donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Desh Ke Dil Dilli Me Danga


دیش کے دل ،دلی میں دنگا


فرقہ وارانہ فسادات سے کیسے محفوظ رہے گا بھارت؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


     نریندر مودی نے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا اور انتخابی تقریروں میں بھی دہرایاکہ وہ فرقہ وارانہ فسادات پر کنٹرول رکھیں گے مگر انھیں کی پارٹی کے لوگ دنگے کرانے میں لگے ہوئے ہیں۔ دلی کے ترلوک پوری میں فسادات ہوئے اور اس جلتی پر تیل ڈالنے والوں میں بی جے پی کے ایک سابق ایم ایل اے کا نام آیا۔ اس سے پہلے یوپی میں بی جے پی کے ایم پی یوگی آدتیہ ناتھ نے لوجہاد کے نام پر آگ لگانے کی کوشش کی جب کہ میرٹھ علاقے میں ایک لڑکی کو پیسے دے کر کہلوایا گیا کہ وہ لو جہاد کی شکار ہوئی ہے۔

آخر کیا ہے دنگوں کی سیاست؟

      نریندر مودی کا بھارت دنگوں سے پریشان رہے گا؟ کیا یہ وہی حکمرانی ہے جس کا وعدہ انھوں نے کیا تھا؟جب راجدھانی دلی ، دنگوں سے محفوظ نہیں ہے تو ملک کیسے محفوظ رہیگا؟ دلی میں دنگے کیوں کرائے گئے؟ کیا چاہتے تھے فسادی؟ کیا اس کے پیچھے کوئی منظم سازش تھی؟ کیا دلی میں الیکشن کو بھانپ کر فساد کرایا گیا؟کیا فسادیوں کا مقصد تھا کہ فساد کر اکے یہاں کے عوام کو مذہب کے نام پر بانٹا جائے ؟کیا اس کے اثرات قومی سطح پر نہیں پڑینگے؟ کیا اس سے نریندر مودی سرکار کی بدنامی نہیں ہوگی؟ جی ہاں! راجدھانی دلی کے ترلوک پوری علاقے میں عین دیوالی کے دن بھڑکے فرقہ وارانہ فساد نے بہتوں کو چونکا دیا اور لوگوں کو مودی کے اس وعدے پر شبہہ ہونے لگا جو انھوں نے دنگا فری انڈیا کا عوام سے کیا تھا۔ اس وقت دلی میں لیفٹننٹ گورنر کا راج ہے اور پولس ویسے بھی ریاستی سرکار کے ہاتھ میں نہیں رہتی ہے بلکہ مرکزی سرکار کے ماتحت ہے اور اس کے نمائندے کے طور پر گورنر ہی کنڑول کرتے ہیں ایسے میں یہاں فساد سے بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ الزام لگایا جارہا ہے کہ ممکنہ الیکشن کے پیش نظر جان بوجھ کر فساد بھڑکایا گیا اور اس میں پیش پیش تھے بی جے پی کے ایک سابق ایم ایل اے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بی جے پی کے لوگ دلی کے دوسرے مقامات پربھی دنگے بھڑکانا چاہتے ہیں۔ترلوک پوری سے دنگوں کی خبر اس وقت آئی جب ۱۹۸۴ء کے سکھ مخالف دنگوں کو تیس سال پورے ہوئے تھے ۔ اکتوبر کے ہی مہینے میں یہاں اندراگاندھی کا قتل ہوا تھا اور اس کے بعد سکھوں کا قتل عام شروع ہوا تھا۔ سب سے زیادہ سکھوں کو اسی ترلوک پوری میں تشدد کا نشانہ بننا پڑا تھا اور ان کی جائیداد لوٹی گئی تھی۔ تیس سال بعد دنگائیوں نے اسی یاد کو تازہ کردیا اورلوگوں کے تصور میں وہی پرانا منظر تازہ ہوگیا۔ سوال یہ ہے کہ جو کچھ بھی ترلوک پوری میں ہوا وہ کسی سیاسی سازش کے تحت ہوا یا اچانک ہوگیا اور اس کے پیچھے کوئی سوچی سمجھی سازش نہیں تھی؟ ہر کوئی اس دنگے کی اپنے اپنے انداز میں تعبیر کر رہا ہے ۔ غنیمت رہا کہ فساد بڑھنے نہیں پایا اور اسے وقت رہتے کنڑول کرلیا گیا۔ کسی کی موت نہیں ہوئی بلکہ صرف چند افراد پتھر بازی میں زخمی ہوئے مگر اس واقعے نے دلی کے امن پسند عوام کے اعتماد کو متزلزل کردیا ہے اور ان کے اندر خوف و دہشت کا ماحول بن گیا۔ دوسرے علاقوں میں بھی سراسیمگی پھیل گئی اور مجنوں کا ٹیلہ علاقے میں بھی ماحول خراب ہوتے ہوتے بچا۔واضح ہوکہ اس سے پہلے بھی دلی کے قریب غازی آباد میں افواہیں پھیلاکر فساد کرانے کی کوشش ہوئی تھی اور برنگ دل کے لوگ مسلمانون کے گھر میں پولس کے ساتھ گھسے تھے۔ الزام تھا کہ مسلمانون کے ا]پنے گھروں میں گائیں چھپا رکھی ہیں مگر کسی بھی گھر میں کوئی گائے نہیں ملی۔   

