donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Duniya Me Phailti Khaufo Dahshat Aur Islam Ka Paighame Rahmat


دنیا میں پھیلتی خوف ودہشت اور اسلام کا پیغام رحمت


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی


تمہارے شہر میں اب کون کس سے پیار کرے
جہاں زمانہ محبت کو سنگسار کرے

دہشت گردی کی اصطلاح 9/11کے حملوں کے بعد زیادہ تیزی سے رائج ہوئی۔ اس کے بعد ساری دنیا میں امریکا کی دادا گیری کے خلاف لڑنے والوں کو دہشت گرد کہاجانے لگا۔ حالانکہ جو ملک یافرد عام لوگو ںکو خوف زدہ کرتا ہے‘ وہ دہشت گرد ہے۔ جو بے قصورروں کی جانیں لیتا ہے‘ وہ دہشت گرد ہے۔ جو شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کرتا ہے‘ وہ دہشت گرد ہے۔ دہشت گردی یوں تو ہر دور میں کسی نہ کسی روپ میں موجود رہی ہے‘ مگر حال کے زمانے میں بڑے پیمانے پر سامنے آئی ہے۔ بیسویں صدی میں انگلینڈ نے دنیا کے بہت سے ملکوں پر قبضہ کررکھا تھا۔ ان ملکوں کے وسائل کو اپنے استعمال میں لاتا تھا اور یہاں کے لوگوں کو غلام بنارکھاتھا۔ ظاہر ہے یہ ایک قسم کی دہشت گردی تھی‘ مگر موجودہ دور میں یہی کام ایک دوسرے انداز میں امریکا اور اس کے حلیف انجام دے رہے ہیں۔وہ کسی ملک پر ڈائریکٹ قبضہ کرنے کے بجائے وہاں اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کردیتے ہیں۔ ان کا اپناآدمی بیٹھا امریکی ویوروپی مفادات کی نگہبانی کرتا رہتاہے۔ اس کی مثال افغانستان ‘عراق افریقہ اور بیشتر خلیجی ملکوںمیں دیکھی جاسکتی ہے۔ ظاہر ہے اس طریقے سے بھی ان ملکوں کے عوام کے حقوق پرشبخون مارے جاتے ہیں اور یقینی طور پر یہ دہشت گردی  ہے۔

 دہشت گردی کا ایک بھیانک روپ دنیا کے کئی ملکوں میں دیکھنے کو ملا‘ جب امریکا اور اس کے مغربی حلیفوں نے پاکستان‘افغانستان‘عراق وغیرہ میں حملے کرکے عام شہریوں کا جینامحال کردیا۔ یہاں اب تک لاکھوں شہری موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے خوفناک حملوں کی تاب نہ لاکر دم توڑ گئے‘ جو زندہ بچے وہ مختلف جسمانی اعضاء سے محروم ہوگئے ہیں۔ ان حملوں کے چلتے عام لوگوں کی زندگی موت سے بدتر ہوگئی ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ اس لڑائی کو دہشت گردی سے جنگ کانام دیاگیا ہے۔ انہیں ملکوں کی شہ پر فلسطین میں بھی دہشت کا بازار گرم ہے اور اسرائیل جو کہ دہشت گردی کی جڑ ہے‘ اس کے تحفظ کے نام پر عورتوں‘مردوں ‘بچوں اور بوڑھوں پر عرصہ حیات تنگ کیاجارہا ہے۔ الغرض موجودہ دنیا کا ایک بڑامسئلہ دہشت گردی بن چکا ہے۔ دہشت گردی کی سماجی شکلیں بھی ہم اپنے معاشرے میں دیکھتے رہتے ہیں‘ مثلاً ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی کو پریشان کرنا ‘راستہ چلتے دو لوگوں کا آپس میں لڑپڑنا‘ طاقتور افرادکا کمزوروں پر ظلم‘ پولس کا عوام پر ظلم وغیرہ وغیرہ۔

