donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Kashmir Me Huquqe Insani Ki Khelaf Warzi Karne Walon Ko Sazayen Mi;ne Ki Shuruaat Ho Chuki Hai


 کشمیرمیں حقوقِ انسانی کی خلاف ورزی کرنے والوں کو

سزئیں ملنے کی شروعات ہوچکی ہے


ماچھل فرضی انکائونٹر کی طرح بڈگام معاملے میں بھی انصاف ہوگا؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    جموں وکشمیر کے باشندوں کے دل جیتنے کی شروعات ہوچکی ہے؟ کیا اب ان کے دل سے علاحدگی پسندی کے جذبات ختم ہوجائینگے؟ کیا اب انھیں احساس ہونے لگے گا کہ بھارت میں انھیں تمام حقوق ملیں گے اور اب فوج کے ذریعے حقوقِ انسانی کی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟ اب ان کے نوجوانوں کو فرضی انکائونٹرس میں نہیں مارا جائے گا اور ایسا کرنے والے فوجیوں کو سخت سزائیں ملینگی؟ جی ہاں! ماچھل فرضی انکائونٹر والے کیس میں جس طرح سے تیزی کے ساتھ کارروائی کی گئی اور ذمہ دار سات فوجیوں کو عمر قید کی سزا سنائی  گئی اس سے امید بندھ چلی ہے کہ ہے اب وادی میں حقوق انسنای کی خاف ورزی بند ہوگی اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائیگی۔ جس ملک میں چالیس ،چالیس برس تک کیس چلتے رہتے ہیں اور پھر بھی کوئی فیصلہ نہیں آتا ، وہاں ایک چار سال پرانے معاملے میں سزا کا اعلان حیرت انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ انصاف کی امید بندھانے والا ہے۔ آج کشمیریوں کو لگنے لگا ہے کہ اس قسم کے دوسرے معاملات میں بھی  انھیں انصاف ملے گا۔ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو بھی تیزی سے قانونی معاملہ نمٹائے جانے پر خوشی ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ وادی کے لئے یہ ایک تاریخی موقع ہے، کبھی کسی نے سوچا نہ تھا کہ اتنی جلد انصاف ملے گا۔

