donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Bharat Kiyon Banta Ja Raha Hai Jism Ki Mandi


بھارت کیوں بنتا جارہا ہے جسم کی منڈی؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    بھارت دنیا کا قدیم تہذیبی ملک ہے جسے اس کے اعلیٰ اخلاقی اقدار کے لئے بھی جانا جاتا ہے۔اس ملک کی روایت رہی ہے کہ گائوں کے کسی ایک شخص کی بیٹی پورے گائوں کی بیٹی ہوتی ہے مگر حالیہ دنوں میں ہمارے سماج میں جو اخلاقی گراوٹ آئی ہے ،وہ باعث تشویش ہے۔یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جس ملک میں خواجہ معین الدین چشتی جیسے صوفیہ نے عوام کے درمیان اعلیٰ اخلاق کے نمونے پیش کئے، جہاں گرونانک جیسے مصلح آئے، جس ملک نے بابائے قوم مہاتماگاندھی کے تیاگ وتجردکو دیکھا ہے، آج وہی ملک، دنیا میں فحاشی، بے حیائی اور بیہودگیوں کے لئے جانا جارہاہے۔ بھارت ان دنوں پوری دنیا میں جسم فروشی کے بازار کے طور پر ابھر رہا ہے اور یہاں دیسی اور ویدیسی جسم فروشوں کا جمگھٹا ہوتا جارہاہے۔ اس بازارمیں مجبور وبے بس اور حالات کی ستائی ہوئی عورتیں تو ہیں ہی، مگر ایسی لڑکیاں بھی ہیں جو عیش وعشرت کی زندگی جینے کے لئے اس دھندے میں آرہی ہیں۔ حالانکہ یہ دھندہ پہلے کلکتہ کے سونا گاچھی اور دلی کے جی بی روڈ تک محدود رہتا تھا مگر اب اس کا دائرہ پھیلتا جارہا ہے اور جدید ٹیکنالوجی نے اسے سرحد سے آزاد کردیا ہے۔ ویسے تو اس پیشے کے تاجر اور گاہک دونوں کو ہی نفرت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، مگر اس کے باوجود یہ دن دونی رات چوگنی تیزی کے ساتھ ترقی کر رہاہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں ہر روز تقریبا دو ہزار لاکھ روپے کا جسم کا دھندہ ہوتا ہے۔ ایک مطالعہ کے مطابق 1997 میں بھارت میں جسم فروش عورتوں کی تعداد تقریبا بیس لاکھ تھی جو، اب بڑھ کر پینتیس چالیس لاکھ ہو چکی ہے۔ نوے فیصد سیکس ورکر پندرہ سے پینتیس سال کی ہیں۔ گزشتہ دنوں دہلی کے جی بی روڈ میں ایک جنسی ریکیٹ کا انکشاف ہوا تو لوگ دنگ رہ گئے۔ دہلی پولیس نے آفاق حسین اور اس کی بیوی سائرہ کو گرفتار کیا۔ ان کے پاس چالیس کمروں والے چھ کوٹھے تھے، جن میں ڈھائی سو لڑکیاں تھیں۔جانچ میں پتہ چلا کہ آفاق کی ہر روز کی کمائی دس لاکھ روپے سے اوپر تھی۔ اس کا پورا گروہ ہے جس میں زیادہ تر لڑکیاں مغربی بنگال، جھارکھنڈ، نیپال، بہار سے لائی گئی تھیں۔ کوٹھوں پر لڑکیوں کو قبضے میں رکھنے کے لئے دبنگ خواتین تعینات تھیں۔سوال ہے کہ اس پیشے میں اترنے والی لڑکیاں کون ہیں؟ ظاہر ہے ان میں بڑی تعداد ان کی ہے جو غربت کی ماری ہیں اور کوئی روزگار وغیرہ نہ ملنے پر بروکرز اور ٹھیکیداروں کی طرف سے کام دلانے کے بہانے راغب کر لائی جاتی ہیں اور پھر اس پیشے میں سپلائی کردی جاتی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر موت کا شکار بھی ہوجاتی ہیں۔کہنے کو اس کے خلاف قوانین موجودہیں، سماجی کارکن اورادارے ہیں، سرکاری عملہ ہے اور پولس ہے، لیکن دہلی جیسی جگہ میں اور پارلیمنٹ سے تھوڑی ہی دوری پر جب اتنا بڑا گروہ چل رہا ہو تو ملک کے دوسرے حصوں میں کیا پوزیشن ہوگی، اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔سماجی تنظیمیں ان خواتین اور لڑکیوں کو اس دلدل سے باہر نکالنے کی مہم میں لگی ہوئی ہیں اور بڑی تعداد میں جسم فروشی میں ملوث  بچیوں ،لڑکیوںاور عورتوں کو آزاد بھی کرایا گیا ہے مگر ان کی آبادکاری کا کوئی مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے گھوم پھر کر بات پھر وہیں آ جاتی ہے۔ اس کاروبار کے کئی پہلو ہیں جنھیں ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں۔

