donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Kisano Se Unki Zameen Mat Cheeno Warna Hashar Bapa Ho Jayega


کسانوں سے ان کی زمین مت چھینو ورنہ حشر بپا ہوجائے گا


نیتائوں کے لئے خطرے کی گھنٹی  ہے ،عام آدمی کا غصہ


    تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook


    مودی سرکار ان کسانوں سے ان کی زمین چھیننے کی کوشش میں ہے جنھوں نے مودی کو اقتدار میں لانے کا کام کیا ہے۔ جنھوں نے سب سے زیادہ جوش وخروش کے ساتھ بی جے پی کو ووٹ دیا تھا۔ آج وزیر اعظم نریندر مودی کی کوشش ہے کہ کسانوں سے ان کی زمین چھین کر بلڈروں کے حوالے کردیں اور انھیں کمائی کا موقع دیں۔ تحویل اراضی کے سلسلے میں قانون میں بدلائو کی کوشش ہورہی ہے تاکہ

غریبوں، آدیباسیوں اور کسانوں سے ان کی زمین حاصل کرنا آسان ہوجائے مگر حکومت کا یہ قدم ملک میں انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ وہ مودی سرکار اور سنگھ پریوار کے خلاف کھڑے ہوسکتے ہیں۔دنیا کے جن ملکوں میں بھی بڑے بڑے انقلاب آئے ہیں، ان کے پیچھے کا بڑا سبب عام آدمی کا غصہ رہا ہے۔ عوام پر جب ظلم کی انتہا ہوجاتی ہے تو عام آدمی کو غصہ آتا ہے۔ لوک سبھا الیکشن میں کانگریس کی شکست کا سبب عام آدمی کا غصہ رہا تو حالیہ دلی الیکشن میں بی جے پی کی شرمناک ہار کی وجہ بھی عام آدمی کی مایوسی ہی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان کسی انقلاب کی جانب بڑھ رہا ہے؟ کیا ملک کو کسی نئی کرانتی کی ضرورت ہے؟ کیا ملک کے کروڑوں غریب و مفلس عوام اپنے ووٹ کی طاقت کا ستعمال کرکے ملک کو نئی راہ پر لے جانا چاہتے ہیں؟ کیا ہماری جمہوریت کروٹ لینے والی ہے؟ اگر اس ملک میں انقلاب آیا تو کیا اس کے لیڈر اروند کجریوال ہونگے یا عوام کسی ایسے کو لیڈر بنائیں گے جو اب تک سامنے نہیں آیا ہے؟ کیا اب تاج اچھالے جانے والے ہیں اور تخت کو تختہ میں تبدیل کیا جانا ہے؟ کیا ملک کے عوام کا غصہ ان لوگوں کے خلاف بڑھ رہا ہے جو عوامی دولت کا استعمال قومی مفاد میں نہیں بلکہ اپنی عیاشی پر کر رہے ہیں؟ کیا نریندر مودی کا نولکھیا سوٹ ہندوستان کو پسند نہیں آرہا ہے اور عوام کے غصہ کا سبب بن رہا ہے؟ کیا دولت کے نشے میں چور انڈیا کو بھارت کے بھوکے ننگے لوگ سبق سکھانا چاہتے ہیں؟ کیا مستقبل قریب میں بی جے پی سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کا وہی حشر ہونے والا ہے جو حالیہ انتخابات میں کانگریس کا ہوچکا ہے؟ اس وقت دلی الیکشن کے نتائج کا تجزیہ مختلف انداز میں کیا جارہاہے اور عوام کے مزاج کو بھی پڑھنے کی کوشش ہورہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کمیونسٹوں کے خاتمے کے بعد جو جگہ خالی تھی اسے اروند کجریوال بھرنے جارہے ہیں۔ غریبوں ،مزدوروں کے حق کی بات اس ملک میں بائیں بازو کی پارٹیاں کرتی تھیں مگر ان پربھی سرمایہ دارانہ نظام غالب آگیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ عوام نے انھیں مسترد کردیا۔ وہ اپنے گڑھ میں ہی شکست سے دوچار ہوگئیں اور آج ان کی جگہ خالی ہے۔ عوام کو ایسے کسی لیڈر کی ضرورت ہے جو ان کے حق کی بات کرے، جو غریبوں کے حق کی بات کرے، جو مزدوروں اور کسانوں کے لئے جنگ کرے مگر اتنے بڑے ملک میں اب کوئی نہیں رہا ہے۔ ایسے میں اروند کجریوال کا دلی میں ابھرکر سامنے آنا بہتوں کے لئے امید کی کرن ہے مگر ان کے تعلق سے بھی بہت سی منفی باتیں سامنے آرہی ہیں جس سے بعض لوگوں کو مایوسی ہورہی ہے۔

