donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Hindustan Me Muslim Seyasat Ke Imkanat Aur Asaduddin Owaisi


ہندوستان میں مسلم سیاست کے امکانات اور اسدالدین اویسی


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    کیابھارت میں مسلمان اپنے مفاد کی سیاست کرسکتے ہیں؟ کیا وہ وقت آچکا ہے کہ وہ اس پہلو پر غور کریں؟اگر مسلمان بھی یادو،دلت، کرمی اور دوسری برادریوں کی راہ پر چل کر سیاست کرتے ہیں تو اس سے نفع ہوگا یا نقصان ؟ یہ اہم سوال ہیں۔اس موضوع پر کچھ کہنے سے پہلے یہ بتادینا ضروری ہے کہ ہندوستان میں قومی سطح پرمسلم سیاست اب تک چل نہیں پائی ہے۔اس راہ پر کامیابی کی دومثالیں موجود ہیں جن میں سے ایک کیرل کی ہے اور دوسری آسام کی۔ کیرل میں انڈین یونین مسلم لیگ بیشتر مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے اور اس کا نتیجہ ہے کہ یہاں اسمبلی کے اندر مسلمانوں کی نمائندگی ان کی آبادی کے مطابق ہے، نیز ریاستی حکومت میں وہ اپنی آبادی سے ایک فیصد زیادہ حصہ دار ہیں۔کیرل کے مسلمان باقی ملک کے مسلمانوں کے مقابلے زیادہ تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر مضبوط ہیں۔آسام میں مسلمانوں کی نمائندگی کے لئے مولانابدرالدین اجمل کی پارٹی اے آئی یوڈی ایف سامنے آئی اور اس نے مسلمانوں کے ووٹ حاصل کئے۔ کیرل کے برخلاف یہاں کے مسلمانوں کے اندر خواندگی کی شرح بہت کم ہے اور وہ معاشی اعتبار سے پسماندہ ہیں۔ یہاں مسلم سیاست کی کامیابی کی وجہ ہے مسلمانوں کی مظلومیت اور ان پر ہونے والے مسلسل حملے۔گویا مسلمان اپنے مفاد کی تب سوچتا ہے جب وہ تعلیمی اور معاشی طور پر مضبوط ہو یا پھر انتہائی مظلومیت کا شکار ہو۔ شمالی ہندکے مسلمانوں کے حالات دونوں صوبوں سے مختلف ہیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ یہاں مسلم سیاست کبھی کامیاب نہیں ہوسکی۔ یوپی میں ڈاکٹرفریدی کی پارٹی مسلم مجلس کو کسی زمانے میں وقتی طور پر کامیابی ملی تھی مگر یہ سلسلہ زیادہ دراز نہیں رہا۔اب یوپی میں پیس پارٹی،راشٹریہ علما کونسل، ایس ڈی پی آئی اور جماعت اسلامی ہند کی سیاسی ونگ ویلفیئر پارٹی سرگرم ہوئی ہیں مگر ماضی قریب کے انتخابات میں ان میں سے جن پارٹیوں نے امیدوار اتارے ہیں ان کے تعلق سے مسلمانوں کا رویہ ہی واضح نہیں رہا ۔ عین الیکشن کے دوران یہ خبر پھیلائی جاتی ہے کہ ان پارٹیوں کو ووٹ دیا تو بی جے پی جیت جائے گی اور مسلمان متحد ہوکر مبینہ سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دینے لگتے ہیں۔ ایسے میں شمالی ہند میں مسلم سیاست کو مسلمان کامیاب ہونے دیںگے ؟ یہ سوال اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہورہا ہے کہ ایم آئی ایم کے اسدالدین اویسی ان دنوں شمالی ہند میں سیاسی امکانات کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔

 کیا اویسی کے ساتھ آئینگے مسلمان؟

    اسدالدین اویسی مسلمانوں کے لئے فائدہ مند ہیں یا نقصاندہ؟ان کے انتخابی میدان میں اترنے سے کس کا فائدہ ہوگا اور کون نقصان میں رہے گا؟ وہ سیکولر طاقتوں کو کمزور کریں گے یا مسلمانوں کی قوت بن کر ابھریںگے؟وہ مسلمانوں کے سچے خیرخواہ ہیں یا بی جے پی اور آرایس ایس کے ایجنٹ ہیں؟ اس قسم کے سوال ان دنوں خوب سننے کو مل رہے ہیں کیونکہ ان دنوں اویسی برادران کو مسلمانون کے ایک طبقے میں مقبولیت مل رہی ہے۔ خود اویسی کے حوصلے بھی اس وقت سے بلند ہیں جب انھوں نے مہاراشٹر اسمبلی الیکشن میں تین سیٹیں جیت لی ہیں۔ آندھرا پردیش سے باہر یہ مجلس اتحادالمسلمین (ایم آئی ایم) کی قابل ذکر جیت مانی جائے گی حالانکہ اس کے بعد فوراً ہی اس پارٹی نے بعض بلدیاتی انتخابات میں بھی کامیابی پاکر سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی۔وہ پارٹیاں جن کے ساتھ ایم آئی ایم کا ماضی میں اتحاد رہا ہے آج پانی پی پی کر اسے کوس رہی ہیں اور اویسی برادران کو بی جے پی وآرایس ایس کا ایجنٹ قراردے رہی ہیں۔ ایم آئی ایم مہاراشٹر کے بعد اب بہار کے انتخابی دنگل میں اترنے کی تیاری میں ہے ،اس کے بعد اس کی نظر مغربی بنگال اور اترپردیش کے اسمبلی انتخابات پر ہے۔ایم آئی ایم کے توسیع پسندانہ عزائم نے ان تمام پارٹیوں کو فکر مند کردیا ہے جوخود کو سیکولر کہتی ہیں اور مسلمانوں کے ووٹوں کے سہارے اقتدار کے مزے لوٹتی رہتی ہیں۔اسی کے ساتھ مسلمانوں میں بھی شدید اختلافات پائے جارہے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ایم آئی ایم کے پھیلائو سے مسلمانوں کو نقصان ہوگا اور فرقہ پرست طاقتوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا تو بعض مانتے ہیں کہ ہندوستان میں سیاسی طور پر بے سہارا مسلمانوں کی اپنی ایک قوت بنے گی اور پارلیمنٹ سے اسمبلی تک وہ ایماندارانہ طور پر اپنی آوازبلند کرپائیں گے۔حالانکہ ملک کی سیاسی تاریخ سے واقف لوگوں کو لگتا ہے کہ خود شمالی ہند کے مسلمان ہی ایم آئی ایم کا ساتھ نہیں دیںگے کیونکہ ماضی میں مسلمانوں کی الگ سیاسی پارٹی بنانے کی تمام کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں کا عام رجحان رائج الوقت پارٹیوں کے ساتھ رہا ہے۔وہ کبھی انڈین یونین مسلم لیگ کے ساتھ نہیں گئے۔ اترپردیش میں ڈاکٹر فریدی نے مسلم مجلس بنائی مگر یہ پارٹی بھی زیادہ دن نہیں چل پائی۔سید شہاب الدین نے اپنے عروج کے زمانے میں انصاف پارٹی بنائی مگر یہ چند قدم بھی نہیں چل سکی۔اس وقت بھی یوپی میں پیس پارٹی، راشٹریہ علماء کونسل جیسی پارٹیاں ہیں۔ جماعت اسلامی ہند نے الگ ویلفیئر پارٹی بنا رکھی ہے اور جنوبی ہند میں بھی بعض مسلم سیاسی پارٹیاں سرگرم ہیں مگر سوائے آسام کی یوڈی ایف اور کیرل کی انڈین یونین مسلم لیگ کے ان میں سے کسی پارٹی کو مسلمانوں نے سنجیدگی سے نہیں لیا ہے۔ اب ایسے میں ایم آئی ایم کا کیا ہوگا؟ یہ سوال قابل توجہ ہے۔