جسم فروشی کی سماجی روایت

    سننے میں بھلے ہی یہ عجیب لگے مگر راجستھان کے سرحدی علاقوں میں آج بھی کئی ایسے گروپ ہیں، جہاں جسم فروشی کو خاندانی پیشے کے طور پر اپنایا جاتا ہے۔ بعض برادریاں تو ایسی ہیں جو اس پیشے کو نفرت کی نظر سے نہیں، بلکہ رواج کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ یہاں باپ اور بھائی اپنی بیٹی اور بہن کے لئے گاہک ڈھونٹے ہیں۔ مجبوری میں اپنایا گیا یہ’’ کاروبار‘‘ کب ان کی روزی روٹی کا بنیادی ذریعہ بن گیا، شاید انہیں بھی ٹھیک سے نہیں معلوم ہوگا۔ باڑ میر ضلع کا ایک گاؤں تو آج بھی اس پیشے کے لئے بدنام ہے۔ بھرت پور کے قریب ایک گاؤں ہے، جہاں نوعمری میں ہی لڑکیوں کو اس پیشے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اکثر خاندان کی بڑی بیٹی پر خاندان چلانے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اسی طرح گجرات کے دارالحکومت گاندھی نگر سے تقریبا ڈھائی سو کلومیٹر دورایک گاؤں میں خاندان کے مرد ہی عورتوں کے لئے گاہک تلاش کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہاں بھی اسے مکروہ پیشہ نہیں سمجھا جاتا. ادے پور، باسواڑا، پرتاپ گڑھ، ڈوگرپور وغیرہ علاقوں میں کچھ گروپوں میں ’’ناطہ رواج‘‘ رائج ہے، جس کے مطابق عورت اپنے شوہر کو چھوڑ کر کسی دوسرے مرد کے ساتھ جسمانی تعلقات بنا سکتی ہے۔

بنگلہ دیشی لڑکیوں کا کاروبار

    بھارت میںجہاں بھارتی لڑکیوں کے علاوہ نیپال اور بنگلہ دیش کی لڑکیوں کا کاروبار بڑے پیمانے پر ہوتا ہے، وہیں وسط ایشیا کے روس، قزاقستان، ترکمانستان، تاجکستان اور افغانستان کی گوری چمڑی والی لڑکیاں بھی اس دھندے میں چھائی ہوئی ہیں۔ بس دونوں کے گاہک الگ ہیں اور قیمت میں فرق ہے۔ بنگلہ دیش کی اٹھارہ سالہ تمناخان اپنی آنکھوں میں آنسو بھر کر بتاتی ہے کہ اسے اس کی ماں نے فروخت کردیا تھا۔ البتہ مغربی بنگال کا آکاش اس کی زندگی میں امید کی کرن بن کر آیا۔ آکاش اس سے پہلی بار ایک ’’کسٹمر‘‘ کے طور پر ملا تھا مگر اس کی دردبھری کہانی سن کر اس کی مدد کرنے کا ارادہ کیا۔ وہ ڈھاکہ، تمنا کی ماں سے ملنے گیا اور پھر اس نے تمنا خاں سے شادی کرلیا۔ حالانکہ جن لوگوں نے تمنا کو خریدا تھا انھوں نے اس کی ماں سے پیسے واپس مانگ لئے جس سے ناراض ماں نے آکاش پر بیٹی کے اغوا کا کیس کردیا۔ایسی ہی دردناک کہانی بیس سالہ سیماکی بھی ہے، جسے گانا گانے کے لئے کولکاتا لایا گیا تھا مگر یہاں اسے ڈھائی لاکھ روپئے میں فروخت کردیا گیا اور اس سے سو سے زیادہ لوگوں نے پانچ سال کے اندر ریپ کیا۔وہ اپنے ملک بنگلہ دیش لوٹنا چاہتی ہے مگر لوٹ نہیں سکتی کیونکہ اس کے اوپر غیر قانونی طور پر بارڈر پار کرنے کا کیس چل رہا ہے۔کولکتہ کے شیلٹر ہوم میں گزشتہ کچھ سالوں سے بنگلہ دیش کی کئی لڑکیاں موجود ہیں ان لڑکیوں کو اپنے گھر جانا ہے مگر کئی ایسی قانونی رکاوٹیں ہیں جن کے سبب ان کو گھر جانے میں دقت آ رہی ہے۔ کولکاتا کے سیلٹر ہوم میں پنکی نام کی ایک  ایسی لڑکی ہے،جو گھر جانے کے نام پر رو رہی ہے مگر وہ نہیں جاسکتی کیونکہ اس میں قانونی رکاوٹ ہے۔ اسی طرح سیما بھی یہاں ایک مدت تک جسم فروشی کرنے کے بعد اب شیلٹر ہوم میں ہے۔ ان لڑکیوں کو بنگلہ دیش سے بھارت کام اور پیسے کی لالچ دے کرلاتے ہیں انھیں جسم فروشی کے لئے فروخت کردیا جاتا ہے۔

