donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Agar Subhash Chander Bose Hote To Mulk Ki Taqdeer Kuchh Aur Hoti


اگر سبھاش چند بوس ہوتے تو ملک کی تقدیر کچھ اور ہوتی


کیا اب سامنے آئے گا نیتاجی کی موت کا سچ؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    کیا نیتاجی سبھاش چند بوس سے متعلق سچائی دنیا کے سامنے آئے گی؟ کیا یہ سچ کڑوا بھی ہوسکتا ہے؟ کیا اس سچ کوہضم کرناکانگریس کے  لئے مشکل ہوگا؟ کیا پنڈت جواہر لعل نہرو کو نیتاجی کی واپسی کا اندیشہ تھا اسی لئے ان کے اہل خاندان کی جاسوسی کراتے تھے؟ عوام کو ان تمام سوالوں کے جواب کا انتظار ہے اور مرکزی سرکار نے ان سے جڑی ہوئی سرکاری فائلوں کو عام کرنے کے سلسلے میں غور وفکر شروع کردیا ہے، لہذا انھیں امید بھی ہوچلی ہے کہ عنقریب ان سوالوں کے جواب مل جائینگے جن کی تلاش ۱۹۴۵ء سے ہے۔ نیتاجی اس ملک کے فطری لیڈر تھے اور اگر ملک کی قیادت ان کے ہاتھ میں ہوتی تو ملک کی تقدیر کچھ اور ہوتی۔ مذہب کے نام پر ملک کی تقسیم سے بچاجاسکتا تھا اور دیگر مسائل جن سے آزادی کے بعد قوم کو ہمکنار ہونا پڑا، شاید اس کی نوبت نہ آتی۔یہی سبب ہے کہ ملک کے عوام یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ تائیوان کے ہوائی حادثے میں ان کی موت ہوگئی ہے۔ وہ ہر حلقے اور ہر عمر کے لوگوں میں یکساں طور پر مقبول تھے۔ یہی سبب ہے کہ اکثر اس قسم کی افواہیں اڑتی رہیں کہ نیتاجی فلاں مقام پر دیکھے گئے۔ اجودھیا میں ایک سادھو کو کئی لوگ نیتاجی سمجھتے تھے جس کی شکل ان سے ملتی جلتی تھی۔ان کی موت کے رازپر آج بھی پردہ پڑا ہوا ہے۔ جہاں ایک طبقہ مانتا ہے کہ ہوائی حادثے میں ان کی موت ہوگئی تھی وہیں دوسرا طبقہ سمجھتا ہے کہ انگریزوں کے اشارے پر انھیں قید کرلیا گیا تھا اور ایک مدت تک وہ اسٹالن کی قید میں رہے۔ اب امید بندھ رہی ہے کہ مجاہد آزادی نیتا جی سبھاش چندر بوس کی گمشدگی سے متعلق راز سے جلد مودی حکومت پردہ اٹھا سکتی ہے۔ اس سلسلے میںآفیشیل سیکریٹس ایکٹ کے ریویو کے لئے مرکزی حکومت نے ایک کمیٹی بنائی ہے۔ اس انٹرمنسٹریل کمیٹی کے سربراہ کابینہ سکریٹری ہیں جو کہ نیتا جی کی گمشدگی سے متعلق فائلوں کو عام کرنے کے مطالبہ پر غور کریں گے۔ کمیٹی میں را، آئی بی، ہوم منسٹری کے علاوہ پی ایم او کے افسران بھی شامل ہیں۔ حالانکہ اس کا ایک سیاسی پہلو یہ ہے کہ نریندر مودی نے جہاں کانگریس سے مہاتماگاندھی، بی آرامبیڈکر اور سردار ولبھ  بھائی پٹیل کو چھین لیا ہے وہیں اب وہ نیتاجی کو بھی اپنے پالے میں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سچ کڑوا بھی ہوسکتا ہے

