donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Ayodhia Ki Aag Me Subramanium Swami Ka Tail


اجودھیا کی آگ میں سبرامنیم سوامی کا تیل


کیا اترپردیش کو آگ لگانا چاہتی ہیں فرقہ پرست قوتیں؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


     سابق خارجہ سکریٹری سلمان حیدر کے سمدھی سبرامنیم سوامی ان دنوں اپنے مسلم مخالف بیانات کے لئے بھی مشہور ہوچکے ہیں۔ ’’ایودھیا تو جھانکی ہے، کاشی ،متھرا باقی ہے۔‘‘ 90 کی دہائی میں لگے اس نعرے کو اب بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی نے نیا سُر دیا ہے۔سبرامنیم سوامی نے کہا، "40ہزارمندروں کو انہوں نے زبردستی توڑا تھا۔ ہم لوگ اس حملے کو بھولنے کے لئے تیار ہیں لیکن تین مندر ہمارے لئے بہت اہم ہیں۔ پہلا متھرا میں کرشن مندر،دوسرا اجودھیا میں رام جنم بھومی مندر اورتیسرا کاشی وشوناتھ مندر۔ ہم اس کے بدلے باقی تمام مندروں کی مانگ چھوڑ دیںگے، مسلمان ہمیں یہ مندر دے دیں۔ اب سوامی اپنی طرف سے صرف ایودھیا متھرااور کاشی کی مسجدوںکو مسلم کمیونٹی سے مانگ کر ایک طرح سے ان پر احسان جتا رہے ہیں۔حالانکہ سوامی کی بات سے تاریخ دانوں کو اتفاق نہیں ہے۔ تاریخ دا ں مکھن لال کا کہنا ہے کہ اس کے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ مندر مسجد توڑے جاتے تھے پھر بنا دیے جاتے تھے۔ اس لئے یہ کہنا کہ 40000 مندرتوڑے گئے تھے درست نہیں ہو گا۔دوسری طرف سبرامنیم سوامی ملک میں ایک اور مہابھارت کی دھمکی دے رہے ہیں۔دہلی میں واقع وشو ہندو پریشد کے آفس میں سوامی نے کہا کہ دسمبر 2016 سے رام مندر کی تعمیر شروع ہو جائے گی۔ غور طلب ہے کہ اس تاریخ کے صرف دو مہینے بعد ہی اترپردیش کے اسمبلی انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔  سوامی کے بیان کے بعد بابری ایکشن کمیٹی کے کنوینر ظفریاب جیلانی کا کہنا ہے کہ جب جب انتخابات آتے ہیں، یہ لوگ رام مندر کا معاملہ اچھالتے ہیں۔ یہ سب صرف ایک قوم کو بھڑکانے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ بابری مسجد معاملے میں فریق ہاشم انصاری کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ ساری باتیں صرف انتخابات کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ اب یہ لوگ صرف ڈراما کر رہے ہیں۔جب کہ بی جے پی رہنما اور فائر برانڈ لیڈر ساکشی مہاراج کا کہنا ہے کہ  جب ہم 2019 کے عام انتخابات میں جائیں گے، تب تک رام مندر بن چکا ہو گا۔اس سے پہلے آرایس ایس چیف موہن بھاگوت بھی رام مندر ایشو پر بیان دے چکے ہیں۔سوال یہ ہے کہ آخر رام مندر کی پرانی بحث ایک بار پھر تازہ کیوں ہورہی ہے؟سنگھ پریوار ایک بار پھررام مندر ایشو کو ہوا کیوں دے رہاہے؟ مودی سرکار کے منتریوں نے رام مندر پر بیان بازی کیوں شروع کردی ہے؟ اجودھیا کے کارسیوک پورم میں پتھروں کے تراشنے کا کام اچانک تیز کیوں ہوگیا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمے کے باوجود بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کا کام شروع کیا جاسکے؟ کیا یہ سب کسی خاص حکمت عملی کے تحت کیا جارہاہے ؟ پورے شمالی ہندوستان کو فرقہ پرستی کی آگ میں جلانے کا کوئی پلان تو نہیں ہے؟ان سوالوں کے بیچ ایک دوسری خبر یہ آرہی ہے کہ سنگھ پریوار پسماندہ برادریوں کو قریب لانے کے لئے ’’ہندو ہم آہنگی مہم‘‘ چلارہاہے جس کی ابتدا اسی جنوری کے مہینے میں کی گئی ہے۔ مہم کا مقصد یہ ہے کہ انتہائی پسماندہ ، دلت اور قبائلیوں میں اپنی پیٹھ بنائی جائے۔ ان دونوں خبروں کا ظاہری طور پر باہمی ربط نہیں لگتا مگر حقیقت میں زبردست ربط ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بہار انتخابات میں موہن بھاگوت نے ریزرویشن پالیسی پر نظرثانی کا بیان دیا تھا جس کے سبب پسماندہ طبقات کے ووٹر، بی جے پی کے خلاف چلے گئے تھے ،ایسے میں اب کوشش ہے کہ اس طبقے کو اپنے قریب لایاجائے۔ اسی کے ساتھ یہ بتادینا بھی مناسب ہوگا کہ اترپردیش میں پسماندہ طبقات میں سے یادو، ملائم سنگھ یادو کے ساتھ ہیں اور جاٹو، مایاوتی کے ساتھ ہیں مگر دوسری برادریوں کو بی جے پی کے قریب لایا جاسکتا ہے اور اسی مقصد سے ایک طرف’’ ہندوہم آہنگی مہم‘‘ چلائی جارہی ہے تو دوسری طرف رام مندر کا ایشو اٹھایا جارہاہے۔ ماضی میں بی جے پی اترپردیش میں اسی وقت اقتدار میں آئی ہے، جب اسے پسماندہ برادریوں کا ساتھ ملا ہے۔رام مندر ایک ایسا یشو ہے جسے بہانہ بناکر پسماندوں، دلتوں اور کم خواندہ لوگوں کو آسانی سے ورغلایا جاسکتا ہے ۔یہ طبقہ پچاس فیصد سے زیادہ ہے اور اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کو اب صرف ایک سال باقی ہیں۔ اسی کے پیش نظر رام مندر کی بات کی جارہی ہے اور پسماندوں کو قریب لانے کی کوشش بھی ہورہی ہے۔   