کل تک سیکولر،آج کمیونل

    اس وقت پارلیمنٹ میں بہت سے مسلمان ممبران ہیں مگر سوائے اسدالدین اویسی کے مسلمانوں کے حق کی بات کسی کی زبان سے نہیں نکلتی۔ شاید یہی سبب ہے کہ حالیہ دنوں میں مسلمانوں کے ایک طبقے کی توجہ ایم آئی ایم کی طرف گئی ہے۔ حالانکہ اسی کے ساتھ اس کی مخالفت بھی ہورہی ہے۔ آرجے ڈی کے لیڈر عثمان غنی کا کہنا ہے کہ آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے صدر اسدالدین اویسی بی جے پی کے ایجنٹ ہیں۔ وہ بالواسطہ طور پر بی جے پی اور آر ایس ایس کو فائدہ پہنچانے میں لگے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسلمانوں کے مفاد کی بات دکھاوا کے طور پر صرف ٹی وی چینلز پر بولتے ہیں، جبکہ ان کا اصلی مقصد ہوتا ہے بی جے پی کو فائدہ پہنچانا۔انھوں نے کہا کشن گنج آمد کے دوران اپنی تقریر سے فرقہ پرست طاقتوں کو بے نقاب کرنے کی جگہ وہ سیکولر طاقتوں کو ہی کمزور کرنے کی کوشش میں نظر آئے۔ عثمان غنی جو الزام لگا رہے ہیں ٹھیک یہی الزام بنگلور میںمیونسپل کارپوریشن انتخابات کے دوران کانگریس کے لیڈران بھی لگا رہے ہیں اور مہاراشٹر میں بھی کانگریس ۔این سی پی کی طرف سے اسی قسم کے الزامات اویسی پر لگائے گئے تھے۔ دگوجے سنگھ نے ایسا ہی بیان دیا تھا جس پر اویسی نے انھیں قانونی نوٹس بھیج دیا۔ اس پر خودایم آئی ایم چیف اویسی کا کہنا ہے کہ میں آٹھ سال یوپی اے میں تھا تو سیکولر تھااور  2012 میں یو پی اے چھوڑتے ہی کمیونل ہو گیا، یہ کیسے ؟ کیا یہ لوگ نوٹری کا آفس چلا رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ رہیں گے تو سیکولر، چھوڑ دیا تو کمیونل۔اویسی سے جب یہ پوچھا گیا کہ وہ نیشنل لیڈر بننے کی کوشش میں ہیں تو ان کا جواب تھا کہ ’’میں گلی کا لیڈر ہوں، دہلی کا لیڈر نہیں بننا چاہتا ہوں۔ میں نیشنل لیڈر نہیں بنوں گا کیونکہ جتنے نیشنل لیڈر بنے سب کے سب نے دھوکہ دیا ہے۔ میں اپنی جگہ نہیں ڈھونڈ رہا نہ میں اپنی زمین بڑھانا چاہتا ہوں، اگر صحیح بات کر رہا ہوں تو اس کے پیچھے کامقصد کیوں نکالتے ہیں۔ میرا کوئی ارادہ نہیں ہے بس حقیقت کو بیان کر رہا ہوں۔

