donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Islam Dushman Taqaten, Musalman Aurat Ko Haq Dilane Ke Liye Bechain Kiyon


 اسلام دشمن طاقتیں، مسلمان عورت

 

کو’’حق‘‘ دلانے کے لئے بے چین کیوں؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    بھارت کی مسلمان خواتین کے تئیں ان دنوں سنگھ پریوار اور اس کی حکومت سب سے زیادہ فکرمند نظر آرہی ہے۔ وہ جماعتیں جن کے ارکان پر اکثر دنگے کرانے، مسلم خواتین کی بے آبروئی کرنے،معصوم بچوں کی جانیں لینے کے الزامات رہے ہیں،ان کی مسلم خواتین کے حقوق کے تئیں فکر مندی نے خود مسلمانوں کو فکر مند کردیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی جنھوں نے خود اپنی بیوی کو شادی کے فوراً بعد بغیر طلاق کے ہی چھوڑ دیا تھا،اب مسلم عورتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کر رہے ہیں۔ ان کے وزراء میں ارون جیٹلی، وینکیا نائیڈو اور مختار عباس نقوی سب سے تیز آواز میں وزیراعظم کی وکالت کا فریضہ انجام دینے میں لگے ہوئے ہیںبلکہ مرکزی سرکار کی ہاں میں ہاں ملانے میں سب سے پیش پیش ہیں ٹی وی چینل جو خواتین کے استحصال کے لئے بھی بدنام ہیں۔ حالانکہ مسلم عورتوں کو’’ آزاد‘‘ کرانے اور انھیں ان کا ’’حق‘‘ دلانے کی آواز سب سے زیادہ انھیں طبقات کی طرف سے اٹھتی رہی ہے جن کی شہرت اسلام دشمنی کے لئے رہی ہے۔ ہم گجرات دنگوں کی بات نہیں کرتے جہاں مسلم خواتین پر ہونے والے مظالم اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہم عشرت جہاں کو بھی بھول جاتے ہیں جس کا فرضی انکائونٹر مودی جی کے گجرات کا وزیراعلیٰ رہتے ہوئے کیا گیا تھا بلکہ مسلم عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والوں میں وہ امریکہ شامل ہے جس کی بمباریوں سے افغانستان، عراق اور شام میں اب تک لاکھوں خواتین لقمۂ اجل بن چکی ہیں اور لاکھوں پناہ گزیں کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ مسلمان خواتین کے تئیں وہ فرانس بھی متفکر ہے جہاں خواتین کا استحصال ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا بھر کی اسلام دشمن طاقتوں کو مسلم عورتوں پر ترس کیوں آتا ہے؟ وہ مسلم خواتین کی فکر میں کیوں گھلتی ہیں؟  انھیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ ان ’’مظلوم‘‘ خواتین کو نجات دلانا ضروری ہے؟ آخر مشرق و مغرب کی تمام اسلام مخالف قوتیں اُس وقت متحد کیوں ہوجاتی ہیں جب مسلم عورتوں کی بات ہوتی ہے اور ان کے مسائل پر گفتگو کی جاتی ہے؟ آخر کیا سبب ہے کہ بھارت کے فرقہ پرستوں سے لے کر اسرائیل کے صہیونی تک اور امریکہ کے قرآن مخالفوں سے لے کر فرانس کے حجاب دشمن تک مسلمان عورتوں کے ’’دکھ‘‘ میں برا بر کے شریک دکھائی دیتے ہیں۔ جن لوگوں کو مسلمان مردوں سے پریشانی ہے، انھیں مسلمان عورتوں سے ہمدردی کیوں ہے؟ آخر کیا سبب ہے کہ دنیا بھر میں کھربوں ڈالر صرف مسلم خواتین کی ہمدردی میں پرچار کے لئے خرچ کئے جارہے ہیں؟ مرد سے دشمنی اور عورت سے پیار کے پیچھے کونسے مقاصد کا رفرما ہیں؟ آج یہ سوال اس لئے اٹھ رہے ہیں کہ بھارت سے لے کر یوروپ وامریکہ تک خود کو ’’مظلوم‘‘ مسلم خواتین کا حامی بتانے میں لگے ہوئے ہیں اور مشرق کی تمام اسلام دشمن طاقتیں ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کر رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے گویا ان کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنا ہے مگر مسلم عورتوں کو ختم کرنا نہیں ہے بلکہ انھیں ’’ظالم‘‘ مسلمان مردوں کے چنگل سے آزاد کرانا مقصود ہے۔ اس سلسلے میں ساری دنیا کے میڈیا کا انھیں ساتھ مل رہا ہے اور ہر کسی کو یہ باور کرانے کی کوشش ہورہی ہے کہ مسلمان اپنی عورتوں کو جانوروں سے بدتر سمجھتے ہیںاور انسانیت کا مقام بھی دینے کو تیار نہیں ہیں۔ انھیں گھر میں بند رکھتے ہیں، انھیں پردے میں قید رکھتے ہیں اور بچے پیدا کرنے کی مشین سمجھتے ہیں۔ اس قسم کے پرچار پر کھربوں ڈالر خرچ کئے جارہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ آج سب کے دل پھٹے جارہے ہیں مسلمان عورتوں کے دکھ سے اور وہ انھیں اس مظلومیت کی زندگی سے نجات دلانے کے لئے بے چین ہیں۔ اس کی کئی مثالیں سامنے آچکی ہیں۔

