donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Gujrat Dange Ke Sach Par Ab Tak Parda Dalne Ki Koshish Jari Hai


گجرات دنگوں کے سچ پر اب تک پردہ ڈالنے کی کوشش جاری ہے

نانا وتی کمیشن نے جانچ کیا یا پردہ پوشی؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    ناناوتی کمیشن سے کیا امیدیں وابستہ کی جائیں؟ اس قسم کے کمیشن کس لئے بنائے جاتے ہیں؟ کیا کمیشن بنانے سے کبھی مظلوموں کو انصاف ملا ہے؟ کیا کسی کمیشن کی رپورٹ کو کبھی عمل میں لایا گیا ہے؟ کسی جانچ رپورٹ کے مطابق کارروائی کی گئی ہے؟ گجرات دنگوں کی جانچ کے لئے قائم جسٹس ناناوتی کمیشن کی رپورٹ سے کیا امیدیں وابستہ کی جائیں جب کہ آج تک کسی بھی کمیشن کی سفارشات کو عمل میں نہیں لایا گیا۔حال ہی میں جسٹس ناناوتی کمیشن نے گجرات کے ۲۰۰۲ء کے فسادات پر اپنی رپورٹ وزیر اعلیٰ آنندی بین پٹیل کو سونپ دی ہے ۔ انھوں نے ۱۲سال سے زیادہ کا وقت اس جانچ کے لئے لیا اور ۲۴ بار اس کی مدت کار میں اضافہ کیا گیا۔ اس بار اس کی میعاد اکتوبر میں ختم ہوچکی ہے مگر جسٹس نانا وتی کا کہنا تھا کہ اب وہ پچیسیوں بار وقت نہیں طلب کرینگے ، کیونکہ جانچ مکمل ہوچکی ہے اور اس کی پرنٹنگ کا کام چل رہا ہے۔ اس کمیشن کا قیام گودھرا ٹرین آتشزدگی واقعہ کے بعد ۳مارچ کو عمل میں آیا تھا، جبکہ ٹرین میں آگ لگنے کا واقعہ ۲۷فروری ۲۰۰۲ء کو ہوا تھا۔ اس کمیشن کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ کارسیوکوں کو اجودھیا سے لے کر آرہی سابرمتی اکسپریس میں آگ کیسے لگی تھی اور اس کے اسباب کیا تھے؟ حالانکہ اس کے بعد پورے گجرات میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے تھے لہٰذا کمیشن کی جانچ کا دائرہ بڑھا کے ان فسادات کی جانچ کو بھی اس میں شامل کردیا گیا۔ پہلے اس کمیشن میں جسٹس کے جی شاہ تھے ، مگر مئی ۲۰۰۲ میں ریاستی حکومت نے جسٹس جی ٹی ناناوتی کو اس کی ذمہ داری سونپ دی اور انھیں کو اس کا صدر مقرر کردیا۔ ۲۰۰۸ء میں جانچ کے دوران ہی جسٹس شاہ کا انتقال ہوگیا اور ان کی جگہ گجرات ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج اکشے مہتہ کو اس جانچ میں شامل کردیا گیا۔ اس کمیشن کی مدت کار میں ہر چھ مہینے میں اضافہ کیا گیا اور اس طرح سے ۲۴بار توسیع کی گئی۔ اب آخر کار یہ جانچ مکمل ہوگئی ہے اور گجرات کی وزیر اعلیٰ آنندی بین پٹیل کو جسٹس ناناوتی اور جسٹس اکشے مہتہ نے اپنی رپورٹ پیش کردی۔ حالانکہ اس جانچ کمیشن کی رپورٹ کا کسی کو انتظار نہیں تھا اور نہ ہی اس سے سچائی سامنے آنے کی کسی کو امید تھی، پھر بھی جمہوریت کی ایک رسم چلی آرہی ہے کہ جب دنگے ہوتے ہیں تو جانچ کا حکم بھی صادر کیا جاتا ہے۔ ایک کمیشن بنایا جاتا ہے، جو کچھ لوگوں سے بات چیت کرتا ہے، گواہیاں لیتا ہے، کچھ شواہد کی پڑتال کرتا ہے اور پھر اپنی رپورٹ دیتا ہے جسے سرکار سردخانے میں ڈال دیتی ہے ۔ ناناوتی کمیشن کی رپورٹ کو بھی اس کے علاوہ کسی دوسری نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ یہ رسم کانگریس دورحکومت میں شروع کی گئی تھی جو آج بھی جاری ہے اور اسے کسی بھی ایشو کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں مانا جاتا۔

