donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   High School Fail Wazeer Taleem : Bharat Me hi Mumkin Hai


ہائی اسکول فیل وزیر تعلیم،بھارت میں ہی ممکن ہے


کیا اسمرتی ایرانی کی قربانی کے لئے تیار ہیںنریندر مودی؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


     کانگریس اور عام آدمی پارٹی اسمرتی ایرانی کا استعفٰی لینے میں کامیاب ہوجائیںگی؟ کیا اسمرتی کے بہانے نریندر مودی کی گھیرابندی کی تیاری چل رہی ہے؟ کیا وہ مودی کا بینہ کی پہلی وزیر ہونگی جس کا استعفٰی لیا جائے گا؟ کیا اس سے اپوزیشن کا حوصلہ بلند نہیں ہوجائے گا؟کیا اسمرتی کے استعفے سے سشما سوراج ،وسندھرا راجے اور پنکجا منڈے کے استعفیٰ کے لئے حکومت پر دبائو نہیں پڑے گا؟جی ہاں ان سوالوں کی سنجیدگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر اب بھاجپا سرکار کے پھنسنے کے دن آگئے ہیں اور جس قسم کے ایشوز پر وہ یوپی اے سرکار کو گھیرتی تھی اور پارلیمنٹ نہیں چلنے دیتی تھی ،آج اسی کے راستے پر کانگریس بھی چل پڑی ہے اور اسے گھیرنے میں لگی ہے۔وزیر برائے فروغ انسانی وسائل اسمرتی ایرانی کے تعلیمی لیاقت کے معاملے میں مختلف حلف ناموں کو دلی کی ایک کورٹ نے قابل سماعت معاملہ مانا ہے اور اس سلسلے میں آگے کورٹ کا خواہ جو فیصلہ ہو مگر یہ ایک سیاسی ایشو بن گیا ہے۔مودی حکومت کے لئے پہلے ہی سے للت مودی سے جڑے ہوئے معاملے درد سر بنے ہوئے تھے اور ایک طرف وزیر خارجہ سشما سوراج کے استعفیٰ پر اپوزیشن جماعتیں اڑی ہوئی ہیں تو دوسری طرف راجستھان کی وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا کے استعفیٰ کے لئے بھی کانگریس نے آندولن شروع کردیا ہے۔ ایسے میں اسمرتی ایرانی کے معاملے نے اگر طول پکڑا تو یہ صرف مرکزی سرکار نہیں بلکہ خود وزیر اعظم نریندر مودی کے لئے بھی ایک مشکل گھڑی ہوگی کیونکہ اسمرتی ایرانی مودی کی انتہائی قریبی ہیں ۔اسی وجہ سے انھیں اتنی اہم وزارت بھی ملی ہے۔ وہ جس معاملے میں گھری ہیں ،اگر جرم ثابت ہوگیا تو معمولی طور پر جرمانہ ہوگا مگر اس سے بہت زیادہ بدنامی سرکار کی ہوچکی ہوگی۔ان کے سبب ان کی پوری پارٹی، سنگھ پریوار اور مرکزی سرکار کی ساکھ دائو پر ہے۔ کانگریس اس ایشو پر پارلیمنٹ کے آئندہ سشن کو ڈسٹرب کرے گی جس میں کئی اہم بل پاس کرانے کا مودی سرکار نے پروگرام بنا رکھا ہے۔

 کیا ہے اسمرتی ڈگری تنازعہ

    اسمرتی ایرانی کے خلاف شکایت ہے کہ انہوں نے گزشتہ 11 سال میں الیکشن کمیشن کو دیئے تین حلف ناموں میں اپنی ایجوکیشن کے بارے میں غلط معلومات دی۔ انھوں نے الگ الگ حلف ناموں میں الگ الگ تعلیمی لیاقت بتائی ہے۔ان میں سے درست کونسی ہے، کوئی نہیں جانتا۔دہلی کی عدالت میں عرضی پیش کرنے والے شخص کے مطابق، ایرانی نے لوک سبھا انتخابات اور راجیہ سبھا انتخابات کے لئے نامزدگی کے کاغذات میں اپنی تعلیمی لیاقت کے بارے میں الگ الگ جانکاریاں دی ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ 24 جون کو دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ یہ معاملہ سماعت کے لائق ہے۔حالانکہ ان کے مخالفین دعوے کرتے ہیں کہ اسمرتی ایرانی جو کہ ملک کی وزیر تعلیم بھی ہیں ہائی اسکول فیل ہیں مگر انھوں نے اپنے پرانے حلف نامے میں کہا تھا کہ ان کی اعلیٰ تعلیمی لیاقت بی کام ہے، جب کہ دوسرے میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ بی اے فرسٹ ایئر تک تعلیم یافتہ ہیں۔

