donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Halal Kiyon Hai Halala


حلا ل کیوں ہے ’’حلالہ‘‘؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    بات ہے۲۰۱۴ء کی ۔ میرے پڑوس میں ایک واقعہ رونما ہوا، حالانکہ میں سمجھ نہیں پارہا ہوں کہ اسے واقعہ کہنا چاہئے یا حادثہ یا پھرسانحہ۔ اسے اگر مسلم معاشرے کا المیہ کہا جائے تو بھی بے جا نہ ہوگا۔ بات یہ ہوئی کہ ایک نوجوان نے اپنی پچیس سالہ بیوی کو غصے میں آکر طلاق دے دی۔ ویسے ہی جیسے کہ عموماً مسلم خاندانوں میں سنا جاتا ہے، یعنی ایک سانس میں درجنوں طلاقیں۔ بغیر سوچے سمجھے اور بغیر اس کے انجام پر غور کئے۔یہ بھی نہیں سوچا کہ اس عورت کا کیا ہوگا جس نے اپنا سب کچھ چھوڑ کر اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا تھا؟

میں نے سونپی تھی تجھے آخری پونجی اپنی
چھوڑ آیا ہے مری ناؤ تہہِ آب کہاں؟

    اس جوڑے کے تین بچے بھی ہیں جو چند سال کی معیت کا نتیجہ ہیں۔ظاہر ہے جب شادی کو ہی ابھی زیادہ دن نہیں گذرے ہیں تو بچے بھی بہت چھوٹے ہونگے۔ اب مسئلہ اْن کی پرورش کا بھی تھا۔ ان کی دیکھ بھال اور اخراجات کی ذمہ داری قانونی اور مذہبی احکام کے مطابق شوہر کی بنتی ہے البتہ اگر عورت ان کی پرورش کرنا چاہے اور ان کی ذمہ داری خود اٹھانے کے لئے آگے آئے تو الگ بات ہے۔ باپ اگر تلاش معاش کے لئے گھر سے باہر جاتا ہے تو ماں ان کی دیکھ بھال کرتی ہے مگر جب والدین کے درمیان علاحدگی ہوگئی ہوتو بچوں کی دیکھ بھال اپنے آپ میں ایک مسئلہ ہے۔ خاص طور پر مڈل کلاس فیملی میں جہاں مالی حالت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ بچوں کی دیکھ ریکھ کے واسطے کسی ملازم کو رکھا جائے۔ بغیر سوچے سمجھے انسان اگر کوئی قدم اٹھا تا ہے تو اس کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے اور یہاں بھی وہی ہوا۔ اس قسم کے مسائل اکثرہندوستان کے مسلم معاشرے میں سامنے آتے ہیں اور طلاق دینے کے بعد پچھتاوا ہوتا ہے تو (حنفی)علماء کہتے ہیں کہ اب کوئی چارہ نہیں دونوں میاں بیوی کی حیثیت سے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ وہ ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہوگئے۔علماء کہتے ہیں کہ طلاق ایک پتھر کی طرح ہے اسے غصے میں پھینکو یا خوشی کے ساتھ رشتوں کی کانچ تو چکناچور ہوگی ہی۔

    بہرحال اس غصے کی طلاق ’’مغلظہ‘‘ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ اب پچھتائے کا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ رشتہ دار اور احباب کو پتہ چلا تو سب نے طلاق دینے والے شوہر نامدار کر برا بھلا کہنا شروع کیا اور معاملے کی سنگینی کا احساس دلایا۔ اب خود بھی آنجناب ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کی پوزیشن میں آچکے تھے لہٰذا علماء کے پاس گئے اورشرعی حل چاہا تو پتہ چلا سیدھے طور پر کوئی راستہ نہیں۔ البتہ اگر عورت نے اپنی مرضی سے کسی سے شادی کرلی اور وہاں سے بھی طلاق ہوگئی تو پھر پہلے مرد سے نکاح ہوسکتا ہے۔ اسے علماء کی اصطلاح میں ’’حلالہ‘‘ بھی کہاجاتا ہے جسے شرعی اعتبار سے ناپسندیدہ قرار دیا گیاہے۔ یہ ٹیڑھی کھیر تھی مگر اب اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ خیر رشتہ داروں نے مشورہ کیا اور ان کی زندگی کو حسب سابق کرنے کے لئے اسی ناپسندیدہ راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا گیا۔

لے جائیں مجھ کو مالِ غنیمت کے ساتھ عدو
تم نے تو ڈال دی ہے سپر تم کو اس سے کیا

    خیرایک پچپن سالہ شخص کی تلاش کی گئی جس کی پہلی بیوی کا انتقال ہوچکا تھا اور دوسری بیوی سے طلاق ہوچکی تھی۔طے یہ پایا کہ یہ شخص مطلقہ خاتون سے نکاح کرے اور ایک رات ساتھ گذارنے کے بعد صبح کو طلاق دیدے۔ وہ شخص بھی اس پر راضی ہوگیا اور دونوں کا نکاح ہوگیا۔ یہ سب کچھ خفیہ طور پر ہوا۔ مگر صبح کو اس شخص نے طلاق دینے میں آنا کانی کرنی شروع کردی۔ اس نکاح کو چند مہینے گذرنے کے بعد اس نے طلاق نہیں دیا۔ وہ شخص اپنی منکوحہ کو بار بار فون کرکے اس وعدے کے ساتھ بلاتا کہ بس ایک رات کے بعد طلاق دے دے گا پھر وہ اپنے سابق شوہر کے ساتھ نکاح کر سکے گی ۔ یہ سلسلہ اتنا دراز ہوا کہ خاتون کو اس کے وعدے پر بھی بھروسہ نہیں رہا۔

ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

    اب سوال یہ ہے کہ اِس سانحے کے لئے کون ذمہ دار ہے،صرف ایک شخص کاغصہ، ہمارا سماج یا ’’شرعی‘‘ اصول؟ویسے ذمہ دار خواہ کوئی ہو مگرہمیں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ اس پورے معاملے میں مظالم کا شکار ایک عورت ہی ہوئی ہے،جو صدیوں سے مظالم سہتی آئی ہے۔ اس کی مرضی کو کسی معاملے میں دخل دینے کی اجازت نہیں دی گئی ،اس کے ساتھ جو بھی ہوا دوسروں نے کیا وہ تو بس اسے اپنا مقدر سمجھ کر قبول کرتی رہی۔

قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو تمہارا ہو

    ہم شریعت اسلامی کو تو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہراسکتے ، کیونکہ اسلام نے نکاح اور طلاق کے سادہ دستور بنائے ہیں۔ طلاق کو بدرجہ مجبوری جائزرکھا گیا ہے اور اسے بہت سوچ سمجھ کر استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اب اگر اس کا بغیر سوچے سمجھے استعمال کیا جائے تو ظاہر ہے ایسے ہی حالات سامنے آئیں گے۔ یہاں ایک اور پہلو قابل غور ہے ،وہ یہ ہے ایک مجلس میں تین طلاق کا مسئلہ۔ علماء میں اس بات پر اختلاف رہاہے کہ ایک وقت میں دی گئیں تین طلاقوں میں تین نافذ ہوتی ہیں یا ایک؟ ہندوستان کے عام علماء کے مطابق تین کی تین ہوجاتی ہیں اور بیوی نکاح سے نکل جاتی ہے۔ حالانکہ علماء کا ایک طبقہ مانتا ہے کہ ایک طلاق ہوتی ہے اور شوہر کو اختیار رہتا ہے کہ وہ واپسی کرلے اور اپنی بیوی کے ساتھ حسب سابق رہنے لگے، البتہ اب اسے صرف دو طلاقوں کا ہی اختیار رہے گا۔اسی مسئلے کواہل حدیث اور فقہ جعفریہ پر عمل کرنے والے اپنائے ہوئے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ چاروں فقہی مسالک میں تین طلاق کو تین ماناگیا ہے البتہ ابن تیمیہ اور ابن قیم نے سب سے پہلے  ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک مانا تھا، حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ ہردور میں علماء کا ایک طبقہ اس نظریے کا قائل رہا ہے۔   قرآن کریم میں ایک ساتھ تین طلاق دینے کا مسئلہ نہیں ہے جب کہ احادیث کے اندر یہ اختلافی مسئلہ ہے ،ایسا لگتا ہے کہ عہدنبوی میں الگ الگ مواقع پر، صورتحال کے مطابق الگ الگ احکام جاری ہوئے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہندوستانی علماء بھی اگر اس تحقیق کو قبول کرلیں تو مذکورہ بالا واقعے جیسے واقعات نہیں ہونگے اور بہت سے گھروں کو ٹوٹنے سے بچایا جاسکتاہے۔ یہاں سوال قرآن کے حکم کو چھوڑنے کا نہیں ہے بلکہ بعض علماء کے اجتہاد کو چھوڑ کر بعض دیگر فقہاء کے اجتہاد کو اپنانے کا ہے۔

    ان دنوں ایک مجلس کی تین طلاق اور اس کے مضر اثرات موضوع بحث ہیں اور اسے بہانہ بناکرحکومت کی جانب سے شریعت میں مداخلت کو جائز ثابت کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ بات صرف یہیں تک محددو نہیں ہے بلکہ حکومت اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے میں بھی لگی ہوئی ہے،نیز بعض مسلم تنظیموں کے اراکین نے بھی اس ایشو کو پارلیمنٹ اور اسمبلی میں پہنچنے کا زینہ بنانا شروع کردیا ہے، ایسے میں غیر سیاسی علماء کو زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ ہم اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ طلاق خود ایک مسئلہ ہے اور اگر ایک ساتھ تین طلاق دے دی جائے تو یہ بڑے مسائل کو جنم دیتی ہے اور ہمارے علماء کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ اگر مسئلے کو ہم خود اپنے گھر میں حل کرلیں تو کورٹ یا حکومت کو مداخلت کی ضرورت ہی کیوں پڑے اور کسی عورت کا استحصال کیوں ہو؟ ’’حلالہ‘‘ اسلام کے مزاج اور عورت کے احترام کے خلاف ہے؟ یہ سراسر عورت کا استحصال اور مردوں کی بے شرمی کا اظہار ہے۔اس پر شرعی نقطہ نگاہ سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے جسے انسانوں کی بھلائی کے لئے اتارا گیا ہے۔ یہ مسائل کے حل کے لئے آیا ہے نہ کہ مسائل کو جنم دینے کے لئے۔ قرآن اور سیرت نبوی میں تمام انسانی مسائل کا حل موجودہے۔ یقینا طلاق اور مطلقہ سے متعلق مسائل کا حل بھی اسلام میں موجود ہے مگر ہماری تنگ نظری کئی جگہ ہمیں حل کی جانب جانے سے روک دیتی ہے اور مسائل پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ آج ہمیں وسیع النظری کے ساتھ اسلامی احکام پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔اسلام پر صحیح طریقے سے عمل کرنے سے مسائل پیدا نہیں ہونگے بلکہ کو جو مسائل پیدا ہوتے ہیں وہ اسلامی احکام کو چھوڑنے کے سبب پیدا ہوتے ہیں۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1028