donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Ahanat Rasool Ka Waqaya Aur Musalmano Ka Rawaiya


اہانت رسول کا واقعہ اور مسلمانوں کا رویہ


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی

 

جوجان مانگو تو جان دینگے، جو مال مانگو تو مال دینگے
مگر یہ ہم سے نہ ہوگا ہرگز نبی کا جاہ وجلال دینگے


    ہندومہاسبھا کے کملیش تیواری کی طرف سے اہانت رسول کا واقعہ سامنے آیا تھا جس پر مسلمانوں میں اشتعال تھا، اسی بیچ مغربی اترپردیش سے مزید دو خبریں اسی قسم کی آئیں۔ ہندوستان بھر کے مسلمانوں میں اہانت رسول کے واقعے کے خلاف غم وغصے کی جو لہر ہے فطری ہے۔ مسلمان سب کچھ گوارا کرسکتا ہے مگر اس کے پیغمبر کی شان میں گستاخی کی جائے، اسے وہ کسی صورت میں برداشت نہیں کرسکتا۔ پورے ملک میں احتجاج ومظاہرے کی ایک خاموش سونامی سی چل پڑی ہے اور دلی سے لے کر بہار کے گائوں تک، کشمیر سے لے کر کیرل تک ہر جگہ مسلمان اہانت رسول کے واقعے کے خلاف آوازبلند کر رہے ہیں۔ مسلمان اگر چہ فرقوں، مسلکوں اور گروہوں میں منقسم رہتے ہیں مگر اس واقعے کے بعد فرقہ بند ی کی دیواریں منہدم ہوگئی ہیں اور شیعہ۔سنی، دیوبندی۔بریلوی کی گروہ بندیوں سے آزاد ہوکر ہر طبقے کی جانب سے ملزم کو پھانسی دینے کی مانگ کی جارہی ہے۔ پرامن مظاہرے اپنی جگہ درست ہیں اور گستاخ رسول کملیش تیواری کو آئین ہند کے مطابق سخت سزادینے کا مطالبے بھی بجا، البتہ اس کے سر پر انعام کے اعلان کی بات سے اتفاق نہیں کیاجاسکتا ۔ اس قسم کی باتیں شرپسند عناصر کرتے ہیں یا سیاسی مفاد کے تحت ایسا کہا جاتا ہے۔اس قسم کی باتیں قانون کو ہاتھ میںلینے والی ہیں۔ اترپردیش حکومت کا ملزم کو گرفتارکرنے کا فیصلہ مناسب اور بروقت تھا مگر حالات نارمل ہونے کے بعد اسے چھوڑنا نہیں چاہئے بلکہ آئین ہند کے مطابق اسے سزا ملنی چاہئے۔ ظاہر ہے اس جرم کے لئے قانون میں پھانسی کی سزا نہیں ہے لہٰذا اسے یہ سزا نہیں مل سکتی مگر سخت سزا ضرور مل سکتی ہے۔ اس سے دوسروں کو عبرت حاصل ہوگی۔

