donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Kya Shiv Sena Qanoon Se Balatar Hai


کیا شیو سینا قانون سے بالاتر ہے؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    کیا اب ہندو بھی انسانی بم بنیں گے؟ کیا شیو سینا انھیں دہشت گرد بنانا چاہتی ہے؟ کیا شیو سینا تشدد اور تخریب کا پرچم اٹھانا چاہتی ہے؟ کیا شیو سینک اپنے سیاسی مفاد کے لئے اس ملک کو جہنم بنانا چاہتے ہیں اور افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں؟ جی ہاں! یہ سوال اس لئے اٹھ رہے ہیں کہ حال ہی میں شیو سینا کے ترجمان اخبار ’’سامنا‘‘ نے نہ صرف ہندووں کو انسانی بم بننے کی نصیحت کی ہے بلکہ اس پر اس نے فخر کا اظہار بھی کیا ہے۔شویو سینا عام طور پر مذہب، علاقہ اور زبان کے نام پر مہاراشٹر میں ہنگامہ برہا کرتی رہی ہے مگر حال ہی میں’’ سامنا‘‘ میں جو کچھ لکھا گیا وہ انتہائی تشویشناک ہے۔سامنا میں ایسی باتیں عام طور پر کہی جاتی رہی ہیں اور تخریب کارانہ منصوبوں کا اظہار اس کی جانب سے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس کے سابق چیف بالا صاحب ٹھاکرے بھی تشدد اور تخریب کی باتیں کیا کرتے تھے مگر کبھی بھی حکومت کو ہمت نہیں ہوئی کہ ان کے خلاف کارروائی کرے۔ کانگریس کی سرکار ہمیشہ فرقہ پرستی سے لڑنے کی بات کہتی رہی اور فرقہ پرستوں کو بڑھانے کا کام کرتی رہی ۔ یہاں تک کہ ’’سامنا ‘‘اور بال ٹھاکرے کا شرمناک رول ممبئی کے فسادات میں بھی سامنے آتا رہا اور ۹۳۔۱۹۹۲ء کے مسلم کش فسادات میں ان کے کردار کو جسٹس سری کرشنا کمیشن نے واضح کیا مگر ان کے خلاف کارروائی کی ہمت آج تک کسی سرکار کونہیں ہوئی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج شیو سینا کی جانب سے ہندودہشت گردی کی بات کی جارہی ہے اور ہندووں کو تشدد پر اکسایا جارہا ہے۔ مرکزی سرکار جو کہ دہشت گردی سے لڑنے کی بات کہتی رہی ہے اس میں بھی ہمت نہیں کہ شیو سینا اور ا سکے ترجمان سامنا کے خلاف کوئی کارروائی انجام دے۔