دلی میں بنگلہ دیشی لڑکیوں کی مجبوریوں کا سودا

    راجدھانی دلی میںجسم فروشی کرتے، آئے دن چھاپوں میں جو لڑکیاں پکڑی جاتی ہیں ان میں بنگلہ دیش، نیپال، میانمار اور سنٹرل ایشا کی ہوتی ہیں۔ پچھلے دنوں چھتر پورعلاقے میں شاکر راعین کے مکان میں پڑوسیوں کی شکایت پر پولس پہنچی تو وہاںکچھ لڑکے اور لڑکیوں کو پکڑا گیا۔ تفتیش پر معلوم ہوا کہ یہاں جسم فروشی کا سلسلہ چل رہا تھا اور بنگلہ دیشی لڑکیوں سے یہ کام کرایا جاتا تھا۔ یہاں ملی لڑکیاں ماضی میں بھی اس دھندے میں پکڑی گئی تھیں مگر چھوٹنے کے بعد دوبارہ اسی کام میں لگ گئیں۔ اطلاعات کے مطابق شہر میں بڑے پیمانے پر بنگلہ دیشی لڑکیوں سے جسم فروشی کرایا جارہاہے۔ پکڑے گئے لوگوں سے تفتیش کے بعد یہ جانکاری بھی سامنے آئی کہ سوشل میڈیا کے ذریعے گاہک پکڑے جاتے تھے اور اس کے لئے کئی ویب سائٹس کا سہارا لیا جاتا تھا۔شہر میں نوجوان نسل کو سوشل میڈیا کے ذریعے لڑکیوں کی تصاویر دستیاب کرائی جاتی تھیں۔ تصویر پسند ہو جانے کے بعد لڑکی کو مخصوص جگہ پر بھیج دیا جاتا تھا۔ یہ طریقہ آج کل عام ہے اور اس کے سبب ’’ریڈلائٹ‘‘ ایریا کا دائرہ کسی خاص محلے تک محدود نہیں رہا ہے۔ دلی میں سنٹرل ایشیا کی گوری چٹی لڑکیوں کی مانگ ہے مگر بنگلہ دیش اور نیپال کی لڑکیاں زیادہ اس لئے چلتی ہیں کہ انھیں کم پیسے دینے پڑتے ہیں جب کہ روس، تاجکستان، ترکمانستان اور افغانستان کی لڑکیوں کے لئے چالیس ہزار تک دینے پڑتے ہیں۔