 یہ شرارت نہیں تو کیا ہے؟  

    اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کے صبر کا امتحان کیوں لیتی ہیں؟ آخر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی سے انھیں کیا ملتا ہے؟ کیا فرانس میں پیغمبر اسلام کے کارٹون کی اشاعت سے کسی کا کچھ بھلا ہوا؟ کیا اس قسم کی اشتعال انگیزی اور پھر اس پر شدید قسم کا ردعمل کسی مسئلہ کا حل ہوسکتا ہے؟کیا کملیش تیواری جیسے لوگ رسول اللہ کی شان میں گستاخی اور بے ادبی کرکے کچھ حاصل کرسکتے ہیں؟ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے ماضی میں کئی قابل اعتراض بیانات آتے رہے ہیں اور اس قسم کی کتابیں بھی شائع ہوتی رہی ہیں نیز انٹرنیٹ پر بھی اس قسم کا بہت سا مواد موجود ہے اور د ن بہ دن اس ذخیرے میں اضافہ بھی ہورہاہے۔ اس قسم کی چیزیں مسلمانوں کے لئے تکلیف دہ ہوتی ہیں اور اشتعال انگیز بھی۔ علمی اعتراضات کا جواب علمی طریقے سے دیا جاسکتا ہے اور اہل علم کی طرف سے دیا بھی جاتا ہے مگر اشتعال انگیزیوں اور شرارتوں کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔ ان دنوں ایک ایسا ہی تنازعہ اکھل بھارتیہ ہند ومہا سبھا کی طرف سے سامنے آیا ہے، جس کا مقصد شرارت کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا کے ایگزیکٹو قومی صدر کملیش تیواری نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے ایک انتہائی اشتعال انگیز بیان دیا ہے جو ایسا اہانت آمیز ہے کہ الفاظ کو بھی نہیںدہرایا جاسکتا۔اس بیان میں حضرات ابوبکر صدیق وام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کی شان میں بھی گستاخیاں کی گئی ہیں۔اسی کے ساتھ اس نے کہا ہے کہ مساجد اور مدارس کی وجہ سے ہم جنس پرستی کو فروغ مل رہا ہے اور اسے اعظم خان جیسے لوگ تحفظ دیتے ہیں۔اس بیان میں پیغمبراسلام کی شان میں انتہائی رکیک حملہ کیا گیا ہے جسے مسلمان تو کیا کوئی شریف آدمی سننا بھی گوارا نہیں کرے گا۔تعجب اس پر بھی ہے کہ اس گھنونے بیان کو بعض ہندی اخبارات نے لفظ بہ لفظ شائع بھی کردیا ہے۔ اس کے بعد اردو اخبارات میں اس کے خلاف احتجاج ومظاہرے کی خبریں آرہی ہیں۔ حالانکہ اچھی بات یہ رہی کہ قومی میڈیا نے اسے نظر انداز کیا۔ اترپردیش حکومت نے وقت رہتے کملیش تیواری کو گرفتار کرلیا ورنہ امکان تھا کہ ہنگامہ بڑھ جائے اور حکومت کے لئے اسے کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا۔حالانکہ اس وقت بھی مسلمانوں اور غیرمسلم برادران وطن کی طرف سے واقعے کی مذمت کی جارہی ہے اور اسے ملک کے امن وامان کو برباد کرنے کی سازش قرار دیا جارہاہے۔کشمیر سے کیرل تک اشتعال پایا جارہاہے اور اب تک سینکڑوں احتجاجی جلسے اور مظاہرے ہوچکے ہیں۔

دارالعلوم دیوبند کی طرف سے مذمت

    کملیش تیواری طرف سے لکھنؤ میں دیئے گئے بیان کو دارالعلوم دیوبندنے سنجیدگی سے لیا ہے۔ دارالعلوم کے مہتمم نے بیان جاری کر تبصرہ کرنے والے کملیش تیواری کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ مولانا ابوالقاسم نعمانی نے کہا ہے کہ یہ ملک کا ماحول خراب کرنے والا بیان ہے۔ کملیش کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے۔میڈیا کو جاری ایک بیان میں مولانا نعمانی نے کہا کہ دارالعلوم کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن اگر کوئی سیاسی یا غیر سیاسی پارٹی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتی ہے تو اسے کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔ حالانکہ اس کے بعدمدرسہ کے مشتعل طالب علموں اور مقامی مسلمانوں نے دارالعلوم کے علاقے میں مظاہرہ کیا اور جی ٹی روڈ جام کیا گیا۔ مشتعل طلبہ، ہندو مہاسبھا کے ایگزیکٹو چیئرمین کی گرفتاری اور ہندو مہاسبھا کے خلاف سخت کارروائی کی مانگ کر رہے تھے۔

