donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   International Sufi Conference Se Aakhir Kya Hasil Karna Chahta Hai Sangh Pariwar


وزیراعظم نریندر مودی کے ہاتھ پر اکیسویں صدی کے ’’صوفیوں‘‘ کی بیعت


انٹرنیشنل صوفی کانفرنس سے آخر کیا حاصل کرنا چاہتا ہے سنگھ پریوار؟


تحریر:غوث سیوانی، نئی دہلی


وزیراعظم نریندرمودی مسلمانوں کے بیچ خانہ جنگی کرانے میں کامیاب ہوجائینگے؟ کیا وہ تصوف کو بھی اپنی سیاست کا ہتھیار بنا پائینگے؟کیا وزیر اعظم کے ہاتھ پر کچھ صوفی نما حضرات کی ’’بیعت ‘‘ سے عام مسلمان فریب میں آجائینگے؟کیا اسلام کا جمالیاتی چہرہ تصوف بھی اب جنس بازار بن جائے گا؟ کیا نریندر مودی کچھ مولویوں کے سہارے ’’دین الٰہی‘‘ قائم کرنا چاہتے ہیں؟ اس قسم کے سوالات ان دنوں عام طور پر سننے میں آرہے ہیں کیونکہ آئندہ 17مارچ سے شروع ہونے والی چارروزہ انٹرنیشنل صوفی کانفرنس کا وزیر اعظم نریندر مودی ’’وگیان بھون‘‘ میں افتتاح کرنے والے ہیں، جس کا انعقاد خود بی جے پی کے خفیہ واعلانیہ تعاون سے ہورہاہے۔اس سے قبل تال کٹورہ اسٹیڈیم میں دہشت گردی مخالف کانفرنس ہوئی جس میںدہشت گردی پر کم اور وہابیوں پر زیادہ حملے کئے گئے اور ایک صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ’’ ہم آرایس ایس سے ہاتھ ملا کر وہابیوں کا ملک سے خاتمہ کردیںگے۔‘‘ وہابیوں سے اختلاف کوئی نئی بات نہیں ہے، دیوبندی اور بریلوی علماء کی تحریروں اور تقریروں کے اقتباسات موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ شیخ محمد بن عبدالوہاب کے نظریات سے کس قدر اختلاف کرتے تھے اور اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا فاضل بریلوی کی تحریریں بھی موجود ہیں جن میں وہابی نظریات کو شدت کے ساتھ مسترد کیا گیا ہے مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اس اختلاف کے سبب کسی نے دشمنان اسلام کے ساتھ ہاتھ ملانے کی بات کی ہو مگر آج حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ سنگھ پریوار کے تعاون سے مسلمانوں کے جلسے ہورہے ہیں اور ان میں جو باتیں کہی جارہی ہیں وہ خودمسلمانوں کے لئے ہلاکت خیز ہیں۔ دہشت گردی مخالف کانفرنس کے روح رواں مولانا شہاب الدین رضوی نے ’’First Post‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’ یہ آرایس ایس کے لوگ ملک سے محبت کرتے ہیں،ملک کے لئے کام کرتے ہیں اور وہابی ملک کے خلاف حرکتیں کرتے ہیں اور ہمیشہ سے باہر کے سعودی عربیہ کی طرف دیکھتے ہیںہم آرایس ایس یا ایکس وائی زیڈ کوئی بھی جو ملک سے محبت کرتا ہے،اس کے ساتھ کام کرسکتے ہیںلیکن ملک کے غداروں کے ساتھ کام نہیں کرسکتے۔‘‘ اس بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کانفرنسیں مسلمانوں کو کس جانب لے جارہی ہیں اور ان کا مقصد کیا ہے؟ یہ نظریہ صرف ایک شخص کا نہیں ہے بلکہ دوسرے بہت سے لوگوں کا بھی ہے۔ سنگھ پریوار کی سرپرستی میں انٹرنیشنل صوفی کانفرنس کے انعقاد کی تیاریوں میں مصروف مولانا محمد اشرف کچھوچھوی نے Mail Todayسے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ وہابیت نے امن پسند اسلام کو ایک شدت پسندانہ نظریے میں تبدیل کردیا ہے۔ وہابی نظریہ غیراسلامی ہے اور ہم اسے شکست دے کر رہیںگے۔‘‘ مولانا نے جو باتیں کہیں ہیں ان میں کس قدر سچائی ہے؟ اس سوال سے قطع نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ کوئی نئی بات نہیں کہہ رہے ہیں، اس قسم کی سوچ رکھنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں اور ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت غیروہابی ہے مگر اصل سوال یہ ہے کہ اس سے مقابلے کا جو راستہ اپنایا جارہاہے کیا وہ درست ہے؟وہابیوں سے نفرت کی قیمت پر آرایس ایس سے محبت کا عہد وپیمان خود مسلمانان ہند کے لئے کس قدر فائدہ مند ہے؟ ظاہر ہے کہ صوفیہ کے نام لیوا مسلمانانِ ہند کو جس ہلاکت خیز راستے پر لے جارہے ہیں اس کا انجام خود انھیں بھی نہیں پتہ۔ یہاں یہ بتادینا برمحل ہوگا کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ دشمنان اسلام سے اس قدر نفرت کرتے تھے کہ انگریزی حکومت کے تحت آنے والے کورٹ کو ’عدالت‘(عدل کا مقام)کہنے سے منع کیا کرتے تھے۔ اسی طرح آپ لفافے پر ڈاک ٹکٹ لگاتے تو شاہ برطانیہ کے تاج والا حصہ الٹا کردیتے یعنی ڈاک ٹکٹ الٹا لگایا کرتے تھے، مگرانھوںنے ایک دشمن سے مقابلے کے لئے دوسرے دشمن سے ہاتھ نہیں ملایا۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ آج انھیں کا نام لے کر اسلام دشمن سنگھ پریوار سے رشتۂ محبت استوار کیا جارہاہے اور صوفیہ کرام کی پیروی کا دم بھرنے والے دشمنان اسلام کے آلۂ کار بن رہے ہیں۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ آرایس ایس سے عہد وفا باندھنے والے اور اس کی مدد سے کانفرنسوں کا انعقاد کرنے والے یہ کام کس حکمت عملی کے تحت کر رہے ہیں ؟ ہم تو بس یہ جانتے ہیں کہ زہر عشق کی ناکامی میں کھایا جاتا ہے یا غصے میں،مگر یہ پہلا موقع ہے جب اندھی دشمنی میں کوئی زہرکھاکر خودکشی کا اعلان کر رہاہے۔آخر یہ کیسی اندھی دشمنی ہے کہ خود کو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام ’’اشداء علی الکفار‘‘ کاپیروکاربتانے والے ابوجہل کی نظریاتی ذریت کا ساتھ دینے کو تیار بیٹھے ہیں۔یہ طریقہ نہ علماء کا ہوسکتا ہے اور نہ صوفیہ کا۔ یہی سبب ہے کہ مخلص علماء کی ایک جماعت اس طریقہ کار کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے جن میں کچھوچھہ کے سادات سے لے کر مولانا یٰسین اختر مصباحی جیسے دانشور تک شامل ہیں۔ کچھوچھہ کے علماء اور مشائخ کے بارے میں کہا جارہاہے کہ وہ اس کانفرنس کی حمایت میں نہیں ہیں اور وہ اس میں شرکت سے گریز کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ مولانا سید محمد اشرف کچھوچھوی کے بھائی پیر طریقت مولانا محموداشرف کے بارے میں بھی کہا جارہاہے کہ وہ اس میں شریک ہونے کو تیار نہیں۔ویسے ان دنوں میڈیا میں بہت سے علماء کے بیانات کانفرنس کی مخالفت میں آرہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان حضرات کے سامنے کانفرنس کے پیچھے کے سیاسی کھیل کا انکشاف ہونے لگا ہے۔

