donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Ghalat Fahmiyon Ka Shikar Hindustan Ke Madarise Islamiya


غلط فہمیوں کا شکار ہندوستان کے مدارس اسلامیہ


وطن دشمنی نہیں،وطن دوستی کے اڈے ہیںدینی مدارس


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    بھارت کے گائوں گائوں تک پھیلے ہوئے دینی مدرسے وطن دوستی کا درس دیتے ہیں یا دہشت گردی کا سبق پڑھاتے ہیں؟مدارس اسلامیہ میںمحبان وطن پیدا کئے جاتے ہیں یا یہاں ملک کے غداروں کو پناہ دی جاتی ہے؟اسلامی اداروں میں طلباء کو صلح کی تعلیم دی جاتی ہے یا تشدد پر ابھارا جاتا ہے؟دینی مدرسوں کا نصاب تعلیم تعمیر، کا درس دیتا ہے یا تخریب کاری کا سبق دیتا ہے؟ یہاں بچوں کے دلوں میں وطن دشمنی کے بیج بوئے جاتے ہیں یا وطن دوستی سکھائی جاتی ہے؟ اس قسم کے سوالات میڈیا میں اکثر اٹھتے رہے ہیں اور دین کے دشمنوں کی طرف سے بھی دینی مدرسوں کے وجود پر سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں مگر ایسے لوگوں کے منہ پر زبردست طمانچہ مارا ہے وزارت داخلہ نے جس نے ایک خفیہ سروے رپورٹ کی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ پورے ملک میں کوئی بھی مدرسہ ملک مخالف سرگرمیوں میں مصروف نہیں پایا گیا ہے۔ کسی بھی دینی ادارے میں دہشت گردی کا کوئی ثبوت نہیں پایا گیا ہے بلکہ یہاں تو بچوں کو دین کی تعلیم دی جاتی ہے، قرآن پڑھایا جاتا ہے، سیرت بنوی کی تعلیم دی جاتی ہے اور فقہ کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دینی مدرسے بلافریق مسلک غریب بچوں اور سماج کے پسماندہ طبقے میں علم کو عام کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ غور طلب ہے کہ مرکزی حکومت نے مدرسوں کے خلاف اٹھ رہی آواز کے پیش نظر خفیہ طور پر ایک سروے کرایا تھا اور ان کی نگرانی  کرائی تھی تاکہ یہ پتہ لگایا جاسکے کہ دینی تعلیم کے پسِ پردہ کہیں تخریب کاری کی تعلیم تو نہیں دی جارہی ہے اور وطن دشمنی کا سبق تو نہیں پڑھایا جارہا ہے ۔ بنگال، بہار، یوپی ، آسام اور کچھ دوسرے خطے کے مدارس کا جائزہ لینے اور خفیہ نگرانی کے بعد بھی سرکاری ایجنسیوں، اداروں اور افسران کو ایک مدرسہ بھی ایسا نہیں ملا جہاں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہو اور مدرسے کا ایک استاد ایسا نہیں ملا جو ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا ہو۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں دیوبندی، اہلحدیث، اہلسنت اور جماعت اسلامی کے مدرسے چل رہے ہیں جن کی تعداد ہزاروں میں ہے مگر کوئی بھی ادارہ تخریب کاری میں ملوث نہیں پایا گیا۔ البتہ یہ امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ سرحدی علاقوں کے ان مدرسوں کی نگرانی ہونی چاہئے جہاں غیر ملکی ساتذہ پڑھا رہے ہیں۔یہ رپورٹ حال ہی میں مرکزی وزارت داخلہ نے عام کی ہے ، اس سے پہلے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ حکومت کے پاس ایسی کوئی رپورٹ نہیں ہے جس کی بنیاد پر کہاجائے کہ دینی مدرسوں میں دہشت گردانہ سرگرمیاں چلتی ہیں۔ ادھر وزیر اعظم نریندر مودی نے میانمار میں مشرقی ایشیائی چوٹی کانفرنس میں اپنی تقریر کے دوران کہا کہ دہشت گردی کو مذہب سے جوڑنے کے تصور کو سختی سے مسترد کیا جانا چاہئے۔وہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان ملک کے لئے جیتا ہے اور ملک کے لئے مرتا ہے۔ وہ کسی دہشت گرد تنظیم سے وابستہ نہیں ہوسکتا اور القاعد جیسی تنظیموں کو مایوسی ہاتھ لگے گی۔

