donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Farqa Parasti Ki Chingari Hindustan Ko Aag Lagane Ki Taiyari


فرقہ پرستی کی چنگاری ،ہندوستان کو آگ لگانے کی تیاری


تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی


    ’’لوجہاد‘‘ کی چنگاری کبھی بھی آگ لگاسکتی ہے؟ملک کے امن وامان کو جلا کر خاکستر کر سکتی ہے؟اسے بہانہ بناکر کسی ایک ریاست نہیں پورے ملک میں آگ لگانے کی بھگوا وادیوں کی تیاری چل رہی ہے۔ وہ’ لوجہاد ‘جس کا آج تک کوئی ثبوت نہیں ملا اور کسی حکومت نے اس کے وجود کو تسلیم نہیں کیا ہے، اسے بہانہ بناکر جھوٹے افسانے تیار کئے جارہے ہیں اور ملک کے حالات خراب کرکے اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش ہورہی ہے۔ بہار میں الیکشن ہونے والا ہے ،اس کے بعد مغربی بنگال اور پھر اترپردیش میں اسمبلی کے انتخابات ہیں۔ ۲۰۱۷ء میں گجرات میں بھی الیکشن ہے جہاں ا ب بہت تیزی سے بی جے پی کے خلاف ماحول تیار ہورہا ہے۔ ایسے میں لو جہاد کی آگ لگاکر اصل مسائل سے توجہ پھیرنے کی کوشش چل رہی ہے۔ اب رام مندر کا ایشو پرانا ہوچکا ہے اور یہ ووٹ دلانے کے لائق بھی نہیں رہا، اب مسجدوں اور مندروں میں گوشت پھینکنے سے بھی دنگے نہیں بھڑکتے کیونکہ اکثر وبیشتر لوگ سمجھداری سے کام لیتے ہیں اور ماحول خراب ہونے سے پہلے ہی اس کی صفائی کردیتے ہیں، لہٰذا اب لوجہاد کا بہانہ بنایا جارہا ہے اور مسلم نوجوانوں پر حملے شروع کر دیئے گئے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال حالیہ دنوں میں بنگلور میں سامنے آئی جہاں ایک مسلم نوجوان کو صرف اس لئے کھمبے میں باندھ کرمارا پیٹا گیا اور سر عام ننگا کردیا گیا کہ اس کے ساتھ کار میں ایک ایسی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی جو ہندو تھی۔ اخلاقیات اور ہندتو کے ٹھیکہ دار بھگواوادیوں کی طرف سے ملک بھرمیں ہنگامہ آرائی کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ماضی میں کیرل اور کرناٹک میں اسے ایشو بنادیا گیا تھا اور گزشتہ کچھ برسوں سے اترپردیش میں بھی مسلم نوجوانوں پر اسی بہانے سے حملے ہورہے ہیں۔مظفرنگر فساد کا اصل سبب  فرضی ’’لوجہاد‘‘ہی تھا۔ یوپی میں ایک مدت سے ’’بہولائو،بیٹی بچائو‘‘تحریک کے بہانے مسلمانوں کے خلاف ماحول تیار کیا جارہا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہاں بی جے پی نہیں بلکہ سماج وادی پارٹی کی حکومت اور اور کرناٹک میں کانگریس کی سرکار ہے مگر یہ دونوں سرکاریں بھگوا وادیوں کی مہم کے خلاف کوئی خاص کارروائی نہیں کر رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس پر اگر وقت رہتے بند نہیں باندھا گیا تو مستقبل میں کسی بڑے طوفان کا روپ لے سکتا ہے۔ سماج وادی پارٹی سرکار کو مظفر نگر دنگوں کا سبق یاد نہیں رہا جو افسوس کی بات ہے۔