کیا مودی کو مسلمانوںپر بھروسہ نہیں؟

میڈیا میں جو خبریں آرہی ہیں ان کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی، کانفرنس کے جس سشن کا آغاز کرینگے وہ 17مارچ کو وگیان بھون میں منعقد ہوگا؟ جب کہ عام جلسہ 20مارچ کو رام لیلا میدان میں ہوگا۔جس پروگرام میں وزیراعظم شریک ہونگے اس میں عام مسلمان شامل نہیں ہونگے ، صرف کچھ خاص لوگوں کو شامل ہونے کی اجازت ہوگی جس میں سرکاری افسران بھی ہونگے، اور جس جلسے میں عام مسلمانوں کو شرکت کی دعوت دی جارہی ہے، اس میں وزیراعظم شریک نہیں ہونگے، آخر ایسا کیوں کیا جارہاہے؟ کیا وزیر اعظم کو مسلمانوں پر بھروسہ نہیں ہے؟ کیا انھیں لگتا ہے کہ اگر ان کے پروگرام میں عام مسلمان شریک ہونگے تو ان کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی؟جب پروگرام کی تمام تیاریاں خود وزیراعظم کے لوگ کر رہے ہیں اور ان کی مشنری پروگرام کے ایک ایک پہلو پر نظر رکھے ہوئے ہے تو پھر عام مسلمانوں سے دوری کا مطلب صرف یہی سمجھ میں آتا ہے کہ نریندر مودی کو مسلمانوں پر بھروسہ نہیں ہے۔ویسے اگر وہ تصوف کے نام پر بھیڑ اکٹھی کر وارہے ہیں تو انھیں اس کا نظارہ کرنے رام لیلا میدان ضرور جانا چاہئے اور انھیں مسلمانوں پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ مسلمانوں نے نہ تو بابائے قوم مہاتما گاندھی کو قتل کیا تھا اور نہ ہی سابق وزراء اعظم اندرا گاندھی وراجیو گاندھی کی سیکورٹی کے لئے خطرہ بنے تھے تو نریندر مودی کے لئے کیسے خطرہ بن سکتے ہیں؟خون خرابہ اور تشدد صوفیوں کا کام نہیں ، کوفیوں کا کام ہے۔وزیراعظم شک کرنا چھوڑیں اور اعتماد کرنا سیکھیں۔

 کانفرنس کی تیاریاں

وزیراعظم نریندر مودی کی سرپرستی میں ہونے والی چار روزہ انٹرنیشنل صوفی کانفرنس کی تیاریاں مہینوں سے چل رہی ہیں اور انٹیلی جینس بیورو کے سابق چیف اور وزیراعظم کے مشیر آصف ابراہیم اس کی نگرانی کر رہے ہیں جب کہ مولانا محمد اشرف کچھوچھوی اور ان کے کچھ ساتھی  ملک بھر سے مسلمانوں کو اس میں جمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ علماء ومشائخ بورڈ اپنی کانفرنس میں مسلمانوں کی بھیڑ جمع کرنے کے لئے شب وروز ایک کئے ہوئے ہے۔راجدھانی دلی سے لے کر ملک کے گائوں گائوں تک مٹینگیں ہورہی ہیں اور لوگوں کو دلی لانے کے لئے زاد سفر کا انتظام کیا جارہاہے۔مسجدوں میں اعلانات ہورہے ہیں اور مدرسوں کے اساتذہ کو بھیڑ جمع کرنے کے کام پر لگایا جارہاہے۔ ریلوے ٹکٹ بک کئے جارہے ہیں اور بسوں کا انتظام کیا جا رہاہے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ انٹرنیشنل صوفی کانفرنس کو کامیاب بنانے کے لئے مودی سرکار ملک بھر سے خصوصی ٹرینیں چلائے۔ اسی کے ساتھ دنیا بھر میں پھیلے ہندوستانی سفارت خانوں کو کہہ دیا گیا ہے کہ وہ ’’مشائخ‘‘کو دنیا بھر سے لاکر اس کانفرنس میں جمع کریں۔ اعلان کیا گیا ہے کہ اس کانفرنس میں دنیا کے لگ بھگ بیس ملکوں سے اہل تصوف جمع کئے جائینگے۔ کانفرنس کی تیاری کے سلسلے میں مولانا محمد اشرف کچھوچھوی کے بیانات اردو اور انگریزی اخباروں میں مختلف آرہے ہیں۔ انھوں نے ایک انگریزی میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے مانا ہے کہ ان کے ساتھ وزیراعظم مودی کا دفتر ہے اور وزیراعظم کے مشیر معاملات کی نگرانی کر رہے ہیں مگر اردو کے ایک اخبار کو انھوں نے کہا کہ سرکاری مدد بس پروٹوکول کی حد تک ہے۔ اس بیچ ایسی خبر بھی ہے کہ لوگوں کی بھیڑ جمع کرنے کے لئے بعض غیر اخلاقی طریقوں کا بھی استعمال کیا جارہاہے۔ ایک انکشاف یہ ہواہے کہ علامہ اختررضا خاں ازہری کے جعلی خط کا استعمال کرکے ان کے مریدین کو انٹرنیشنل صوفی کانفرنس میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے ،جب کہ وہ خود اس کانفرنس میں نہیں آرہے ہیں اور نہ ہی انھوں نے اپنے مریدین کو اس میں آنے کے لئے کہا ہے۔ یہاں یہ بتادینا مناسب ہوگا کہ علامہ اختررضا خاں ازہری ،اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے پڑپوتے ہیں اور ان کے مریدین ملک وبیرون ملک میںلاکھوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے ہیں۔ چند سال قبل ایک انٹرنیشنل آرگنائزیشن نے انھیں دنیا کی پانچ سو بااثرمسلم شخصیات کی فہرست میں شامل کیا تھا۔خبروں کے مطابق علامہ اختررضا خاں ازہری کے صاحب زادے مولانا عسجد رضا قادری نے اس بات کی تردیدکی ہے کہ ان کے والد نے اس کانفرنس میں شرکت کے لئے کوئی اپیل کی ہے۔ انھوں نے سخت لفظوں میںجعلی خط کی تردیدکرتے ہوئے لکھا کہ ’’یہ تحریر بالکل جھوٹ ہے،بہتان ہے ،حضور تاج الشریعہ مدظلہ العالی (ازہری صاحب) کی ذات گرامی پر افترا ہے۔ یہ گھٹیا حرکت جس نے بھی کی بہت بری کی،اس سے اس کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا البتہ ’’لعنۃ اللہ علی الکاذبین‘‘ کا ضرور مصداق ٹھہرے گا۔‘‘  اس بیچ کچھوچھہ کے کئی علماء اور مشائخ کی طرف سے نریندر مودی کی سرپرستی میں منعقد ہونے والی صوفی کانفرنس کے خلاف بیانات آئے ہیں۔ ایک آڈیوٹیپ ان دنوں واٹس ایپ پر تقسیم ہو رہاہے جومولانا سید محمد مدنی کچھوچھوی کی طرف منسوب ہے۔ اس میں وہ انٹرنیشنل صوفی کانفرنس کو ایک سیاسی جلسہ قرار دیتے ہیں۔واضح ہوکہ ان کے نام سے منسوب ایک جعلی اپیل بھی واٹس ایپ پر آچکی ہے جس کی تردید بھی سامنے آئی۔

