donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Black Money Ke Khelaf Jung Ya BJP Ki Khudkashi


بلیک منی کے خلاف جنگ یا بی جے پی کی خودکشی؟ 


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    بھارت میں ہزار اور پانچ سو کے نوٹوں کو واپس لینے سے ’’بلیک منی‘‘پر روک لگے گی؟ کیا یہ فیصلہ جلد بازی میں لیا گیا اور عام آدمی کی پریشانی کا خیال نہیں رکھا گیا؟کیا اس فیصلے سے بی جے پی کے لوگ قبل از وقت آگاہ ہوگئے تھے اور انھوں نے اپنی کالی دولت کو پہلے ہی ٹھکانے لگادیا تھا؟ مرکزی حکومت کے اس فیصلے سے بی جے پی کو آئندہ اسمبلی انتخابات میں فائدہ ملے گا یا نقصان ہوگا؟ اس قسم کے کئی سوالات ان دنوں موضوع بحث ہیں۔ اس وقت بڑے نوٹوں کی واپسی کے حکومت کے فیصلے سے پورے ملک میں افراتفری ہے اور عام لوگ بے حد پریشان ہیں ،اسی کے ساتھ ملک کے کاروبار پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔عام لوگ جہاں یہ مان کر چل رہے ہیں کہ اس سے’’ بلیک منی‘‘ اور ’’بلیک کرنسی‘‘ یعنی جعلی نوٹوں پر روک لگے گی اور ملک کی معیشت کو فائدہ ہوگا، وہیںپرانے نوٹ بدلنے کے لئے بینکوں کے سامنے لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر حکومت نے اس فیصلے کے نفاذ سے پہلے اس کی راہ میں آنے والی مشکلات پر بھی غور کیا ہوتا تو عام آدمی کو زیادہ پریشانی نہیں ہوتی۔ چونکہ مودی سرکار نے جلد بازی میں فیصلہ لیا اور عام آدمی کے بارے میں زیادہ غور نہیں کیا لہذا اسے بے حد پریشانی کا سامنا ہے، اور اب ملک کے عام شہریوں کو پریشانی میں ڈال کر وزیراعظم خود غیر ملکی دورے پر نکل پڑے ہیں۔وزیرخزانہ جیٹلی کے مطابق، ملک میں اس وقت جو نوٹ سرکولیٹ ہیں ان میں 80 سے 85 فیصد 500 اور 1000 کے ہیں۔ اتنی بڑی رقم کو بدلنے کے لئے کسی منصوبہ بندی کی ضرورت تھی مگر حکومت کی طرف سے ایسا کچھ نہیں کیا گیا اور عام لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حکومت کو چاہئے تھا کہ چند مہینے قبل سے بازار میں سو اور پچاس کے نوٹ زیادہ سے زیادہ سرکولیٹ کرتی تاکہ جب پانچ سو اور ہزار کے نوٹ بند کئے جاتے تو عام لوگ اپنی روز مرہ کی ضرورتوں کے لئے ان نوٹوں کا استعمال کرسکتے مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ کچھ خصوصی ٹیمیں بنانی چاہئے تھیں جو پورے ملک میں نوٹ بدلنے کا کام کرتے مگر اس نہج پر کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ 

 حکومت کیا چاہتی ہے؟

    جہاں ایک طرف تمام اپوزیشن پارٹیاں حکومت کے فیصلے سے ناراض ہیں وہیںملک کے فنانس منسٹر ارون جیٹلی نے مودی حکومت کی طرف سے 500 اور 1000 روپے کے نوٹ بند کیے جانے کے فیصلے پر کہا ہے کہ جن کے پاس کالا دھن ہے، و ہی پریشان ہیں۔ ایمانداری کی کمائی کرنے والے لوگ حکومت کے اس فیصلے سے بہت خوش ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اس فیصلے کا اثر سیاسی اور انتخابی عمل پر بھی ہوگا۔ پولیٹکل فنڈنگ میں بھی شفافیت آئے گی۔ جیٹلی نے کہا کہ ابھی جو افرا تفری مچی ہوئی ہے وہ تھوڑے وقت کے لئے ہے۔ آنے والے تین سے چار ہفتوں میں نئی کرنسی (500 اور 2000 کے نوٹ) مارکیٹ میں آ جائیں گے۔ انہوں نے فوری طور پر فیصلے کو صحیح قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر بینکوں کو نوٹ بند کرنے کے لئے وقت دیا جاتا تو کالا دھن رکھنے والوں کو پیسے ٹھکانے لگانے کا وقت مل جاتا۔حکومت کے فیصلے کی مخالفت کرنے والوں پر نشانہ لگاتے ہوئے جیٹلی نے کہا کہ کالا دھن کسی کا بنیادی حق نہیں ہے۔لوگوں کو نقد رقم میں زیادہ کام کرنے کی اپنی عادت بدلنی ہوگی۔ پلاسٹک منی اور چیک کا استعمال بڑھانے کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے بھی یہ فیصلہ لیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ایسے بڑے فیصلے اچانک ہی لینے پڑتے ہیں۔یہ فیصلہ ملک کی معیشت کے مفاد میں ہے۔ اس سے کالا دھن اور بدعنوانی سے نجات ملے گی۔ ساتھ ہی بینکنگ نظام میں کیش ڈیپازٹ بڑھنے سے ملک کی معیشت مضبوط ہوگی۔