ذرا یاد کرو وہ لمحات

    گجرات کے مسلم کش فسادات ۲۰۰۲ء میں ہوئے تھے اور دوہزار سے زیادہ افراد کی موتیں ہوئی تھیں جن میں بیشتر مسلمان تھے۔ ان فسادات کا پیش خیمہ مانا جاتا ہے گودھرا ٹرین آتشزدگی معاملے کو، جہاں سابر متی اکسپریس کے ایس ۶ کوچ میں آگ لگی تھی اور بہت سے کارسیوک مر گئے تھے جو ادھیا سے کارسیوا میں حصہ لے کر واپس آرہے تھے۔ الزام تھا کہ اسٹیشن پر سامان فروخت کرنے والے مسلمان ہاکروں اور کچھ مقامی لوگوں نے کوچ میں آگ لگائی ہے اور یہ آگ باہر سے لگائی گئی ہے۔یہ خبر بہت تیزی سے گجرات میں پھیلی اور لاشیں لائی جانے لگیں تو پوری ریاست میں دنگے شروع ہوگئے۔ مسلمانوں پر منصوبہ بند طریقے سے حملے ہونے لگے اور انھیں زندہ جلایا جانے لگا۔ حالانکہ اب بھی یہ ثابت نہیں ہوسکا ہے کہ ٹرین کوچ میں باہر سے آگ لگی تھی اور مسلمانوںنے لگائی تھی۔ کیونکہ خود ریلوے نے اس سلسلے میں ایک جانچ کمیشن بنایا تھا، جس نے یہ رپورٹ دی تھی کہ کوچ میں باہر سے آگ نہیں لگائی گئی تھی بلکہ اندر سے ہی لگی تھی جو ممکن ہے کسی مسافر کی غلطی سے لگ گئی ہو۔ البتہ ناناوتی کمیشن کا ماننا ہے کہ یہ آگ باہر سے لگائی گئی تھی۔ ۲۰۰۸ء میں اس کمیشن کی جانچ کا ایک حصہ حکومت کو سونپا گیا تھا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ آگ منصوبہ بند سازش کے تحت لگائی گئی تھی اور باہر سے لگی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس سلسلے میں بہت سے مسلمانوں کو گرفتار بھی کیا گیا تھا اور ان پر مقدمے بھی چلے اور بیشتر کو سزائیں بھی سنائی جاچکی ہیں مگر اب معاملہ اوپری عدالت میں ہے۔ جس تیزی کے ساتھ گودھرا معاملے کی جانچ ہوئی ،مقدمے چلے اور قصور واروں کو سزائیں ملیں ،اس تیزی کے ساتھ گجرات فسادات کی جانچ نہیں ہوئی اور نہ ہی مجرموں کو سزائیں ملیں۔ جن لوگوں کو اب تک سزائیں سنائی گئی ہیں اورجن مقدموں میں انصاف ہوا ہے ،وہ بھی سپریم کورٹ کی مداخلت سے ہی ممکن ہوا ہے۔

جانچ کمیشن یا پردہ پوشی کمیشن؟

    بھارت میں جتنے بھی جا نچ کمیشن بنتے ہیں ان کا مقصد ہوتا ہے معاملے کو ٹھنڈے بستے میں ڈالنا۔ جب معاملہ تازہ ہوتا ہے اور سرکار مخالفین کی طرف سے دبائو رہتا ہے کہ حقائق سامنے لائے جائیں تو سرکار کمیشن قائم کردیتی ہے۔ اب تک کا رکارڈ رہا ہے کہ کسی جانچ کمیشن کی رپورٹ پر کاررائی نہیں کی گئی۔ جسٹس ناناوتی کمیشن کا مقصد واضح تھا اور کسی کو بھی امید نہیں تھی کہ یہ انصاف کرے گا اور حقائق سامنے لائے گا۔ اصل میں اس کا قیام ہی پردہ پوشی کے لئے کیا گیا تھا۔ ۲۰۰۲ء کے فسادات کے معاملے میں سیدھے طور پر تب کے گجرات کے وزیر اعلیٰ اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف انگلیاں اٹھ رہی تھیں۔ ان کے وزیروں، ممبران پارلیمنٹ و اسمبلی اور کارپوریٹروں کے خلاف فسادات کرانے اور فسادیوں کی پشت پناہی و قیادت کرنے کے الزامات لگ رہے تھے، پولس کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ وہ اپنی ذمہ داری نبھانے کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی اور سرکاری مشنری پوری طرح فیل ہوگئی تھی لہٰذا یہ لازم تھا کہ کسی غیرجانبدار ادارے سے تحقیقات کرانے کے بجائے ،کوئی اپنا متوازی جانچ دل پیش کردیا جائے جو سرکار کی زبان بولے ۔ اسی مقصد سے جسٹس ناناوتی کمشین کا قیام عمل میں آیا تھا۔ پہلے سے گودھرا آتشزدگی معاملے کی جانچ کرنی تھی مگر بعد میں اسی کو فسادات کی جانچ کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی۔ اسے وزیر اعلیٰ ، ان کے منتریوں ، سینئر حکام اور بھگوا تنظیموں کے رول کی جانچ کرنی تھی اور ان کے جرائم کی پردہ پوشی بھی کرنی تھی جو وہ کئی جگہوں پر کرتی ہوئی نظر بھی آئی۔ آج تک جن لوگوں کو بھی انصاف ملا ہے وہ کورٹ کی مداخلت سے ملا ہے ورنہ حکومت نے تو اپنے لوگوں کو بچانے کے تمام انتظامات کرلئے تھے۔ بارہا گواہوں کو توڑنے کی کوشش ہوئی، انھیں خریدا گیا یا ڈرا دھمکا کر گواہی سے باز رکھنے کی کوشش ہوئی۔ اگر گجرات دنگوں کی صحیح طور پر جانچ ہوتی تو اور بھی بہت سے لوگ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے اور جو لوگ اونچی کرسیوں پر آج بیٹھے نظر آرہے ہیں وہ تختۂ دار پر ہوتے۔حالانکہ گجرات کے مسلم کش فسادات، اس پہلو سے دوسرے فسادات سے الگ تھے کہ ان میں کچھ معاملوں میں انصاف ہوا اور مودی سرکار کی منتری تک کو سزا ہوئی۔