رام مندر کی یاد آئی

    رام مندر اب پرانامعاملہ ہوچکا ہے اور ہندووں کی اکثریت بھی سمجھ چکی ہے کہ بی جے پی ان کے جذبات کا استحصال کرنے کے لئے یہ معاملہ اٹھاتی ہے مگر اقتدار میں آنے کے بعد وہ بھول جاتی ہے باجود وہ اس کا رس نچوڑنے کی کوشش میں ہے۔ مودی حکومت میں وزیر مہیش شرما نے کہا ہے کہ رام مندر جلد سے جلد تعمیرہونا چاہئے۔ ہماری پارٹی اور حکومت یہ بات کہہ چکی ہے۔ شرما نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے حکم کی پیروی کریں گے یا کسی طرح کی رضامندی کے ذریعے رام مندر بنانے کی کوشش کریں گے۔ایودھیا کے اندر ایک خوبصورت رامائن میوزیم بن رہا ہے جس کے لئے حکومت نے 170 کروڑ روپے کی منصوبہ بندی کا اعلان کیا ہے۔ متنازعہ بیانات کے لئے مشہوروزیر ثقافت شرما نے کہا کہ رام مندر اس ملک کے عوام کا خواب ہے اور ہر شخص چاہتا ہے کہ یہ جلد سے جلد بنے۔تاہم معاملہ سپریم کورٹ میں ہونے کی بات پر انہوں نے کہا، ہم سپریم کورٹ کے حکم کی پیروی کریں گے یا کسی طرح کی رضامندی کے ذریعے رام مندر بنانے کی کوشش کریں گے۔اسی وجہ سے اس میں ابھی وقت لگ رہا ہے۔بتا دیں کہ گزشتہ ایک ماہ کے اندر مرکز کے کسی وزیر کی طرف سے دوسری بار ایسا بیان آیا ہے۔اس سے قبل مرکزی وزیر وینکیا نائیڈو نے 24 دسمبر کو بیان دیا تھاکہ تمام دیشواسی ایودھیا میں رام مندر چاہتے ہیں۔پارلیمانی امور کے وزیر وینکیا نائیڈو یہ کہتے ہوئے مسئلے کو ہوا دے چکے ہیں کہ تمام دیشواسی رام مندر چاہتے ہیں۔ نائیڈو نے سرمائی اجلاس کو لے کر میڈیا سے بات چیت کے دوران یہ بات کہی تھی۔مرکزی وزیر وینکیا نائیڈو کا بیان ایسے وقت پر آیا تھاجب ایودھیا میں وی ایچ پی کی جانب سے مندر کی تعمیر کے لئے پتھر لانے کی بات کہی جا رہی تھی۔ اسے لے کر پارلیمنٹ میں کافی ہنگامہ بھی ہوا۔جب کہ وی ایچ پی کے پروین توگڑیا نے کہا کہ ملک میں آئی ایس آئی ایس کے اثر کو روکنے کے لئے رام مندر بنانا ضروری ہے۔ ادھر آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے پچھلے دنوں کہا تھا کہ ایودھیا میں رام مندر میرے جیتے جی ہی بن جائے گا۔ یہ تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ کب اور کس طرح بنے گا، لیکن امید ہے کہ ہم اسے اپنی آنکھوں دیکھ سکیں گے۔

آرایس ایس کا پلان

     راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نئے سال میںہندوؤں میں ’’ سماجی ہم آہنگی ‘‘کو فروغ دینے کے مقصد سے ایک ملک گیر مہم چلارہا ہے۔ اس کا خاص مقصد دلت، قبائلی اور دیگر پسماندہ طبقے کے ہندوؤں کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہے۔انھیں طبقات پر اتر پردیش میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے بی جے پی کی امیدیں ٹکی ہیں۔اتر پردیش میں سال 2017 میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ اس وقت اس مہم کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ موہن بھاگوت کی طرف سے دیا گیا ریزرویشن پالیسی پر جائزے کی ضرورت کا بیان، اس وقت الٹا ثابت ہوا جب گزشتہ دنوں بہار اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی کراری شکست ہوئی اور اس کی وجہ بھاگوت کی تجاویز کو بتایا گیا۔ آر ایس ایس کے وسط بھارتی صوبوں میں تنظیم کا کام دیکھنے والے ایک نیتا کے مطابق جنوری مہینے کے ابتدائی عشرے میںسماجی ہم آہنگی مہم کا پروگرام شاکھائوں میںچلایا جارہاہے۔اس کے تحت شاکھائوں کے تمام شرکاء کو اس معاملے میں بیدار کیا جارہاہے۔ اس میں شاکھائوں کے تمام شرکاء کو شامل ہونے کے لئے کہا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد شاکھاکے کارکن سنگھ کے سماجی ہم آہنگی کے نظریہ کوپورے معاشرے میں پھیلائیں گے۔جانکاری کے مطابق مکر سنکرانتی (14 جنوری) کے موقع پر آر ایس ایس دوپہر کے کھانے کا بھی اہتمام کرے گا۔ اس میں مختلف خاندانوں کی طرف سے تیار تیل کے پکوان لائے جائیں گے۔ذرائع کے مطابق مختلف ذات، عقیدہ اور زبان کے لوگ ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیںگے۔ اس سے معاشرے میں سماجی ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔سنگھ کی طرف سے 7 فروری کو تمام وسط بھارتی صوبوں میں’’سماجی ہم آہنگی یشتھ‘‘ بھی منعقد کئے جا رہے ہیں جن میں دلتوں سمیت مختلف قوموں کے لوگ شامل ہوں گے۔ آر ایس ایس کے ایک عہدیدار نے کہا کہ اس مہم میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ہمارا مقصد اس کے ذریعے ہندوؤں میں سماجی ہم آہنگی کو بڑھانا ہے جو ہندو معاشرے میں سنگھ دہائیوں سے کرتا آ رہا ہے۔ اس نے بتایا کہ سنگھ کی مرکزی قیادت کی طرف سے لئے گئے فیصلے کے بعد سنگھ ملک بھر میں اپنے 11 علاقوں میں یہ مہم چلانے جا رہا ہے۔ تمام شعبوں کے مختلف صوبے اس کے تحت اپنے پروگرام مقرر کر رہے ہیں۔ دریں اثنا، آر ایس ایس نے ہندو سماجی ہم آہنگی پر سنگھ کے نقطہ نظر کو ظاہر کرنے والی کتاب ’’تمام ہندو بھائی ہیں‘‘ کے عنوان سے ہندی میں جاری کی ہے۔ یہ کتاب سنگھ کے وسط بھارت صوبوں میں نشر کی جا رہی ہے۔

