donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Hindustani Police Kiyon Banti Ja Rahi Hai Nifsiyati Mareez


 ہندوستانی پولس کیوں بنتی جارہی ہے نفسیاتی مریض


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 

    دہلی پولیس کے ایک 47 سالہ کانسٹیبل نے ڈومیسٹک ایئرپورٹ پولیس تھانہ میں ڈیوٹی کے دوران خود کو گولی مار کر خود کشی کر لی۔ اس کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ کچھ دنوں سے دماغی تنائو کا شکار تھا۔ادے پور میںخواتین تھانے کی ایک کانسٹیبل ڈمپل کنورنے خودکشی کرلی۔ ا سکی عمر۲۸سال تھی۔ اس کا شوہر بھی پولس ہی میں تھا اور دونوں گھریلو مسائل کے سبب لڑتے رہتے تھے۔جھارکھنڈ مسلح پولیس کے ایک جوان نے ریاست کے چترا ضلع میں خود کو گولی مار کر خود کشی کر لی۔ رائے بہادر بچنے رانچی سے 170 کلومیٹر دور چترا کے پرتاپ پور پولیس اسٹیشن میں تعینات تھا۔ پولیس ذرائع کے مطابق رائے بہادر تنائو میں تھا۔چھتیس گڑھ کے بلاسپور میں تعینات پولیس اہلکار راہل شرما نے خودکشی کرلی۔ راہل شرما کی خودکشی کے بعد برآمد ہوئے سوسائڈ نوٹ میں کہا گیا تھا کہ وہ اعلی افسر سے پریشان ہوکر ایسا قدم اٹھا رہا ہے۔ ساگر (مدھیہ پردیش)میں ایک خاتون ٹرینی سب انسپکٹر نے خود کشی کر لی ۔ خود کشی کرنے والی انامکا کشواہا نام کی سب انسپکٹر کو ویاپم کے ذریعے اس عہدے کے لئے منتخب کیا گیاتھا۔ مرینا کی رہنے والی انامکا نے ساگر پولیس اکیڈمی کے تالاب میں کود جان دے دی۔ ہریانہ کے مانیسر میں واقع نیشنل سیکورٹی گارڈ (این ایس جی) کیمپس میں ایک پولس جوان نے خودکشی کرلی ، پولس کو خودکشی کا سبب نہیں معلوم ۔خود کشی کرنے والے وکاس راؤ کی عمر محض 23سال تھی اور یہاںجموں سے ٹریننگ کے لئے آیا ہوا تھا۔ پوسٹ مارٹم میں بھی خود کشی کی بات سامنے آئی مگرموقع سے کوئی سوسائڈ نوٹ پولیس کو نہیں ملا۔مانیسر تھانہ انچارج جگدیش پرساد نے بتایا کہ خودکشی کی وجوہات کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔ضلع کننور کے شولٹو میں جے پی ورکرز یونین کی ہڑتال میں ڈیوٹی دینے آئی ایک خاتون پولس جوان نے جے پی کمپلیکس میں پنکھے سے لٹک کر خود کشی کر لی۔ اس کی شناخت ترپتا، عمر 25 سال، رہائشی ضلع کانگڑا کے طور پر ہوئی۔جائے حادثہ پر ایک سوسائڈ نوٹ لکھا ملا، جس میں لکھا تھا کہ اس کی موت کے لئے کسی کو بھی ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے۔ اس نے خودکشی نوٹ کے نیچے دستخط بھی کئے تھے۔ممبئی میں ایک پولیس ملازم کی طرف سے اپنے سینئر افسر کو گولی مار کر خودکشی کا معاملہ ابھی ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ مہاراشٹر کے اورنگ آباد کے مل کارنر علاقے میں ایک پولیس کانسٹیبل نے خود کو بلیڈ مار کر خود کشی کی کوشش کی۔ معلومات کے مطابق انل نرسیا ننگوپٹلا نامی یہ پولیس کانسٹیبل اسمانپورا پولیس تھانے میں تعینات تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ہفتہ کو چھٹی کے دن ایک پولیس انسپکٹر نے اسے کام پر بلایا تھا۔ فون آنے سے پٹلا پریشان ہو گیا ۔ اس نے تنائو میں اپنے ہاتھ کی رگوں کو بلیڈ سے کاٹ کر جان لینے کی کوشش کی۔بلیڈ مارنے کے بعد زخمی حالت میں اسے مقامی سرکاری ہسپتال میں بھرتی کرایا گیا۔اوپر کی سطور میں جن خودکشی کی خبروںکو آپ نے پڑھا وہ ملک کی مختلف ریاستوں سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پولس والوں کی خودکشی کی وارداتیں کس تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔پولس کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ وہ کام چور ہوتے ہیں اور اپنی ذمہ داری سے غفلت برتتے ہیں نیز رشوت خور بھی ہوتے ہیں مگر علاوہ ازیں اب جو تصویر سامنے آرہی ہے وہ ایک الگ تصویر ہے۔