پانچ فیصد امیروں کے پاس دولت کا انبار

    ہندوستان ایک طویل وعریض ملک ہے جس میں عوام کے مسائل بھی کم نہیں ہیں۔ البتہ سب سے بڑا مسئلہ ہے معیشت کا۔ سرکار کی طرف سے اعداد وشمار پیش کرکے دعوے کئے جاتے ہیں کہ ملک آگے بڑھ رہا ہے اور معاشی ترقی ہورہی ہے مگر ہم گہرائی سے دیکھیں تو احساس ہوتا ہے کہ ترقی صرف ایک مخصوص طبقے کی ہورہی ہے۔ مکیش امبانی سب سے امیر آدمی ہیں اور ہر سال ان کی دولت میں کئی کئی گنا کا اضافہ ہورہا ہے۔ اڈانی کے سرمایے میں بھی دن دونی رات چوگنی ترقی ہورہی ہے ۔ویپرو، ٹاٹا، ریلاینس اور اس قسم کی کمپنیاں لگاتار آگے بڑھ رہی ہیں۔ سرکاری خزانے سے بھی انھیں حصہ ملتا ہے اور کوئلے کی کان ہو یا ٹیلی کام میں حصہ داری کی فروخت ہر جگہ اسی قسم کی کمپنیاں سامنے آتی ہیں۔ دوسری طرف عوام کی حالت دن بدن پتلی ہوتی جارہی ہے۔ انھیں سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کیسے زندگی بتائیں اور کس طرح سے روز مرہ کے اخراجات پورے کریں۔ ہر روز چیزوں کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے جس سے ان کی زندگی اجیرن ہورہی ہے۔

دیہاتوں میں روزگار کے مواقع بالکل نہیں ہیں اور شہروں میں اخراجات پورے کرنا آسان نہیں ہے۔ بجلی اور پانی کا بل ہی اتنا زیادہ آتا ہے کہ غریب تو کیا مڈل کلاس کے لئے بھی اس کی ادائیگی آسان نہیں ۔ شہروں میں رہنے والے آج اخراجات کے سبب شہر چھوڑ کر گائون جانے کی سوچ رہے ہیں اور گائووں والے روزگار ڈھونڈنے کے لئے شہر آرہے ہیں۔ کوئی اپنی جگہ پر سکون سے نہیں ہے اور خوش نہیں ہے۔ ایسے میں ملک کے غریب اور بھوکے ننگے لوگوں کے اندر غصہ پک رہا ہے اور یہ لاوہ نکلنے کے لئے بے چین نظر آرہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دلی اسمبلی الیکشن میں اسی کی ایک جھلک سامنے آئی ہے۔ انسان کی بنیادی ضرورت ہے روٹی ، کپڑا اور مکان مگر عام لوگوں کے لئے یہ ڈگر بھی مشکل ہوگئی ہے۔

