donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Hamid Ansari Ki Haq Goyi Se RSS Ko Mirchen Kiyon Lagi


حامد انصاری کی حق گوئی سے آرایس ایس کو مرچیں کیوں لگیں؟


تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی


    اب آرایس ایس کے نشانے پر نائب صدر حامد انصاری آگئے ہیں۔ آرایس ایس کے ترجمان میگزین ’’پانج جنیہ‘‘ میں ان کے خلاف ایک مضمون چھپا ہے جس میں انھیں فرقہ پرست مسلم لیڈر بتایا گیا ہے۔نائب صدر جمہوریہ کو اس لئے سنگھ کا نشانہ بننا پڑا کہ انھوں نے اپنی ایک تقریر میں مسلمانوں کی پسماندگی کو ختم کرنے کی وکالت کی تھی اور ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘نعرہ کو عمل میں لانے کی بات کہی تھی۔آرایس ایس کی نکتہ چینی نے صاف کردیا ہے کہ مسلمانوں کو ہندوستان مساوی درجہ دیئے جانے کی وکالت بھی بھگواوادیوں کو گوارا نہیں ہے۔حامد انصاری کی تقریر کچھ دن قبل ہوئی تھی جس کے بعد سے سیاست چل رہی ہے اور سنگھ پریوار کی طرف سے انھیں مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس سے قبل وشوہندوپریشد کی طرف سے بھی انھیں نشانہ بنایا گیا تھا۔ اب یہ سوال اٹھنے لگاہے کہ کیا ہندوستان میں مسلمانوں کے مساوی حق کی بات کرنا بھی جرم ہوگیا ہے؟ کیا مسلمانوں کو اپنے ساتھ ہورہی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کا بھی حق نہیں ہے؟ کیا انھیں اوپر ہورہے مظالم پر آہ کر نے کی بھی اجازت نہیں ہے؟ کیا مسلمانوں کو اس ملک میں اپنے لئے دوسرے نمبر کے شہری کا درجہ قبول کرلینا چاہئے؟ حامد انصاری نے مسلمانوں کے حق کے تعلق سے حق گوئی کیا کردی کہ تمام فرقہ پرست قوتوں کو مرچیں لگ گئیں اور وہ ہاتھ دھوکر ان کے پیچھے پڑ گئی ہیں۔ ایسا لگتاہے کہ نائب صدر نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔ حامد انصاری کے خلاف وہی لوگ آواز اٹھا رہے ہیں جو ماضی میں  فرقہ پرستی کا ننگا ناچ ناچتے رہے ہیں اور یہاں کے عوام کو دھرم کے نام پر بانٹ کا اپنا سیاسی الو سیدھا کرتے رہے ہیں۔ وہ جماعتیں جو ماضی میں مسجد ۔مندر تنازعہ کو ہوا دیتی رہی ہیں، ملک بھر میں دنگے کراتی رہی ہیں اور جن کے ڈی این اے میں ہی خون خرابہ ہے، اگر نائب صدر کے بیان پر سیاست شروع کردیں اور انھیں مطعون کریں تو اس میں کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ نائب صدر نے صرف یہی بات کہی تھی کہ اس ملک میں پہلے سے جاری ناانصافی کو ختم کرنا چاہئے،جو وشو ہندو پریشد کو ناگوار گذری۔   