خودکشی میں نمبرون ریاست

    پولس والوں کی خودکشی کے واقعات یوں تو پورے ملک میں ہوتے رہتے ہیں مگر مہاراشٹر اس معاملے میں سب سے اول نمبر پر ہے۔ اگر شہر کی سطح پر دیکھیں تو اس معاملے میں ممبئی سب سے آگے ہے۔ ویسے ناگپور بھی ممبئی سے زیادہ پیچھے نہیں۔ناگپور شہر میں سال 2011 سے 2014 کے درمیان 16 پولیس افسران اور ملازمین نے خود کشی کی۔یہ بات خود حکومت نے ریاستی اسمبلی میں بتائی۔  اکیلے ممبئی میں 2002-2012کے دوران 168پولس والوں نے خودکشی کی۔محکمہ داخلہ کا کہنا ہے کہ پولیس افسران اور ملازمین پر بڑھتے ہوئے دباؤ کو دیکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے کئی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔محکمہ پولیس میں خالی عہدے بھرے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس افسر ان اور پولس ملازمین کو تنائو سے دور رکھنے کے لئے ہیلتھ چیک اپ کیمپ ، ورک شاپ اور یوگا کیمپ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ پولیس بہبود فنڈ سے ان منصوبوں کے لئے سہولیات مہیا کرائی جاتی ہیں۔

خود کشی کے اعداد و شمار

    اب تک پولس والوں کے ذریعے خودکشی کے جو اعداد وشمار سامنے آئے ہیں ان میں ریاست مہاراشٹر سب سے آگے ہے۔ ریاست میں2008-2013 کے دوران 144پولس والوں نے خودکشی کی جب کہ اس بیچ تمل ناڈومیں 137،ہریانہ میں 77،مدھیہ پردیش میں 59،مغربی بنگال میں 50اترپردیش میں49،کرناٹک میں 48اورراجدھانی دلی میں 37 پولس والوں نے خودکشی کرلی ہے۔اسی طرح 2006-2011کے اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو مہاراشٹر میں200 ، تمل ناڈو میں127 ،ہریانہ میں73 ، کیرل میں 71،آندھراپردیش میں68 ، مغربی بنگال میں57  پولس والوں نے خودا پنی جان لے لی۔ اکیلے ممبئی میں 2002-2012کے دوران 168پولس والوں نے خودکشی کی۔

پولس میں افرادی قوت کی کمی

    پولس والوں کی خودکشی کا ایک بڑا سبب ان کے اندر افرادی قوت کی کمی اور کام کا دبائو مانا جاتا ہے۔دلی کی آبادی21ملین ہے اور یہاں پولس والوں کی تعداد84,536ہے۔ ممبئی کہ کل آبادی 20ملین ہے اور یہاں پولس والوں کی تعداد محض 40ہزار ہے۔ ایسے میں ممبئی پولس پر کام کا دبائو کتنا زیادہ ہوگا سمجھا جاسکتا ہے۔کولکاتا کی آبادی 14ملین ہے اور پولس والوں کی تعداد30ہزار ہے۔ چنئی کی کل آبادی 9ملین ہے اور پولس والوں کی تعداد18ہزار ہے۔ اس کے برعکس لندن کی کل آبادی محض8.5ملین ہے اور پولس والے 48ہزار ہیں اور نیویارک کی کل آبادی بھی تقریباً لندن کے برابر ہے مگر یہاں پولس میں 49,526جوان ہیں۔ان اعداد سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستانی پولس پر کام کا دبائو کس قدر زیادہ ہوتا ہے۔ یہ بھی دھیان دینے کی بات ہے کہ پولس والوں کی ایک بڑی تعداد وی آئی پی حضرات کی دیکھ ریکھ میں لگی رہتی ہے،حالانکہ انھیں تنخواہ عوام کی خدمت کے لئے دی جاتی ہے۔