انصاف ملا مگر ۔۔۔

    اپریل ۲۰۱۰ء میں فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ ماچھل سیکٹرمیں اس نے تین دراندازوں کو مارگرایا ہے جو کہ پاکستانی دہشت گرد تھے اور کشمیر میں تخریب کاری کے لئے آئے تھے۔ حالانکہ بعد میں پتہ چلا کہ تینوںمقتول شہزاد احمد(۲۷سال)، ریاض احمد (۲۰ سال)اور محمد شفیع لون(۱۹سال) بارہمولہ کے ندیہال قصبے کے رہنے والے تھے ۔ یہ تینوں ہی بے حد غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے ۔ ابتدائی پولس انکوائری میں پایا گیا تھا کہ شہزاد ایک کیس میں گواہ تھا، بومئی میں فوج نے دو افراد کو گولیاںماری تھیں اور شہزاد اس معاملے کا چشم دید گواہ تھا ۔ریاض احمد ایک گیرج میں کام کرتا تھا اور ماہانہ صرف ۲۵ سو روپے کماپاتا تھا حالانکہ اس کی فیملی بڑی ہے، اسے فوجیوں نے لالچ دیا کہ ایک فوجی کیمپ میں اسے کام کرنا ہے جہاں اسے روزانہ دوہزار روپئے ادا کئے جائینگے۔ اس لالچ میں وہ ان کے ساتھ چل پڑا تھا۔یونہی محمدشفیع لون کامکان زلزلے میں تباہ ہوگیا تھا اور اس کے گھر والے ایک نصف تعمیر شدہ مکان میں رہتے ہیں جسے وہ ٹھیک کرانا چاہتا تھا۔وہ صرف ۱۹ سال کا تھا اور اپنے خاندان کو بہتر زندگی دینے کے لئے کام کرنا چاہتا تھا۔جب اس کی لاش دستیاب ہوئی تو پایا گیا کہ اس کے چہرے پر سیاہ ملی گئی ہے تاکہ شناخت نہ کیا جاسکے۔قتل کے بعد ان سبھوں کو لائن آف کنٹرول پر ہی دفنا دیا گیا تھا۔ان میں سے کسی کا دہشت گردی یا تخریب کاری سے کچھ لینا دینا نہ تھا ۔ یہ بے روزگار نوجوان تھے جنھیں روزگار کی لاچ دے کر  پہلے فوج نے اغوا کیا اور پھر سرحد پر لے جاکر گولی ماردی۔ یہ معاملہ جب روشنی میں آیا تو پوری وادی میں ہنگامہ مچ گیا اور حکومت و فوج کے خلاف عوامی سیلاب سڑکوں پر امنڈ آیا اور  تحریک کے دوران ۱۲۳ افراد کی موت ہوگئی۔ تینون مقتولین کے گھر والوں کی  طرف سے شکایت کی گئی تھی کہ فوج کے جوانوں نے پہلے انھیں نوکری دینے کے بہانے سوپور سے اغوا کیا اور پھر کپواڑہ کی اونچی پہاڑیوں پر لے جاکر گولی ماردی۔ ان سبھوں کو سرحد پر لے جانے کا کام حمید ، عباس اور بشیر نامی لوگوں نے کیا تھا جن گھروں کو بعد میں گائوں والوں نے آگ کی نذر کردیا تھا۔عباس، حمید اور بشیر کو فوجیوں نے اس کے بدلے میں روپئے اور شراب کی بوتلیں دی تھیں۔ تینوں مقتولین کے گھر والوں نے پہلے ان کی گمشدگی کی رپورٹ ۱۰ مئی ۲۰۱۰ء کو نادیہال میں رجسٹر کرائی تھی۔ ابتدائی جانچ میں ان فون کالس کی ڈیٹیل بھی پولس نے نکالیں جو شہزاد نے اپنے گھر کی تھیں اور اس کے ذریعے بشیر کا پتہ چلا جو انھیں لے کر گیا تھا پھر بشیر کی گرفتاری ہوئی اور اس سے ملی جانکاری کی بنیاد پر حمید اور عباس کو پکڑا گیا۔ بعد میں ان لوگوں کے ذریعے پولس اصل کیس تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ۔فوج سے تعلق رکھنے والے اس کیس کے سات ملزمان تھے جن میں ۴ راج پوت رجمنٹ کے کمانڈنگ افسر کرنل دنیش پٹھانیہ، کیپٹن اوپندر سنگھ، صوبیدار ستبیر سنگھ، حولدار بیر سنگھ، سپاہی چند بھان ،سپاہی ناگیدر سنگھ اور سپاہی نریندر سنگھ شامل تھے جن کا کورٹ مارشل جنوری ۲۰۱۴ء میں شروع ہوا اور ۱۴ نومبر ۲۰۱۴ کو فیصلہ آگیا جس میں ان ساتوں افراد کو قتل کا ذمہ دار پایا گیا ہے اور عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