حکومت اپنا کام کرے

    بھارت میں ان دنوں ’’تین طلاق‘‘ کا مسئلہ چل رہاہے۔ حکومت اور میڈیا کا ماننا ہے کہ ’’تین طلاق‘‘ کے سبب خواتین کے حقوق کی پامالی ہورہی ہے اور اس پر پابندی ضروری ہے۔ مجھ جیسے کچھ مسلمان بھی یہ مانتے ہیں کہ طلاق کے حق کا مردوں کی طرف سے غلط استعمال کیا جاتا ہے اوراس کے سبب کئی دیگر مسائل جنم لے رہے ہیں مگر اسی کے ساتھ ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ یہ مسئلہ مسلمانوں سے جڑا ہوا ہے اور اس کا حل علماء کرام کو نکالنا ہے۔مذہب کے معاملے میں حکومت کی مداخلت مسئلہ کاحل نہیں بلکہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ حکومت اگر مسلم خواتین کے لئے کچھ کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ گجرات سمیت ملک کی ان تمام مسلم خواتین کو انصاف دلائے جن کا سب کچھ دنگوں میں بربادہوگیا اور قاتل وظالم آج نیتابن کر گھوم رہے ہیں اور انھیں حکومت کی طرف سے سیکوریٹی دی جارہی ہے۔ مودی سرکار اگر مسلم عورتوں سے واقعی ہمدردی رکھتی ہے تو مسلم لڑکیوں کی تعلیم اور روزگار کے میدان میں کچھ کرے۔

ایک مثال

    چند سال قبل عالمی یوم خواتین کے موقع پر فرانس کے تب کے وزیر دفاع جیسن کینی (Jason Kenney)نے ایک ٹویٹ کیاتھا اور کہا تھا کہ وہ مسلمان خواتین کے درد میں برابر کے شریک ہیں۔ انھوں نے کچھ تصویریں بھی ٹویٹ میں شامل کیں، جن میں سے ایک تصویر کچھ برقع پوش خواتین کی تھیں جو زنجیروں میں جکڑی ہوئی چل رہی تھیں، جب کہ دوسری تصویر میں ایک آئی ایس کے دہشت گرد کو ایک سات سال کی بچی سے شادی کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ یہ دونوں ہی تصویریں ظاہر کرتی تھیں کہ مسلمان خواتین کس قدر مظلوم ہیں اور کس طرح سے وہ مسلمان مردوں کی بربریت سے دوچار ہیں۔ حالانکہ اس سلسلے میں ایک وضاحت بھی ضروری ہے جو فرنچ وزیر دفاع نے کرنا ضروری نہیں سمجھاتھا، وہ یہ ہے کہ پہلی تصویر جس میں برقع پوش خواتین کو زنجیروں میں جکڑا ہوا دکھایا گیا تھا وہ یوم عاشورہ کی ایک جھانکی کی تھی جس میں میدان کربلا کا منظر پیش کیا گیا تھا۔ یوم عاشورہ کے موقع پر عام طور پر اس قسم کی جھانکیاں نکالی جاتی ہیں اور اس جھانکی میں بھی حضرت زینب اور اہل بیت کی خواتین پر ہونے مظالم کو پیش کیا گیا تھا۔ یعنی یہ محض ایک اداکاری ہوتی ہے جسے فرنچ وزیر دفاع نے حقیقت بناکر پیش کردیا۔ آج دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا منظر نہیں دیکھا جاتا ہے جس میں خواتین کو زنجیروں سے جکڑ کر رکھا جائے۔ اسی طرح دوسری تصویر جس میں آئی ایس کے کسی دہشت گرد کو ایک سات سالہ بچی سے شادی رچاتے ہوئے دکھایا گیا ہے، اس کی سچائی کی تصدیق اب تک آزاد ذرائع سے نہیں ہوپائی ہے۔ حالانکہ آئی ایس کے خلاف ساری دنیا کے مسلمان بھی متحدہیں اور اس کی دہشت گردانہ حرکتوں کی مذمت جس طرح دوسرے لوگ کرتے ہیں، اسی طرح مسلمان بھی کرتے ہیں۔ یہ ایک واقعہ تو مثال ہے کہ جس فرانس میں خواتین کے برقع پہننے پر پابندی ہے وہاں کی حکومت کے ایک اہل کار مسلمان عورتوں سے کس قسم کی ہمدردی رکھتے ہیں اور ان کے غم میں کس طرح دبلے ہوئے جارہے ہیں۔ مسلم خواتین کے ساتھ ہمدردی کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں جن میں ایک دوسری مثال یہ ہے کہ جب افغانستان پر امریکہ نے قبضہ جمایا اور طالبان سے اس ملک کو نجات دلایا تو سب سے پہلے یہ اعلان کیا گیا کہ شراب خانوں پر لگی پابندی ختم کی جاتی ہے۔ جن اسلامی قوانین کا نفاذ طالبان نے کیا تھا انھین ہٹایا جا رہا ہے اور افغانستان کی خواتین کو خوبصورت بنانے کے لئے امریکی سرکار یہاں بیوٹی پارلر کھولے گی نیز کاسمیٹکس بنانے والی مغربی کمپنیاں اب یہاں اپنا کاروبار کر پائیں گی۔ اس قسم کے اعلانات ظاہر کرتے ہیں کہ مغرب کو مسلم خواتین سے کس قدر ہمدردی ہے۔ ایسی ہی ایک مثال اس وقت بھی دیکھنے میں آئی جب پاکستان کی ملالہ یوسف زئی کو مغرب ہاتھوں ہاتھ لیتا ہے اور ان لاکھوں خواتین کو بھلا دیا جاتا ہے جو افغانستان اور عراق میں مغرب کی استعماری قوتوں کی گولہ باریوں کی زد میں آکر اپنی جانیں گنواتی ہیں یا جسم کے اعضاء سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوجاتی ہیں، جن کی عفت وپاک دامنی کو امریکی فوجی تار تار کردیتے ہیں۔ انھیں ان فلسطینی عورتوں سے کبھی ہمدردی کا احساس نہیں ہوتا جو ان کے حمایت یافتہ صہیونی درندوں کی درندگی کا شکار ہوتی ہیں۔ 