مہاراشٹر پولس پر دبائو زیادہ

    اسکاٹ لینڈ یارڈ سے موازنہ کی جانے والی مہاراشٹر پولیس خود کشی کرنے کے معاملے میں بھی سب سے آگے ہے۔ کسی بھی معاملے کو جھٹ پٹ سلجھانے والی مہاراشٹر پولیس آخر خودکشی کیوں کر رہی ہے یہ سمجھ سے باہر اور ریاستی حکومت کے لئے تشویش کا موضوع ہے۔ خود کشی کا سبب کام کا بڑھتا دباؤ، کم تنخواہ اور خاندانی تنازعہ اور افرادی قوت کی کمی بتایا جا رہا ہے۔ یہاں بہت تیزی سے ریاست کے پولیس افسر اور ملازم موت کو گلے لگا رہے ہیں۔ یہ انکشاف سرکاری اعداد و شمار سے ہوا ہے۔

    ممبئی پولیس ہمیشہ 24 گھنٹے کام کرتی ہے،ایسا دیکھنے کو ملتا ہے۔ دسہرہ، دیوالی، عید وغیرہ تہوار کے دوران پولیس کے حکام کو ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑتا ہے۔ کئی بار کسی خاص بندوبست کی وجہ سے بھی پولیس افسران کی چھٹیاں منسوخ کر دی جاتی ہیں۔ اسی کے ساتھ سکھ دکھ،سردی، گرمی اور برسات کی پرواہ کئے بغیر انھیں کام کرنا پڑتا ہے۔ ریاست اورشہروں میں امن وقانون کی صورت حال نہ بگڑے اور عوام کا تحفظ یقینی ہو اس کے لئے پولس والے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔جب پورا ملک تہوار منارہا ہوتا ہے تب پولس والے ڈیوٹی پر تعینات ہوتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے ڈیوٹی کے دوران محکمہ پولیس میں افرادی قوت کی کمی کا مسئلہ بھی سامنے آتا رہا ہے۔بعض اوقات ہنگامی حالات کے سبب بھی کام کا دباؤ پولیس اہلکاروں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کئی بار ڈیوٹی ختم ہونے والی ہوتی ہے، اسی وقت کوئی واقعہ پیش آجانے کے بعد پولیس والے گھر نہیں جا پاتے ہیں۔ مصروفیت کے سبب پولیس والے اپنے خاندان کو وقت نہیں دے پاتے اور ان سے دور چلے جاتے ہیں۔زندگی کے روزمرہ مسائل بھی انھیں پریشان کئے رہتے ہیں ایسے میں ان کا ذہنی طور پر چڑچڑا ہونا اور تنائو میں مبتلا ہونا فطری ہے۔

ہرپولس والا’’دبنگ‘‘ اور ’’سنگھم‘‘ نہیں

    پولیس والوں کی خودکشی کا سب سے بڑا سبب سینئر حکام کی طرف سے اچھا برتاؤ نہ کرنا ہے۔ سخت محنت کرنے کے بعد محکمہ پولیس میں بھرتی ہوتے ہیں اور بہت خواب لے کر آتے ہیں مگر یہاں آنے کے بعد اعلیٰ حکام کا منفی رویہ برداشت کرتے ہیں اور ان کے سپنوںپر پانی پھرجاتا ہے۔ جس سے پولیس جوان ذہنی طور پر ٹوٹ جاتے ہے۔ایسے حالات سے تنگ آکر وہ خود کشی کرنے کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔ اس قسم کے کئی معاملے سامنے آتے رہے ہیں۔ گزشتہ کچھ دنوں پہلے ریاست مہاراشٹرکے ایڈیشنل ڈی جی پی، آر کے سہائے نے خود کو آگ کے حوالے کر خود کشی کر لی۔ جس کے بعد کئی سوال کھڑے ہوئے تھے جس کا جواب آج تک نہیں ملا ہے۔ یہ صرف مہاراشٹر نہیں بلکہ پورے ملک کے لئے تشویش کا موضوع ہے۔ سلمان خان کی ’’دبنگ’’ یا اجے دیوگن کی ’’سنگھم ‘‘دیکھ کون ایسا بچہ ہو گا جو پولیس افسر بننے کے خواب نہیں دیکھتا ہوگا مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر پولیس آفیسر ’’دبنگ‘‘ یا ’’ سنگھم‘‘ نہیں ہوتا۔ پولیس والوں کو کئی کئی گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ ساتھ ہی انہیں قتل، عصمت دری جیسے جرائم کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ ایسی حالت میںکئی پولیس والے تنائو کا شکار ہوجاتے ہیں اور خود کشی پر مجبور ہوتے ہیں۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 549