اسمرتی کی ڈگری پر سیاست گرم

     اسمرتی ایرانی کے ڈگری تنازعہ میں عدالت کی سماعت کے بعد سیاست گرمانے لگی ہے۔ ایرانی کے خلاف تعلیمی قابلیت کے معاملے کو پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے جیسے ہی سماعت کے قابل سمجھا، کانگریس نے فوراً وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کے عہدے سے ان کا استعفی مانگ لیا۔کانگریس کے سینئر ترجمان شکیل احمد کا کہنا ہے کہ اگر ایرانی خود استعفی نہیں دیتی ہیں تو یہ وزیر اعظم نریندر مودی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کو فوری طور پر عہدے سے ہٹائیں۔

    کانگریس پہلے بھی اس معاملے کو اٹھاتی رہی ہے، لیکن کورٹ میں سماعت منظور ہو جانے کے بعد کانگریس کو اور طاقت مل گئی ہے۔کانگریس کا کہنا ہے کہ جس طرح کیجریوال حکومت میں وزیر قانون رہے جتیندر تومر پر فرضی ڈگری کے معاملے میں قانونی کارروائی چل رہی ہے، ویسے ہی ایرانی کے خلاف بھی چلنی چاہئے۔پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس 21 جولائی کوشروع ہو رہا ہے جب کہ اسمرتی ڈگری کیس کی اگلی سماعت عدالت نے 28 اگست کو طے کی ہے۔ظاہر ہے کانگریس پارلیمنٹ میں اس معاملے پر ہنگامہ کرے گی۔دوسری طرف عام آدمی پارٹی کی طرف سے ان کے استعفے کے لئے دبائو بنایا جارہا ہے جس کی دلی حکومت میں وزیر قانون جتیندر تومر کو مرکزی حکومت کے حکم پر گرفتار کیا گیاتھا اور فرضی ڈگری معاملے میں تفتیش کے لئے پولس کی حراست میں رکھا گیا تھا۔وہ اب جتیندر تومر کا بدلہ لینا چاہتی ہے۔عام آدمی پارٹی کے لیڈر آشوتوش نے کہا کہ وزیر اعظم ٹویٹ کرتے رہتے ہیں لیکن ان مسائل پر کیوں خاموش ہیں؟آج بی جے پی کے چار سینئر لیڈر سوالوں کے گھیرے میں ہیں۔ سشما سوراج ایک وقت وزیر اعظم کے عہدے کی ممکنہ امیدوار تھیں، اسمرتی ایرانی مودی کابینہ میں اہمیت کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر آتی ہیں، وسندھرا راجے نے گزشتہ انتخابات میں تین چوتھائی اکثریت حاصل کیا تھا جبکہ پنکجا منڈے وزیر اعلی (مہاراشٹر) کے عہدے کی دوڑ میں تھیں۔ادھر’’آپ‘‘ کی دہلی یونٹ کے کوآرڈینیٹر دلیپ پانڈے نے کہا کہ بی جے پی نے اگر ان لیڈروں کے خلاف کارروائی نہیں کی تو پارٹی ملک گیر تحریک چلائے گی۔

اسمرتی ایرانی استعفیٰ دو

    کانگریس اور عام آدمی پارٹی کی طرف سے اسمرتی ایرانی پر حملہ جاری ہے۔اگر ایک پارٹی نے ان کے گھر کے سامنے مظاہرہ کیا تو دوسری پارٹی نے جنتر منتر پر احتجاج کرکے ان کے استعفے کی مانگ کی۔کانگریس اور عام آدمی پارٹی کی طرف سے اسمرتی ایرانی کے استعفے کے لئے دبائو ہے ۔دہلی پردیش کانگریس کمیٹی نے مرکزی انسانی وسائل کی ترقی کی وزیر اسمرتی ایرانی کے استعفی کی مانگ کو لے کر مظاہرہ کیا.۔پردیش کانگریس صدر اجے ماکن کی قیادت میں جنتر منتر پر بڑی تعداد میں کانگریس کارکنوں نے ایرانی کے استعفی کی مانگ کو لے کر نعرے بازی کی۔ مظاہرین میں پردیش کانگریس کی ترجمان اور صدر جمہوریہ کی بیٹی شرمشٹھا مکھرجی، سابق ایم پی مہابل مشراوغیرہ شامل تھے۔اجے ماکن نے اس موقع پر کہا کہ نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت اخلاقیات اور شفافیت کے بڑے بڑے دعوے کرتی ہے، لیکن جب اپنی پارٹی کے لیڈر گھوٹالوں میں پھنستے جا رہے ہیں، تو اس کی اخلاقیات کہاں گئی؟انہوں نے کہا کہ ایرانی کے خلاف عدالت میں سماعت کے لئے درخواست قبول کئے جانے کے بعد عہدے پر بنے رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ جب تک وہ استعفیٰ نہیں دیتیں کانگریس اپنا احتجاج جاری رکھے گی۔ماکن نے کہا کہ ایرانی کے وزیر بنے رہنے تک ان کے خلاف تحقیقات کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا ہے، کیونکہ وہ عہدے پر رہ کر تحقیقات کو متاثر کر سکتی ہیںلہذا انہیں فوری طور پر اپنے عہدے سے استعفی دے دینا چاہئے۔اس موقع پر مظاہرین ’’دھوکہ ہے بے ایمانی ہے، فرضی اسمرتی ایرانی ہے‘‘،’’اسمرتی ایرانی استعفیٰ دو‘‘ ’’اسمرتی ایرانی کا کالا کارنامہ جھوٹا حلف نامہ جھوٹا حلف نامہ‘‘جیسے نعرے لگا رہے تھے۔

