donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Insaf Se Mahroom, Muzaffar Nagar Ke Mazloom Musalman


انصاف سے محروم ،مظفرنگر کے مظلوم مسلمان


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


     بھارت میں مسلم کش فسادات کی ایک لمبی تاریخ ہے مگر اسی کے ساتھ انصاف سے محرومی کی بھی روایت رہی ہے۔ فساد متاثرین کو کم ہی انصاف ملا ہے اور فسادیوں کو سزا شازونادر ملی ہے۔ بھاگل پور، میرٹھ، مرادآباد، بہار شریف، ممبئی اور گجرات کے بعد اب یہی تاریخ مظفرنگر میں بھی دہرائی جارہی ہے۔ مظفرنگر فساد2013کے متاثرین انصاف سے محروم ہورہے ہیں اور انصاف کی امید بھی ختم ہوتی جارہی ہے۔ ساٹھ سے زیادہ لوگوں کے قتل اور خواتین کی عصمت دری کے ملزمین یکے بعد دیگرے رہا ہوتے جارہے ہیں اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ گواہوں کو دھمکیاں مل رہی ہیں مگر حکومت ان کے اندر اعتماد بحال کرنے میں ناکام ہے۔ بڑی بڑی باتیں اکھلیش سرکار کی طرف سے کی جارہی ہیں مگر فساد زدگان کو انصاف نہیں مل رہاہے اور اب انصاف کی آس بھی ٹوٹتی جارہی ہے۔ حال ہی میں فسادات اور قتل کے دس ملزموں کو ثبوت کی کمی کے سبب عدالت نے بری کر دیا۔ اس سے پہلے ریپ کے ملزموں کی بھی رہائی ہوچکی ہے۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ وہ ہائی کورٹ میں اپیل کرے گی مگر گواہوں کے تحفظ کے معاملے میں وہ جس طرح سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ اعلیٰ عدالت میں اپیل خانہ پری کے سوا کچھ نہیں ہے۔ فسادات متاثرین خود کو بے سہارا محسوس کر رہے ہیں جب کہ دوسری طرف جو لوگ فساد، قتل اور ریپ کے الزام میں جیلوں میں بند ہیں،ان کی مدد میں بی جے پی آگے آگے نظر آرہی ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ مرکزی وزیر سنجیو بالیان نے جیلوں میں ان ملزمین سے ملاقات کی اور انھیں مدد کا بھروسہ دلایا۔ قابل غور بات ہے کہ سنجیو بالیان خود بھی دنگوں کے ملزم ہیں مگر حکومت نے ان کے خلاف اس قدر کمزور کیس بنایا ہے کہ ان کی رہائی کا قوی امکان ہے۔ مظفرنگر میں اب بھی خوف وہراس کا ماحول ہے اور یہی سبب ہے کہ یہاں کے ضمنی انتخاب میں بی جے پی کو جیت حاصل ہوئی ہے۔ادھر ممبران اسمبلی پر مشتمل ایک کمیٹی نے یوپی کے وزیر برائے شہری ترقیات محمد اعظم خان کو فساد میں شامل ہونے کے الزام سے بری کردیا ہے۔