پہلے اپنے گھر میں دیکھو

    مغرب کو مسلمان عورتوں سے کس قسم کی ہمدردی ہے، اس کا اندازہ ایک واقعے سے آپ لگا سکتے ہیں۔ تیونیسیا میں ایک عورت نے کسی نیٹ ورکنگ سائٹ پر اپنی ایک تصویر پوسٹ کی، جس میں اس کی چھاتی برہنہ تھی۔ اس تصویر پر حکومت کی طرف سے کارروائی کی گئی اور وہاں کی عدالت نے اس پر اسے سزا سنادی۔ کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ساری دنیا میں مغربی کلچر کے علمبرداروں نے صدائے احتجاج بلندکی اور مسجدوں واسلامک سنٹرس کے سامنے خواتین نے اپنی چھاتیاں کھول کھول کر مظاہرے کئے۔ مظاہروں میں شامل عورتوں نے اپنی چھاتیوں پر اسلام مخالف نعرے لکھ رکھے تھے اور خواتین پر ہونے والے مظالم کا ذکر کیا تھا۔ اس ایک مثال سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ مسلم خواتین کو کن ’’مظالم‘‘ سے آزاد کرانے کی کوششیں چل رہی ہیں اور ان کے ساتھ ہمدردی کا مطلب کیا ہے؟ مغرب میں عفت وپاک دامنی کا تصور نہیں ہے اور جہاں خواتین اپنے جسموں کو مردوں کی ضیافت طبع کا سامان سمجھتی ہیں، وہیں مردبھی انھیں جنسی کھلونے سے زیادہ نہیں سمجھتے ہیں۔ یہاں یہ تصور پروان چڑھ چکا ہے کہ عورت کا جسم اس کی ملکیت ہے اور وہ جس طرح سے چاہے اس کا استعمال کرے۔ یہی سبب ہے کہ عورتوں کو یہاں کسی پروڈکٹ کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔ مغرب کے جنس زدہ سماج کی یہ سچائی ہے کہ کسی عورت کی آبرو محفوظ نہیں ہے اور امریکہ جیسے ملک کے سرکاری اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ یہاں خواتین کی عصمت ریزی عام بات ہے۔ سنٹر فار ڈیزیزکنٹرول اینڈ پریونشن (SFDCP)کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق دنیا کے سب سے مہذب اورترقی یافتہ ملک،امریکا میں بیس فیصد عورتیںعصمت دری کا شکار ہوتی ہیں اور پچیس فیصد عورتوں کو تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ اـسیّ فیصد عورتیںپچیس سال سے کم عمر میں پہلی بار جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ان میں ایسی عورتوں کی بھی کمی نہیں جواپنے قریبی رشتے داروں یا پارٹنرس کے ہاتھوں ہی اپنی عصمت گنواتی ہیں۔ الاسکا،یگان اور نیواڈہ میںسب سے زیادہ تشدد اور عصمت دری کے معاملے دیکھنے کو ملے۔ہر آٹھ میں سے ایک عورت کا کہنا تھا کہ اسکے گھریلو فرد نے ہی اسے لقمۂ تر سمجھ کر ہوس کا شکار بنایا ۔ اسی طرح ہر ۷۱ میں سے ایک مرد کا کہنا تھا کہ اسے غیر فطری جنسی عمل کا شکار ہونا پڑا۔ہرسات میں سے ایک مرد کو زندگی میں کم سے کم ایک باراپنے قریبی پارٹنر کے ہاتھوں جسمانی تشدد کا شکار ہونا پڑا۔ اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکہ کی تب کی وزیر برائے صحت وانسانی خدمات کتھلین سی بکولس نے کہا تھاکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ لاکھوں امریکیوں کی زندگی کن تباہ کن حالات سے دوچار ہے۔

