donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Janwar Ke Qatl Par Saza, Insan Ke Qatal Par Aazadi


جانور کے قتل پر سزا،انسان کے قتل پرآزادی

 

آرایس ایس کی اندھی منطق


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    بیف کھانے ولے کا قتل کیا جاسکتا ہے؟ جانور کے تحفظ کے لئے انسان کو مارنا کتنا درست ہے؟ کیا دادری میں بیف کھانے کی افواہ پر محمداخلاق کا بھیڑ کے ذریعے قتل دنیا کا کوئی مہذب سماج جائز ٹھہراسکتا ہے؟اس واقعے پر ہرجانب سے مذمتی بیانات آرہے ہیں مگر آر ایس ایس کے ترجمان ’’پانچ جنیہ‘‘ میں ایک مضمون چھپا ہے جس میں دادری کے واقعے کو درست بتایا گیا ہے۔  ’’پانچ جنیہ‘‘ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ گائے کا گوشت کھانے کی سزا وید میں قتل بتائی گئی ہے۔ یہ بالکل نئی قسم کی تحقیق ہے ورنہ اس سے پہلے دلی یونیورسٹی کے تاریخ داں پروفیسرڈی این جھا نے ویدوں کے اشلوکوں سے ثابت کیا تھا کہ ویدوں کے عہد میں ہندو بیف کھاتے تھے اور اس کی بلی بھی دی جاتی تھی۔اسی طرح آج ایسے ماہرین تغذیہ بھی سامنے آرہے ہیں جو مانتے ہیں کہ موجودہ دور میں بیف پروٹین حاصل کرنے کا بہتر اور سستا ذریعہ ہے۔حالانکہ ’’ پانچ جنیہ‘‘ میں کہا گیا ہے کہ وید ان ’’گنہگاروں‘‘ کے قتل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو لوگ گوودھ کرتے ہیں۔آرایس ایس کے ترجمان میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ مدرسے اور مسلم لیڈر نوجوان مسلمانوں کو گوشت کھا نے کے لئے اکساتے ہیں۔ یہ لوگ ملک کی روایات سے نفرت کرنا سکھاتے ہیں۔ مضمون کے مطابق، شایداخلاق انہیں بری ہدایتوں کی وجہ سے گوودھ میں شامل رہا ہوگا جس کے تحت اس کا قتل کر دیا گیا۔’’پانچ جنیہ‘‘ میں مزید لکھا ہے کہ وید کا حکم ہے کہ ’’گائے کو قتل کرنے والے گنہگاروں کی جان لے لو۔ ہم میں سے بہتوں کے لئے تو یہ زندگی موت کا سوال بن جاتا ہے۔ سینکڑوں سالوں سے گوودھ ہمارے لئے بہت بڑا مسئلہ رہا ہے اور آگے بھی رہے گا۔ ہمارے باپ دادا نے بھی اس کے خلاف آواز اٹھائی اور گوودھ روکنے کے لئے جان کی بازی لگا دی۔ تاریخ کا گواہ ہے، ایسے کئی موقع آئے جب مسلم گھسپیٹھیوں نے ہندوؤں کا مذہب تبدیل کرنے کی کوشش کی اور انہیں زبردستی بیف کھلانا چاہا۔‘‘پانچ جنیہ میں ادیبوں کی جانب سے ایوارد واپس کئے جانے کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور ادیبوں سے پوچھا گیا ہے کہ وہ اب تک خاموش کیوں تھے؟ اس مضمون کو ونے کرشن چترویدی نے طفیل چترویدی کے نام سے لکھا ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ، گوہتیا ہمارے لئے اتنی بڑی بات ہے کہ سینکڑوں سال سے ہمارے باپ دادا اسے روکنے کے لئے اپنی جان کی بازی لگا کر قتل کرنے والوں سے ٹکراتے رہے ہیں۔ تاریخ میں سینکڑوں بار ایسے مواقع آئے ہیں، جب مسلم حملہ آوروں نے ہندوؤں کو مسلمان بنانے کے لئے ان کے منہ میں بیف ٹھوسا ہے۔ہندوؤں کے لئے گائے کی اہمیت پر کہا گیا ہے کہ 1857 میں پہلا

انقلاب اس وقت شروع ہوا، جب انگریزوں نے بھارتی
فوجیوں کو گوشت کی چربی والی کارتوسوں کو دانت سے کاٹنے کے لئے کہا تھا۔
’’آرگنائزر‘‘ کا سوال


