donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Aman Ke Payami Sufiya Ki Dargahon Par Dahshat Gardana Hamle Kiyon


امن کے پیامی صوفیہ کی درگاہوں پر دہشت گردانہ حملے کیوں؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    پاکستان کے صوبہ سندھ کے سہوان قصبے میں واقع لعل شہباز قلندر کی درگاہ کے اندرگزشتہ دنوں ایک خود کش حملہ کیا گیا جس میں خبروں کے مطابق سو سے زیادہ لوگوں کی موت ہو گئی اور ڈھائی سو سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔ صوبہ سندھ کے پولیس آئی جی اے ڈی خواجہ کے مطابق مرنے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ساؤتھ ایشیا ٹیررزم پورٹل کے مطابق 2003 سے لے کر 5 فروری 2017 تک پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں تقریبا 28201 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اس میں سیکورٹی فورسز اور پولیس کے 6674 جوان بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ اسی دوران پاکستان نے 33363 دہشت گردوں کو مار گرانے میں کامیابی بھی پائی ہے۔ عالمی ٹیررزم انڈیکس کی ایک رپورٹ کے مطابق 2015 میں جن پانچ ممالک میں دہشت گردی کا سب سے زیادہ اثر رہا ،ان میں عراق، افغانستان، نائیجیریا کے علاوہ پاکستان اور شام بھی شامل ہیں۔ 2015 میں ہوئی کل دہشت گردی سے منسلک اموات میں سے 72 فیصد انہی پانچ ممالک میں ہوئیں ۔علاوہ ازیں ایک محقق کے مطابق پاکستان میں صوفیہ کی درگاہوں پر حملے عام ہیں جن میں اب تک پینتالیس ہزار سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں۔ یہاں دہشت گردوں کے نشانے پر وہ علماء اور عوام بھی ہوتے ہیں جو صوفیہ یا اہل بیت اطہار سے عقیدت رکھتے ہیں،اسی لئے اہل سنت والجماعت کے علاوہ شیعہ حضرات کے جلسے اور جلوس بھی نشانے پر ہوتے ہیںمگر ہمارا ماننا ہے کہ دہشت گردی کا اپنا کوئی مسلک نہیں ہے لہٰذا کوئی بھی اس کے نشانے پر ہوسکتا ہے۔میڈیا کی خبروں کے مطابق لعل شہباز قلندر کی درگاہ پر حملہ کے لئے آئی ایس آئی ایس ذمہ دار ہے۔ ویسے دہشت گرد تو دہشت گرد ہوتا ہے،اس کی تنظیم کا نام لشکر طیبہ ہو، حزب المجاہدین ہو، لشکر جھنگوی ہو، جیش محمد ہو یا کچھ اور اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ یہاں ایک سوال اہم ہے کہ دہشت گرد ان بزرگوں سے منسلک مقامات کو خاص طور پر نشانہ کیوں بناتے ہیں جو دنیا کو امن وامان کا پیغام دیتے رہے ہیں؟ اس سے پہلے سندھ اور پنجاب میں درگاہوں پر سینکڑوں حملے ہوچکے ہیں۔ کیا انھیں صوفیہ کے پیغام امن سے ڈر لگتا ہے؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک دنیا میں اہل اللہ کی تعلیمات زندہ ہیں تب تک ان کے مقاصد پورے نہیں ہونگے؟ حالانکہ درگاہوں پر دہشت گردانہ حملے صرف پاکستان تک محدود نہیں ہیں بلکہ عراق، شام، افغانستان اور افریقی ملکوں میں بھی ہوئے ہیں۔ اس سے اس بات کا بھی اندازہ لگتا ہے کہ دہشت گردخواہ کسی بھی ملک کے ہوں وہ اللہ والوں کے نظریات کے دشمن ہوتے ہیں۔

