donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Kya Uttar Pradesh Me Dalit Aur Musalman Muttahid Honge


کیا اترپردیش میں دلت اور مسلمان متحد ہونگے؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 

    اترپردیش کے آئندہ اسمبلی انتخابات میں کیا ہوگا؟ کون جیتے گا اور کس کی ہار ہوگی؟ کیا ملائم سنگھ یادو کو بھاری پڑے گا مسلمانوں کا غصہ ؟کیا ایس پی کی شکست میں ’’خانہ جنگی ‘‘ کا بھی اہم کردار ہوگا؟کیا مایاوتی اچھا رزلٹ کر پائینگی؟ کیاا نھیں مسلمانوں کا ساتھ ملے گا؟ کیا بی جے پی سرجیکل اسٹرائک کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوگی؟ان دنوں اترپردیش میں اس قسم کے سوالات اکثر سننے کو مل رہے ہیں۔ملک کی سب سے بڑی ریاست میں تمام سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے دائو کھیلنے میں مصروف ہیں۔ جہاں ایک طرف سماج وادی پارٹی کو اپنے پائوں کے نیچے سے زمین کھسکتی محسوس ہورہی ہے اور اسے لگتا ہے کہ اس کے ووٹ بینک کا حصہ رہے مسلم اور یادو میں سے مسلمان اس کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں تو دوسری طرف بی ایس پی کی سربراہ مایاوتی کی کوشش ہے کہ مسلمان ان کے ساتھ آجائیں اور اترپردیش میں اقتدار تبدیل ہوجائے۔ انھوں نے اس سلسلے میں مسلمانوں کو اپنی ایک ریلی میں پیغام بھی دیا۔ 

مسلمانوں کو مایا کا پیغام

     گزشتہ دنوں لکھنؤ میں بہوجن سماج پارٹی کی مہاریلی ہوئی جس میں میں پارٹی سربراہ مایاوتی نے اپنے مخالفین پر  حملہ کرتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش حکومت کو عوام کی فکر نہیں ہے۔ انھوں نے ریاست میں مسلم مخالف فسادات کا معاملہ بھی اٹھایا اور کہا کہ اکھلیش حکومت فسادات کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ملک میں فرقہ پرست اور شدت پسند قوتوں کو مضبوط کرکے مسلمانوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ یہاں کے مسلمان خود کو محفوظ محسوس نہیں کر رہے ہیں۔ مایاوتی نے اپنی تقریر میں نہ صرف مسلمانوں کو متحد ہونے کے لئے کہا بلکہ بی جے پی کا خوف بھی دکھایا۔ مایاوتی اس بات کو سمجھتی ہیں کہ اگر پردیس کے 22 فیصد دلت ایک ہوکر انہیں ووٹ دیں اور مسلمان ایک ہو کر ان کے حق میں آجائیں تو بی ایس پی کی جیت سو فیصد طے ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں ایس پی حکومت کا مکمل ہو رہا مدت کار مایوس کن رہا ہے۔ واضح ہوکہ مایاوتی ماضی میں بھی مسلمانوں کے ایشوز کو اٹھاتی رہی ہیں اور گزشتہ چند مہینوں میں انھوں نے ’’بیف‘‘ کے نام پرمسلمانوں اور دلتوں پر ہونے والے حملے کا معاملہ بھی پارلیمنٹ میں اٹھایا تھا۔  حالانکہ ان کے بیان کی کاٹ میں اکھلیش یادو نے کہا ہے کہ الیکشن بعد بی ایس پی ، بی جے پی کے ساتھ نہیں جائے گی، اس کی کیا ضمانت ہے؟ یہ بات انھوں نے اس لئے اٹھائی ہے کہ ماضی میں دونوں پارٹیوں کی ملی جلی سرکار بن چکی ہے۔

