donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Aman Ka Jazeera Jarba : Jahan Musalman Aur Yahudi Bhai Bhai Hain


امن کاجزیرہ، جربہ

جہاں مسلمان اور یہودی بھائی بھائی ہیں

کیا مسلمان اور یہودی ایک بار پھر ماضی کی طرف نہیں لوٹ سکتے؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


(یہودیوں اور مسلمانوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ دونوں قوموں کے لوگ ہزار سال سے زیادہ ایک ساتھ مل جل کر رہ چکے ہیں مگر آج اس جانب کسی کی توجہ نہیں جاتی اور پوری قوم صرف فلسطین واسرائیل کے اختلافات کی طرف دیکھتی ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ الہامی مذاہب کی حامل دوقومیں ایک بار مل جل کر رہنے لگیں؟)

    ’’ہمالیہ اپنی جگہ بدل چکا ہے، بھارت اور پاکستان میں دوستی ہوگئی ہے، سورج مشرق کے بجائے مغرب سے نکلا‘‘اگر اس قسم کی ناممکنات کا کوئی ذکر کرے تو شاید آپ کو اس قدر حیرت نہ ہو جتنی کہ ا س بات سے ہو کہ مسلمان اور یہودی ایک خطے میں محبت اور یکجہتی کے ساتھ رہتے ہیں ،سن کر ہو۔ مسلمانوں اور یہودیوں کے بیچ محبت و بھائی چارہ کی بات عہد حاضر کے ناممکنات میں سے ہے۔ وہ ایک دوسرے کو نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ایک دوسرے کو دشمن گردانتے ہیں۔ مگر اس قسم کے تمام تصورات کو غلط ثابت کرتے ہیں ایک جزیرہ کے بسنے والے جن میں مسلمان اور یہودی دونوں شامل ہیں اور ان کے اندر جس قدر محبت و بھائی چارہ ہے وہ ایک مثال ہے۔ وہ ایک دوسرے کے خوشی و غم میں شریک ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کی تقریبات میں آتے جاتے ہیں۔ ایک ساتھ بزنس کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کی مدد کے لئے بھی آگے آتے ہیں۔ دونوں ملتے ہیں تو انبیاء کرام کے واقعات سنتے اور سناتے ہیں جو ایک ساتھ توریت، انجیل و قرآن میں موجود ہین۔ مسلمان اور یہودی دونوں ہی اپنے اپنے اسکولوں میں بچوں کو پڑھاتے ہیں کہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرو خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ اس خطے میں ان کے اتحاد و یگانگت کی صدیوں پرانی تاریخ ہے اور یہاں جس طرح سے صدیوں پرانی مساجد ہیں اسی طرح قدیم یہودی عبادت گاہیں بھی ہیں جنھیں سینیگاگ کہتے ہیں۔ اس علاقے کے رہنے والوں کے دلوں پر عالمی سیاست نے کوئی اثر نہیں ڈالا ہے اور ایسی سازشوں سے دور وہ محبت کے ماحول میں جی رہے ہیں۔ یہ ہے تیونیسیا کا ایک خوبصورت جزیرہ جربہ(Djerba Island)جونفرت کو جھوٹا ثابت کر رہا ہے اور محبت کی سچائی کو دنیا کے سامنے لارہا ہے۔ دونوں طبقوں کو متحد رکھنے میں جہاں ایک طرف مسلم علماء کا کردار اہم رہا ہے وہین یہودی ربیوں نے بھی اپنے پیروؤں کو مسلمانوں سے محبت کرنا سکھایا ہے۔ تیونیسیا کے باشندوں میں ۹۸ فیصد مسلمان ہیں ۔ یہودی بہت کم تعداد میں ہیں مگر جو ہیں ان کا پچاس فیصد جربہ جزیرے میں ہے، باجود اس کے دونوں کے بیچ کبھی بھی مذہب اختلاف کا سبب نہیں بنتا ہے۔ جہاں اسلامی ٹوپیاں دکھائی دیتی ہیں وہیں یہودیوں کی مخصوص مخملی ٹوپیاں بھی نظر آتی ہیں۔ جہاں دیوار ودر پہ ہلال کا اسلامی نشان دکھائی دیتا ہے ،وہیں دوسری طرف ستارۂ دائودی بھی نظر آتا ہے۔ ہوٹلوں اور دیگر جگہوں پر جس طرح سے اسلامی آرکٹکچر کی جھلک دکھائی دیتی ہے اسی طرح یہودی تہذیب کے نمونے بھی نظر آتے ہیں۔ یہ تمام علامتی نشانات ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں یہودیو ں اور مسلمانوں کے بیچ کس قدر یکسانیت ہے اور یہاں کے تہذیبی نمونوں کی تخلیق میں دونوں کا کس طرح یوگ دان رہا ہے۔