بھارت دہشت گردی سے دور کیوں؟

    بھارت ،مسلمانوں کی کثیر آبادی والے ملکوں میں سے ایک ہے۔ سعودی عرب، عراق، ایران، شام، ترکی جیسے ممالک کے مقابلے یہاں مسلمان زیادہ تعداد میں رہتے سہتے ہیں اور الحمدللہ اسلامی شعار کے ساتھ زندہ ہیں۔ یہاں مذہب کے نام پر منافرت اگرچہ عام بات ہے اور مسلمانوں کے ساتھ غیرمساوی سلوک کی شکایتیں بھی مسلمانوں کی طرف سے کی جاتی رہی ہیں اور ایسے ہی حالات دہشت گردی اور علاحدگی پسندی کے فروغ کے لئے ذمہ دار ہوتے ہیں مگر باجود اس کے بھارت کے مسلمان امن پسند واقع ہوئے ہیں۔ یہاں دہشت گردانہ واقعات بہت کم ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان میں سے بیشتر واقعات کے لئے مسلمانوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور انھیں پکڑ کر جیلوں میں ٹھونس دیا گیا مگر عموماً عدالتوں نے انھیں بے قصور قرار دے کر بری کردیا۔ اب تک سینکڑوں مسلمان دہشت گردی کے الزامات سے بری ہوچکے ہیں اور جو اب تک جیلوں میں ہیں اور عدالتی کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں وہ بھی انشاء اللہ جلد ہی رہا کئے جائیں گے کیونکہ جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے۔ جن لوگوں کو جھوٹے الزامات میں پھنسایا جاتا ہے ان کے خلاف ثبوت مہیا کرنا پولس کے لئے آسان نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہاں کے مسلمان اس قدر امن پسند کیوں ہیں؟ ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں مگر اس کے خلاف وہ پرامن طور پر جدو جہد کرتے ہیں۔مسلم کش فسادات کرائے جاتے ہیں مگر مسلمان ٹوٹنے کو تیار نہیں ہوتے ۔ ان کی مسجد توڑ دی جاتی ہے اور اسے بت خانے میں تبدیل کردیا جاتا ہے مگر اس کے خلاف بھی مسلمان صرف عدالتی لڑائی پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ بھارت کے مسلمانوں پر آزادی کے بعد سے جس قدر مظالم ڈھائے گئے اگر کسی اور قوم پر ڈھائے جاتے تو اس کے نوجوان دہشت گردی پر اتر چکے ہوتے اور تخریب کے راستے پر چل رہے ہوتے مگر بھارت کے مسلمانوں نے کبھی بھی ایسا راستہ نہیں اپنایا۔ دینی مدرسوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ بنیادپرستی اور شدت پسندی کو بڑھاتے ہیں مگر آج تک کبھی نہیں دیکھا گیا کہ مدرسوں کے طلبہ نے ٹرینیں روکیں، سڑکیں جام کیں، ٹرافک میں رکاوٹ پیدا کی اور پبلک ٹرانسپورٹ میں توڑ پھوڑ کی ہو، جب کہ قومی دھارے میں شامل کالجوں، یونیورسٹیوں کے طلبہ کے تعلق سے اس قسم کی خبریں اکثر میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔ آج دنیا کو حیرت ہے کہ ہندوستانی مسلمان کس مٹی کے بنے ہیں کہ وہ تشدد پر آمادہ نہیں ہوتے، تخریب کاری سے دور رہتے ہیں اور دہشت گردی انھیں چھو کر نہیں گزرتی ہے۔اصل میں اس کی بنیادی وجہ یہ محسوس ہوتی ہے کہ یہاں اسلام کی اشاعت میں صوفیہ کرام کا خون جگر شامل رہاہے جنھوں نے پیار، محبت، امن ویکجہتی کی تعلیم دی ہے اور انسانیت کا احترام انھیں سکھایا ہے۔پاکستان بھی ہندوستان کا ہی ایک حصہ رہا ہے مگر یہاں دہشت گردی کا فروغ ہوا جس کے لئے یہاں کے مخصوص حالات ذمہ دار رہے ہیں۔

 صوفیہ محبت کے علمبردار تھے

    دنیا میں جب تک صوفیہ کا پیام امن ہے تب تک یہاں دہشت گردی کا غلبہ نہیں ہوسکتا یہی سبب ہے کہ دہشت گردوں کا نشانہ اکثر درگاہیں ہوتی ہیں۔ صوفیہ کے نظریات کو تصوف کہتے ہیں اور یہ محبت کا پیغام ہے۔ یہ محبت کو کائنات کی روح مانتا ہے ۔ تصوف کی نظر میںیہ دنیا محبت کی جگہ ہے نہ کہ نفرت کی۔ نفرت کی کوکھ سے تخریب جنم لیتی ہے جبکہ محبت تعمیر کی جنم داتا ہے۔ اس دنیا کو محبت کے لئے پیدا کیا گیا ہے ، نفرت کے لئے نہیں۔ انسان بھی یہاں تعمیر کے لئے آیا ہے تخریب کے لئے نہیں۔
معروف صوفی حضرت بابافریدالدین گنج شکر کے ملفوظات میں ہے کہ رسولِ محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