غلط فہمیاں اور مدارس اسلامیہ

    مرکزی وزارت داخلہ کی رپورٹ نے سنگھ پریوار کے ان دعووں کو جھوٹا ثابت کردیا ہے  جن کے تحت مدرسوں کی جانب انگلیاں اٹھائی جارہی تھیں۔ ابھی حال ہی میں بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ ساکشی مہاراج نے مدرسوں کے خلاف بکواس کیا تھا اور یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی مدرسوں کی طرف انگلی اٹھائی تھی۔ بجرنگ دل اور وشوہندو پریشد کے لوگوں کی طرف سے بھی مدرسوں کے تعلق سے طرح طرح کی باتیں کہی جاتی رہی ہیں اور دینی تعلیم کو تخریب کاری سے جوڑنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں مگر آج تک کسی بھی مدرسے کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔ حال ہی میں مغربی بنگال کے بردوان ضلع کے گھاگڑا گرام کے ایک مدرسے میں کچھ بنگلہ دیشیوں کے بم بناتے ہوئے دھماکہ میں موت اور زخمی ہونے کی خبر سامنے آئی تھی جس کے بعد پورا قومی میڈیا دینی مدرسوں کے پیچھے پڑ گیا اور اسے بہانہ بناکر دینی مدارس، مسلمان اور اسلام پر حملہ شروع ہوگیا حالانکہ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ جہاں یہ واقعہ ہوا وہ مدرسہ نہیں تھا اور جن لوگوں کے ملوث ہونے کی خبر آئی تھی ان سے مقامی لوگ بے خبر ہیں۔ اب ایسے میں میڈیا اور فرقہ پرست عناصر کا مدرسوں کے خلاف طوفان کھڑا کرنا کتنا مناسب ہے؟ میڈیا کی طرف سے سنسنی پھیلانے کی والی جھوٹی خبریں عوام میں غلط فہمیاں پھیلا رہی ہیں اوراس کا نقصان بے قصور مسلمانوں کو چکانا پڑ رہا ہے۔ مغربی بنگال میں دینی مدرسوں کے تعلق سے میڈیا نے جو غلط فہمی پھیلائی اس کا نتیجہ تھا کہ ایک دینی مدرسے کے طالب علم کو لوگوں نے پکڑ کر زندہ جلا دیا اور چند دن زندگی وموت کی کشمکش کے بعد وہ چل بسا۔ عالمی شہرت یافتہ دینی ادارے دارالعلوم دیوبند کے طلباء کے ساتھ زیادتی کی خبریں کئی بار میڈیا میں آچکی ہیں ۔ یہاں تک کہ بعض اوقات تو دینی مدرسوںکے طلبہ کو چلتی ٹریں سے بھی دھکا دینے کی خبرین سامنے آئی ہیں۔ وزارت داخلہ کی رپورٹ کے بعد سے اب میڈیا کو بھی مدرسوں کے تعلق سے سنسنی خیزی سے باز آجانا چاہئے۔ یہ رپورٹ مغربی بنگال، بہار، یوپی یا تلنگانہ سرکار کی طرف سے نہیں آئی ہے کہ کہہ دیا جائے کہ مسلمانوں کی خوشامد میں رپورٹ تیار کی گئی ہے بلکہ اسے مرکزی حکومت نے جاری کی ہے جس کی باگ ڈور نریندر مودی کے ہاتھ میں ہے ،جن کا مسلمانوں کی چاپلوسی کا کوئی رکارڈ نہین ہے۔ یہ رپورٹ اس سرکار کی طرف سے آئی ہے جس کی نکیل ہندتو واد کی علمبردار آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہے۔