مودی کیوں جیتے تھے؟

    اناہزارے کی تحریک کرپشن کے خلاف تھی اور ملک کی جمہوری قدروں کو مضبوط کرنے کے لئے تھی۔ اس میں بڑی تعداد میں عام لوگوں نے حصہ لیا کیونکہ انھیں محسوس ہو ا کہ جو حکمراں طبقہ ان کے حقوق غصب کررہا ہے اسے اس طریقے سے سبق سکھایا جاسکتا ہے۔ اس تحریک نے عوام کے غصے کو ووٹ میں تبدیل کردیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کانگریس کو شکست دے کر انھوں نے اقتدار بی جے پی کے ہاتھ میں دے دیا۔ نریندر مودی جو خود کا ایک چائے والا بتا رہے تھے ان پر عوام نے اعتماد دکھایا کیونکہ انھیں یقین تھا کہ نیچے سے اوپر تک پہنچنے والا شخص ان کے درد اور تکلیف کو سمجھ سکتا ہے۔ جس عوامی غصے کو ابال کی شکل دیا تھا اناہزاے کی تحریک نے اس سے فائدہ ملنا چاہئے تھا اروند کجریوال اور عام آدمی پارٹی کو مگر فائدہ ملا مودی کو۔ شاید اس کا سبب یہ تھا کہ عام آدمی پارٹی کی تنظیم دلی میں بھی نہیں تھی چہ جائیکہ طویل وعریض ہندوستان۔ بی جے پی ایک قومی پارٹی تھی اور اس کی تنظیم ہرجگہ موجود تھی لہٰذا لوگوں نے اسی کو ووٹ کیا اور وہ ایک تاریخی جیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی مگر جلد ہی اس کا خمار بھی اترنے لگا اور اب ایسا لگتا ہے کہ جو غصہ کانگریس کے خلاف تھا وہی مودی سرکار اور بی جے پی کے تئیں بھی ابھر رہا ہے۔ دلی الیکشن اس کی مثال ہے جہاں ۷۰ میں سے محض تین سیٹوں پر اسے کامیابی حاصل ہوئی۔مودی نے بڑے بڑے وعدے کئے تھے ، سال پورے ہونے کو آئے مگر انھوں نے اب تک کسی ایک وعدے کے ایفا کی طرف قدم نہیں بڑھایا۔ ملک جن مسائل سے کانگریس کے زمانے میں دوچار تھا ،آج بھی ہے۔ جو غریب فٹ پاتھ پر رہتے تھے وہ آج بھی وہیں ہیں۔ جن لوگوں کو دووقت کی روٹی کے لئے خون پسینہ ایک کرنا پڑتا تھا آ ج بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ روزگار کے نئے موقع نکالیں گے مگر آج تک کسی ایک آدمی کو نوکری نہیں ملی۔ الٹا گائوں کے کسانوں سے ان کی زمین چھین کر بلڈروں کو دینے کی سازش رچی جارہی ہے۔اچھے دن کے انتظار میں عوام کے دن مزید خراب ہوتے جارہے ہیں۔ البتہ خود مودی نے نولکھا سوٹ پہن کر یہ ضرور بتا دیا کہ ان کے اچھے دن آچکے ہیں۔کسانوں نے سب سے بڑھ چڑھ کر مودی کو ووٹ دیا تھا اور آج اسی کسان کے پیٹ پر مودی لات مارنے کی تیاری میں ہیں جو ان کے خلاف کھڑا ہوگیا تو ان کا پورے ملک میں ہی حال ہوجائے گا جو دلی اسمبلی الیکشن میں ہوا ہے۔

  سوٹ نے غریب کے زخموں پر نمک چھڑکا     

      وزیر اعظم نریندر مودی کے مہنگے سوٹ نے ملک کے کروڑوں بھوکے ننگے لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے۔ جس

ملک میں کروڑوں لوک سالانہ ایک لاکھ سے بھی کم کماتے ہیں۔ جہاں بے شمار بچے آج بھی تعلیم سے محروم ہیں۔ جہاں ہر روز لاکھوں افراد دوا کی کمی کے سبب دم توڑ دیتے ہیں۔ جہاں کروڑوں غریبوں کو سر چھپانے کے لئے سائبان بھی میسر نہیں اور وہ فٹ پاٹھ پر پیدا ہوکر یہہں مرجاتے ہیں ایسے ملک میں ایک نیتا کے جسم پر نو لاکھ روپئے کا سوٹ ان کے زخموں پر نمک پاشی نہیں تو کیا ہے؟ امریکی صدر باراک ابامہ بھارت آئے تو اہم موقع تھا جب ہم ان کے ساتھ بات چیت کرکے کچھ ایسے راستے نکالتے جن سے بیروزگاری، بے کاری ختم ہوتی، غربت دور ہوتی، افلاس کا خاتمہ ہوتا مگر وزیر اعظم نے ایسا نہیں کیا بلکہ دن بھر سوٹ بدلتے رہے۔ یہاں تک کہ ابامہ کو بھی کہنا پڑا کہ خوش لباسی کا مقابلہ مشیل اور مودی میں چل رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ مہنگے سوٹ پہننے کا زیادہ حق ابامہ کا ہے جن کا ملک ان مسائل سے آگے نکل چکا ہے جس سے ہم دوچار ہیں مگر انھوں نے پورا دن ایک ہی سوٹ میں گزار دیا اور ہمارے وزیر اعظم باہمی امور پر بات چیت کرنے کے بجائے سوٹ پر سوٹ بدلتے رہے۔ ممکن ہے دلی میں بی جے پی کی ہار کا ایک بڑا سبب یہ نولکھا سوٹ بھی ہو۔ جہاں وزیر اعظم مہنگے ملبوسات کی نمائش کرتے رہے اور ریلیوں میں لمبی لمبی چھوڑتے رہے ،وہیں اروند کجریوال معمولی مفلر لپیٹے ہوئے دلی کے گلی کوچوں اور چھونپڑپٹیوں کے چکر کاٹتے رہے۔ راجدھانی کے عوام کومودی کے بڑبولے پن سے زیادہ اچھا لگا کجریوال کا ان کے مسائل پر گفتگو کرنا۔مودی کو جن امیدوں کے ساتھ عوام نے دلی بھیجا تھا اب وہ اس سے کہیں دور ہوتے جارہے ہیں اور ان کے قدم منزل کی سمت نہیں ہیں جس کا انھیں مستقبل میں نقصان ہوسکتا ہے اور جس طرح کا برتائو انھوں نے کانگریس کے ساتھ کیا ہے ویسا ہی ان کے ساتھ بھی کرسکتے ہیں۔