وادی کشمیر میںبوال

    ہندوستان کے مختلف حصوں سے توہین رسالت کے خلاف احتجاج ومظاہرے کی خبریں آرہی ہیں۔ جموں وکشمیر میںتوہین رسالت کے خلاف ایک دن کی ہڑتال کی گئی جس سے کاروبارزندگی متاثر رہا۔اس درمیان جماعت اسلامی کشمیر، فریڈم پارٹی، تحریک صوت اولیا نے ہندو مہا سبھا لیڈر کملیش تیواری کی طرف سے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ حریت (گ) چیئرمین سید علی گیلانی کہا ہے کہ جب سے بھارت میں سنگھی سرکار برسرِ اقتدار آگئی ہے، ہندو انتہا پسند قوتیں حد سے زیادہ دلیر ہوگئی ہیں اور وہ مسلمانوں کی دل آزاری کرنے کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کملیش تیواری کی ہرزہ سرائی سے ہمارے دل مجروح ہوگئے ہیں اور ہم پیغام دیناچاہتے ہیں کہ اس قسم کے واقعات ہمارے لیے ناقابل برداشت ہیں اور ان پر روک نہیں لگائی گئی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ ادھر جماعت اسلامی کشمیرنے کہا ہے کہ مسلمان عملی اعتبار سے کتنے بھی گئے گزرے کیوں نہ ہوں لیکن اپنے پیغمبر کی شان میں کسی طرح کی گستاخی اْن کے لیے ناقابل قبول ہے اور وہ جان دے سکتے ہیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ اس دوران فریڈم پارٹی کے سربراہ شبیر احمد شاہ نے گستاخانہ بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کا اس کے خلاف احتجاج اورردعمل بروقت ہے ۔شبیر شاہ نے گستاخی کرنے والے کو ذہنی مریض قرار دیتے ہوئے اسے لگام دینے کا مطالبہ کیا۔

علماء کی طرف سے مذمت

    دار العلوم ندوۃ العلماء کے استاد حدیث مولانا سید سلمان حسینی نے ایک مذمتی بیان میں کہا کہ کملیش تیواری اور اس جیسے لوگ اس شخصیت پرکیچڑ اچھالنا چاہتے ہیں جس نے انسانوں کو انسانیت کا درس دیا اور پوری دنیا پر اس کے احسانات ہیں ظاہر ہے کہ جو لوگ سورج پر تھوکیں گے تو تھوک خود انہی پر گرے گا۔ مولانا نے کملیش تیواری کو پاگل انسان قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اوراس کی تنظیم پاگلوں کی تنظیم ہے جو ملک کو جلادینا چاہتی ہے۔ مولانا نے کہا کہ گستاخانہ بیانات کا جواب صرف وقتی احتجاج اور مظاہرے نہیں ہیں بلکہ اک مشن اورتحریک کے تحت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو انسانیت کے سامنے پیش کیا جائے ، ان کی دعوت ، فکر اور پیغام کو عام کیا جائے۔جب پیغام ہوجائے گا تو خود لوگ اس بات کا فیصلہ کریں کہ اس طرح کی باتیں کرنے والے ہندوستان کے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے دشمن ہیں۔ معروف عالمِ دین اور ممبرپارلیمنٹ مولانااسرارالحق قاسمی نے کہاکہ ’’ہندوستان جیسے کثیرتہذیبی اور متنوع مذاہب والے ملک میں تیواری جیسے لوگوں کا وجوداوران کے بکواس بیانات یہاں کی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہیں اور مرکزی و ریاستی حکومت کو اس سلسلے میں بہت ہی سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔‘‘

     ظاہر ہے کہ اہانت رسول والے بیانات مسلمانوں کو مشتعل کرنے اور سیاسی فائدے اٹھانے کے لئے دیئے جاتے ہیں۔ ایسا کرنے والے جانتے ہیںکہ گستاخانہ بیانات دینے یا اس موضوع پرکتابیں لکھنے سے مسلمان اشتعال میں آئینگے، احتجاج و مظاہرے کریںگے، میڈیا میں خبریں آئینگی اور وہ راتوں رات شہرت کے آسمان تک پہنچ جائیںگے۔ ایسے میں مسلمانوں کے عقل وشعور کا بھی امتحان ہوتا ہے کہ وہ ایسے عناصر کے مقاصد کو سمجھتے ہیں یا نہیں! سلمان رشدی کو مسلمانوں کے مظاہروں نے ہی شہرت دی۔اس کا کچھ نہ بگڑا، الٹے مظاہروں کے دوران سینکڑوں مسلمانوں کی جانیں گئیںاورآج اسے ساری دنیا میں وی آئی پی ٹریٹ مل رہاہے۔ اس کی کتابیں زیادہ فروخت ہو رہی ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں کا ایکشن پلان دانشمندانہ ہونا چاہئے اور انھیں شرارت پسندوں کا جواب بھی علم وشعور سے دینا چاہئے۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 553