مدارس کا شاندار ماضی

    مدرسوں کی تاریخ بہت شاندار رہی ہے اور بھارت میں علم کو عام کرنے کا سلسلہ مدرسوں نے ہی شروع کیا تھا۔ یہاں مسلمانوں کی آمد اور مدرسوں کے قیام سے قبل علم برہمنوں تک سمٹا ہوا تھا اور وہ دوسروں کو سیکھنے سے روکتے تھے۔ بلکہ قدیم کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس معاملے میں اس قدر سختی تھی کہ اگر کوئی نچلی برادری کا آدمی علم کی بات سن لیتا تو سزا کے طور پر اس کے کان میں کانسہ پگھلا کر ڈال دیا جاتا تھا۔ بھارت میں دینی مدرسوں کے قیام سے ہر شخص کے لئے علم کا راستہ کھل گیا۔ سلطنت اور مغل عہد میں ہزاروں مدرسے پورے ملک میں پھیلے ہوئے تھے اور اس کے علاوہ کسی دوسری قسم کے تعلیمی ادارے نہیں تھے مگرانگریزوں کے قدم رکھنے کے بعد یہاں اسکولوں کا سسٹم شروع ہو، کالج بنے ، یونیورسیٹیاں قائم ہوئیںا اور اسے سرکاری پشت پناہی حاصل رہی۔ غیر ملکی قابضوں کو مدرسوں سے زیادہ ہمدردی نہیں تھی کیونکہ یہاں کے فارغین قوم پرستی کے جذبات سے بھرے ہوتے تھے انگریزوں کی اطاعت کے لئے تیار نہ تھے۔ یہی سبب تھا کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد جن لوگوں کو موت کی سزائیں دی گئیں ان میں سب سے زیادہ علما دین تھے۔ مولانا فضل حق خیرآبادی نے انگریزوں کے خلاف پہلا فتویٰ جہاد مرتب کرایا تھا۔ علماء دیوبند نے ریشمی رومال تحریک چھیڑی تھی اور مولانا محمودحسن، مولاناحسین احمد مدنی، ’’بانی نئی دنیا‘‘ مولانا عبدالوحید صدیقی کی آزادیٔ وطن کے لئے قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔ مولانا احمد رضاخاں بریلوی کی انگریز دشمنی کا یہ عالم تھا کہ وہ انگریزی حکمرانوں کی تصویر والا ڈاک ٹکٹ الٹا لگاتے تھے ۔ اصل میں قوم پرستی اور حب الوطنی کا جذبہ دینی مدرسوں کے خمیر میں شامل ہے۔ آج جو ان کی جانب انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں وہ فرقہ پرستوں کی جانب سے پھیلائی جارہی ان غلط فہمیوں کا نتیجہ ہیں جو سازش کے طور پر عام کی جارہی ہیں۔ یہ ایک سچائی ہے کہ آج تک جن لوگوں کو بھی دہشت گردی کے الزام میں پکڑا گیا ان کا مدرسوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔برعکس اس کے سمجھوتہ اکسپریس میں بم دھماکہ کرنے والے، مالیگائوںدہشت گردانہ حملہ کرکے معصوموں کی جانیں لینے والے، حیدراباد کی مکہ مسجد میں خون کی ہولی کھیلنے والے اور امن عالم کے پیامبر خواجہ معین الدین چشتی کی درگار میں زائرین کی جان لینے والے نظریاتی طور پر اسی طبقے سے تعلق رکھتے تھے جس نے نفرت کی سیاست کر کے آج ملک کے اقتدار پر قبضہ کرلیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مدرسوں کو کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے جب کہ بھارت میں ہزاروں فسادات ہوئے اور ان میں ملوث پائے گئے وہ نام نہاد قوم پرست جو بھگوا لباس کی آڑ میں انسانوں کا خون پینے کے عادی تھے۔ گجرات میں دہشت کا کھیل کس نے کھیلا؟ بھاگلپور میں خون کی ہولی کس نے کھیلی؟ میرٹھ اور ملیانہ کے پیچھے کون تھا؟ مندر ۔ مسجد کے نام پر اقتدار کی جگاڑ میں کون لگا رہا؟ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ امن پسندوں کو دہشت گرد ی کے طعنے، انسانی لاشوں کے سوداگروں نے دیئے، بہرحال
بت ہم کو کہیں کافر اللہ کی مرضی ہے