فساد کیسے شروع ہوا؟

    فساد کیوں ہوا اور اسباب کیا تھے؟ اس سوال کے جواب میں مقامی مسلمان اور ہندو اپنے اپنے انداز میں دلیلیں دے رہے ہیں۔ ان لوگوں سے بات کرنے کے بعد جو سچائی سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ درگا پوجا کے وقت کچھ لوگوں نے ماتا کی چوکی قائم کی تھی اور اس جگہ قائم کی تھی جہاں کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا تھا۔ انھوں نے اس کی صفائی کی اور پھر یہاں چوکی بنادی۔ یہاں سے تقریباً پچاس قدم کے فاصلے پر ایک مسجد ہے اور مسجد کے قریب چوکی کے قیام سے مسلمانوں میں تشویش ہونا لازمی تھا۔ماتا کی چوکی کو درگار پوجاکے بعد ختم ہوجانا چاہے تھا مگر ایسا نہیں ہوا اور لگاتار اس کی مدت بڑھتی گئی اور اسی کے ساتھ مسلمانون کی بے چینی میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ انھیں محسوس ہوا کہ یہاں مستقل مندر بنانے کا پروگرام ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ اسی دوران دو لوگوں میں کسی معمولی بات پر جھگڑا ہوگیا۔ اتفاق سے ان میں سے ایک مسلمان تھا اور دوسرا ہندو۔ ان دونوں کی لڑائی کو دنگے میں تبدیل کرنے کے لئے مزید کچھ لوگ سامنے آگئے اور پھر پتھر بازی شروع ہوگئی۔ دونوں طرف سے خوب پتھر بازی ہوئی جس میں کئی لوگ زخمی ہوگئے۔فساد کے ساتھ ہی افواہوں کا بازار بھی گرم ہوا اور لوگوں میں کوف وہراس پھیل گیا۔ پولس کو خبر ملی تو اس نے حالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی اور دفعہ۱۴۴ نافذ کردیا نیز فسادیوں کو گرفتار کرنے کے نام پر ایک طرفہ طور پر مسلمانون کی گرفتاری ہوئی۔ ابتدا ،میں جن چالئیس افراد کو پولس نے گرفتار کیا ان میں صرف صرف ۱۳ ہندو تھے اور باقی تما م مسلمان تھے۔ اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ پولس کی نظر میں مسلمان ہی فسادی ہیں لہٰذا انھین کی اندھادھندگرفتاری ہوئی۔ معروف صحافی اور عام آدمی پارٹی کے لوک سبھا الیکشن میں امیدوار رہ چکے اشیش کھیتا ن کا کہنا تھا کہ انھیں ایک ویڈیوہاتھ لگا ہے جس میں بی جے پی کے ایک سابق ایم ایل اے سنیل ویدکو پتھربازی کرنے والوں کے آگے آگے دیکھا جاسکتا ہے۔  انھوں نے یہ ویڈیو پولس کے حوالے کردیا ہے مگر ہربار کی طرح پولس نے یہاں بھی ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ یہ بھی الزام سامنے آیا ہے کہ پتھر بازی کرنے والے باقاعدہ ہلمٹ پہن کر آئے تھے اور اینٹ پتھر سے لیس تھے لہٰذا یہ سب کچھ ایک پروگرام کے تحت ہوا اور یہ سب کرنے والوں میں ایک بڑی تعداد بیرونی لوگوں کی تھی۔عام آمدی پارٹی کے لیڈر اروند کجریوال کا کہنا تھا کہ دلی میں تین سیٹوں پر ضمنی انتخاب ہیں اور ممکن ہے دلی میں کسی بھی وقت اسمبلی تحلیل کرکے الیکشن کرایا جائے ۔ ایسے میں دانستہ طور پر بی جے پی کی طرف سے فساد کرانے کی کوشش ہورہی ہے۔ حالانکہ بی جے پی کے ایک ریاستی لیڈر ان اس کی سختی سے تردید کرتے ہیں دوسری طرف دلی کے ایک دوسرے لیڈر سدھانشو تریویدی کا کہنا ہے کہ اس ملک میں ایک فیشن بن گیا ہے کہ جہاں کہیں بھی دنگا ہوتا ہے ،اس کا الزام بی جے پی پر لگادیا جاتا ہے۔ حالانکہ انکوائری میں آج تک کبھی یہ الزام درست ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ ان کے جواب میں اشیش کھیتان کہتے ہیں کہ اس طرح کے معاملات میں انکوائری اس طرح سے کی جاتی ہے کہ کبھی سچائی سامنے نہ آسکے اور دلی کے حالیہ فساد کی بھی سچائی کبھی سامنے نہیں آسکے گی۔ 