نائب صدر کی حق بیانی

    نائب صدر کی وہ تقریر جس کو خواہ مخواہ متنازع بنا دیا گیا ،وہ کل ہند مجلس مشاورت کی گولڈن جبلی تقریبات میں کی گئی تھی۔اس تقریر کے دوران نائب صدر حامد انصاری نے حکومت سے کہا کہ وہ مسلم سماج سے امتیازی سلوک کی غلطی سدھارنے کی کوشش کرے۔ نائب صدر نے کہا کہ مسلمانوں کی حفاظت اور شناخت کے لئے مثبت قدم اٹھائے جائیں تاکہ یہ کمیونٹی حکومت کے اصل مقصد ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کے ساتھ آگے بڑھ سکے۔مسلم تنظیم آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی گولڈن جوبلی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نائب صدر نے کہا کہ بھارتی مسلمانوں کو اپنی شناخت، سیکورٹی، تعلیم اور بااختیار بنانے کے تعلق سے مسئلہ درپیش ہے۔ حکومت کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہئے اور اسے دور کرنے کے لئے مثبت اقدامات کرنے چاہئیں۔نائب صدر حامد انصاری نے کہا کہ جہاں تک مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا سوال ہے تو حکومت یا اس کے ذمہ داروں کی بھول حکومت کو جلد سے جلد سدھارنی چاہیے۔اس کے لئے مناسب انتظام کیا جانا چا ہئے۔ نائب صدر نے کہا کہ بااختیار بنانے، سرکاری املاک میں یکساں حصہ اور فیصلہ سازی کے عمل میں منصفانہ حصہ جیسے مسائل کو حل کرنے کے لئے حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر انصاری نے کہا کہ مرکزی حکومت کو مسلمانوں کے ساتھ ہو رہے تعصب کو دور کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ملک میں مسلمانوں کا بڑا طبقہ اب بھی پسماندہ ہے۔ ان کی ترقی کے بہت سے منصوبے تو بنے، لیکن اب اس پر عمل بھی ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کو ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کے تحت مسلمانوں کی شناخت اور سیکورٹی سے متعلق مسائل کے حل کے لئے مثبت اقدام کرنا چاہئے۔نائب صدر حامد انصاری کے مطابق سچر کمیٹی جیسی کئی سرکاری رپورٹوں سے یہ ثابت ہوا ہے کہ مسلمانوں کی حالت ایس ایس ٹی سے بھی بری ہے۔ حکومت کا ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کا نعرہ اچھا نعرہ ہے، لیکن یہ تبھی مکمل ہو گا جب مسلمانوں کی ترقی کے لیے بھی کام کیا جائے ۔

وی ایچ پی کی سیاست

    وشو ہندو پریشد نے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ختم کرنے سے متعلق نائب صدر ڈاکٹر حامد انصاری کے بیان کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ملک کے عوام سے معافی مانگنی چاہئے یا پھر استعفیٰ دینے کے بعد کھل کر سیاست میں اترنا چاہئے۔وی ایچ پی کے جوائنٹ سکریٹری ڈاکٹر سریندر جین نے کہا کہ ڈاکٹر انصاری نے جو بیان دیا ہے وہ نائب صدر کا نہیں بلکہ سیاسی مسلم لیڈر کا بیان ہے۔انہوں نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا ہے۔انہوں نے کہا، ہم نائب صدر کے عہدے کا مکمل احترام کرتے ہیں لیکن ان کے فرقہ وارانہ بیان کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ انہیں اس کے لئے ملک کے عوام سے معافی مانگنی چاہئے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو انہیں استعفی دے کر سیاست میں اترنا چاہئے۔ڈاکٹر جین نے کہا کہ نائب صدر کو بتانا چاہئے کہ کانگریس کے 60 سال کے دور میں مسلمانوں کے ساتھ کون کون سے امتیازی سلوک کئے گئے ہیں، جنہیں وہ مودی حکومت سے دور کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔ بھارت میں مسلم کمیونٹی کو جتنے حقوق حاصل ہیں اتنے ہندوؤں کو بھی نہیں ہیں۔ کسی بھی مسلم ملک کے شہریوں کو اتنے حقوق حاصل نہیں ہیں جتنے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو۔وی ایچ پی لیڈر نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ڈاکٹر انصاری بھارت کے مسلم معاشرے کو عدم اطمینان کی اندھی گلی میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ آئین میں موجود ہونے کے باوجود ملک میں تبدیلی مذہب اور گوہتیا پر پابندی نہیں ہے۔ مسلم طلباء  کے لئے کروڑوں روپے کی اسکالر شپ اور رعایتی شرح پر قرض کی سہولت دستیاب ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سو سال سے بھارت کی سیاست مسلمانوں کے ارد گرد گھوم رہی ہے۔ ان کو خوش کرنے کے لئے ملک کی تقسیم کو قبول کیا گیا۔ اب ڈاکٹر انصاری مسلمانوں کے لئے ہندوؤں سے اور کیا قربانی چاہتے ہیں؟ وہ اپنے عہدے کا غلط استعمال کر سیاست کر رہے ہیں۔اگر انہیں سیاست ہی کرنی ہے تو نائب صدر کا عہدہ چھوڑ ، کھل کر سیاست میں آنا چاہئے۔