سماجی اتحاد ویکجہتی کی مثالیں

    تیونیسیا وہ خطہ ہے جو اگرچہ جغرافیائی اعتبار سے افریقہ میں واقع ہے مگر یوروپ کے قریب ہے اور دونوں کے بیچ سمندر کی ایک چھوٹی سی کھائی حائل ہے۔ اسپین کو فتح کرنے والے مسلمانوں نے اسی راستے سے یوروپ میں داخلہ پایا تھا۔ یونہی مصر کی فاطمی خلافت کے لئے بھی سب سے پہلے اسی علاقے نے نظریاتی زمین فراہم کی تھی۔اسی کا حصہ ہے جزیرہ جربہ جہاں صدیوں قبل مسلمان آئے تھے اور یہودی اس سے بھی پہلے سے یہاں آباد چلے آرہے ہیں۔ یہاں کے یہودیوں کا کہنا ہے کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام کا تعمیر کردہ عبادت خانہ تباہ ہوا اسی دور میں یہ لوگ اس علاقے میں چلے آئے تھے۔ غور طلب ہے کہ بخت نصر نامی ایک ظالم حملہ آور نے بیت المقدس پر حملہ کرکے اس عبادت گاہ کو برباد کردیا تھا اور ہزاروں یہودیوں کو قتل کیا نیز بہتوں کو غلام بناکر اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ اس وقت بہت سے یہودی مختلف دور دراز علاقوں کی طرف اس کے مظالم سے بچنے کے لئے بھاگ گئے تھے۔


    تیونیسا کی زبان عربی ہے مگر یہاں فرانس کا ایک مدت تک قبضہ رہا جس کے سبب اب فرنچ کا بھی چلن ہے جو اصل فرنچ سے کچھ مختلف ہے۔ حالانکہ یہودیوں میں ہبرو کا رواج بھی ہے۔ حال ہی میں ایک ہندوستانی صحافی کرشن راج آئینگر نے یہاں کا دورہ کیا تو انھیں جزیرہ جربہ میں یہودیوں اور مسلمانوں کے بیچ یکجہتی دیکھ کر حیرت ہوئی۔ان کا کہنا ہے کہ مجھے اس وقت مزید حیرت ہوئی جب ایک عرب مسلمان نے ہمیں ایک یہودی ریسٹورنٹ میں کھانے پر مدعو کیا۔ تھوڑی دیر چل کر وہ جب ایک ریسٹورنٹ میں پہنچے جہاں روایتی قسم کے کمرے بنے ہوئے تھے ۔ایک طرف ستارۂ دائودی بنا ہوا تھا تو دوسری طرف سرخ ہلال کا نشان تھا تو انھیں اس ماحول کو دیکھ کے کم تعجب نہیں ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قسم کی سجاوٹ یہاں بہت عام ہے۔ دکانوں ، مکانوں، ہوٹل اوردیگر مقامات پر ایسی آرائش دکھائی دیتی ہے۔ حارہ کبیرہ کے علاقے میں انھوں نے ایک یہودی کالونی میں دیکھا کہ کثیر یہودیوں کے بیچ تھوڑے سے مسلمان بھی رہتے ہین اور دونوں کے بیچ کسی قسم کے اختلافات نہیں ہیں۔ ایک یہودی ریسٹورنٹ کے شیف یونہ نے کھانا پروستے ہوئے مذکورہ صحافی کو بتایا کہ ہمارے اتحاد ویکجہتی کی ہزار سالہ تاریخ ہے اور اخوت ومحبت ہمارے خون میں شامل ہے۔ ہم نہ جانے کب سے یہاں ایک ساتھ رہتے آئے ہیں ۔ یہاں ہم سب لوگ تیونیسیائی ہیں اور جو محبت و بھائی چارہ آپ دیکھ رہے ہیں اس میں کوئی حیرت و استعجاب کی ضرورت نہیں۔ انھوں نے یہاں یہودیوں اور مسلمانوں کے ایک مشترکہ گروہ کو دیکھا جو حضرت یونس علیہ السلام کے واقعے کو بیان کر رہا تھا۔ غور طلب ہے کہ بنی اسرائیل کے نبی حضرت یونس کو مچھلی نے نگل لیا تھا اور کچھ مدت وہ مچھلی کے پیٹ  میں رہنے کے بعد باہر آئے تھے ۔ اس واقعے کا ذکر یہودیوں کی مذہبی کتاب توریت میں ہے اورقرآن کریم میں بھی اسے بیان کیا گیا ہے۔ حضرت یونس کی نبوت پر یہودی اور مسلمان دونوں ہی ایمان رکھتے ہیں اور احترام کے قائل ہیں۔ اس قسم کی محفلیں یہاں عام ہیں۔ پیڑون کے سائے میں یہودی و مسلمان بزرگ ساتھ بیٹھے نظر آتے ہیں تو ننھے ننھے یہودی ومسلم بچے ایک ساتھ میدانوں میں کھیلتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں۔

