donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Kya RSS Ka Darwaza Musalmano Ke Liye Khulega


آر ایس ایس کا کلچر دیشی یا ودیشی؟

 

کیا آر ایس ایس کا دروازہ مسلمانوں کے لئے کھلے گا؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

آر ایس ایس نے خود کو اپنی شاکھائوں سے باہر نہیں کیا مگر مرکز میں بی جے پی کی سرکار بننے کے بعد سے وہ اپنے غار سے باہر نکل رہا ہے اور اس کی سوشل وکلچرل سرگرمیاں سڑکوں پر بھی دیکھی جارہی ہیں۔ آخر کیا ہے، سنگھ کا کلچر؟ اس پر نظر ڈالتے ہیں۔


    سفید شرٹ اور خاکی نیکر، سرپر کاغذی کشتی جیسی سیاہ ٹوپی۔ گلے میں لٹکا ہوا نازی ڈرم اور اس پر ڈھم ڈھم کی تھاپ۔ یہ وہ ہندوستانی کلچر جس کی آر ایس ایس بات کرتا ہے۔ویسے یہ ظاہری کلچر ہے اور آئیڈیا لوجی کی سطح پر بات کریں تو بھی ہندوستانی ذہنیت کم اور نازی ذہنیت زیادہ جھلکتی ہے مگر سنگھ پریوار کی نظر میں یہی ہے بھارت کا قدیم کلچر۔ دنگا فساد، خون خرابہ اور اقتدار پر قبضہ کے لئے معصوموں کا خون بہانا، زندہ انسانوں کو آگ میں جلانا اور ووٹ کے لئے ملک کے عوام کا مذہب کے نام پر بٹوارا۔ ریلیوں اور جلسوں میں گالی گلوج اور دوسرے فرقہ کے لوگوں کے خلاف اشتعال انگیزی۔ اس قسم کی باتیں سنگھ پریوار کے کلچر کا حصہ رہی ہیں جسے وہ ہندوستانی تہذیب قرار دیتا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کیا یہی ہندوستانی کلچر ہے؟ کیا اسی پر سنگھ پریوار کو فخر ہے؟ سنگھ اس بات کا داعی ہے کہ یہاں کے لوگون کو اپنے کلچر کی جانب لوٹ جانا چاہئے اور اس کی اہمیت سے دنیا کو واقف کرانا چاہئے۔ آج جب مرکز میں اس کی حکومت قائم ہوچکی ہے اور سنگھ کا حوصلہ بلند ہے تو وہ بھی گوشہ نشینی سے باہر آرہا ہے اور اس کا بہنڈ ، باجا ،بارات سڑکوں پر دکھائی دینے لگا ہے۔ حال ہی میں اس نے اپنے انداز میں ایک مارچ دلی کے بابا گھڑک سنگھ مارگ سے سنٹرل پارک، کناٹ پلیس تک کیا جس میں سنگھ کے ممبران نے اپنے مخصوص یونیفارم میں بینڈ، باجا کے ساتھ بارات نکالی۔ پہلے اس قسم کے پروگرام اس کے دفتر میں ہوتے تھے یا جن جگہوں پر اس کی شاکھا لگتی ہے وہاں ہوتے تھے۔ دسہرہ کے موقع پر بھی کسی خاص جگہ ہر سنگھ کے ممبران باجا بجایا کرتے تھے مگر اب وہ دلی کی سڑکوں پر نظر آنے لگے ہیں۔ مارچ کرتے ہوئے جب وہ مصروف سڑکوں پر نکلے تو لوگوں کی توجہ ان کی جانب گئی اور عام لوگوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ایسا کیوں کیا جارہا ہے۔ بینڈ باجا کا سلسلہ تو ۱۹۲۷ء سے سنگھ میں چل رہا ہے مگر سڑکوں پر یہ باجا پہلی بار دیکھا گیا ۔ یہ موقع تھا سکھ گرو تیغ بہادر کے یوم شہادت کا ،جنھوں نے مسلح طریقے سے اپنی حفاظت کا درس دیا تھا۔ جب راجدھانی کے مرکزی علاقے میں لوگوں نے آر ایس ایس کا مارچ دیکھا تو بہتوں کو حیرت ہوئی۔ مارچ کا یہ حوصلہ شاید سنگھ کو مرکز میں حکومت کے قیام سے ملا ہے۔آر ایس ایس خود کو کلچرل آرگنائزیشن قرار دیتا ہے اور یہ تمام کام ہندوستانی کلچر کے نام پر کرتا ہے مگر اہم سوال یہ ہے کہ سفید ہاف شرٹ کیا ہندوستانی کلچر کا حصہ ہے؟ خاکی نیکر کیا بھارت کی تہذیب میں شامل ہے؟ سب جانتے ہیں کہ جرمنی کے نازی اس قسم کے یونیفارم کا استعمال کیا کرتے تھے اور جس ڈھول کے ساتھ آر ایس ایس والے نظر آتے ہیں وہ بھی ہندوستانی ڈھول نہیں ہے بلکہ مغربی ڈھول ہی ہے۔ اب اس پورے ہنگامے میں بھارت کی تہذیب کہاں نظر آتی ہے؟ سنگھ اگر بھارتی کلچر کی بات کرتا ہے تو اس کے ممبران دھوتی کیوں نہیں پہنتے ، جو ہماری قدیم تہذیب کا حصہ ہے۔ وہ شرٹ کی جگہ پر کوئی ہندوستانی کپڑا کیوں نہیں  پہنتے؟ بھارت میں بہت سے آلاتِ موسیقی بجائے جاتے ہیں اور ڈھو ل کا بھی یہاں قدیم زمانے سے چلن موجود ہے مگر ہندوستانی ڈھول اس ڈھول سے الگ ہوتے ہیں جو یوروپ میں بجائے جاتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ہندوستانی تہذیب کے یہ نمائندے ،ہندوستانی  ڈھول کیوں نہیں بجاتے؟ آخر کیا سبب ہے کہ ایک طرف وہ قدیم بھارتی تہذیب کی بات کرتے ہیں، رام اور کرشن کو اپنا ہیرو بتاتے ہیں اور دوسری طرف کام جرمنی کے نازیوں والا کرتے ہیں؟ ان کی حرکتیں دیکھ کر کسی کو رام اور کرشن کی نہیں بلکہ ہٹلر کی یاد آتی ہے۔ دنیا میں ہندوستانی کلچر اور مذہب کو جاننے کے لئے پرانے دور سے ہی تجسس رہا ہے مگر جو لوگ آر ایس ایس کے کیرکٹر کو دیکھ کر اسے سمجھ رہے ہیں انھیں زیادہ خوشی نہیں ہوتی ہوگی۔ سچ پوچھا جائے تو ہندتو کا نام لینے والے ہی آج اس کے سب سے بڑے دشمن بن کر ابھرے ہیں۔ عدم تشدد کو جو فلسفہ ہماری پہچان رہا ہے آج وہ کہیں گم ہوتا جارہا ہے۔