    حکومت کی جانب سے کمیٹی بنائے جانے پر نیتا جی کے خاندان نے خوشی ظاہر کی ہے۔ اس سلسلے میں نیتا جی کے پڑپوتے چندر بوس نے کہاہے کہ ’’مودی حکومت کی جانب سے اتنی جلدی فیصلہ لیا جانا بہت ہی مثبت ہے، ہمیں اس قدرجلدی فیصلے کی امید نہیں تھی۔‘‘برلن میں وزیراعظم مودی سے ملاقات کرنے والے نیتا جی کے پڑپوتے نے کہا کہ ان کا خاندان گمشدگی اور نیتا جی کی زندگی سے جڑی کسی بھی حقیقت کو قبول کرے گا۔ انہوں نے کہا، ہو سکتا ہے کہ فائلوں سے ہونے والے انکشافات میں نیتا جی کی بہتر تصویر نہ سامنے آئے۔ ان کے بارے میں کچھ نگیٹو ہو سکتا ہے۔ سب کچھ امکان ہے، لیکن ہمیں اسے قبول کرنا ہوگا۔ خاندان نیتا جی کے بارے میں کسی بھی انکشافات کو قبول کرنے کو تیار ہے۔. '' ایک دوسرے پڑپوتے سوریہ بوس نے کہا تھا، ’’ میں نے وزیر اعظم نریندرمودی کو کچھ معاملوں کے بارے میں تحریر دی ہے۔ اس میں خاندان کی نہرو کی طرف سے جاسوسی کرائے جانے کی بات بھی شامل ہے۔ ہمارا خاندان چاہتا ہے کہ سچ سامنے آئے۔ میں نے پی ایم مودی کو بتایا کہ بھارت اتنا مضبوط ملک ہے کہ اگر نیتا جی سے منسلک سچ سامنے آتا ہے اور وہ کسی ملک کو منظور نہیں ہوتا ہے تو بھی بھارت کا کچھ نہیں بگڑیگا۔

نیتاجی سے متعلق فائلوں کے راز

    آفیشیل سیکریٹس ایکٹ -1923 جاسوسی مخالف ایکٹ ہے جو کہ برطانوی عہد حکومت سے چلا آ رہا ہے۔ ایکٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ کوئی بھی ایکشن جو ملک کے دشمنوں کو مدد دے، اس ایکٹ کے دائرے میں آتا ہے۔اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئی بھی حکومت کی جانب سے پابندشدہ کاغذات وغیرہ کو نہیں دیکھ سکتا اور نہ ہی دیکھنے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔قابل غور پہلو یہ ہے کہ نیتا جی کے عجیب وغریب  طریقے سے لاپتہ ہونے سے منسلک 160 سیکریٹ فائلوں کو حکومت نے آج تک عوامی نہیں کیا۔ اسی کو لے کر جرمنی کے دورے کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کر نیتا جی کے پرپوتے سوریہ کمار بوس نے فائلوں کو عام کرنے کی کوشش کی تھی۔ ذرائع کے مطابق نیتا جی سے وابستہ 83 فائلیں ہیں جن میں سے 58 فائلیں پی ایم او اور 25 فائلیں وزارت خارجہ کے پاس ہیں۔خبروں کے مطابق برلن میں ہی بوس خاندان کو پی ایم نے مثبت یقین دہانی کرائی تھی. 18 اگست 1945 کو تائیوان میں نیتا جی کو آخری بار دیکھا گیا تھا جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں۔

نیتاجی کی جاسوسی کرائی گئی؟

    خبروں کے مطابق نہرو حکومت نے 20 سالوں تک نیتا جی سبھاش چندر بوس کے خاندان کی جاسوسی کرائی تھی۔خبر کے سامنے آتے ہی بی جے پی کانگریس پر حملہ آور ہو گئی تو کانگریس نے بھی حکومت سے مطالبہ کر دیا کہ وہ سارے دستاویزات عوامی کر دے۔ کانگریس لیڈر دگ وجے سنگھ نے اب یہ دعوی کیا ہے کہ بوس خاندان کی جاسوسی نہیں کرائی گئی تھی بلکہ’’ گمنام بابا‘‘ کی پڑتال کرائی گئی تھی کہ کہیں وہ سبھاش چندر بوس تو نہیں۔دگ وجے سنگھ نے مغربی بنگال کے انٹیلی جینس برانچ کے ڈائریکٹر کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا ہے اور نہرو حکومت پر لگے الزامات کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ بوس کے خاندان کی نیتا جی سے جڑے دستاویزات عام کرنے کے مطالبے کی بھی دگ وجے سنگھ نے حمایت کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ حکومت کو یہ دستاویزات عام کرنے چاہئیں۔دوسری طرف کانگریس لیڈر اجیت جوگی نے کہا کہ اگر نہرو حکومت نے انٹیلی جنس سے بوس خاندان پر نگاہ رکھوائی بھی تھی تو اس میں کچھ غلط نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بوس سے ڈرتے تھے یا ان کا ارادہ غلط تھا۔ الزام اور جوابی الزامات کے دوران مرکزی وزیر داخلہ کرن رججو نے کہا کہ بوس سے جڑے حقائق سامنے آنے پر انہیں عوامی کر دیا جائے گا۔نیتا جی سبھاش چندر بوس کے اہل خانہ کی جاسوسی پر تنازعہ ابھی تھما نہیں کہ ادھر ایک اور خبر آئی ہے کہ کانگریس حکومت نے آئی بی سے شہید اعظم سردار بھگت سنگھ کے گھروالوں کی جاسوسی بھی کروائی تھی۔ بھگت سنگھ کے بھتیجے ابھے سنگھ نے دعوی کیا ہے کہ ان کے خاندان کی بھی کئی سالوں تک نگرانی کی گئی۔انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بھگت سنگھ سے جڑی تمام فائلیں عوامی کی جائیں۔