    دوسری طرف آرایس ایس کے انگریزی ترجمان ’’آرگنائزر ‘‘کے اداریہ میں دادری معاملے پر شور مچانے والے لوگون سے سوال کیا گیا ہے کہ وہ سکھوں کے قتل اور گودھرا میں کارسیوکوں کے قتل پر کیا کر رہے تھے۔ ادیبوں سے پوچھا گیا ہے کہ اس وقت ان کا ضمیر کیوں نہیں جاگا تھا؟آخر گایوں کے ذبیحے پر پابندی سے سستے پروٹین کی فراہمی کس طرح متاثر ہوگی؟آرگنائزر میں یہ بھی لکھا گی اہے کہ نریندرمودی سرکار کے خلاف آواز اٹھانے والے تمام لوگ مودی کے خوف سے اعصابی مرض کا شکار ہوئے ہیں۔ یہ تمام اپنا اپنا وجود بچانے کی جدوجہد میں مشغول ہیں۔

آرایس ایس کی وضاحت

    ’’پانچ جنیہ‘‘ میں شائع شدہ مضمون پر جب ہر طرف سے سوال اٹھنے لگے تو آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے راکیش سنہا نے کہا کہ میگزین میں شائع مضمون مصنف کی اپنی سوچ ہے، اسے سنگھ کی رائے بتانا غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے، جب کہ سنگھ کے ترجمان منموہن وید نے ایک بیان جاری کر کہا کہ آر ایس ایس نے کبھی کسی پرتشدد واقعہ کی حمایت نہیں کی۔ وید کے مطابق، آر ایس ایس نے دادری تشدد کے بارے میں واضح طور پرکہا ہے کہ معاملے کی مکمل انکوائری ہونی چاہئے۔ مجرم کو سزا دی جانی چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ ہندی میں ’’پانچ جنیہ‘‘ اور انگریزی میں ’’آرگنائزر‘‘ آرایس ایس کے ترجمان نہیں ہیں۔ آر ایس ایس کی جانب سے صرف ایک ذمہ دار عہدیدار ہی بولتا ہے۔وہیں اس مضمون پر جب اخبار کے ایڈیٹر ہتیش شنکر سے  پوچھا گیا تو  انہوں نے کہا کہ ہم کسی بھی تشدد کے واقعہ کی حمایت نہیں کرتے۔ مجھے یاد نہیں کہ تشدد کی حمایت کرتا ایسا کوئی مضمون چھپا ہے۔ انکوائری چل رہی ہے۔

’’بیف‘‘ پروٹین کا سب سے سستا ذریعہ

     جہاں ایک طرف بیف پر ملک بھر میں سیاست جاری ہے وہیں دوسری طرف غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ بیف پروٹین کے سب سے بہتر اور سستا ذریعہ ہے ۔ دوسرے ذرائع سے اتناپروٹین حاصل کرنے کے لئے لوگوں کو اس سے کہیں زیادہ خرچ کرنا پڑے گا۔غذا کے ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ہر جگہ بیف سستا ہے اور آسانی سے دستیاب ہوتا ہے۔حیدرآباد میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف نیوٹریشن کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر بی سیسی کرن نے بتایا، اگر کوئی صرف ایک ذریعہ سے سب سے زیادہ پروٹین چاہتا ہے تو وہ ہے بیف۔ اس میں دوسرے گوشت اور یہاں تک کہ سبزیوں سے بھی زیادہ پروٹین ملتا ہے۔وہ کہتے ہیں، تاہم سبزی اور دیگرقسم کے گوشت میں بھی پروٹین موجود ہے، لیکن یہ بیف کے مقابلے کافی مہنگا پڑتا ہے۔ادھرانڈین ڈائیٹکٹس ایسوسی ایشن کی صدر ڈاکٹر شیلا کرشناسوامی کہتی ہیں،بیف پروٹین اور آئرن کا سب سے بہترین ذریعہ ہے لیکن چکن، مچھلی، دالیں اور مونگ پھلی بھی پروٹین کے

دوسرے ذرائع ہیں، جن سے پروٹین کی کمی پوری کرسکتے ہیں جیسے سبز اور پتی والی سبزیاں اور انجیر میں کافی آئرن ہوتا ہے۔