کیا یہی ہندوستانی تہذیب ہے؟

    بھارت ایک کثیر تہذیبی ملک ہے اور یہی اس کی پہچان ہے۔ یہاں دنیا کی بے شمار قومیں آئیں اور اسے اپنا مسکن بناتی گئیں اور سب کی تہذیبیں اس کی وحدت میں کثرت کا امتزاج پیدا کرتی گئیں۔ نسلی ماہرین کے مطابق ہندوستان کے اصل باشندوں کے جسم موٹے اور رنگ سیاہ تھا ۔ ان کے بال گھنگریالے تھے۔اس کے بعد یہاں ہن نسل کے چپٹے چہرے اور پیلی رنگت والے لوگ آئے اور اس سماج کا حصہ بن گئے۔ پھر آریہ آئے جو گورے چٹے اور گھڑے نقش ونگار والے تھے ۔ ان کا دھیمی رفتار سے یہاں کے سماج میں انضمام ہوا اور اس سے بچنے کے لئے انھوں نے سخت قسم کے سماجی دستور بنائے جسے ’’ورن آشرم‘‘ کے نام سے جانا گیا۔ بھارت کی تہذیبی خصوصیت کثرت میں وحدت ہے جس پر آر ایس ایس کو یقین نہیں اور وہ ایک ایسی تہذیب کی بات کرتا ہے جو اس کی نفی کرتا ہے۔ تہذیب کی بات بھی وہ صرف زبان سے کرتا ہے ورنہ عملی طور پر وہ بھارت کی تہذیب سے کوسوں دور ہے۔ نہ تو اس کا ظاہر بھارتی تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے اور نہ اس کا باطن اس کی وکالت کرتا ہے۔ اصل میں وہ ایک برہمن وادی جماعت ہے جس مقصد اونچی ذات کے لوگوں کی برتری ہے۔ یہی سبب ہے کہ یہاں نچلی ذات کے لوگوں کو خاطر خواہ جگہ نہیں ملتی ہے۔ آر ایس ایس خود کو بھارتی تہذیب کا نمائندہ کہتی ہے مگر مسلمانوں اور عیسائیوں کو ممبر شپ نہیں دیتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان اور عیسائی اس ملک کے کلچر کی نمائندگی نہیں کرتے؟