بڈگام فائرنگ میں بھی انصاف ہوگا؟

    جموں وکشمیر میں قتل و غارت گری اور خوں ریزی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہاں آئے دن انکائونٹر ہوتے رہتے ہیں جن میں کچھ حقیقی ہوتے ہیں اور کچھ فرضی ہوتے ہیں۔ یہاں لائن آف کنٹرول ہے اور اس کی دونوں جانب بھارت اور پاکستان کے مقبوضات ہیں۔ بھارت کی طرف سے آئے دن کے دعوے کئے جاتے ہیں کہ پاکستان اپنے تربیت یافتہ جنگ جووں کو کشمیر میں گڑبڑی پھیلانے کے لئے بھیجتا رہتا ہے اور ہماری فوج دراندازوں کی آمد کو ناکام بناتی رہتی ہے۔ یہاں حقوقِ انسانی کی خلاف ورزی کے معاملات بھی روشنی میں آتے رہتے ہیں اور اس قسم کے معاملات ایک دونہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں سامنے آتے ہیں۔ حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والی تنظیمیوں اورافراد نے دعوے کئے ہیں کہ یہاں ۹۴۳،۲ ایسی لاشیں پائی گئی ہی  جن کی شناخت نہیں ہوسکی ہے۔ یہ رپورٹ ۲۰۰۹ء میں شائع کی گئی تھی جس کے بعد اس قسم کے بہت سے نئے معاملات بھی روشنی میں آئے ہیں۔ یہ لاشیں باندی پورہ، بارہ مولہ، اور کپواڑہ ضلع کے ۵۵ گائووں میں پائی گئی ہیں۔ ان سبھوں کو مسلح افواج نے مارا تھا اور بغیر شناخت کے دفن کردیا تھا اور ان کی اجتماعی قبریں سرحدی علاقوں میں موجود ہیں۔ اسی کے ساتھ کشمیر میں ایسے کیسیز بھی ہیں کہ ہزاروں افراد کی گمشدگی کی رپورٹیں تھانوں میں درج ہیں اور ان کا کچھ اتہ پتہ نہیں ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ غیر شناخت شدہ لاشوں میں کتنی پاکستانی دراندازوں کی ہیں اور کتنی بے قصور کشمیری جوانوں کی جنھیں روزگار یا کچھ اور لالچ دے کر سرحد پر لے جایا گیا اور فرضی انکائونٹر میں قتل کردیا گیا۔   

حقوق انسانی کی خلاف ورزی کوئی نئی بات نہیں

    کبھی کبھی کچھ ایسے معاملات روشنی میں آجاتے ہیں جن پر عوامی احتجاج و مظاہرہ شروع ہوجاتا ہے اور حکومت مجبور ہوکر قانونی کارروائی کرتی ہے مگر بے شمار ایسے معاملات ہیں جہاں کوئی کارروائی نہیں ہوتی یا اتنی سست ہوتی ہے کہ انصاف کی امید ہی ختم ہوجاتی ہے۔ ابھی حال ہی میں بڈگام میں فوج کی گولیوں سے دو کشمیری لڑکوں کی موت ہوگئی تھی۔ واقعہ یوں ہے کہ ۳ نومبر کی ایک کہرآلود شام کو جب چند کشمیری لڑکوں نے محرم کا جلوس دیکھنے کا پروگرام بنایا تھا۔ ان میں فیصل، زاہد، شاکر، معراج  اور وسیم امین شامل تھے۔ یہ تمام لڑکے ایک کار میں سوار ہوکر جارہے تھے کہ اسی بیچ ان کی کار پر فائرنگ کی گئی۔ اس فائرنگ میں فیصل اور معراج کی موت ہوگئی جب کہ زاہد اور شاکرزخمی ہوکر اسپتال پہنچے اور وسیم کہانی سنانے کے لئے تنہا بچا۔ فوجی جوانوں کے ذریعے فائرنگ میں دو لڑکوں کی موت اور دو کے سنگین طریقے سے زخمی ہونے کی خبر جب عام ہوئی تو وادی میں کہرام مچ گیا اور لوگ سڑکوں پر احتجاج کے لئے اتر آئے۔اسے کوئی فوج کی ظالمانہ حرکت قرار دے رہا تھا تو کوئی اسے مرکزی سرکار کی مسلم دشمنی پر محمول کر رہا تھا۔ مرکزی وزیر ارون جیٹلی نے  فوراً واقعے کی جانچ کا حکم دیا اور کہا کہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوگی۔ اسی کے ساتھ حکومت نے مرنے والے دونوں لڑکوں کے ورثاء کو دس دس لاکھ روپئے معاوضہ دینے کا اعلان کیا۔ فوج نے بھی اسے اپنی غلطی مانی ہے ہے اور کہا ہے کہ کسی غلط فہمی کے نتیجے میں یہ واقعہ پیش آیا ہے۔جب کوئی معاملہ عوام تک پہنچ جاتا ہے اور احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے تو غلطی مان لی جاتی ہے مگر حقوق انسانی کی خلاف ورزی کا سلسلہ رکتا نہیں ہے۔ پہلے بھی قتل و غارت گری ہوتی تھی اور اب بھی ہورہی ہے۔  جو بڑے معاملے روشنی میں آئے ہیں اور فوج پر حقوق انسانی کی خلاف ورزی کے الزمات لگے ہیں ان کااجمال کچھ یوں ہے۔

