ غرض نہیں بلکہ اس دن کرسمس ہے۔ میرے برتھ ڈے کا کسے خیال رہتا ہے، میں بھی کرسمس ہی مناتا ہوں۔ غور طلب ہے کہ اٹل بیاری واجپائی نے خود کبھی اہنا جنم دن کبھی نہیں منایا مگر بی جے پی اپنی سیاست چمکانے کے لئے ۲۵دسمبر کو ان کا جنم دن منانے جارہی ہے، بلکہ زیادہ بڑا مقصد اس دن کی اہمیت کو کم کرنا ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس دن کوئی حضرت عیسیٰ کو یاد نہ کرے بلکہ اٹل بہاری کو یاد کرے۔ کہیں بھی حضرت عیسیٰ کا یوم پیدائش نہ منایا جایے بلکہ اٹل جی کا جنم دن منایا جائے۔اٹل جی کی عمر ۹۲ سال ہوچکی ہے اور آج وہ عمر کے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں وہ نہ بول سکتے ہیں، نہ سن سکتے ہیں اور نہ کوئی بات سمجھ سکتے ہیں۔ آج اگر وہ سمجھ پاتے اور بول سکتے تو ۲۵ دسمبر کو وہ اپنا جنم دن منانے کے بجائے کرسمس منانے کا حکم دیتے۔

    ۲۵دسمبر کی چھٹی کو بی جے پی کرسمس کے بجائے اپنے مقصد میں استعمال کرنا چاہتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس کی جس طرح کی پالیسی رہی ہے اور سنگھ پریوار کے جس طرح کے نظریات ہیں انھیں دیکھتے ہوئے ہم یقین کرسکتے ہیں کہ جو کچھ ہوا وہ سب کسی نادانستگی میں نہیں ہوا بلکہ جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔ آج کرسمس کی چھٹی کے ساتھ یہ سب ہورہا ہے اور کل ایس اہی عید الفطر، عید الاضحیٰ اور عید میلادلنبی کی چھٹی کے ساتھ بھی ہوگا۔ اصل میں یہ سب اس ہندو راشٹر کی جھلک ہے جس کا خواب آرایس ایس دیکھتا آیاہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بھارت کی اس تہذیب کو ختم کیا جائے جو کثرت میں وحدت کی مثال ہے۔ وہ یہاں صرف ہندو رسم ورواج کا تہذیب کو دیکھنا چاہاتا ہے۔      

رابطہ
Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 527