انقلاب کی دستک

    کانگریس نے اس ملک پر ایک لمبی مدت تک راج کیا ہے مگر جب عوام کو یوپی میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کا متبادل ملا تو انھوں نے اسے اپنا لیا۔ جب بہار میں جنتادل نظر آیا تو کانگریس کا ساتھ چھوڑ کر اس کے ساتھ چلے گئے۔ مغربی بنگال میں کمیونسٹ پارٹیون نے مزدروں اور غریبوں کی بات کی تو اسے حکومت سونپ دی اور آج قومی سطح پر انھوں نے کانگریس کے متبادل کے طور پر بی جے پی کو کھڑا کیا ہے مگر اس سے بھی انھیں مایوسی ہورہی ہے۔ سماج وادی پارٹی آج سوشلزم سے دور ہوگئی ہے اور سرمایہ داروں کے گود میں جا بیٹھی ہے۔ جنتادل اور جنتاپارٹی کی راکھ سے اٹھنے والی تمام سوشلسٹ پاڑتیوں کا یہی حال ہوا ہے کہ اب وہ عوام کے مفاد کو نظر انداز کرکے سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کے فائدے کی بات کر رہی ہیں۔ عام لوگ ٹھگے جارہے ہیں اور انھیں سمجھ نہیں آرہاہے کہ وہ کیا کریں۔ دنیا میں جب بھی انقلاب آیا ہے ایسے ہی حالات رہے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان میں بھی سرمایہ داروں، دولت کے پجاریوں، نیتائوں اور حکمراں طبقے کے خلاف بغاوت ہونے والی ہے۔ اس انقلاب کے سربراہ اروند کجریوال ہونگے یا کوئی اور یہ طے ہونا باقی ہے۔کجریوال میں بہت سی خوبیاں ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ بھی سوشلسٹ نظریات رکھتے ہیں مگر کہیں سے بھی ان کا نظریہ روس یا چین سے درآمد شدہ نہیں لگتا ہے۔ وہ کمیونسٹوں کی طرح مذہب سے بیزار بھی نہیں ہیں بلکہ مذہب میں یقین رکھتے ہیں۔ وہ انقلاب زندہ باد کے ساتھ وندے ماتر م بھی کہتے ہیں اور بھارت ماتا کی جے کے نعرے بھی لگاتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی بھی آندولن کی کوکھ سے پید اہوئی ہے لہٰذا ایک انقلابی لیڈر کے طور پر انھیں ملک میں قبول کیا جاسکتا ہے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے قدم زمین پر رکھیں۔ ممکن

ہے کہ آئندہ مودی کی جگہ وہ اس ملک کی قیادت کر رہے ہوں مگر اس کے لئے انھیں خود کو ثابت کرنا ہوگا۔ اب بھی وقت ہے کہ وہ ان غلطیوں کو نہ دہرائیں جو تمام سیاسی رہنما کرتے رہے ہیں۔ اگر وہ عوام کی امیدوں پر کھرے نہیں اترے تو کل ان کی جگہ کسی اور کو عوام منتخب کرلیں گے ۔ یہ ملک بہت بڑا ہے اور بھارت ماتا کی گود میں ایک سے بڑھ کر ایک لعل وگہر موجو دہیں۔

(یو این این)

************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 494