 راجستھان بھی لائی جاتی ہیں بنگلہ دیش کی لڑکیاں

    گزشتہ دنوں راجستھان کے جودھ پور میں بنگلہ دیشی لڑکیوں کا جنسی ریکیٹ پکڑا گیا۔ اس میں شامل لڑکیاں بہت ہی کم عمر کی تھیں۔پولس تفتیش میں کئی باتیں سامنے آئیں۔بنگلہ دیش سے محض 20 کلومیٹر دور واقع مغربی بنگال کا لکشمی پور گائوں،بنگلہ دیشی لڑکیوں کی اسمگلنگ کے لئے بدنام ہے۔یہاں گروہ کے سرغنہ کی سجوئے بشواس کی سلطنت پھیلی ہوئی ہے جو بنگلہ دیش سے معصوم بچیوں کی خریداری کرتاتھا ، پھر سرحد پر تعینات جوانوں کی ملی بھگت سے سرحد پار کرواکر پہلے کولکتہ لاتا ۔ پھر انہیں جسم فروشی کے کاموں میں آگے بڑھانے کے لئے ملک بھر میں بھیجتا ۔اطلاعات کے مطابق اس کے ایک بینک اکاؤنٹ میں گزشتہ 8 ماہ میں 35 لاکھ روپے جمع ہوئے ہیں جو جودھپور ہی نہیں، جے پور، ممبئی، پونے سمیت گجرات کے کئی شہروں سے بھیجے گئے تھے۔ جودھپور کے ڈپٹی کمشنر ایسٹ ونیت کمار نے بتایا کہ اس گروہ کا تمام بڑے شہروں میں چین پھیلا ہے، اسے چلانے والے ماسٹر مائنڈ سجوئے بشواس کو بنگلہ دیش سرحد سے پکڑ اجاچکا ہے۔ اسی کے گروہ کی ایک عورت پکڑی گئی ہے جس کا نام نندنی بتایا گیا ہے حالانکہ اس کاا صلی نام ٹمپا عبدالکریم ہے ،جسے اغوا کے کیس میں پولس نے گرفتار کر رکھا ہے۔

دلی میں ہائی پروفائل جنسی ریکیٹ

    گزشتہ دنوں دلی میں ایک ہائی پروفائل سیکس ریکیٹ سامنے آیا جس میں کئی سیاستدانوں ،فوجی افسروں اور صنعت کاروں کے نام آئے۔معاملے کی تحقیقات اب بھی جاری ہے اوراس ریکیٹ میں ایسے رئیسوں کے ملوث ہونے کا امکان ہے جن کے پاس دولت کی ریل پیل ہے اور جو سیاست میں عمل دخل رکھتے ہیں۔فی الحال پولس نے جن لوگوں کو سیکس ریکیٹ میں گرفتار کیا ہے یا حراست میں لیا ہے ان میں ایک سابق کرنل ہے جس کا نام اجے اہلاوت بتایا جارہاہے اور دوسرا شہر کا ایک بڑا بزنس مین پریتیندرا ناتھ سانیال ہے۔ اس ریکیٹ میں سماج وادی پارٹی کے راجیہ سبھا ممبر نریش اگروال اور بی جے پی کے لوک سبھا ممبر جگدمبیکاپال کے نام میڈیا میں آئے ہیں مگر یہ واضح نہیں ہے کہ اس ریکیٹ میں ان کی شمولیت تھی یا غلط طریقے سے ان کے لیٹرہیڈ کا استعمال کیا گیا ہے۔حالانکہ جگدمبیکا پال نے اس کیس میں ملوث ہونے اور ملزموں کو جاننے سے انکار کیا ہے۔کیس میں بہت سی ہندوستانی اور غیر ملکی لڑکیوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے اور امید ہے کہ آگے بہت سے ایسے راز کھلیں گے جو حیرت انگیز ہونگے۔ اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا جارہاہے کہ چونکہ معاملے میں بڑے بڑے نام آرہے ہیں لہٰذا اسے دبانے کی کوشش ہوسکتی ہے ورنہ اس کی سیاہی بہت سے سفید پوشوں کے دامن تک پہنچ جائے گی ۔ 