مولانایٰسین اختر مصباحی کا نظریہ

سنی بریلوی علماء میں دانشور اور صاحب فہم وفراست بزرگ عالم دین مولانا یٰسین اختر مصباحی نے اپنے کچھ حالیہ مضامین میں سنگھ پریوار کے زیر سایہ ہونے والی انٹرنیشنل صوفی کانفرنس کی سخت مخالفت کی ہے ۔ ’’ صوفی سیمینار وکانفرنس سے متعلق چند معروضات‘‘ کے عنوان سے ان کا ایک مضمون اخبارات میں شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے مانا ہے کہ سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو اپنے دام فریب میں پھنسانے کے لئے علماء ومشائخ کودانہ ڈالتی ہیں اورخود انھیں خریدنے کی کوششیں بھی ہوئی ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ پی وی نرسمہاررائو کے دور اقتدار میں انھیں خریدنے کی کوشش کی گئی تھی اور حال ہی میں علماء ومشائخ بورڈ کی طرف سے بھی ان سے رابطہ قائم کیا گیا تھا مگر وہ اس کانفرنس میں شرکت کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ انھوں نے کانفرنس پر ہونے والے کروڑوں کے خرچ پر بھی سوال اٹھایا ہے کہ یہ کہاں سے آرہاہے؟ وہ کانفرنس کے مقاصد پر شکوک وشبہات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’سیاسی پارٹیاں جس کو قریب کرکے اس سے کچھ کام لینا چاہتی ہیں، اس کے مزاج ومعیار کو سامنے رکھ کر ہی کوئی بات کرتی اور تجویز پیش کرتی ہیں۔ مقدس شخصیات کے لئے کوئی تقدس نما عنوان تیار کرتی ہیں اور پھرانھیں اپنے دام فریب کا شکار بناتی ہیں۔جسے فریب خوردہ لوگوں کو سمجھنے میں کافی دیر ہوجاتی ہے۔اور آنکھ تب کھلتی ہے جب کسی دلدل میں پھنس چکے ہوتے ہیں۔‘‘ مولانا یٰسین اختر مصباحی کا ایک مضمون بہ عنوان ’’تصوف وصوفیا کا سیاسی استعمال ناقابل قبول‘‘ شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے آرایس ایس کے بارے میں مختلف حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ وہ کس قدر خطرناک تنظیم ہے اور وہ کسی بھی طرح مسلمانوں کی خیرخواہ نہیں ہوسکتی۔ ان مضامین کی اشاعت کے بعد ان مولویوں کو بھی عقل آجانی چاہئے جو آرایس ایس کو دیش بھکت تنظیم قرار دے رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہاتھ ملا کر وہابیوں سے لڑنے کی بات کر رہے ہیں۔