بڑی دہشت گردی ابھی باقی ہے

 دہشت گردوں نے اب تک لاکھوں افراد کی جانیں لی ہیں‘ مگر مستقبل میں دہشت گردی کی جو صورت حال دنیا کے سامنے آنے والی ہے‘ اس کے مقابلے میں یہ شاید چھوٹی دہشت گردی ہو۔ دنیا کے کئی ملکوںنے خوفناک ایٹمی ہتھیار تیار کر رکھے ہیں۔ اب تک صرف ایک بار دنیا میں ایٹم بم کا استعمال ہوا ہے اور وہ بھی کمزور قسم کا ایٹم بم۔ امریکا نے جاپان کے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پرجوبم گرائے تھے‘ ان سے لاکھوں انسان مارے گئے تھے اور ان کے اثرات آج بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ خدانخواستہ اگرکسی ملک نے آج کا ترقی یافتہ ایٹم بم استعمال کرلیا‘تو کیاہوگا؟

ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت امریکا ‘اسرائیل انڈیا پاکستان ‘نارتھ کوریا‘ چین‘ فرانس‘برطانیہ اور سابق سوویت یونین کے ملکوں کے پاس ہزاروں ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ یہ ہتھیار دنیا کوکئی بار تباہ کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اگر کبھی ان کا استعمال ہوگیا‘تو دنیامیں وہ تباہی آئے گی‘ جس کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔

شاید خدا ،بنائے گا ، کوئی نیاجہاں
دنیاکو یوں مٹائے گی اکیسویں صدی

اتنے ہلاکت خیز ہتھیاروں کے باوجود ابھی شوق ہلاکت کی تکمیل نہیں ہوئی ہے اور دنیا کے سبھی ممالک کے سائنسداں کچھ ایسے ہتھیار بنانے کی کوشش میں ہیں‘ جو ایٹم بموں سے زیادہ مہلک ہوں۔

دہشت گردی کا علاج

 موجودہ عہد میں دہشت گردی کا صرف اور صرف ایک علاج ہے پیغام نبوی کی پیروی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اورآپ کی تعلیمات کواگر دنیا اپنالے ‘تو اس سے ہر قسم کی دہشت گردی ختم ہوسکتی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے بار بار حکم فرمایا کہ انسانی جانوں کا احترام کرو۔ ظاہر ہے انسان اللہ کی عزیز ترین مخلوق ہے۔ اس نے دنیا کی ہرچیز کو ’’کن‘ کہہ کر پیدا فرمایا‘ مگرجب انسان کی تخلیق مقصود ہوئی‘ تو اس بے پناہ طاقت رکھنے والے خالق نے اسے ایک لفظ کہہ کر وجود نہیں بخشا‘ بلکہ پہلے فرشتوں کے سامنے اپنی منشاء کا اظہار کیا۔ فرشتوں نے مزید جانناچاہا تو فرمایا ’’ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے‘‘ اس کے بعد دنیا کے مختلف خطوں سے مٹی کے نمونے جمع کئے گئے‘ پھر انہیں باہم ملایاگیاپھرانتہائی محبت سے اللہ نے اپنی قدرت کے ہاتھوں سے آدم علیہ السلام کا پتلا بنایا اور اس میں’’امرربی‘‘ کے ذریعے روح پھونکی۔ جب انسان اول وجود میںآگیا‘ تو اسے اللہ نے زیور علم سے آراستہ کیا‘ پھر اس کے دل کے قریب سے اس کی راحتِ جان بیوی کو پیدا فرمایا۔ ظاہر ہے یہ اہتمام بلاوجہ تو نہیں کیاگیا؟ یقینا اللہ کو اپنی اس تخلیق سے خصوصی لگائو ہوگا‘ تبھی تو اس نے انسان کی تخلیق میں اس قدر اہتمام کیا۔ اس کے بعد فرشتوں سے آدم کو سجدہ کرواکر رب العزت نے ظاہر کردیا کہ اس نے آدم کو عزت وشرافت کا وہ تاج پہنایا ہے‘ جو نہ پہلے کسی کو پہنایاگیا اور نہ ہی بعد میںکسی کو بخشا جائے گا۔ اللہ اپنی جس مخلوق کو اس قدر عزت سے نوازے ‘ اس قدر محبت کا اظہار فرمائے‘ اسے کسی دہشت گردی کے ذریعے تباہ کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتا۔