مسلم تنظیموں کا جوابی حملہ

    نائب صدر حامد انصاری کی تنقید کرنے کے لئے وشو ہندو پریشد پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کچھ مسلم تنظیموں کے رہنماؤں نے کہا کہ اس سے اس کی فرقہ وارانہ سوچ اور بھارتی آئین کے احترام کا فقدان جھلکتا ہے۔ان لیڈروں نے انصاری کی اس تبصرے کا دفاع کیا جس میں انہوں نے مسلم کمیونٹی کی مدد کے لئے مثبت قدم اٹھائے جانے کی بات کہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ انصاری کا بیان حکومت کی پالیسیوں کے دائرے میں آتا ہے۔جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری جنرل محمد سلیم انجینئر نے کہا، وہ کس طرح کے لوگ ہیںیہ پورا ملک جانتا ہے ۔ وہ بھارتی آئین کا کتنا احترام کرتے ہیں اور اقلیتوں کے تئیں ان کے کیا جذبات ہیں؟ ا س کا علم سب کو ہے۔ وی ایچ پی کی جانب سے اس طرح کا جواب غیر متوقع نہیں ہے اور اس سے اس کی فرقہ وارانہ سوچ جھلکتی ہے۔انجینئر نے کہا، ان کا اتنا بڑا دل نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کو یکساں شہری کے طور پر قبول کریں ۔ اسی کے ساتھ وہ نائب صدر کے آئینی عہدے کا احترام بھی نہیں کر رہے ہیں۔جماعت اسلامی ہند کی سیاسی ونگ ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر سید قاسم رسول الیاس نے وی ایچ پی کے ردعمل کو غیر ضروری قرار دیا۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ انصاری کا بیان آئین اور حکومت کی پالیسیوں کے تحت تھا۔ ایک طرف بی جے پی اور وی ایچ پی انصاری پر نشانہ سادھ رہی ہیں وہیں دوسری طرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ لیڈر حامد انصاری کی حمایت میںسامنے آئے ہیں۔طلبہ یونین لیڈر شہزاد عالم برنی نے ’’آئی سپورٹ حامد انصاری‘‘مہم سوشل میڈیا پر چلا یا ہے۔برنی کا کہنا ہے کہ حامد انصاری نے جو کچھ بھی کہا ہے وہ قومی مفاد میں ہے اور کوئی بھی قوم ایک کمیونٹی خاص کو پیچھے رک کر آگے نہیں بڑ ھ سکتی۔

یہ تقریر کس کے خلاف تھی؟

    نائب صدر حامد انصاری کے بیان پر تنازعہ غیر ضروری تھا مگر پھر بھی شروع ہوگیا۔ ان کے بیان کو غور سے دیکھیں تو احساس ہوتا ہے کہ نشانے پر بی جے پی حکومت نہیں بلکہ کانگریس کی سابقہ حکومت ہے۔ اصل میں مسلمانوں کا پچھڑاپن ایک دن کی بات نہیں ہے بلکہ آزادی کے لگ بھگ ۷۰برسوں میں آیا ہے جس کے لئے اگر اس ملک پرسب سے زیاہ راج کرنے والی کانگریس ذمہ دار ہے تو دوسری ’’سیکولر‘‘ پارٹیاں بھی قصوروار ہیں جو ان کے ووٹ پر اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہیں مگر ان کی طرف کبھی مڑکر نہیں دیکھا۔کانگریس سے عاجز مسلمانوں نے کبھی جنتا پارٹی اور جنتادل کو ساتھ دیا تو ریاستوں میں وہ ملائم سنگھ یادو، لالو پرساد یادو، نتیش کمار، ممتابنرجی اور لیفٹ پارٹیوں کے ساتھ گئے مگر یہاں بھی سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ ان حالات کے لئے خود مسلمان بھی کم ذمہ دار نہیں جو بغیر کسی روڈ میپ کے آج تک رہ رہے ہیں اور جو کام وہ خود اپنے بل بوتے پر کر سکتے تھے اس سے بھی غافل رہے۔انھوں نے کبھی اپنے ملی مفادات کو پیش نظر نہیں رکھا اور رائج الوقت سیاسی پارٹیوں کی ٹھوکروں میں گیند بنے رہے۔لازمی طور پر مسلمانوںکے حالات تشویشناک ہیں اور وہ دن بدن پسماندگی کے اندھیرے غاروں میں گرتے جارہے ہیں مگر اس سے باہر آنے کے لئے حکومت پر انحصار کے بجائے انھیں خود بھی جدوجہد کرنی ہوگی۔مودی سرکار ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے ایسے میں اگر مسلمانوں نے اس کے نعرے پر بھروسہ کرلیا تو فطری بات ہے، لیکن اس قسم کے نعرے صرف حکومت میں آنے کے لئے ہوتے ہیں، اس سچائی کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔یہ بھی درست ہے کہ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو احساس جس کو آپ اپنی حالت بدلنے کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 471