اقتدار کے لئے تصوف کو ’’جنسِ بازار ‘‘نہ بنایاجائے

 شاندار انٹرنیشنل صوفی کانفرنس پر کتنا خرچ کیا جائے گا؟یہ اخراجات کہاں سے آرہے ہیں؟ کون اسپانسر کر رہا ہے؟ اس میں کالا دھن استعمال کیا جارہاہے یا سفید؟ ان سوالوں سے قطع نظر یہ بات اہم ہے کہ اس پر جس قدر خرچ کیا جارہاہے ،اس میں ایک  ایسی یونیورسٹی کا قیام عمل میں آسکتا ہے جس میں تصوف پر تحقیق کا کام لگاتار ہوسکے یا مختلف زبانوں میں ایسے کئی ٹی وی چینل لانچ کئے جاسکتے ہیں جو نظریاتِ تصوف کی اشاعت پر کام کرسکیںمگر کسی یونیورسٹی کے قیام یا تصوف کی اشاعت سے سیاسی عزائم پورے نہیں ہوسکتے۔ تصوف ہمیشہ سے اقتدار کا مخالف رہاہے مگر آج ایسا لگتاہے کہ اسی کو حصولِ اقتدار کا ذریعہ بنایا جارہاہے۔ روحانیت اور مادہ پرستی میں ہمیشہ ٹکرائو رہاہے مگر آج اسی کو’’ جنس بازار‘‘ بنایا جارہاہے۔ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ(کچھوچھہ شریف)نے روحانیت کے لئے سمنان (ایران)کا تخت وتاج چھوڑ دیا تھا اور گدڑی پہن کر نکل پڑے تھے مگر آج انھیں کے بعض نام لیوا معمولی مادی فائدے کے لئے روحانیت ومعرفت کواہل اقتدار کے ہاتھوں بیچنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے  وہ اس کی قیمت پر کچھ حاصل بھی کرلیں مگر وہ مخدوم علیہ الرحمہ کی روح کو ناراض کردینگے اور عام مسلمانوں کا اس سے جو نقصان ہوگا سو الگ ہے۔ جب امام حسین نے ظالم کی بیعت سے انکار کردیا تھا اگرچہ اس کے لئے انھیں اپنی اور اپنے اہل خاندان کی جان کی قربانی دینی پڑی تھی تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی مسلمان ،ظالموں اور قاتلوں کی جماعت سے ہاتھ ملائے۔

سنگھ پریوار کی حکمت عملی

 آرایس ایس نظریاتی اعتبار سے ایک شدت پسند مسلم مخالف جماعت ہے۔ وہ دیش بھکتی کے راگ الاپتی ہے مگر دنگے کراکر اس نے ملک کا جو نقصان کیا ہے،وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اسی کے پروردہ ہیں اور ان کی امیج بھی ایک سخت گیرہندتوادی کی رہی ہے،ایسے میں اگر کسی کو لگتاہے کہ وہ صرف وہابیوں کے مخالف ہیں اور سنی بریلوی مسلمانوں کے ہمدرد ہیں تو وہ خود فریبی میں مبتلا ہے۔ اصل میں سنگھ پریورا کانٹے سے کانٹا نکالنے کی حکمت علمی اپنائے ہوئے ہے۔ جس طرح خلافت عباسیہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے منگولوں نے شیعہ ۔سنی اختلافات کا فائدہ اٹھایا تھا اور پھردونوں کو تاراج کیا تھا،اسی طرح آج سنگھ پریوار بھی مسلمانوں کی مسلکی عصبیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں سلفی۔صوفی کے نام پر لڑانا چاہتا ہے اور چند ناعاقبت اندیش جانے انجانے میں اس کا آلۂ کار بن رہے ہیں۔ مسلمان اگر آج وقت رہتے خبردار نہیں ہوئے اور دشمن کی چال کو نہیں سمجھا تو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا کیونکہ

وہ دور بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزاپائی

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 530