مسلم ووٹ کے لئے جنگ

    اترپردیش میں مسلم ووٹ ایس پی اور بی ایس پی کی طرف ہی جائینگے۔ تیسرا کوئی متبادل اس کے سامنے نہیں ہے۔ اترپردیش میں مایاوتی اس بات سے خوش ہیں کہ سماج وادی پارٹی کی سرکار سے عوام اور خاص کر مسلمان ناراض ہیں اور اس کا فائدہ انھیں مل سکتا ہے۔ وہ اپنی تقریروں میں اکثر لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ اٹھاتی رہتی ہیں اور حالیہ دنوں میں انھوں نے اس معاملے میں زیادہ آواز بلند کی ہے۔ان کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو اپنی طرف کریں جن کی اکثریت گزشتہ انتخابات میں سماج وادی پارٹی کے ساتھ چلی گئی تھی مگر جس طرح سے عام لوگوں کے ساتھ مسلمان بھی اکھلیش سرکار سے ناراض نظر آرہے ہیں اس سے مایاتی کا کام آسان ہوتا نظر آرہاہے۔ البتہ سماج وادی پارٹی خوف پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ مایاوتی کو ووٹ دینے کا مطلب ہے بی جے پی کو ووٹ دینا۔ اگر مسلمان بی ایس پی کو ووٹ دیتے ہیں تو وہ سیٹیں کم پڑنے کی صورت میں بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملاسکتی ہیں۔

برسات میں چھپربنانے کی کوشش

    جیسے جیسے اترپردیش اسمبلی کے انتخابات قریب آرہے ہیں سماج وادی پارٹی سرکار متحرک ہوتی جارہی ہے۔ اکھلیش حکومت نے ریاست میں 166 3کروڑ روپے کی لاگت سے قائم ہونے والے چھ میگا منصوبوں کو منظوری دے دی ہے۔ ان منصوبوں کے قیام سے 645 11روزگار کے مواقع نکلیں گے۔ مانا جارہاہے کہ اکھلیش نے برسات شروع ہونے کے بعد چھپر کا انتظام شروع کیا ہے۔ انھیں احساس ہونے لگا ہے کہ عوام کے بیچ ان کی ساکھ بے حد خراب ہوئی ہے جسے ٹھیک کرنے کے لئے وہ اس قسم کے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ اکھلیش یادو کی حکومت کے خلاف جو سب سے بڑا الزام ہے وہ ہے لاء اینڈ آرڈر کی خرابی۔ ان کی حکومت میں دنگے فساد، خون خرابہ اور ریپ کی وارداتیں ہونا عام بات ہے۔ ان مسائل کا اثر یوں تو ریاست کے سبھی لوگوں پر پڑتا ہے مگر مسلمان خاص طور پر نقصان اٹھاتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ مظفرنگر دنگوں میں کون اجڑا اور کسے آگ کے دریا سے گزرنا پڑا؟ علاوہ ازیں سینکڑوں چھوٹے چھوٹے فسادات گزشتہ چار سال میں ہوئے ہیں۔ آج مایاوتی کے دور اقتدار کو اس لئے عوام یاد کر رہے ہیں کہ ان کے دور میں لاء اینڈ آرڈر چست درست تھا۔ راجہ بھیا جیسے غنڈے بھی سلاخوں کے پیچھے پہنچ گئے تھے۔ جب کہ آج حالات مختلف ہیں اور کل تک جو لوگ سلاخوں کے پیچھے تھے ،وہ وزیربن کر عیش کر رہے ہیں۔  

مسلمان کدھر جائینگے؟

     یوپی کا مسلمان ووٹر کدھر جائے گا، اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر اتنا طے مانا جارہاہے کہ عام مسلم ووٹر سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی میں سے کسی ایک کا ہی انتخاب کرے گا اور بی ایس پی کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے ۔پہلے مسلمانوں کا ووٹ عام طور پر سماج وادی پارٹی کی طرف جاتا تھا مگر ماہرین کی مانیں تو اب وہ موقع اور حالات کے مطابق اپنے نفع نقصان کو ذہن میں رکھ کر ووٹ کرتے ہیں۔ باوجود اس کے ہر پارٹی مسلمانوں کو رجھانے کی کوشش میں لگی ہے۔ اس بیچ کچھ چھوٹی جماعتوں کا ایک نیا گروہ بھی سامنے آرہا ہے جومسلمانوں کی ہمدرد ی کا دعویدارہے۔ خود کو مسلم ووٹروں کا ہمدرد بتانے والا یہ مورچہ خود کو مسلسل مضبوط کر رہا ہے۔ تاہم اس کا مستقبل کیا ہوگا ابھی کچھ کہنا جلد بازی ہوگی۔مسلمانوں کی نمائندگی کی دعویدار جماعتوں نے اتر پردیش میں ایک مشترکہ پلیٹ فارم’’ اتحاد فرنٹ‘‘ کے نام سے کھڑا کیا ہے۔ اس فرنٹ میں شامل ہونے والی جماعتوں کی تعداد آٹھ تک پہنچ گئی ہے۔ظاہر ہے کہ ایس پی، بی ایس پی ، کانگریس اور اس نئے مورچے کے بیچ ووٹوں کا بکھرائو بی جے پی کے لئے امید کی کرن  ہے۔