کیا کالی دولت پر روک لگے گی؟

    ’’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل انڈیا‘‘ کا کہنا ہے کہ 9 نومبر کو وزیر اعظم نریندر مودی کا اعلان ’بلیک کرنسی‘ کے خلاف تھا نہ کہ ’کالے دھن‘ کے خلاف۔’’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل انڈیا‘‘ بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والی تنظیم ہے اور رام ناتھ جھا اس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ رام ناتھ جھا کہتے ہیں کہ ’’بلیک منی‘‘ وہ دولت ہے جس پر حکومت کو ٹیکس نہ دیا گیا ہو یا، پھر غیر قانونی طریقے سے جمع کیا گیا ہو۔ یہ نوٹوں کی شکل میں ہو سکتا ہے، پراپرٹی کی شکل میں ہوسکتا ہے، زیورات کی صورت میں ہو سکتا ہے یا پھر گمنام سودے کی آڑ میں۔اس لئے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل انڈیا کا خیال ہے کہ مودی حکومت نے جو فیصلہ کیا ہے اس کاحملہ صرف مارکیٹ میں موجود نقدی نوٹوں پر ہے۔ رام ناتھ جھا کا کہنا ہے، مودی حکومت کے اس قدم سے مارکیٹ میں موجود جعلی نوٹوں کو دھکا لگے گا، کالے دھن کو شاید نہیں۔ ان کے مطابق حکومت نے ایک طرف’’ کالی کرنسی‘‘ یا نوٹوں کو نشانہ بنایا ہے تو دوسری طرف 2000 روپے کا نوٹ جاری کر کے اسے کافی حد تک روک بھی دیا ہے۔ 2000 کا نوٹ لانے کا فیصلہ حیران کن ہے۔ دس سے پندرہ سالوں کے اندر بازار میں ’’کالی کرنسی‘‘ ایک بار پھر آ جائے گی۔

کالی دولت پرکتنی مخلص ہے سرکار؟

    بھارت میں بڑے نوٹوں پر پابندی سے ان لوگوں پر اثرپڑنا لازمی ہے جن کے پاس بوریوں میں بھر بھر نوٹ رکھے ہوئے ہیں۔اب وہ اتنی بڑی رقم کو بدل نہیں پائینگے۔ اس کا اثر سیاسی لوگوں اور سرکاری افسروںپر بھی پڑے گا جو دونمبری مال رکھنے اور شوت خوری کے لئے بدنام ہیں۔ہم نے دیکھا ہے کہ معمولی چپراسی کے گھر سے بھی اربوں روپئے کی دولت چھاپے میں نکل آتی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے پاس بھی کالی دولت بے حساب ہے جسے اب وہ استعمال نہیں کر پائینگی اور اس کا پہلا اثر اترپردیش میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی پر پڑے گاجنھوں نے آئندہ اسمبلی انتخابات کی پوری تیاری کر رکھی تھی۔ مایاوتی پر تو ٹکٹ کے عوض کروڑوں روپئے لینے کا الزام بہت پرانا ہے۔ البتہ بی جے پی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جس نے اپنی کالی دولت کا پہلے ہی انتظام کرلیا ہے۔ ایک خبر میڈیا میں آرہی ہے کہ بنگال بی جے پی نے گزشتہ 8نومبر کو تین کروڑ روپئے اپنے اکائونٹ میں ڈالے تھے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ حکومت کے اعلان سے ٹھیک پہلے بی جے پی اور سنگھ پریوار نے اپنی ’’کالی دولت‘‘ کا انتظام کرلیا تھا۔یہ بات صرف بنگال کی حد تک نہیں ہوگی بلکہ دوسرے صوبوں میں بھی عمل میں آئی ہوگی۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ وزیراعظم خود بلیک منی کے تعلق سے کتنے سنجیدہ ہیں۔