ملزموں کی رہائی

    اترپردیش کے مظفر نگر میں سال 2013 میں ہوئے فسادات اور ڈبل قتل کے معاملے میں 10 ملزمان کو عدالت نے ثبوتوں کی عدم موجودگی میں الزام سے بری کر دیاہے۔ غور طلب ہے کہ سال 2013 میں ہوئے فسادات کے اس کیس میں دو لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔ مرنے والوں میں ایک بچہ تھا جب کہ دوسری ایک عورت تھی۔ ستمبر 2013 میں مظفرنگر اور شاملی میں ہوئے فسادات میں 50 سے زائد افراد کی جان چلی گئی تھی۔ فسادات کے سبب بڑے پیمانے پر لوگوں کے گھر متاثر ہوئے تھے۔ معلومات کے مطابق عدالت کی طرف سے ان لوگوں پرفسادکے دوران لوگوں کے قتل کرنے کو لے کر سماعت کی گئی لیکن ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں پایاگیا۔جس تشدد کے معاملے میں یہ کیس تھا وہ کوال گاؤں میں ہوا تھا۔ سرکاری وکیل نے بتایا کہ کیس میں 10 گواہوں میں سے 5 عینی شاہدین نے بیان بدل دیے۔ اسی وجہ سے معاملہ ملزمان کے حق میں چلا گیا۔ اب متاثر خاندان کیس آگے نہیں لڑنا چاہتے۔ یہ خاندان فسادات کے دوران شاملی ضلع کے مختلف دیہات میں چلے گئے تھے اور اب وہ اپنے آبائی گاؤں بھی نہیں لوٹنا چاہتے۔ واقعہ آٹھ ستمبر 2013 کاہے۔ فسادات شروع ہونے کے کچھ ہی دیر بعد 43 سال کے محمد اقبال اپنے آبائی گاؤں لاکھ کو چھوڑ کر خاندان کے ساتھ باغپت چلے گئے۔ ان کا 12 سال کا بیٹا گھومنے پھرنے نکل گیا تھااور 70 سال کی ماں وہیں رہ گئی تھی۔  ایک ہجوم نے کم سن بیٹے کو پہلے گولی مار دی اور پھر جلا دیا۔ اس میں ان کی ماں بھی  زخمی ہو گئی تھی۔ دوسرے دن پولیس نے ماں کو باغپت بھیج دیا۔اب اقبال نے حکومت کی جانب سے ملی مدد سے شاملی ضلع کے کاندھلا گاؤں میں مکان بنا لیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ، ثبوتوں کی عدم موجودگی میں عدالت نے ملزمان کو بری کر دیا لیکن وہ آگے کیس نہیں لڑنا چاہتے۔ اقبال کے بیٹے کے علاوہ پڑوس میں رہنے والی 30 سال کی ایک دوسری عورت سراجوکو بھی مار کر جلا دیا گیا تھا۔ سراجو کا شوہر واحد بھی لاکھ واپس نہیں گیااور شاملی میں رہ رہا ہے۔ استغاثہ کے مطابق 100-150 لوگوں کی بھیڑ نے اقبال کے گھر پر حملہ کیا۔ انہوں نے اقبال کی والدہ کے سر پر وار کیا۔ اس کے بعد آس محمد کو گولی مار دی۔ بھیڑ بعد میں سراجو کے گھر پہنچی اور دھاردار ہتھیار سے اس کا قتل کر دیا، بعد میں بھیڑ نے دونوں کی لاشیں جلا دیں۔ 22 ستمبر 2013 کو اقبال نے 13 لوگوں کے خلاف معاملہ درج کرایاتھا۔ وہیں واحد نے آٹھ لوگوں کے خلاف شکایت کی تھی۔

گینگ ریپ کے ملزموں کی رہائی

     مظفرنگر فسادات کے دوران ہوئے گینگ ریپ معاملے میں چاروں ملزمان کو فاسٹ ٹریک کورٹ نے 21 جنوری کو بری کر دیاتھا۔ بتایا جا رہا ہے کہ سماعت کے دوران متاثرہ، اس کا شوہر اور ساس تینوں ہی اپنے بیان سے پلٹ گئے تھے۔ معلومات کے مطابق جب متاثرہ خاندان سے پوچھا گیا کہ مہینوں پہلے درج کروائی گئی ایف آئی آر کے بعد انہوں نے اپنے بیان کیوں تبدیل کر دیئے تو متاثرین نے بتایا کہ ملزمان کی جانب سے کچھ لوگوں نے انہیں سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی اور گینگ ریپ کا کیس واپس لینے کو کہا تھا۔ متاثرہ خاندان کا کہنا ہے کہ کیس کے گواہ ہونے کے ناطے انہوں نے اور ان کے پڑوسی نے پھگنا اور بڑھانا پولیس اسٹیشن میں اس بات کی شکایت بھی کی تھی لیکن، پولس وحکومت نے اس کوبات کا سنجیدگی سے نہیں لیا۔ وہیں دوسری طرف متاثرہ خاتون کے شوہر کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت کی جانب سے دی گئی مددسے شاملی میں انہوں نے اپنا گھر بنا لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب وہ اس کیس کے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہیں کریں گے۔ دوسری طرف ملزموں کے بری ہونے اور فسادات متاثرین کو انصاف نہ ملنے کے لئے جمعیت علماء ہند نے پولس اور حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔جمعیۃ نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ اس معاملے میں ہائی کورٹ میں اپیل کرے۔

اعظم خان کو کلین چٹ

    اس بیچ خبر ہے کہ فسادات کے دوران اجتماعی آبروریزی اور ڈبل قتل کے 14 ملزمان کو بری کیے جانے کے نچلی عدالت کے فیصلے کو اترپردیش حکومت ہائی کورٹ میں چیلنج کرے گی۔ضلع کے سرکاری وکیل دشینت تیاگی نے بتایا، ہم لوگوں نے فساد سے منسلک دو صورتوں کے 14 ملزمان کو بری قرار دیے جانے کے خلاف پٹیشن دائر کرنے کی سفارش کی ہے۔دوسری طرف فسادات کے دوران ریاست کے سینئر کابینہ وزیر اعظم خاں کے کردار کے بارے میں ایک ٹی وی چینل کے اسٹنگ آپریشن کی تحقیقات کے لئے قائم اترپردیش اسمبلی کی تحقیقاتی کمیٹی نے خاں کو کلین چٹ دیتے ہوئے متعلقہ چینل کے عہدیداروں کو ان کی توہین کا مجرم قرار دیا ہے اور ایوان سے ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 595