    جب انکم ٹیکس حکام نے صفدر جنگ انکلیو واقع سانیال کے گھر کی تلاش لی تو وہاں سے پانچ غیر ملکی لڑکیوں کے پاسپورٹ برآمد ہوئے تھے۔پولیس کو اس گھر میں ایک غیر ملکی لڑکی باتھ روم میں بند ملی، جس نے حالات سے ہار کر اپنے ہاتھ کی نسیں بھی کاٹ لی تھیں۔ بعد میں تحقیقات کے دوران پتہ چلا کہ ان تمام لڑکیوں کو ملزم نے جبرا اپنے پاس رکھا ہوا تھا اور ان سے جنسی ریکیٹ چلاتا تھا۔ اس کے بینک اکاؤنٹس کی جانچ کے بعد حکام نے خدشہ ظاہر کیا کہ وہ امپورٹ ،اکسپورٹ کی آڑ میں غیر ملکی لڑکیوں کا جنسی ریکیٹ چلا رہا تھا۔ذرائع کے مطابق اب تک 13 غیر ملکی لڑکیوں کے بارے میں پتہ چلا ہے ۔ یہ لڑکیاں ازبکستان، روس اور دوسرے وسطی ایشیا کے ممالک کی ہیں۔ اس کے بعدانکم ٹیکس والوں نے ساری دستاویزات اور ایک رپورٹ بنا کر دہلی پولیس کے حوالے کر دی۔ان معلومات اور کافی شواہد کی بنیاد پر پولیس نے سانیال کو گرفتار کر لیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ سانیال کے یوپی میں واقع گھروں پر چھاپے کے دوران بھی غیر ملکی لڑکیاں ملی ہیں۔ دہلی پولیس کو ملزم سے پوچھ گچھ کے دوران پتہ چلا کہ غیر ملکی لڑکیوں سے جسم فروشی کروانے کے دھندے میں ایک ریٹائرڈ کرنل بھی اس کا ساتھی ہے۔ اس کے بعد پولیس نے سابق کرنل کو بھی حراست میں لے لیا۔ اب اس سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ خدشہ ہے کہ ملزمان کے رابطے فوج کے افسروں اور کئی ہائی پروفائل لوگوں سے ہیں، جنہیں غیر ملکی لڑکیاں سپلائی کی جا رہی تھیں۔ پولیس کے مطابق ملزمان سے پوچھ گچھ کے بعد اس معاملے میں اور بھی نام سامنے آ سکتے ہیں۔ سوال یہ بھی اٹھ رہاہے کہ کہیں غیرملکی لڑکیوں کی مدد سے فوج کے افسروں اور وزارت دفاع کی جانکاریاں تو نہیں چرائی جارہی تھیں؟ اسی لئے انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہیں۔ خدشہ یہ بھی ہے کہ سیکس ریکیٹ چلانے والوں نے اب تک اپنے جال میں کئی سیاسی لیڈروں، فوج کے افسروں، بڑے کھلاڑیوں اور سیلبریٹیز کوبھی پھنسایا ہے۔ پولیس ابتدا میں پی این ایس سانیال کو ہی غیر ملکی لڑکیوں کے جنسی ریکیٹ کا ماسٹر مائنڈ مان رہی تھی، لیکن جب سانیال سے پوچھ گچھ کے بعد ریٹائرڈ کرنل اجے اہلاوت کے بارے میں معلومات ملی تو پولیس کے ہوش اڑ گئے۔ سابق کرنل اہلاوت کے کئی بڑے لوگوں سے انتہائی قریبی رابطے ہیں۔ اس کے خلاف ٹھگی کی کئی شکایتیں بھی درج ہیں۔ اہلاوت ہنی مون پیکیج دینے والی کمپنی بھی چلاتا تھا، جس کی ذمہ داری ایک غیر ملکی عورت سنبھالے ہوئے ہے۔ اس کا بجواسن میں’’رسالہ ‘‘ کے نام سے فارم ہاؤس بھی ہے۔ یہاں پولو اور گولف کلب بنانے کے بعد اس نے مشہور لوگوں کی لائن لگا دی۔ اہلاوت کا نام جب سے جنسی ریکیٹ میں آیا ہے تب سے اس معاملے میں پولیس کی الجھنیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ یہ معاملہ صرف ہائی پروفائل نہیں بلکہ حساس بھی ہے۔ کئی ایسے لوگ جن کا نام تو نہیں بتایا جا سکتا، لیکن اتنا کہا جا سکتا ہے کہ وہ انتہائی مشہور ہیں، اہلاوت کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔ دہلی پولیس کے مطابق، سابق کرنل اہلاوت نے ایک روسی خاتون کو پی این سانیال کے پاس بھیجا تھا۔ روسی خاتون سانیال کے ہی گھر میں رہتی تھی۔ اس خاتون نے پولیس کو بتایا کہ وہ سانیال کے گھر پر محفوظ محسوس نہیں کرتی تھی۔