مودی کی خاموشی پر سوال

    دہلی میں حکمران عام آدمی پارٹی (آپ) نے اسمرتی ایرانی کی تعلیمی قابلیت کو لے کر اٹھے سوالوں کے درمیان خبردار کیا کہ اگر انہوں نے فوری طور پر استعفیٰ نہیں دیا، تو ان کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے کئے جائیں گے۔دہلی کے وزیر اعلیٰ نے تودہلی اسمبلی میں ہی استعفے کی مانگ کردی۔دوسری طرف ان کی پارٹی نے مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والی حکومت پر حملہ تیز کرتے ہوئے اسمرتی اور دیگر متنازعہ مسائل پر خاموشی اختیار کرنے کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی کو ’’منموہن سنگھ پارٹ ۔۲‘‘ تک کہہ دیا۔’’آپ‘‘ نے بی جے پی کی قیادت کے سامنے متنازعہ مسائل میں پارٹی کی خاتون رہنماؤں کی شرکت کو لے کر سوال اٹھائے ہیں۔ ’’آپ‘‘ نے کہا کہ مودی ایک مضبوط لیڈر ہونے کا دعوی کرتے ہیں، لیکن ان کی خاموشی ان کو’’منموہن سنگھ پارٹ 2‘‘ بناتی ہے۔’’آپ‘‘ کے لیڈر آشوتوش نے کہا کہ اسمرتی ایرانی کو بھی جتیندر تومر (دہلی کے سابق وزیر قانون) کی طرح استعفیٰ دے دینا چاہئے۔

اسمرتی کو لالو کا سہارا

    مودی حکومت مکی وزیر اسمرتی ایرانی کی ڈگری پر اٹھ رہے سوالوں کے درمیان آر جے ڈی صدر لالو پرساد یادوان کے بچاؤ میں آئے ہیں۔ پٹنہ میں لالو نے ان کے دفاع میں کہا، ڈگری فرضی ہو سکتی ہے، لیکن وہ (ایرانی) نہیں۔ہمیں ڈگری سے کیا مطلب؟ ایرانی اصلی ہیں۔ وہ ایک عورت ہیں۔ انہوں نے ’’ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘ جیسے ٹی وی سیریل میں کام کیا ہے۔ وہ میری بڑی عزت کرتی ہیں۔غور طلب ہے کہ لالو پرساد یادو کی پارٹی یوپی اے کا حصہ ہے اور بہار میں ان کا مقابلہ بی جے پی کے ساتھ ہورہا ہے۔

اگر جرم ثابت ہوا تو۔۔

    اگر اسمرتی ایرانی پر جھوٹے حلف نامے کا جرم ثابت ہوگیاتوکیا الیکشن کمیشن ان کی پارلیمنٹ کی ممبرشپ کو رد کرسکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پر جرمانے سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔ بھلے ہی یہ پارٹیاں اس معاملے کو عوام میں لے جاکر اس کا سیاسی فائدہ اٹھا لیں۔سابق الیکشن افسر کے جے رائو کہتے ہیں کہ اسمرتی ایرانی کا معاملہ کوئی سنگین معاملہ نہیں ہے، بلکہ انتخابات میں غلط حلف نامے کے معاملے بڑی تعداد میں سامنے آتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کو حق نہیں ہونے سے اس طرح کے معاملات میں کوئی بڑی کارروائی نہیں ہو پاتی۔ اس سابق الیکشن افسر کاکہنا ہے کہ قانون ایسا ہو جس میں غلط حلف نامے والے شخص کے انتخابات کو منسوخ کرنے کی بات شامل ہو۔ان کا کہنا تھا کہ غلط حلف نامے والے معاملات میں الیکشن کمیشن کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔

    بہرحال یہ معاملہ اب کورٹ تک پہنچ چکا ہے۔ ثبوتوں اور گواہوں کی بنیاد پر کورٹ کیا فیصلہ دے گا،یہ مستقبل کی بات ہے مگر اتنا تو طے ہے کہ فی الحال اس موضوع پر سیاست چلتی رہے گی اور کانگریس کو مرکزی سرکار کے خلاف ایک کارگر ہتھیار مل چکا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 428