بہار سے عقل آئی

    بہار اسمبلی الیکشن میں پسماندہ برداریوں کی بی جے پی سے دوری نے اسے نقصان پہنچایا تھا۔بہار انتخابات میں بی جے پی کی شکست کے بعد، پارٹی کے ایم پی حکم مدیو نارائن یادو نے سنگھ سربراہ موہن بھاگوت کے ریزرویشن پالیسی کا جائزہ لینے کی ضرورت والے بیان کو ’’غلط وقت‘‘ پر دیا گیا بیان بتایا تھا اور کہا تھا کہ اس سے پسماندہ ذات اور دلت لوگ بی جے پی سے ناراض ہو گئے ۔یادو نے کہا تھا کہ پارٹی کو اس پر تجزیہ کرنا چاہیے کہ بہار کے انتخابات میں کیوں پچھڑی جاتیوں نے مہاگٹھبندھن کے حق میں مضبوطی سے ووٹ دیا۔ سابق مرکزی وزیر یادو نے کہا تھا کہ پارٹی صدر امت شاہ اور وزیر اعظم نریندر مودی کو اس معاملے پر وضاحت دینے کے باوجود بھی کوئی اثر نہیں ہوا اور لوگوں نے اس پر یقین کر لیا کہ آر ایس ایس جو بھی کہتا ہے، حکومت اس پر عمل کرتی ہے۔ بھاگوت جی نے ریزرویشن ختم کرنے کی نہیں بلکہ اس کا جائزہ لینے کی بات کہی تھی لیکن پچھڑوں کا کہنا ہے کہ اس کے جائزہ بھی کیا ضرورت ہے۔

یوپی میں ذات برادری کا تناسب

    اترپردیش میں اونچی ذات کے ووٹروں کی حمایت عام طور پر بی جے پی کو ملتی ہے جن کا تناسب لگ بھگ۱۸فیصد ہے۔ پسماندہ برادریوں کا تناسب۳۹فیصد ہے جن میں یادو۱۲فیصد ہیں جب کہ اوبی سی ۲۵فیصد بتائے جاتے ہیں۔ان میں جاٹو ۱۵فیصد ہیں جو مایاوتی کے ساتھ ہیں اور ان کے الگ ہونے کے امکانات نہیں ہیں مگر دوسری برادریوں کو اپنے ساتھ لانا کی کوشش میں سنگھ پریوار لگا ہوا ہے اور اسی مقصد سے جہاں وہ ایک طرف رام مندر کے ایشو کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش میں ہے وہیں ’’ہندوسماجی ہم آہنگی مہم‘‘ بھی چلا رہاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 536