دلت اور مسلم اتحاد سے کسے فائدہ ہوگا؟

    سماج وادی پارٹی میں مسلم ووٹوں کو لے کر زبردست تشویش ہے کیونکہ یوپی سے گجرات تک مسلمان دلتوں کے ساتھ کھڑے ہورہے ہیں۔ مسلم اور دلت کو متحد کرنے کی تحریک سے جتنا بی جے پی کے لیڈر پریشان ہیں، اس سے زیادہ پریشانی ایس پی لیڈروں کو ہے۔ بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر کا کہنا ہے کہ سناتن دھرم کے اندر کی یکجہتی ٹوٹ رہی ہے۔ دلت کو ہندو سماج سے الگ کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ اس سے ایک بڑا سماجی مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے لیکن جہاں تک سیاسی نفع نقصان کا سوال ہے تو بی جے پی کو زیادہ نقصان نہیں ہونا ہے لیکن اگر اترپردیش میں دلت اور مسلم کا اتحاد بن گیا تب تو سماج وادی پارٹی کا صفایا ہو جائے گا کیونکہ اس کا بنیاد ی ووٹ ہی مسلم یادو ہے اور مسلمان ووٹ کے مقابلے یادو ووٹ آدھا ہے۔ گجرات سے لے کر اتر پردیش تک مسلم اور دلت یکجہتی کی تحریک سے گھبرائی ایس پی نے مسلمانوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لئے کچھ بھی کرنے کی تیاری دکھائی ہے۔ تبھی پوروانچل کے علاقے میں اثر رکھنے والے دبنگ لیڈر مختار انصاری اور افضل انصاری کی پارٹی قومی ایکتا دل کا الحاق ایس پی میں ہوا ہے ۔ خبر ہے کہ انصاری برادران کا پورا کنبہ ایس پی کے ٹکٹ پر لڑے گا اور مشرقی اترپردیش میں پارٹی کے لئے مسلم ووٹ کو یقینی بنائے گا۔

بی جے پی کو فائدہ یا نقصان؟

    ایسے میں جب کہ کانگریس ریس سے باہر ہے تو کیا مانا جائے کہ یوپی کا اینٹی بی جے پی ووٹر نیتاجی کو چھوڑ بہن جی کے ساتھ آئے گا؟ ویسے بھی بی جے پی کو سمجھ آ گیا ہے کہ اگر یوپی کو فتح کرنا ہے تو ہندو ووٹوں کا پولرائزیشن ہی ضروری نہیں ہے بلکہ مسلم ووٹوں کا کشمکش میں آنا بھی ضروری ہے۔ حالانکہ جب جب پولرائزیشن نہیں ہوا بی جے پی کو مسلسل اسمبلی انتخابات میں نقصان ہوا۔ 2013 میں محض 15 فیصد ووٹ اس کے حصے آئے جو 1991 کے 32.51 کے نصف سے بھی کم اور 1996 کے 2012 کے دو تہائی ہیں۔ 2007 کے 16.97 فیصد کے مقابلے بھی یہ اعداد و شمار نیچے ہیں۔ 2012 میں بی جے پی محض 47 نشستیں جیت پائی تھی جو کہ 2007 کے 51 سے 4 اور 2002 کے 88 کی تقریبا آدھی ہیں، تو 2017 کا الیکشن جیتنے کے لیے بی جے پی کو اپنے 2014 کے 43 فیصد ووٹ شیئر کو مضبوطی سے برقرار رکھنا ہو گا۔حالانکہ دلت اس کا ساتھ چھوڑتے نظر آرہے ہیں۔ تاہم روایتی طور پر یوپی اسمبلی انتخابات میں ایس پی اور بی ایس پی تقریبا 30 فیصد ووٹوں پر قبضہ کرتے رہے ہیںلیکن کہانی میں موڑ آ سکتا ہے کیونکہ ایس پی سرکار اس وقت زبردست اینٹی انکامبینسی کا شکار ہے جس کا فائدہ سیدھے طور پرمایاوتی کو ہوسکتا ہے۔