کعبہ سے افضل انسان

دنیا کی تمام عبادت گاہوں میں سب سے افضل کعبہ ہے۔ یہ دنیا کی مرکزی عبادت گاہ ہے۔ یہ دنیا میں اللہ کی عبادت کے لئے بنائی گئی پہلی مسجد ہے‘ مگراللہ کے رسول نے انسان کو اس سے بھی افضل بتایا اور انسانی جان کا احترام کعبہ سے بھی افضل فرمایا ہے۔ ابن ماجہ کی حدیث ہے کہ اللہ کے رسول نے کعبہ کو مخاطب کرکے فرمایا:

’’کتناپاکیزہ ہے تو اور کیسی خوشگوار ہے تیری فضا‘کتناعظیم ہے تو اور کتنامحترم ہے تیرامقام، مگراس خدا کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے‘ ایک مسلمان کی جان ومال اورخون کا احترام اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے‘‘۔

اللہ اکبر ذرغور کریں انسانی جان کا‘ اس سے بڑھ کر کیا احترام ہوسکتا ہے کعبہ تواللہ کی عبادت کی جگہ ہے‘ مگر انسان کا دل اللہ کی محبت کی جگہ۔ عبادت سے افضل محبت ہے۔ اوپر کی حدیث میں مسلم یامومن کہاگیا ہے ۔ یہ خاص موقع کی مناسبت سے کہاگیا‘ ورنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی جان کا احترام سکھایا ہے۔ اس میںمذہب کی کوئی قید نہیں ۔ چنانچہ نسائی کی حدیث ہے کہ رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔

’’جس نے کسی غیرمسلم(ذمی) کو قتل کیا‘ اللہ تعالیٰ نے اس پرجنت حرام کردی‘‘۔

جنگ کے دوران خون انسانی کا احترام

 جنگوں کے دوران ایک ملک کا دوسرے ملک کے عوام پر حملہ عام بات ہے۔ ان حملوں میں بچے‘بوڑھے‘ کمزور‘مریض اور عورتیں ماری جاتی ہیں۔ ان کی کوئی کھوج خبر لینے والا نہیںہوتا۔ جنگ کے بعد بھی کسی بین الاقوامی قانون کے تحت حملہ آور کو سزا نہیں دی جاتی‘ مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان طبقات پر کسی قسم کے حملے سے منع فرمایا۔ سب سے پہلے آپ نے جنگ وجدال سے ہی دور رہنے کی تاکید فرمائی‘ مگرناگزیر حالات میں اگر جنگ کی نوبت آجائے‘ تو اپنے دفاع کے لئے ایساکرسکتے ہیں۔ ایک مرتبہ دوران جنگ کچھ غیر مسلم بچے زد میں آگئے اور مارے گئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا‘ توسخت رنج ہوا اور پریشان ہواٹھے۔ کسی نے کہا کہ وہ تومشرکین کے بچے تھے کیاہوامارے گئے‘ تو یہ بات سن کر آپ نے فرمایا۔

’’خبردار بچوں کو قتل نہ کرو‘ خبردار بچوں کو قتل نہ کرو‘ ہرجان خدا ہی کی فطرت پر پیدا ہوئی ہے

(مسند امام احمد)

اللہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پاک میں رحمت للعالمین کے لقب سے نوازا ہے۔ یعنی تمام جہانوں کے لئے رحمت۔ ظاہر ہے اس دنیامیںصرف مومن ہی نہیں رہتے‘ دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی رہتے ہیں اور اللہ کے رسول سب کے لئے باعثِ رحمت بن کردنیامیں تشریف لائے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کی رحمت صرف مسلمانوں تک محدودکردی جائے۔ آج ضرورت ہے کہ اس رحمت بھری تعلیم کو دنیامیں عام کیاجائے اور دہشت گردی کو ختم کیاجائے۔


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 570