    ۲۰۰۰ء میں آرمی نے پانچ افراد کو مار گرایا اور دعویٰ کیا کہ یہ لشکر طیبہ کے دہشت گرد تھے اورپاکستان سے آئے تھے مگر جلد ہی پتہ چلا کہ فوج کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے ان میں سے تین افراد یہیں کے گائوں کے رہنے والے تھے ۔ اس معاملے کی انکوائری شروع ہوئی تو کچھ سچائیاں سامنے آئیں جن کے پیچھے فوج کے دعوے دب گئے۔ اس سلسلے میں پہلے پولس کے جوانوں کو ملزم گردانا گیا اور مگر پھر فوج کے جوانوں کو ملزم بنایا گیا۔ اب رواں سال میں حتمی طور پر ملزم افسران کا کورٹ مارشل شروع کیا گیا ہے۔

    ۲۰۰۶ء میں گاندربل میں فرضی انکائونٹر کیا گیا اور غیر ملکی دراندازی کی بات کہی گئی مگر سچائی سامنے آئی تو معلوم ہوا کہ چار گائوں والوں کو فوج نے مارڈالا تھا۔ اس معاملے میں کچھ پولس اور فوج کے جوانوں کے خلاف کارروائی جاری ہے۔

    ۱۹۹۱ء میں کپواڑہ ضلع کے کونان اور پوش پورہ علاقوں میں فوج کے جوانوں نے ۴۰ خواتین کی عصمت لوٹی ۔ ۱۹۹۷، ۱۹۹۹ء میں بھی اسی قسم کے معاملات سامنے آئے اور ہر بار فوج نے ابتدائی طور پر اس قسم کے الزام سے انکار کیا۔ حالانکہ وزارت دفاع نے انکوائری کا حکم جاری کیا اور اب تک کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے۔

    ۱۹۹۶ء میں جموں وکشمیر پولس نے میجر اوتار سنگھ کو ۱۱ افراد کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا ، مقتولین میں حقوق انسانی کے وکیل  جلیل اندرابی بھی شامل تھے۔ ملزم پر مقدمہ چلا مگر ۲۰۱۲ء میں اس نے خودکشی کرلی جب امریکہ میں اس کے اہل خاندان کے قتل کی خبر اس تک پہنچی۔

    ۲۰۰۹ء میں سوپور کے بومئی گائوں میں دو افراد کے قتل کا الزام فوج پر لگا جس سے اس نے پہلے انکار کیا مگر  جب انکوائری ہوئی تو یہ الزام درست محسوس ہوا اور پولس سے فوج کو مقدمہ منتقل کردیا گیا۔

    ۲۰۰۶۔۲۰۰۵ء میں فوج پر نوجوانوں اور لڑکوں کے قتل کا الزام لگا اور یہ معاملہ اب بھی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

    یہ چند مثالیں ہیں جو یہاں پیش کی گئیں مگر اس قسم کے معاملات بے شمار ہیں، اسی لئے علاحدگی پسند لیڈر سید علی گیلانی حالیہ فوجی کورٹ کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ کیا ایسا ہی فیصلہ حقوق انسنای کی خلاف ورزی کے دوسرے معاملات میں بھی کیا جائیگا؟  وہ ’’افسپا‘‘ قانون پر بھی انگلی اٹھاتے ہیں جس کی آڑ میں یہ سب کھیل کھیلا جاتا ہے۔  


رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 523