ایم آئی ایم سیکولر زم کی دشمن؟

     اویسی کی بڑھتی مقبولیت کو فیس بک ٹوئٹر سے لے کر ان کی ریلیوں تک میں محسوس کیا جارہا ہے۔اعظم گڑھ کے نیاز احمد اعظمی بتاتے ہیں کہ’’ ہمارے ضلع میں اویسی کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے ،حالانکہ اس سے قبل راشٹریہ علما ء کونسل کو بھی لوگوں نے ووٹ کیا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ یوپی کے مسلمانوں کے اندراکھلیش سرکار اور سماج وادی پارٹی سے شدید مایوسی پائی جارہی ہے۔ انھوں نے الیکشن میں جو وعدے کئے تھے،وہ پورے نہیں کئے۔ الٹے وہ مشکل وقت میں بی جے پی کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں،لہٰذا اب مسلمانوں کا رجحان ایم آئی ایم کی طرف ہورہا ہے۔ ‘‘حالانکہ یہاں لوگوں کے اندر خوف بھی ہے کہ اگر ایم آئی ایم نے جگہ بنالی اور مسلم ووٹ تقسیم ہوگیا تو بی جے پی کی کامیابی یقینی ہوجائے گی۔ خود اسدالدین اویسی کا ماننا ہے کہ بی جے پی کی جیت میں کانگریس اور دوسری سیکولر پارٹیوں کا ہاتھ رہتا ہے نہ کہ ان کی پارٹی کا ۔اویسی نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ’’ مودی اگر وزیر اعظم بنے ہیں، تو کیا اس میں کانگریس کا رول نہیں ہے، کیا سیکولر پارٹیوںکا رول نہیں ہے؟ میں آپ کے سامنے ایمانداری سے کہتا ہوں کہ 95 فیصد مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا، نہ کبھی دیں گے مودی کو ووٹ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم تو ووٹ نہیں دیے مودی کو، اس کے باوجود بی جے پی کامیاب ہو گئی، تو یہ سوالیہ نشان، ان سیکولر پارٹیوں کے اوپر ہے کہ آپ کا روایتی ووٹ بینک بھاگ گیا۔ آپ کی غلطیوں کی وجہ سے مودی کو پاور ملا ہے۔‘‘اویسی مہاراشٹر کی مثال پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ ایک بات بتائیے،میں تو 288 میں 24 سیٹ پر لڑا، اس 24 کا کیا اثر پڑا اس الیکشن کے اوپر؟مہاراشٹر میں 48 پارلیمانی نشستیں، میں ایک پر بھی نہیں لڑا 42 پر شیوسینا، بی جے پی کامیاب ہو گئے۔ پورے ہندوستان میں 2 سیٹوں پر لڑا، بی جے پی 280 پر کامیاب ہو گئی۔‘‘

مایوسی اور آس کے درمیان مسلمان

    حالیہ دنوں میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ایم آئی ایم کی بڑھتی مقبولیت پر ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ راما لکشمی کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہاں مسلم نوجوان اویسی کو حق گو اور بے باک لیڈر کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔کوئی انھیں شیر کہتا ہے تو کسی کی نظر میں وہ تنہا مسلمان لیڈر ہیں جو ڈنکے کی چوٹ پر سچ بولتے ہیں۔حالانکہ بھگواوادی آرایس ایس کے لیڈر رام مادھو انھیں اکیسویں صدی کا جناح قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے اندر عدم تحفظ کا احساس جگا رہے ہیں۔اس رپورٹ میں اویسی کے ابھار کو نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کا ردعمل بتایا گیاہے۔ بہر حال مسلمانوں کے اندر یہ احساس بہت تیزی سے بیدار ہورہا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کے ووٹ لیتی ہیں اور ان کے مسائل کی طرف توجہ نہیں کرتیں۔ ان کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے اور بھید بھائو کیا جاتا ہے تب بھی کسی جانب سے کوئی آواز نہیں اٹھتی۔اسی احساس نے ایم آئی ایم کی طرف نوجوان طبقے کو مائل کیا ہے مگر اسی کے ساتھ مسلمانوں کے اندر خوف بھی پایا جاتا ہے کہ ووٹوں کی تقسیم کے سبب کہیں بی جے پی کو کامیابی نہ مل جائے۔ آج حالات ایسے موڑ پر آچکے ہیں کہ ایم آئی ایم ان کے لئے جہاں امید کی ایک کرن بن کر ابھری ہے وہیں، خوف بھی ہے۔ ایم آئی ایم بھی فی الحال بہار کے انتخابی میدان میں اپنے لئے امکانات کی تلاش میں ہے اسی کے ساتھ وہ اترپردیش اور مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات میں بھی قسمت آزمانے کی تیاری میں لگی ہوئی۔اب دیکھنے والی بات ہوگی کہ مسلمانوں کی امید غالب آتی ہے یا خوف کا غلبہ ہوتا ہے۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 512