    ’’ ایمان والے کا دل ،اللہ کا عرش ہے،،  (راحت القلوب

ملفوظاتِ فریدا لدین گنج شکر) مجلس 5)
    سلسلہ چشتیہ کے مورث اعلیٰ حضرت ممشاد دینوری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
    ’’ایمان والے کے دل میں اللہ کی جگہ ہے کہ وہ دل کے سوا باطن میں کہیں نہیں پہنچتا۔‘‘

(نفحات الانس، صفحہ257)
    جو مقام عرش ِ الٰہی ہو وہاں نفرت کیسے سما سکتی ہے؟ یہی سبب ہے کہ جہاں محبت ہوتی ہے وہاں نفرت کو جگہ نہیں ملتی ۔ اس دنیا میں اگر محبت کو عام کردیا جائے تو نفرت خود بہ خود ختم ہو جائیگی۔ بھارت میں مسلمانوں نے محبت کے ساتھ رہنے کا سبق صوفیہ سے سیکھا ہے اور ہم غیر اختیاری طور پر آج بھی کہیں نہ کہیں صوفیہ اور اللہ والوں کے اثر میں جی رہے ہیں۔  


شاہ ہمدان کی تعلیمات دہشت گردی کی مخالف

    بھارت صوفیوں اور اللہ والوں کا ملک ہے اور یہاں ایک سے بڑھ کر ایک بزرگ آئے۔ انھیں برزگوں سے ہم تک اسلام پہنچا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بھارت کے مسلمان کہیں باہر سے نہیں آئے تھے بلکہ یہیں کے ہندووں اور بدھسٹوں نے صوفیہ کے اخلاق وکردار اور تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام کے دامن میں پناہ لیا تھا۔ مسلمانوں کے اندر موجود کئی سماجی علامتیں بھی ظاہر کرتی ہیں کہ ان کے آباء واجداد نے ہندودھرم کو چھوڑ کر اسلام قبول کیا تھا۔ کشمیر میں اسلامی انقلاب جن بزرگوں کے سبب آیا ان میں ایک نمایاں نام حضرت سید علی ہمدانی کا ہے۔ عہد تغلق تک یہاں مسلمان بہت کم تھے مگر جب ان اللہ والوں کے قدم پڑے تو اسلام کی بادبہاری چلی۔ 

    حضرت شاہ ہمدان سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’ذخیرۃ الملوک ‘میں حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہیں:

    ’’اللہ پاک کے نزدیک وہ دل بہت ہی پیارا ہے جواپنے بھائیوں پر زیادہ نرم اور مشفق ہے۔‘‘

(صفحہ157)
    ظاہر ہے کہ یہی وہ محبت اور احترام انسانیت کی تعلیمات ہیں جو اختیاری یا غیراختیاری طور پر ہمارے ایمان کے ڈی این اے میں شامل ہوگئی ہیں اور ہمیں تخریب کاری سے دور رکھتی ہیں۔
انسان محبت کے لئے پیدا ہوا

    انسان کو اللہ نے دنیا میں محبت کے لئے بھیجا ہے۔اس کے علاوہ دوسری مخلوقات کو محبت سے وہ نسبت نہیں،کیونکہ اللہ نے انھیں محبت کے احساس سے عاری رکھا ہے۔ حضرت مخدوم شرف الدین یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

    ’’جانو ،کہ دوسری مخلوقات کو محبت سے کوئی لگائو نہیںہے،کیونکہ ان کی ہمتیں بلند نہیںہیں۔فرشتوں کا کام جو سیدھے طریقے سے چل رہاہے وہ اس لئے کہ ان تک محبت کا گزر نہیں ہوا ہے اور یہ اونچ نیچ جو انسان کے ساتھ پیش آیا کرتی ہے،اس لئے ہے کہ اس کو محبت سے سروکار ہے۔‘‘

    ’’جب حضرت آدم کی باری آئی تو جہان میں ایک ہلچل مچ گئی۔ فرشتوں نے فریاد کی۔ یہ کیسا حادثہ ہوا کہ ہماری ہزاروں برس کی تسبیح وتہلیل برباد ہوگئی اور ایک مٹی کے پتلے یعنی آدم کو سرفراز کیا اور ہمارے رہتے ہوئے ان کو چنا۔ ایک آواز آئی کہ تم مٹی کو نہ دیکھو اس پاک امانت کو دیکھو یحبہم ویحبونہٗ(اللہ ان سے محبت رکھتا ہے اور وہ اللہ سے محبت رکھتے ہیں )اور محبت کی آگ ان کے دلوں میں سلگائی ہے۔‘‘  