 ’’لوجہاد ‘‘کی نئی چنگاری

     کرناٹک کے بنگلور میں ایک مسلمان نوجوان کی صرف اس لئے پٹائی کی گئی کہ اس نے اپنے ساتھ کام کرنے والی ایک ہندو لڑکی کو اپنے کار میں لفٹ دیا تھا۔ بجرنگ دل کے غنڈوں نے اس مال مینیجرکی سرعام پٹائی کی گئی جہاں عام لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔  بجرنگ دل کے کارکنوں نے پہلے اس شخص کو کار سے زبردستی کھینچ کر باہر نکالا پھر اس کے کپڑے پھاڑ کر بجلی کے کھمبے سے باندھ کر ایک گھنٹے تک پٹائی کی۔ واقعہ کا خاص پہلو یہ ہے کہ پولس نے ابتدا میں اس معاملے کی کوئی خبر نہیں لی ،البتہ واقعہ کی ویڈیو واٹس اپ اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پولیس حرکت میں آئی۔ 13 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے مگر ان کے خلاف مار پیٹ کی معمولی دفعات لگائی گئی ہیں جب کہ یہ سنگین معاملہ ہے اور دنگا بھڑکانے کی سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا ہے۔خبروں کے مطابق بنگلور شہر کے ایک مال کے مسلمان منیجر نے نئی گاڑی خریدی تھی۔ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والی ایک لڑکی کو گاڑی میں بٹھا کر ڈرائیو پر نکلا تھا۔متاثر مال منیجر نے اپنی شکایت میں کہا ہے کہ لڑکی کو کچھ پیسوں کی ضرورت تھی۔ اس نے پیسے نکالنے کے لئے گاڑی کو ایک اے ٹی ایم کے قریب روکا۔ اس دوران کچھ لوگوں نے گاڑی کو گھیر لیا اور باہر کھینچ کراس کی پٹائی کی، بعد میں پولیس کے آنے پر ملزم فرار ہو گئے۔

    بنگلور پولیس کمشنر ایس. مرگن نے کہا ہے کہ منیجر کی پٹائی کرنے والے جن 13 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، ان میں سے اکثر بجرنگ دل کے رکن ہیں۔ ابتدائی پوچھ گچھ میں پتہ چلا کہ مسلمان لڑکے کے ساتھ ہندو لڑکی کے کار میں بیٹھنے سے بجرنگ دل کے ارکان ناراض تھے اور اسی سبب ان لوگوں نے منیجر کی پٹائی کی۔غور طلب ہے کہ بنگلو رمیں اخلاقیات کی ٹھیکہ دار بجرنگ دل اور سری رام سینا کی طرف کے ارکان ماضی میں بھی لوگوں کی پٹائی کرتے رہے ہیں اور اس طرح کے معاملوں کو لے کر ہنگامے اٹھتے رہے ہیں۔

جب کانگریس نے ہوا دیا

    حال ہی میںمغربی اترپردیش کے باغپت میں ایک معاملہ سامنے آیا جس کو’’ لو جہاد‘‘ کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی ۔ معاملہ یوں تھا کہ ایک ہندو لڑکی نے مذہب تبدیل کرکے ایک مسلمان لڑکے سے شادی کرلیا۔لڑکی کا کہنا تھا کہ وہ بالغ ہے اور اپنی مرضی سے اس نے مذہب تبدیل کیاہے اور شادی کی ہے۔دونوں نے گھر سے بھاگ کر شادی کی تھی اور ان کے گھروالوں کو اس کا علم نہیں تھا۔ لڑکی والوں نے پولس میں لڑکی کے غائب ہونے کی رپورٹ درج کرائی تو پولس نے انھیں برآمد کرلیا اور تھانہ میں لے آئی نیز اسے میڈیکل جانچ کے لئے اسپتال بھی لے کر گئی۔ اس دوران کانگریس کی پی سی سی رکن بھگوتی دہیا کی قیادت میں لڑکی کے لواحقین ہسپتال پہنچے۔ وہاں جیسے ہی انہوں نے پولیس کے ساتھ لڑکی کودیکھا تو وہ غصہ سے آگ بگولہ ہوگئے۔ان کا کہنا تھا کہ لڑکی کی عمر 14 سال ہے اور وہ نابالغ ہے۔ حالانکہ لڑکی کادعویٰ تھا کہ وہ بالغ ہے۔ اس نے گھر والوں کو اپنی جان کا دشمن بتایا اور کہا کہ اس کے گھر والے نہیں چاہتے ہیں کہ وہ اپنے پریمی کے ساتھ رہے۔میڈیکل رپورٹ بھی لڑکی کو بالغ بتاتی ہے مگر اس کے گھر والوں کا الزام ہے کہ پولیس اور ڈاکٹروں نے لڑکے سے رشوت لے کر لڑکی کو بالغ بتایا ہے۔جب کہ کانگریس لیڈر بھگوتی دہیاکے مطابق یہ ایک ریکیٹ ہے، جو لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسا رہا ہے۔ ان کے مطابق ایک ماہ پہلے پنچایت نے ملزم نوجوان کو سمجھایا تھا لیکن وہ سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہے۔اس پورے معاملے میں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہاں معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے میں سنگھ پریوار نہیں بلکہ کانگریس کو شامل دیکھا گیا۔