اس ہمدردی کا سبب کیا ہے؟

    اصل بات یہ ہے کہ اسلام کے خلاف پرچار کے لئے مسلم عورتوں کے ساتھ ہمدردی جتائی جا رہی ہے اور مفروضہ مظالم کا ذکر کر کے دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اسلام ایک ایسا ظالم مذہب ہے جو خواتین پر جبروتشدد کو روا رکھتا ہے۔یہ سب اسلام کے بڑھتے ہوئے قدم کو روکنے کے لئے کیا جاتا ہے جس کی بڑھتے اثرات سے پورا مغرب دہشت میں ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ فرانس کو برقع سے ڈر لگتا ہے اور امریکہ میں قرآن کریم پر پابندی عائد کرنے کی بات کی جاتی ہے۔حالانکہ جھوٹے پروپیگنڈوں کے باوجود یہاں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے اور ان میں ۷۰فیصد سے زیادہ خواتین ہوتی ہیں۔ اسلام ایک خدائی دین ہے اور اس کی نظر میں مرد وعورت کا مقام یکساں طور پر محترم ہے۔اسلام اپنے ماننے والوں کو خواتین کی عزت کرنا سکھاتا ہے۔وہ مومن کے جسم وجان کو اللہ کی امانت قرار دیتا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دنیا کے بعض ملکوں میں مقامی رسم ورواج کے زیر اثر خواتین کے بعض حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور انھیں مردوں کے مقابلے کم حقوق حاصل ہیں۔ جیسے سعودی عرب وغیرہ۔ مگر اس کے لئے اسلام قصور وار نہیں ہے بلکہ وہ لوگ قصور وار ہیں جو اسلام کا نام لے کر اسلامی قوانین کی دھجیاں اڑا تے ہیں۔ اسلام مخالفین کی طرف سے سعودی عرب کو مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہاجا تا ہے کہ ایران میں نو سال کی عمر میں شادی کی اجازت ہے اور افریقی ملکوں میں نوعمر لڑکیوں کو بے ہوش کئے بغیر ختنہ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ بے ہوش کئے بغیر تو لڑکوں کاختنہ بھی کیا جاتا ہے، اس پر مغرب کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ویسے بھی اسلام نے لڑکیوں کے ختنے کا حکم نہیں دیا ہے اور جن ملکوں میں ایسا ہوتا ہے وہ مقامی رسوم کے تحت ہوتا ہے اور اسلامی احکام وتعلیمات سے دوری کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ 

    یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جب مسلم عورتوں کی بات آتی ہے تو سیکولرسٹوں سے لے کر کمیونسٹوں تک میں اتحاد ہوجا تاہے اور بھارت کے ہندتو وادیوں سے لے کر صہیونی تک ایک ہوجاتے ہیں۔ اصل میں یہ معاملہ مسلم عورتوں سے ہمدردی کا نہیں ہے بلکہ ان کی ہمدردی کی آڑ میں اسلام کو نشانہ بنانے کا ہے۔یہ معاملہ حب علی کا نہیں بلکہ بغض معاویہ کا ہے۔ جس طرح بھارت میں شاہ بانو کیس کو لے کر بی جے پی سے لے کر کمیونسٹ تک ایک ہوگئے تھے اسی طرح مسلم عورتوں کو بہانہ بناکر وہ سبھی لوگ متحد ہوجاتے ہیں جن کے نظریات آپس میں میل نہیں کھاتے ہیں۔ آج کامن سول کوڈ پر گرماگرم بحث چل رہی ہے اور اس میں مسلم خواتین کے حقوق کی بات بھی شامل ہے جسے لے کر بی جے پی سے لے کر کمیونسٹ تک متحد نظر آرہے ہیں۔  


email: ghaussiwani@gmail.com
Ghaus Siwani/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments


Login

You are Visitor Number : 991