’’سامنا ‘‘کا زہریلا اداریہ

    سامنا کے اداریے میں لکھاگیا ہے کہ بال ٹھاکرے اپنے جارحانہ مذہبی رخ پر فخر کیا کرتے تھے۔اخبار نے پاکستان کی دہشت گردی کا جواب ہندو دہشت گردی کو قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر ہندووں کو اس دہشت گردی پر فخر ہونے لگا تو وہ اس ملک میں فخر سے جینے کے لائق ہوجائیںگے۔ ایک ہندو کی آواز ایک شیر کی دہاڑ کی طرح ہوجائے گی۔’’سامنا‘‘ لکھتا ہے کہ اگر ہندو شدت پسند مذہبی ہوگئے تو وہ پاکستان کو اسی کے انداز میں جواب دیںگے ۔وہ دہشت گردی کا جواب دہشت گردی کے انداز میںدینا شروع کردینگے تو وہ قابل فخر انداز میں جینے کے لائق ہوجائین گے۔ اخبار میں یہ بات ’’تہلکہ‘‘ میگزین کے جواب میں لکھی گئی ہے جس نے حال ہی میں سابق شیو سینا چیف بال ٹھاکرے کی تصویر دہشت گرد کے طور پر چھاپی تھی اور اس کے جواب میں شیوسینکوں نے زبردست احتجاج ومظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ میگزین کی کاپیاں بھی جلائیں۔سامنا کے اداریئے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ’’ تہلکہ ‘‘نے اپنی گرتی اشاعت کو ابھارنے، اور سرخیوں میں آنے کے لئے بال ٹھاکرے کی شخصیت پر حملہ کیا ہے۔غور طلب ہے کہ شیو سینا نے میگزین کے خلاف پولس میں شکایت بھی درج کرائی ہے۔ شیوسینا کے کارکنوں نے جنوبی ممبئی کے نریمن پوائنٹ علاقے میں مظاہرہ کیا۔انہوں نے میگزین کی کاپیاں پھاڑ دیں اور مضامین کے خلاف اپنا غصہ اتارنے کے لئے انھیں آگ لگا دی۔ مظاہرین نے میگزین کے ایڈیٹر سے غیر مشروط معافی مانگنے کو بھی کہا ہے۔شیوسینا نے یہ کہتے ہوئے پارٹی کے بانی بال ٹھاکرے کے نظریات کا دفاع کیا ہے کہ انہوں نے صرف قومی مفاد میں ہندوؤں کی دہشت پیدا کی ۔ شیوسینا کے ترجمان ’’سامنا‘‘ میں ’’تہلکہ میگزین‘‘ کو جم کر کھری کھوٹی سنائی گئی ہے۔سامنا کے اداریئے کا آغاز ہی  اس طریقے سے کیا گیاہے کہ بال ٹھاکرے پر تنقید کرنا سورج پر تھوکنے جیسا ہے۔سامنا میں لکھا ہے کہ کاٹجو نامی ایک پاگل شخص مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو، سبھاش چندر بوس، لوکمانیہ تلک جیسے عظیم لوگوںکو غیر ملکی ایجنٹ قرار دے کر بیچ بیچ میں شہرت پانے کی کوشش کرتا ہے۔ ’’تہلکہ‘‘ بھی اسی طرح کا ہے۔اپنے ردی کی ٹوکری بھرنے اور پھر اسی فضلہ کو چبانے کا کام یہ کھٹیا لوگ بیچ بیچ میں کرتے ہیں۔ انھین معلوم ہے کہ شیوسینا کے سربراہ کے خلاف کچھ الٹا سیدھا لکھ دیا تو مہاراشٹر سمیت پورے ملک میں ہنگامے کی لہر اٹھے گی اور ان کو شہرت مل جائے گی۔اس کے سبب شیو سینکوں کا ماتھا ٹھنکے گا اور وہ سڑک پر اتر کر ہنگامہ کھڑا کر دیں گے۔مذکورہ ہفتہ وار پر حملہ کریں گے اور پھر ہم اپنے آپ کو اظہار رائے کی آزادی کے ہیرو ثابت کرینگے۔شیوسینا کے ترجمان سامنا کے اداریے میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں بالاصاحب ٹھاکرے کے لئے بہت محبت اور احترام ہے اور وہ ان قوم پرست نظریات کو لے کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے یقینا لوگوں میں ہندوؤں کا خوف پیدا کیا۔

دہشت گردی کا ’’ہرا رنگ‘‘

    سامنا‘‘ نے پہلی بار زہر نہیں اگل اہے بلکہ اس کی اس قسم کی پرانی وایت رہی  ہے۔ ابھی چند قبل ہی اس نے دہشت گردی کا رنگ ہرا قرار دیا تھا۔شیوسینا اپنے ترجمان اخبار ’’سامنا‘‘ کے ذریعے دہشت گردی کے مسئلے پر نئی بحث بھی شروع کرچکی ہے۔وہ’’ بھگوا دہشت گردی‘‘کے عنوان سے لکھ چکی ہے کہ بھارت میں دہشت گردی کا صرف ایک ہی رنگ ہے اور وہ ہے ہرا رنگ۔مضمون میں کانگریس پر وار کرتے ہوئے لکھا گیاتھا کہ ملک میں ہندو دہشت گردی کا نعرہ کانگریس نے لگایا اور اس کی وجہ سے پاکستان کو فائدہ ہوا۔ سامنا نے لکھاتھا کہ دہشت گردی کا کوئی ذات یا مذہبی رنگ نہیں ہوا کرتا لیکن ہندوستان میں دہشت گردی کا رنگ سبز ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں اس سبز دہشت گردی کو کہیں پروان چڑھانے کاکام کانگریس قیادت والی یو پی اے حکومت نے کیا۔ ملک میں ہندو دہشت گردی کا نعرہ کانگریس نے لگایا۔ کانگریسیوں کی ہندو دہشت گردی کی سیاست نے پاکستانی سازش کو طاقت فراہم کیا ۔شیوسینا نے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ انہوں نے یو پی اے حکومت کے اس جھوٹے پرچار پر زبردست حملہ کیا۔ شیوسینا کا دعوی ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس میں ہوئے دھماکے اور مالیگاؤں بم دھماکوں کا الزام ہندتووادیوں کے سر منڈھا گیا ہے اور اس طرح ہندو دہشت گردی کو پہلی صف میں کانگریس اور اس کے لوگوں نے کھڑا کیا ہے۔شیوسینا نے آگے لکھا کہ کانگریس حکومت نے خود کو سیکولر اور منصفانہ ثابت کرنے کے چکر میں ایک طرح سے پاکستان کے ہاتھوں کو مضبوطی دی ۔ سامنا نے لکھا کہ ،کانگریس کی طرف سے دہشت گردی کو بھگوا رنگ دے کر ہندوستان میں دھرمادھ ووٹوں کی سیاست کرنا ٹیڑھا اور مطلبی داؤ تھا۔مضمون میں لکھا گیا کہ ہندوؤں کو دہشت گرد ثابت کر پاکستان اسپانسرڈ سبز دہشت گردی پر پردہ ڈالا گیا اور یہ ملک کے ساتھ بے ایمانی تھی۔ سامنا نے لکھایہ ہندو راشٹر ہے۔ اس ہندو راشٹر میں ہندوؤں کو دہشت گردی پھیلانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ دہشت گردی کو مذہب کا رنگ دینے والے ملک کے دشمن ہیں۔ راج ناتھ سنگھ نے انہیں آئینہ دکھانے کا کام کیا ہے۔شیوسینا نے یہ بھی لکھا ہے کہ ملک میں مسلم نوجوانوں کے دماغ گرم کر انہیں اسلام یا جہاد کے نام پر دہشت گردانہ کارروائیوں میں غلط طور پر استعمال کرنے کا کام پاکستان کیا کرتا ہے۔اس ملک کے سارے مسلمانوں پر یہ الزام ہم نے نہ تو لگایا نہ ہی لگانے والے ہیں۔