ہندوستانی تہذیب میں تشدد کے لئے کوئی جگہ نہیں

    آر ایس ایس کو قائم ہوئے تقریباً نوے سال ہوچکے ہیں اور اس بیچ اس پر بار بار تشدد برپاکرنے، نفرت پھیلانے اور سماج میں تفریق پیدا کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں اور اسی طرح کے الزمات کے تحت اس پر دو مرتبہ پابندی بھی لگائی گئی۔ تقسیم ملک کے وقت جو دنگے ہوئے تھے اس میں کئی مقامات پر سنگھ کے لوگوں پر تشدد کے الزامات لگے تھے۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی جنھیں آج بی جے پی بھی اپنا ’’آئیکان‘‘ قرار دے رہی ہے، ان کے قتل کا سبب آر ایس ایس کے نظریات ہی مانے جاتے ہیں ۔ حال ہی میں سنگھ کی کیرل اکائی کے ایک اخبار نے لکھا تھا کہ ناتھو رام گوڈسے کو چاہئے تھا کہ گاندھی کے بجائے پنڈت جواہر لعل نہرو کو قتل کرتا۔ حالانکہ اس بیان سے اس نے کنارہ بھی کرلیا تھا مگر جو بات دل میں تھی اس کا اظہار تو بہرحال ہوگیا ۔ پاکستان جانے والی سمجھوتہ اکسپریس میں بم دھماکہ، مالیگائوں میں دہشت گردانہ حملہ م حیدرآباد کی مکہ مسجد میں بلاسٹ اور اجمیر شریف کی غریب نوازدرگاہ میں دہشت گردانہ حملے کے لئے جن لوگون کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ان کا تعلق سنگھ سے مانا جاتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں اندریش کمار کی طرف بھی انگلی اٹھی جن کا تعلق سنگھ سے ہے۔ آزاد بھارت میں فرقہ وارانہ دنگوں کی ایک طویل تاریخ ہے جس میں اکثر وبیشتر سنگھ کے لوگوں پر الزامات لگتے رہے ہیں۔ ۲۰۰۲ء کے گجرات فسادات میں وشو ہندو پریشد ، بجرنگ دل اور بی جے پی سب کے لوگوں کے خلاف کیس چلے اور بعض لوگوں کو سزا بھی ہوئی۔ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر تعمیر کرنے کی تحریک ہو یا اسے بہانہ بناکر سیاست کا محل بنانے کی بات ہر جگہ سنگھ پریوار سے جڑے ہوئے لوگ پیش پیش رہے۔ ظاہر ہے کہ یہ حرکتیں بھارتی تہذیب کے منافی ہیں اور انسانیت کے خلاف بھی ہیں جن کا ارتکاب سنگھ کرتا رہا ہے اور باوجود اس کے اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ہندوستانی تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے۔ کیا ہندوستانی کلچر کے نمائندے وہ باتیں کہہ سکتے ہیں جو ساکشی مہاراج، یوگی آدتیہ ناتھ اور ساھوی نرنجن جیوتی کی زبان سے ادا ہوتی رہی ہیں؟ زبان، اخلاقیات اور عمل کسی بھی سطح پرآر ایس ایس ہندوستانی تہذیب کی نمائندگی نہیں کرتا بلکہ اس کی نفی کرتا ہے مگر پھر بھی اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک کلچرل جماعت ہے۔ اب تک جو کچھ وہ کرتا رہا ہے اگر اسی کا نام ہندوستانی کلچر ہے یا ہندو تہذیب ہے تو پھر یہ کوئی خوبی کی چیز نہیں ہے۔ دنیا اگر اس کی تاریخ پڑھ کر ہندوستانی کلچر کو سمجھنے کی کوشش کرے تو اسے مایوسی ہوگی۔انسانوں کا قتل، ووٹ پانے کے دنگا فساد کرانا اور لوگوں کو تقسیم کرنے کی تعلیم نہ قدیم ہندوستانی بزرگوں کی تعلیم ہے اور نہ ہی سناتن دھرم اس کی اجازت دیتا ہے۔ آر ایس ایس کے لوگ بعض مقامات پر سماج سیوا کرتے نظر آتے ہیں جس کی ستائش کی جانی چاہئے مگر اسی کے ساتھ ان کے ذریعے سماج کو جو نقصان پہینچ رہا ہے اس پر بھی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔

رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 534