قومی یکجہتی کا نقصان

    راجدھانی دلی کو فرقہ وارانہ فساد کے معاملے میں اب تک محفوظ مانا جاتا رہا ہے اور یہاں اس قسم کے فساد نہیں ہوتے ہیں۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کا قتل عام ہوا تھا اور پھر ۱۹۹۲ء میں باباری مسجد کی شہادت کے بعد اک دکا ہنگامے میں ہوئے تھے جو فساد میں تبدیل نہیں ہوسکے۔ اب اچانک پھوٹ پڑنے والے فساد نے بہتوں کو فک رمند کردیا ہے۔ دلی میں رہنے سہنے والوں کی اکثریت سے دوسرے صوبوں سے یہاں تلاش معاش کے سلسلے میں آئی ہے ۔وہ امن و سکون کے ماحول میں روزگار کمانا چاہتے ہیں مگر اس فساد کے سبب اب لوگوں کو اپنی سلامتی کا خوف پیدا ہوگیا ہے۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی بالکل الگ محلوں میں رہتی سہتی ہے مگر چند علاقے ایسے ہیں جہاں وہ ملی جلی آبادی میں رہتے ہیں اور اسی میں یہ ترلوک پوری کا علاقہ بھی ہے۔ یہ علاقہ دلی سے نوئیڈا جانے میں راستے میں پڑتا ہے لہٰذا ان لوگوں کو بھی خوف محسوس ہوتا ہے جو روزانہ نوئیڈا آنا جانا کرتے ہیں کیونکہ بیشتر دلی والوں کے دفتر نوئیڈا میں ہی ہیں۔ شہر کے امن پسند لوگ اس کوشش میں لگے ہیں کہ عوام کو بانٹنے کی فرقہ پرستوں کی کوشش کامیاب نہ ہوسکے لہٰذا وہ دونوں طبقے کے لوگوں سے رابطہ کر رہے ہیں۔ اسی کوشش میں لگے ہوئے دلی یونیورسیٹی کے پروفیسر اپوروانند کہتے ہیں کہ میں نے یہان کے ہندووں سے بات کرنے کی کوشش کی اور چاہا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کریں اور رنجش کو دور کرلیں مگر ان کا کہنا تھا کہ مسلمان ہوتے ہی ہیں جرائم پیشہ قسم  کے، ان سے کیا بات کی جائے، آپ جیلوں میں جاکر دیکھ لیں ۷۰ فیصد یہی ملیں گے۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ یہان رہنے والے دلتوں کو مسلمانوں سے لڑانے کی کوشش ہوئی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ انھیں ہندتووادی بنایا جائے۔    

پولس اب خبردار ہوئی

    تہواروں کے موسم کے سبب دلی پولس کو خبردار کیا گیا تھا کہ مگر نہ جانے کہان کمی تھی کہ ترلوک پوری کا فساد رونما ہوگیا۔ حالانکہ اب پولس احتیاط برت رہی ہے اور علاقے پر نظر رکھنے کے لئے کیمرے لگے ہوئے ڈرون کا استعمال بھی کر رہی ہے۔ چھوٹے چھوٹے ڈرون کے ذریعے وہ دیکھ رہی ہے کہ کہیں کسی چھت پر اینٹ پتھر نہ رکھے ہوں یا ایسے سازوسامان نہ ہوں جو لڑنے بھڑنے کا کام میں آسکیں۔ مگر اب دنگے کے سبب جو لوگوں کو تکلیف ہوسکتی تھی وہ ہوگئی۔ یہاں چھونپڑ پٹیان ہیں اور کچی کالونیان ہیں جن میں رہنے والے بہت سے لوگوں کے گھروں میں ٹوائلٹ نہیں ہیں لہٰذا وہ سرکاری ٹوائلیٹ میں جاتے ہیں مگر علاقے میں کرفیوں جیسے حالات کے سبب لوگ گھر سے نہیں نکل پا رہے تھے۔ مسلمانوں کا تو یہاں تک الزام تھا کہ داڑھی دیکھ کر پولس خبردار ہوجاتی ہے ۔ یونہی ادھر رہنے والے غریب اور روز مرہ کمانے کھانے والے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہ اگر ایک دن کام نہ کریں تو ان کے گھر میں چولہا نہیں جلتا ہے۔

(مضمون نگار ٹی وی پروڈیوسر اور اسکرپٹ رائٹر ہیں)

رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments


Login

You are Visitor Number : 581