راجدھانی میں آگ لگانے کی کوشش

    راجدھانی دلی سے پورے ملک کا رشتہ ہے۔ساتھ ہی اس پر ساری دنیا کی نظر بھی رہتی ہے کیوںکہ یہاں دنیا بھر کے سفارت خانے ہیں۔ یہاں امن وامان کی ضرورت ہے مگر بھگوا تنظیمیں یہاں کا ماحول بھی بگاڑنے کا موقع ہاتھ سے نہیں نکلنے دیتی ہیں۔ پچھلے دنوں راجدھانی دلی میں ایک پروگرام کا انعقاد شاہدرہ علاقے میں کیا گیا۔اس میں مہمان خصوصی کے طور پر حیدرآباد کے بی جے پی ممبر اسمبلی ٹی راجہ پہنچے۔انھوں نے یہاں کئی متنازعہ ایشوز پر بات کی اور لوگوں کو اکسانے کی کوشش کی۔ جن معاملوں کو انھوں نے اٹھایا ان میں ’لوجہاد ‘بھی شامل تھا۔ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب راجدھانی دلی پر بھی فرقہ پرستوں کی بری نظر ہے اور وہ یہاں بھی اس مفروضے کو بہانہ بناکر ہنگامہ برپا کرنا چاہتے ہیں۔

محبت کے نام پر نفرت کا کھیل

    ہندو جن جاگرت کمیٹی نامی ایک ہندتو وادی تنظیم بھی کوشش میں ہے کہ ’’لوجہاد‘‘ کے نام پر ماحول گرم کیا جائے۔مرکز کی نریندر مودی حکومت سے بھی اس کی یہی توقع ہے کہ ہندووں کے مفاد میں فیصلے لئے جائیں۔ کمیٹی کے قومی ترجمان رمیش شندے کا کہنا ہے کہ ’’لو جہاد‘‘ کو سب سے پہلے ہندوستان میں سال 2009 میں کتاب کے ذریعے ہم سامنے لائے تھے۔ اگرچہ اس کا صرف ہندوستان ہی شکار نہیں ہے، یہ پوری دنیا میں چل رہا ہے۔ یہ پوری دنیا کے لئے مسئلہ ہے۔ وہ کہتے ہیں محبت جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہندو لڑکیوں کا دہشت گردی کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے کہ اس کی قومی سطح پر جانچ ہونی چاہئے۔اگر انکوائری کمیٹی بیٹھتی ہے تو ہم مکمل مدد کرنے کے لئے تیار ہیں۔مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کا وہ بیان جس میں انھوں نے کہا تھا کہ مجھے کہیں ’’لو جہاد ‘‘دکھائی نہیں دیتا،اس پر شندے کہتے ہیں کہ اگر انہیں دکھائی نہیں دیتا تو ہم ان کو دکھانے کے لیے تیار ہیں۔رمیش شندے کا کہنا ہے ہم لو جہاد میں پھنسی 300 لڑکیوں کو پارلیمنٹ کے باہر لے کر جانے والے ہیں اوردنیا کو بتانے والے ہیں کہ یہ ہے لو جہاد۔وہ کہتے ہیں کہ ہندو جن جاگرت کمیٹی کے ذریعے مختلف عدالتوں میں رٹ بھی دائر کی جاتی ہیں۔ممبئی کے آزاد میدان فساد معاملے میں بھی کمیٹی نے اپیل کی تھی جس پر عدالت نے رضا اکیڈمی کو 1.75 کروڑ جرمانہ بھرنے کا حکم دیا۔

انٹرنیٹ تک پہنچی ’’لو جہاد‘‘ کی آگ

    لوجہا د کی آگ بھڑکانے کے لئے یو ٹیوب، فیس بک اور نیٹ ورکنگ سائٹس پر قابل اعتراض مواد ڈالے جارہے ہیں۔انھیں لائک اور شیئر کیا جارہا ہے اور ہندووں کو مسلمانوں کے خلاف مشتعل کرنے کی بڑے پیمانے پر کوشش چل رہی ہے۔ اس کی ایک مثال حال ہی میں سامنے آئی ہے۔پچھلے دنوں یوپی میں ایک شکایت پولس تک پہنچی جس میں کہا گیا تھا کہ کسی نتن سونی نامی نوجوان نے ’’لوجہاد‘‘ نام سے ایک فلم ۳۲منٹ کی فلم یو ٹیوب پر اپ لوڈ کی ہے جو اشتعال انگیز ہے۔ شکایت ملنے کے بعد پولس حرکت میں آئی اور مذکورہ نوجوان کے خلاف مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی۔شکایت کرنے والوں کا الزام ہے کہ اس مختصر فلم میں ایک خاص مذہب کو نشانہ بنایا گیا ہے۔خیر پولس نے فلم بنا کر یو ٹیوب پر اپ لوڈ کرنے والے نتن سونی پر 153 ا اور 66 اے کے تحت آئی ٹی ایکٹ کا مقدمہ درج کر تحقیقات شروع کر دی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 484