مدرسوں سے توقعات

    مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مدرسوں کی تجدید کاری کی ضرورت ہے تاکہ یہاںکے فارغین کو روزگار مل سکے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر ان لوگوں کو روزگار نہیں ملا تو انھیں بہکایا جاسکتا ہے اور تخریب کاری کی طرف موڑا جاسکتا ہے۔ جہاں تک تجدید کاری کی بات ہے تو آج کل کے مدرسے اس راہ پر چل رہے ہیں اور اپنے محدود وسائل کے باوجود وہ ایسے اساتذہ بحال کر رہے ہیں جو عصری علوم دے سکیں۔ حکومت بھی اس سلسلے میں کچھ پروگرام چلاتی ہے مگر ایسی اسکیموں کے تعلق سے سرکاری سرد مہری بھی دیکھی جاتی ہے ۔ اس کی ایک مثال تو یہ ہے کہ یوپی اے سرکار نے مدرسوں کی تجدید کاری کے لئے جو بجٹ مخصوص کیا تھا موجودہ سرکار نے اس میں بھی تخفیف کردیا ہے۔ یہ مدرسے اہل خیر مسلمانوں کے چندے سے چلتے ہیں اور مسلمان دینی علوم کی اشاعت کے لئے اپنی حیثیت کے مطابق چندے دیتے ہیں۔ ایسے میں ان سے یہ امید کرنا کہ داکٹر، انجینئر اور سائنٹسٹ پیدا کریں ، فضول ہے۔ یہاں کا نصاب تعلیم ،قرآن، حدیث، فقہ پر مرکوز ہوتا ہے۔ آج کے مدرسے انگریزی، حساب اور کمپیوٹر وغیرہ کی تعلیم بھی دیتے ہیں لیکن وہ ان علوم پر فوکس نہیں کرسکتے کیونکہ پھر تو مدرسہ کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ جب ہم بنارس ہندو یونیورسٹی سے یہ توقع نہیں کرتے کہ وہ عالم دین پیدا کرے، جب ہم کاشی ودیا پیٹھ سے یہ امید نہیں رکھتے کہ وہ حافظ قرآن نکالے ، جب ہم ملک کے انجینرینگ ومیڈیکل کالجوں سے ماہر ین علوم اسلامیہ  پیدا کرنے کی چاہت نہیں رکھتے تو مدرسوں سے ہم کیوں یہ امید کرتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر، انجینئر، سائنٹسٹ اور عصری علوم کا ماہر پیدا کریں۔ یہاں حسب ضرورت عصری علوم ضرور دیئے جاتے ہیں مگر اعلیٰ تعلیم کے لئے مدرسوںکے فارغین میں سے کچھ طلبہ عصری درسگاہوں میں بھی جاتے ہیں۔

    دینی مدارس کی بدنامی میں کچھ ہاتھ ہمارے اپنے لوگوں کا بھی ہے لہٰذا اس سلسلے میں ہمیں بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ علماء دین کی ذمہ داری بڑی ہے اور علماء کی رائے دینی مسائل میں بہت نپی تلی ہوتی ہے مگر اس بات کو قبول کرنے میں کسی تردد نہیں ہونا چاہئے کہ کچھ عالم نما جاہل بھی ہمارے بیچ ہیں جو اسلام کی غلظ تشریح کرتے ہیں یا بعض لوگ دینی مدرسوںکے نام پر شکم پروری کا دھندہ کرتے ہیں ۔ یہ وہ معاملہ ہے جس پر خود مسلمانوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 489