سروے رپورٹوں پر بھروسہ نہیں

     اترپردیش اسمبلی انتخابات میں اب چند مہینے ہی باقی بچے ہیں۔ ایسے میں ایس پی حکومت لوگوں کے درمیان اپنی ساکھ کھو رہی ہے اور رہی سہی کسرپوری کردی یادو خاندان کی ’’خانہ جنگی ‘‘نے۔ جہاں عوام اکھلیش سرکار سے ناراض نظر آرہے ہیں وہیں سابق وزیر اعلی اور بی ایس پی سپریمو مایاوتی وزیر اعلی کے عہدے کی پہلی پسند بنتی جا رہی ہیں۔ حالانکہ حال ہی میں انڈیا ٹوڈے نے ایک سروے کیا ہے جس کے مطابق یوپی میںبی جے پی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھر سکتی ہے مگر مکمل اکثریت سے دور رہے گی، جب کہ دوسرے نمبر پر بہوجن سماج پارٹی رہے گی۔ اس سے پہلے  ASUME ریسرچ کی طرف سے کرائے گئے سروے میں کہا گیا تھا کہ یوپی میں مایاوتی کی اقتدار میں واپسی ہو سکتی ہے۔ وہیں اکھلیش یادو کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔انگریزی روزنامہ ’’ میل ٹوڈے‘‘ میں شائع اس سروے کے مطابق لوگوں کے درمیان سماج وادی پارٹی کی مقبولیت کم ہوئی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ ایس پی حکومت لاء  اینڈ آرڈر، مہنگائی اور روزگار کے معاملے میں عوام کی کسوٹی پر کھری نہیں اتر پائی، جس کا نقصان اسے سال 2017 کے اسمبلی انتخابات میں اٹھانا ہوگا۔ 12 اپریل سے 25 اپریل کے درمیان کرائے گئے اس سروے میں تقریبا 26 ہزار لوگوں نے حصہ لیا تھا۔ سروے کے مطابق اتر پردیش کے عوام نے وزیر اعلی کے طور پر مایاوتی کو اپنی پہلی پسند قرار دیا ہے ۔ سروے نتائج ماضی میں غلط ثابت ہوتے رہے ہیں نیز انھیں جانبدرانہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ دلی اور بہار کے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں میڈیا کی ہرسروے رپورٹ بی جے پی کو ٹکر میں دکھارہی تھی مگر اس کے برخلاف نتائج سامنے آئے۔ دلی میں بی جے پی کا صفایا عام آدمی پارٹی نے کردیا جب کہ بہار میں مہاگٹھبندھن کی سرکار بنی اور بی جے پی کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ سروے کرنے والے اونچی برادریوں سے ہوتے ہیں اور اسے ٹی وی چینلوں اور اخباروں میں پیش کرنے والے بھی اسی طبقے سے آتے ہیں لہٰذا ان پارٹیوں کو کم تر دکھاتے ہیں جو دلت یا پسماندہ طبقوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ویسے بھی ان دنوں میڈیا بری طرح وزیراعظم مودی پر فدا ہے لہٰذا سروے رپورٹوں پر بھروسہ کرنا مشکل ہے۔میڈیا رپورٹوں کے برخلاف یوپی الیکشن کے تعلق سے جو بات قرین قیاس ہے وہ یہ ہے کہ بی ایس پی اور ایس پی میں ہی جنگ ہوگی اور بی جے پی تیسرے نمبر پر رہے گی۔ اس وقت ماحول 2014کے عام انتخابات جیسا نہیں ہے اور مودی جی کے بڑبولے پن کی پول کھل چکی ہے۔ان کے تمام انتخابی وعدے محض ’’جملہ‘‘ ثابت ہورہے ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments


Login

You are Visitor Number : 463