دہشت گردی کو ناکام بنایا

    یہاں بھی مسلمانوں اور یہودیوں کے بیچ دیوار کھڑی کرنے کی کوشش ہوئی مگر مقامی لوگوں نے اسے پسند نہیں کیا اور اس کی مخالفت کی۔ جزیرہ جربہ کے حارہ صغیرہ علاقے میں دنیا کا قدیم ترین سینیگاگ ہے۔ یہاں ۲۰۰۲ء میں القاعدہ کی طرف سے ایک سینیگاگ پر حملہ کیا گیا اور یہودیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی مگر مقامی مسلمان ہی اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے جس کے سبب دوبارہ اس قسم کا حملہ نہیں ہوا۔ حکومت کی طرف سے بھی سختی کی گئی اور حفاظتی انتظامات بڑھا دیئے گئے۔ یہ حملہ زائرین کے ایک مرکز کو نشانہ بناکر کیا گیا تھا۔

    حارہ صغیرہ علاقے میں یہودیوں کا ایک سالانہ فیسٹیول بھی ہوتا ہے جس میں یہودیوں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی شریک ہوتے ہیں۔ اس موقع پر کھیل کود، موسیقی ، ناچ گانے اور کھانے پینے کا اچھا انتظام کیا جاتا ہے۔ یہ ایک اچھا موقع ہوتا ہے جب دونوں طبقوں کے لوگ ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ ربی ہیم یہودیوں کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا ہیں اور یہاں انھیں چیف ربی کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ خود بھی یکجہتی اور بھائی چارہ کا ماحول بنانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ یہاں عیسائی بھی ہیں اور ان کا ایک بہت پرانا چرچ بھی ہے اور وہ بھی مسلمانوں و یہودیوں کے ساتھ بھائی چارہ کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ یہاں یکجہتی کو توڑنے کی کوششیں کبھی کامیاب نہ ہوسکیں۔

یہودی۔مسلم اتحاد کی تاریخ

    اسلام نے انسانیت کی بنیاد پر سبھی لوگوں کے ساتھ اچھے برتائو اور حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ اہل کتاب جن میں یہودی بھی شامل ہیںاسلام کی نظر میں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں، اسی لئے اہل کتاب عورتوں سے شادی کی اجازت دی گئی ہے ، ان کا ذبیحہ حلال ہے اور یہودی و مسلمان میں ایک یکسانیت تو یہ ہے کہ دونوں ختنہ کو انبیاء کی سنت مانتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔گو ان کے بیچ کچھ اختلافات ہیں مگر باوجود اس کے دونوں قوموں کے بیچ محبت اور بھائی چارہ کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا بات ہوسکتی ہے کہ اسلام نے ان سے رشتہ داری قائم کرنے کی اجازت دی ہے۔ عرب ملکوں میں کثیر تعداد میں یہودی آباد رہے ہیں اور سینکڑوں برسوں سے وہ مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ جب ہٹلر یہودیوں کے خون کا پیاسہ ہوا اور انھیں مارنا شروع کیا تو انھیں اپنے گھروں اور مسجدوں کے تہہ خانوں میں چھپانے کا کام مسلمانوں نے کیا تھا۔ برسوں ایک دوسرے کے ساتھ رہنے والوں کو لڑانے کی سازشیں مغرب نے کیں اور دو بھائیوں کے بیچ دیوار کھڑی کرنے کا کام انھوں نے اسرائیل قائم کر کے کیا۔ عرب کی زمین پر اسرائیل کا قیام اور ساری دنیا سے انھیں لالاکر بسانے کے پیچھے مغرب کے سیاسی مقاصد تھے جس کی بر آوری اب بھی جاری ہے۔ ددونوں کے بیچ اس قدر نفرت پھیلائی گئی کہ وہ آج ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کے روادار نہیں ہیں ، حالانکہ ان کے بیچ کا رشتہ دوبھائیوں جیسا رشتہ رہا ہے اور دونوں انبیاء کرام پر ایمان رکھنے والی اقوام ہیں۔ نفرت کے اس ماحول میں امید کی کرن کے طور پر دیکھنا چاہئے جزیرہ جربہ کے یہودی ۔ مسلم خوشگوار تعلقات کو، جس سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔  


رابطہ
Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 430