شیو سینا کے خلاف کارروائی کیوں نہیں؟

    بھارت اگرچہ ایک ملک ہے اور یہاں ایک ہی قانون بھی ہے مگر اس کا نفاذ جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے وہ اسے کبھی منصفانہ طور پر نافذ نہیں کرتے۔ شیوسینا سمیت اس ملک کی بھگوا تنظیمیں دہشت گردی اور تخریب کاریوں میں ملوث رہی ہیں مگر آج تک ان کے خلاف کبھی معمولی سی کارروائی بھی نہیں ہوئی۔ شیو سینا تو ایسی جماعت ہے جسے پروان چڑھانے کا کام  کانگریس کے دور حکومت میں ہوا۔ اس نے ہمیشہ قانون کو ہاتھ میں لیا مگر کانگریس کی سرکاروں نے اسے بڑھنے دیا تاکہ الیکشن میں اس کا خوف دکھا کر مسلمانوں کا ووٹ لیا جاسکے۔ ایسی بھی مثالیں ہیں جب کانگریس نے ان کے ممبران کو قانون ساز اداروں میں جانے کے لئے راستہ فراہم کیا۔ جب یہ لوگ فسادات میں ملوث پائے گئے اور معصوم لوگوں کے قتل وخون میں شامل ہوئے تب بھی حکومت نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ آج اسی سبب فرقہ پرستی اور دہشت گردی کے عفریت کو اس قدر بڑھنے کا موقع ملا کہ شیو سینا ہندو دہشت گردی پر فخر کا اظہار کر رہی ہے اور ہندووں کو انسانی بم بنانے کی وکالت کر رہی ہے۔ یہ بات اگر کسی مسلمان نے کی ہوتی یا کسی مسلمان اخبار میں لکھی گئی ہوتی تو اسے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا جاچکا ہوتا مگر کیا کیا جائے جب ایک ہی ملک میں انصاف کا دو پیمانے ہوں۔ہمارے ملک میں فرقہ پرستی اور دہشت گردی ایک سکے کے دورخ ہیں۔ ایک طرف فرقہ پرستی کو کھلی چھوٹ ملتی ہے تو دوسری طرف دہشت گردی خود بخود پروان چڑھ جاتی ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم ان دونوں عفریتوں سے لڑنے کے لئے کس قدر دیانت دار ہیں؟ہمیں کارروائی کے نام پر دہشت پسندوں کا مذہب نہیں پوچھنا ہوگا اور اسے بھگوا یا سبز رنگ میں نہیں تقسیم کرنا ہوگا۔ کس قدر عجیب بات ہے کہ ایک طرف مالیگائوں میں دہشت گردی کے الزام میں گرفتار معصوم مسلمانوں کو کلین چٹ نہیں دیا جارہا ہے تو دوسری طرف اصل مجرموں کو رہا کرنے کی تیاری چل رہی ہے۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 518