    کیوا نیوٹریشن کے شریک بانی اور غذا کے ماہرریان فرناڈو کہتے ہیں، سبزی میں پائے جانے والے پروٹین کے مقابلے مختلف گوشت میں پروٹین کا فیصد مختلف ہوتا ہے۔ مثلاً ایک کلو گوشت سے آپ کو 30 فیصد پروٹین ملتا ہے، تو ایک کلو سبزیوں سے آپ کو تقریبا 15 سے 20 فیصد پروٹین ہی مل پائے گا۔فرناڈو کے مطابق، اگر آپ سبزی کا انتخاب کرتے ہیں تو آپ کو پروٹین والے دیگر ذرائع کو بھی کھانے میں شامل کرنا پڑے گا۔جب کہ ڈاکٹر سیسی کرن اور ڈاکٹر شیلا کرشناسوامی دونوں ہی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بیف جیسا ریڈ گوشت کھانے کا سب سے بڑا منفی پہلو یہ ہے کہ اس میںکولیسٹرال زیادہ ہوتی ہے۔ڈاکٹر سیسی کرن کا کہنا ہے، انڈے یا دودھ بھی پروٹین کے بہترین ذرائع ہیں اور سفید گوشت کے مقابلے یہ زیادہ مہنگے بھی نہیں ہوتے۔ سویا بین بھی پروٹین کا بہترین ذریعہ ہے۔سیسی کرن کہتے ہیں کہ، بیف کھائے جانے والے ریاست کیرالہ میں اگر پابندی لگ جائے تو لوگوں کے لئے مچھلی کا انتخاب ممکن ہے لیکن شمال مشرقی ریاستوں میں، جہاں زیادہ مچھلی نہیں ملتی، لوگوں کے لئے چکن کا انتخاب مشکل ہوگا۔

بیف پر پابندی سے ہندوستان کی معیشت کو نقصان

    جہاں ایک طرف پروٹین کے سب سے اچھے اور سستے ذریعے بیف پر مکمل پابندی کی بات کہی جارہی ہے اور ملک کی بیشت ریاستوں میں اسے پابند کیا بھی جاچکاہے وہیں دوسری طرف اس سے ملک کو معاشی نقصان بھی پہنچ رہاہے۔ مہاراشٹر حکومت نے مارچ میں جب گوہتیا اور بیف کی فروخت پر پابندی لگایا تو اسی دوران عراق نے برازیل سے گائے کے گوشت کی درآمد کو دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ لیا۔لاطینی امریکی ملک برازیل میں ’’میڈ کائو‘‘ بیماری کا ایک کیس سامنے آنے کی وجہ سے عراق نے اپریل 2014 میں بیف کی درآمد پر پابندی لگا دی تھی۔عراق کے علاوہ چین اور سعودی عرب بھی برازیل سے بیف خرید رہے ہیں۔ ہندوستان کی کئی ریاستوں میںبیف پر اٹھائے گئے قدم سے، برازیل کے لئے بیف کی تجارت میں ایک بہترین موقع پیدا ہو گیا ہے۔ماہرین کے مطابق آنے والے مہینوں میں بھارت سے گوشت برآمد اور اس سے ہونے والی آمدنی میں کمی آ سکتی ہے اور برازیل کو بھارت کے اس نقصان سے فائدہ ہو سکتا ہے۔بھارت دنیا میں بیف اکسپورٹ کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔امریکی محکمہ زراعت (USDA) کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق، بھارت کا عالمی مارکیٹ میں حصہ 20 فیصد ہے۔برازیل پہلے نمبر پر ہے۔بھارت جنوبی مشرقی ایشیا اور مشرق وسطی کے ممالک کو گوشت برآمد کرتا رہا ہے، جو کہ بڑے پیمانے پر بھینس کا گوشت ہوتا ہے۔بیف برآمد سے بھاری مقدار میں غیر ملکی کرنسی حاصل کرنے والا برازیل ان دونوں علاقے میں اپنی بازار حصص میں اضافہ کے لئے بہت کوشش کرتا رہا ہے۔برازیلین ایسوسی ایشن آف بیف انڈسٹری اینڈ ایکسپورٹ سے منسلک ایک افسر کے مطابق، سال 2014 میں بھارت سے گوشت کی برآمد میں 12 فیصد اضافہ ہوا اور آمدنی میں 27 فیصد کا اضافہ ہوا۔اس کا کہنا تھا، اگرچہ ابھی تک ہم نہیں جانتے کہ بھارت سے گوشت برآمد میں کیا کوئی کمی آئی ہے لیکن یہ ایک ایسا موقع ہے،

جسے ہم بھنانا چاہتے ہیں۔ ہم مسلسل بازار پر نظر بنائے ہوئے ہیں۔


************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 598