انٹرنیٹ کی مدد سے جسم کا کاروبار

     جس طرح آج کل دنیا کی تمام اشیاء ضرورت آن لائن مل جاتی ہیں اسی طرح جسم کے دھندے نے بھی اپنی جگہ انٹرنیٹ پر بنالی ہے۔ ایک طرف جہاں دنیا ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے ترقی کے نت نئے راستے تلاش کرنے میں لگی ہوئی ہے، وہیں جسم فروشی جیسے گھناؤنے دھندے سے وابستہ لوگ اس کے فوائد کے لئے اس کا جم کر استعمال کر رہے ہیں۔ اپنے گھناؤنے دھندے کو آگے بڑھانے کے لئے یہ لوگ آن لائن پروموشن اور سوشل میڈیا کا بخوبی استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے لئے واٹس ایپ، فیس بک اور ٹویٹر بہت کام کے ثابت ہو رہے ہیں اور دہلی این سی آر سمیت پورے ملک میں اس غیر قانونی دھندے کو نئی ٹیکنالوجی کے سبب پر لگ گئے ہیں۔ پہلے گاہکوں کے تلاش میں دلالوں کو استعمال کیا جاتا تھا مگر اب نئی ٹیکنالوجی ہی دلالی کر رہی ہے۔ ایجنٹس کا دعوی ہے کہ اس کی وجہ سے پبلک پیلیس پر میٹنگ کرنا اور لڑکیوں کا انتخاب کرنا انتہائی آسان ہو گیا ہے۔ اس بدنام دھندے کے ایک ایجنٹ کے مطابق واٹس ایپ پر ہی بھارتی اور غیر ملکی ماڈلس کی تصویروں کو گاہکوں کے لئے دستیاب کرایا جا تا ہے۔ واٹس ایپ پر گاہک کو ضرورت کے حساب سے ہی لڑکیوں کی تصاویر اور پروفائل بھیج دی جاتی ہیں۔ایک ایجنٹ نے لڑکیوں کی قیمتوں کے بارے انکشاف کیا کہ افغانستان، روس، ازبکستان، یورپ اور تھائی لینڈ کی گوری چمڑی والی لڑکیوں کی فیس بھارتی لڑکیوں سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ غیر ملکی لڑکیوں کے لئے کم وقت کے لئے 5 سے 10 ہزار روپے تک کی فیس لگتی ہے جبکہ پوری رات کے لئے 15 سے 20 ہزار روپے دینے ہوتے ہیں۔چھان بین میں پتہ چلا کہ لڑکیوں کی قیمت پروفائل کے حساب سے طے کی جاتی ہے۔ طالبات سے لے کر ایکٹریسیز، ایئرہوسٹیس اور ماڈلس کو دستیاب کرایاجاتا ہے۔ عام طور پر ایک رات کے لئے ان کی فیس دو ہزار سے لے کر 1 لاکھ روپے تک ہو سکتی ہے۔

لڑکوں کا بازار

    دلی میں جہاں کال گرلز کا آن لائن بازار چل رہاہے، وہیں ’’کال بوائز‘‘ بھی اس میدان میں لڑکیوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ انھیں ’’جیگولو‘‘ کہا جاتا ہے اور ان کی ڈیمانڈایلیٹ کلاس کی خواتین میں زبردست ہے۔ یہ لڑکے بھی واٹس ایپ، فیس بک اور دوسرے ایپس کے ذریعے رابطے میں آتے ہیں۔انھیں کلب، کافی ہائوس، ڈسکو اور پب میں بھی بلایا جاتا ہے۔کچھ گھنٹوں کے لئے ان کی فیس 1800 سے 3000 ہزار روپے اور پوری رات کے لئے 8000 روپے تک ہوتی ہے۔ عام طور پر ان کی پہچان گلے میں پڑے ایک پٹے سے ہوتی ہے جو اپنی طوالت کے حساب سے ان کے عضوتناسل کے سائز کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
غائب بچے کہاں جاتے ہیں؟

    بھارت میں جسم فروشی میں جن لڑکیوں کو لگایا جاتا ہے ان میں سے بہت سی ہندوستان کے غریب خاندانوں سے ہوتی ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق ملک میں ہر آٹھویں منٹ میں ایک بچہ لاپتہ ہوتا ہے۔ غائب ہوتے یہ لوگ انسانی تجارت کے شکار بن جاتے ہیں۔ بڑی تعداد میں بچوں کو جسم فروشی کے مکروہ پیشے میں جھونک دیا جاتا ہے۔ چھتیس گڑھ کے  ریسرچرابھیشیک اگروال کا کہنا ہے کہ چھتیس گڑھ، اڑیسہ اور جھارکھنڈ سے روزانہ سینکڑوں لڑکیاں غائب ہو جاتی ہیں اور ان کا کہیں کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا۔2014 کے عالمی سلیو انڈیکس کے مطابق بھارت کو دنیا کا ’’سلیو کیپٹل‘‘ بتایا گیا تھا۔ انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں جدید غلامی جھیل رہے تقریبا ساڑھے تین کروڑ لوگوں میں سے اکیلے بھارت میں ہی تقریبا ڈیڑھ کروڑ لوگ اس کا شکار ہیں۔  

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments


Login

You are Visitor Number : 1121