بی جے پی کو فائدہ یا نقصان؟

    ایک اہم سوال یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے نوٹوں کی تبدیلی کا جو فیصلہ لیا ہے، اس کا بی جے پی کو ووٹ کی شکل میں فائدہ ہوگا یا نقصان؟ اس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بنیا سب سے زیادہ کاروبار پر حاوی ہیں اور سب سے زیادہ دولت انھیں کے پاس ہے۔ چونکہ انھیں روز مرہ کیش کی ضرورت پڑتی ہے لہٰذا وہ سب کچھ بینک میں نہیں رکھ سکتے۔ اس طبقے کا بڑا نقصان ہورہا ہے۔ بنیا روایتی طور پر بی جے پی کے ووٹر ہیں اور وہ نریندر مودی کو اقتدار تک پہنچانے میں پیش پیش تھے۔ انھوں نے بی جے پی کو ووٹ اور نوٹ دونوں دیا تھا،اب وہ حکومت کے فیصلے سے بے حدناراض دکھائی دے رہے ہیں۔ اسی طرح گجراتی سماج ہمیشہ سے کاروباری رہا ہے اور اس کے پاس بھی ایسی دولت کی کمی نہیں جو بینکوں سے باہر ہے اور اس پر مودی حکومت کے فیصلے کی مار پڑ رہی ہے۔ گجرات اسمبلی الیکشن بھی قریب ہی ہے اور یہاں بی جے پی کو بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔ ہمارے ملک میں سب سے زیادہ دولت اونچی ذات کے لوگوں کے پاس ہے اور یہ روایتی طور پر بی جے پی کے ساتھ رہے ہیں مگر اب وہ بھی ناراض دکھائی دے رہے ہیں۔ اس لئے ہم سوچ سکتے ہیں کہ مودی سرکار کا فیصلہ بی جے پی کے لئے ہلاکت خیز ہوسکتا ہے اور آئندہ دوبرسوں میں جن دس ریاستوں میں اسمبلی چنائو ہیں وہاں بی جے پی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پسماندہ برادریوں کے لوگوں کو حکومت کے فیصلے سے زیادہ نقصان نہیں ہوگا مگر وہ بھی جس طرح نوٹ بدلنے کے لئے پریشان ہیں اور گھنٹوں لائن میں کھڑے ہورہے ہیں،اس سے ان کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ جہاں سے بی جے پی کو فائدہ مل سکتا تھا اب وہاں بھی اسے نقصان کا منہ دیکھنا پڑے گا۔  

معیشت کو اصلاحات کی ضرورت ہے

    بھارت میں جس طرح سے نوٹوں کی واپسی کا فیصلہ لیا گیا،ویسا ہی فیصلہ سنگاپور میں دو سال پہلے لیا گیا تھا اور بڑے نوٹوں کو سسٹم سے خارج کر دیا گیا تھا اوریہ قدم کافی کامیاب بھی رہا تھا۔ حکومت ہند نے بھی اسی کی روشنی میں یہ فیصلہ لیا۔اسے امید ہے کہ اس سے جعلی نوٹوں کے ساتھ ساتھ کالی دولت پر بھی لگام لگے گی۔فی الحال ہندوستان میں انکم ٹیکس دینے والوں کی تعداد کل آبادی کا صرف دو فیصد ہے یعنی اتنے بڑے ملک میں محض تین چار کروڑ لوگ ہی انکم ٹیکس دیتے ہیں جب کہ کم از کم تیس فیصد لوگ انکم ٹیکس دے سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے۔ اس وقت ساری دنیا میں معاشی عدم مساوات کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف محض ایک فیصد سے بھی کم لوگ دنیا کی آدھی دولت پر قابض ہیں تو دوسری طرف ایک طبقہ پائی پائی کے لئے محتاج ہے۔ اس لئے عدم مساوات کو دور کرنے کے لئے ہمارے ملک میںیہ بھی طے ہونا چاہئے کہ ایک آدمی کتنی مقررہ رقم رکھ سکتا ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 842