  اس جانچ رپورٹ سے کیا امید کریں؟

    گجرات کی مودی سرکار کو مسلم مخالف کہا جاتا تھااور اس پر مسلم کشی کے الزامات لگے۔ اب اس کے بنائے ہوئے جانچ کمیشن سے سچائی کو سامنے لانے کی امید نہیں کی جاسکتی تھی مگر اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں۔ تعجب تو اس میں ہے کہ اس ملک میں اب تک ہزاروں فسادات ہوئے ہیں جن میں بیشتر مسلم کش تھے اور کانگریس کے دور اقتدار میں ہوئے تھے۔ کچھ بڑے فسادات کے بعد جانچ کمیشن بھی بنائے گئے اور تفتیش پر کروڑوں روپئے خرچ کئے گئے۔ برسوں بعد جب جانچ رپورٹیں سامنے آئیں تو ان پر عمل درآمد کے بجائے سردخانے میں ڈال دیا گیا۔ ممبئی میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ۱۹۹۲ء میں جو فسادات ہوئے تھے، ان کی جانچ کے لئے سری کرشنا کمیشن قائم ہوا ۔ اس کمیشن نے ایک مدت تک جانچ پڑتال کے بعد اپنی رپورٹ پیش کردی، جس میں فسادات کے لئے شیوسینا، بی جے پی کے بہت سے لیڈروںکو قصور وار پایا گیا تھا۔ ان میں سے بعض لوگ بعد میں ریاست و مرکز میں وزیر بھی بنے۔ کچھ ان میں سے اب تک زندہ ہیں اور کچھ مرچکے ہیں مگرریاست کی کانگریس سرکار نے بھی اس رپورٹ پر عمل نہیں کیا جس نے کمیشن بنایا تھا۔ حالانکہ اس کے انتخابی منشور میں بھی اس پر عمل درآمد کی بات تھی۔ سینکڑوں افراد کی جانیں گئیں یا زخمی ہوئے ، کروڑوں کی جائیدا د کا نقصان ہوا مگر اس کے لئے ایک مجرم کو بھی سزا نہیں ہوئی بلکہ انعام کے طور پر ان میں سے کچھ لوگ اسمبلی میں پہنچے تو کچھ پارلیمنٹ میں گئے۔ کچھ منتری بنے تو سرکاری افسران کی ترقی بھی ہوئی۔ یہ سب بی جے پی کے دور میں نہیں ہوا بلکہ کانگریس کے دور میں ہوا۔ میرٹھ کے فسادات اپنی ہلاکت خیزی کے لحاظ سے کسی زمانے میں مشہور ہوئے تھے جب خود پی اے سی نے مسلم نوجوانوں کو لے جاکر نہر کے کنارے گولیاں ماردی تھیں، اسی طرح بہار کے بھاگلپور میں بھی مسلم کش فسادات ہوئے جہاں کئی سو مسلمانوں کو بہت بے رحمی سے قتل کیا گیا۔ پٹنہ سے قریب بہار شریف میں بھی فسادات ہوئے تھے اور اس سے پہلے بہار کے ہی جمشید پور میں بھی دنگے ہوئے تھے، ان سب میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھا مگر کسی معاملے میں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی اور مجرموں کو سزا نہیں دی گئی۔ ان بڑے فسادات کے علاوہ بھی ملک میں اب تک ہزاروں فسادات ہوچکے ہیں جن میں عموماً نشانے پر مسلمان ہی رہے مگر کسی بھی معاملے میں کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور جانچ رپورٹوں کو سردخانے میں ڈال دیا گیا۔ یہ سب کانگریس کے دور حکومت میں ہوا تھا مگر اس کے بعد راشٹریہ جنتادل اور جنتا دل (یو) کی سرکاریں بھی آئیں ۔ یوپی میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کی سرکاریں بنیں مگر کسی نے بھی مسلمانوں کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش نہیں کی۔ اب ناناوتی کمیشن کی رپورٹ سے کیا امید کریں جو اس لائق بھی نہیں کہ ٹشو پیپر کے طور پر استعمال کیا جائے۔  

رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 449