(مکتوباتِ صدی،مکتوب46)

    صوفیہ کی اس قسم کی تعلیمات اگرچہ آج کتابوں کی زینت بن کر رہ گئی ہیں اور انھیں ہم باہر نکالنے کی کوشش نہیں کرتے مگر سماجی طور پر ہم کہیں نہ کہیں اس کے اثر میں آتے ہیں۔ ورنہ آج ہمارا ملک بھی ویسے ہی تباہ ہورہا ہوتا جس طرح عراق، شام اور کچھ دوسرے ممالک دہشت گردی سے برباد ہورہے ہیں۔

نظام الدین اولیاء کا عقیدت مند دہشت گرد نہیں ہوسکتا
    حضرت نظام الدین اولیاء کے ملفوظات ’فوائدالفواد،، مرتبہ امیرحسن سنجری میں ایک مجلس کا ذکرہے:

    ’’حاضرین میں سے ایک نے عرض کیا کہ بعض آدمیوں نے جناب کو ہر موقع پر برا کہا وہ آپکی شان میں ایسی باتیں کہتے ہیں جن کے سننے کی ہم تاب نہیں لا سکتے ۔خواجہ صاحب نے فرمایا کہ میں نے سب کو معاف کیا تم بھی معاف کردواور کسی سے دشمنی نہ کرو ۔ بعد ازاں فرمایا کہ چھجو ،ساکن اندیپ ہمیشہ مجھے برا بھلا کہاکرتا اور میری برائی کے درپے رہتا۔ برا کہنا سہل ہے لیکن برا چاہنا اس سے برا ہے۔ الغرض جب وہ مرگیا تومیں تیسرے روز اسکی قبر پر گیا اور دعاء کی کہ پروردگار!جس نے میرے حق میں برا بھلا کہا ،میں اس سے درگزرا ،تو میری وجہ سے اسے عذاب نہ کرنا۔ا س بارے میں فرمایا کہ اگر دو شخصوں کے مابین رنجش ہو تو دور کردینی چاہیے۔اگر ایک شخص دور کر دیگا تو دوسرے کی طرف سے کم تکلیف ہوگی۔ ،،

(جلد3،مجلس ۔5)  

    حضرت نظام االدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ بھارت کے ایک معروف بزرگ ہیں جنھوں نے اپنی تعلیمات عام کرنے اور لوگوں کو انسانیت کا درس دینے کے لئے اپنے خلفاء کو ملک کے کونے کونے میں بھیجا تھا۔ ان کی خانقاہ کے دروازے امیر وغریب،شاہ وگدا، مومن وکافر سب کے لئے کھلے رہتے تھے اور روزانہ ہزاروں افراد ان کی خانقاہ کے لنگر میں کھانا کھاتے تھے۔ جو لوگ یہاں آنے سے قاصر تھے انھیں اناج بھیج دیا جاتا تھا اور خانقاہ سے مدد پانے والے صرف دلی میں ہی نہیں تھے بلکہ پورے ملک میں پھیلے ہوئے تھے۔ جس کا رہنما اس قدر ،دانی اور انسانیت نواز ہو، اس کے اندر نفرت، تخریب کاری، دہشت گردی جیسی غیراخلاقی باتیں کیسے آسکتی تھیں؟ یہ پیغام پورے ملک میں عام ہوا اور اسی کے اثرات ہیں کہ ہم ان برائیوں سے دور ہیں۔ اسلام کا اصل پیغام وہی ہے جو صوفیوں کے ذریعے عام ہوا۔ آج جس قسم کی شدت پسندی اور غیرمعتدل راستے پر چلنے کی تلقین کی جارہی ہے وہ قطعی طور پر اسلام نہیں ہے۔ حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ بعض جاہل اور مفاد پرست لوگوں نے صوفیہ کی اصل تعلیمات کو پس پشت ڈال کر مزارات کا اپنے معاشی استحکام کے لئے استعمال شروع کردیا جس سے یہ بھرم پیدا ہونے لگا ہے کہ صوفیہ کی اصل تعلیمات کیا ہیں؟آج ایک بار پھر اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم دہشت گردی اور انسانیت کشی سے بھری ہوئی دنیا کے سامنے صوفیہ کی اصل تعلیمات لائیں اور اس کی اہمیت کا احساس دلائیں۔

پوتھی پڑھ پڑھ جگ موا ، پنڈت بھیا نہ کوئے
 ڈھائی آکھر پریم کے ،پڑھے سو پنڈت ہوئے    
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1075