نیتاجی کون تھے؟

    سبھاش چندرو بوس بھارت کی جنگ آزادی کے رہنما تھے۔انھیں نیتاجی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ان کی پیدائش 23 جنوری 1897کو ہوئی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران، انگریزوں کے خلاف لڑنے کے لیے، انہوں نے جاپان کے تعاون سے آزاد ہند فوج کا قیام کیا تھا۔ان کی طرف سے دیا گیا جے ہند کا نعرہ ہندوستان کا قومی نعرہ بن گیا ہے۔ ــ’’تم مجھے خون دو میں تمہیں آزادی دوں گا‘‘کا نعرہ بھی انھوں نے دیا تھا جو بے حد مقبول ہوا تھا۔کچھ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ جب نیتاجی نے جاپان اور جرمنی سے مدد لینے کی کوشش کی تھی تو برطانوی حکومت نے اپنے خفیہ ایجنٹوں کو 1941 میں انہیں ختم کرنے کا حکم دے دیا تھا۔نھوں نے نے 5 جولائی 1943 کو سنگاپور کے ٹاؤن ہال کے سامنے سپریم کمانڈرکے طور پر فوج سے خطاب کرتے ہوئے "دہلی چلو!" کا نعرہ دیا اور جاپانی فوج کے ساتھ مل کر برطانوی و دولت مشترکہ فوج سے جم کر مورچہ لیا۔21 اکتوبر 1943 کو سبھاش چندبوس نے آزاد ہند فوج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے آزاد ہندوستان کی عارضی حکومت بنائی جسے جرمنی، جاپان، فلپنس، کوریا، چین، اٹلی، اور آئرلینڈ نے منظوری دی تھی۔ جاپان نے انڈمان و نکوبار جزائر اس عارضی حکومت کو دے دیے تھے۔ 1944میں آزاد ہند فوج نے انگریزوں پر دوبارہ حملہ کیا اور کچھ ہندوستانی ریاستوں کو انگریزوں سے آزاد بھی کرا لیا۔

موت پر تنازعہ

    نیتا جی کی موت کو لے کر آج بھی تنازعہ ہے۔جہاں جاپان میں ہر سال 18 اگست کو ان کی برسی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے وہیں بھارت میں رہنے والے ان کے خاندان کے لوگوں کا آج بھی یہ خیال ہے کہ ان کی موت 1945 میں نہیں ہوئی۔ وہ اس کے بعد روس میں نظربند تھے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو حکومت ہند نے ان کی موت سے متعلق دستاویز کواب تک عام کیوں نہیںکیا۔عام رائے ہے کہ ایک ہوائی حادثے میں ان کی موت ہوگئی تھی مگر بہت سے لوگ یہ مانتے ہیں کہ ان کی موت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اندیشہ ہے کہ روس کے حکمراں اسٹالن نے انھیں قید کر رکھا تھا اور ممکن ہے اسی حال میں ان کی موت ہوئی ہو۔

     تمام سوالوں اور قیاس آرائیوں کے بیچ ایک مدت تک اس ملک کے عوام کا ایک بڑا طبقہ مانتا رہا ہے کہ نیتاجی زمیں دوز ہوچکے ہیں اور وہ کسی بھی وقت لوٹ سکتے ہیں۔عام لوگوں کو ان کا انتظار رہا ہے اور ملک کے مسائل کا حل وہ نیتاجی کی صورت میں دیکھتے رہے ہیں اور ان کا انتظار کرتے رہے ہیں۔ حالانکہ آج اگروہ زندہ ہوتے تو ان کی عمرلگ بھگ 118سال ہوتی۔ بہر حال اب ایسا لگتا ہے کہ مرکزی سرکار ان سے متعلق فائلیں عام کرے گی اور بہت سے رازوں پر سے پردہ اٹھے گا مگر اسی کے ساتھ کچھ نئے سوال بھی کھڑے ہوسکتے ہیں۔


رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook


   
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 547