donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Medical Science Ki Nazar Me Mohabbat Kya Hai


 

ولنٹائن ڈے پر خاص تحریر    


    شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہؔ

 اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی

 

    میڈیکل سائنس کی نظر میں  محبت کیا ہے

 

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook


    ہر سال ولنٹائن ڈے کا رواج ان دنوں زور پکڑتا جارہا ہے جو یقینا مغربی کلچر کے اثر کے سبب ہے مگر ’’یومِ محبت‘‘ منانے والے کبھی اس پہلو پر غور نہیں کرتے کہ محبت کی حقیقت کیا ہے اور کیوں ہوتی ہے؟ کسی کو دیکھ کر آپ نے ایسا محسوس کیا کہ اچانک ایک ساتھ ڈھیر ساے پھول کھل اٹھے ہوں،ہزاروں دیئے جگمگا اٹھے ہوں، دھیمی دھیمی فواریں پڑنے لگی ہوں،دھنک کے سات نہیں سات ہزار رنگ فضائوں میں بکھر گئے ہوں، کانوں میں موسیقی کی دھنیں بجنے لگی ہوںاور آپ زمین وآسمان کے بیچ پرواز کرنے لگے ہوں۔ اگر ایسا کبھی آپ کے ساتھ ہوجائے تو سمجھ لیجئے کہ کیوپڈ کا تیر آپ کے دل پر لگ چکا ہے اور آپ کو محبت ہوگئی ہے۔

بند لبوں کو گیت ملے، سنگیت ملا سناٹوں کو
اس کی آنکھوں سے ٹکراکر ساری بستی کھنک پڑی

  مشہور شاعر فراقؔ گورکھپوری نے لکھا ہے کہ انھیں بہت کم سنی میں کسی ہم سبق سے عشق ہوگیا تھا۔وہ لکھتے ہیں کہ ’’۷۔۸ برس کی عمر ہی سے مجھے حسن وقبح، خوبصورتی اور بد صورتی کا تکلیف دہ حدتک غیر معمولی شدت کے ساتھ احساس تھا۔۔۔اسی زمانے میں مجھ کو پہلے پہل ایک عشق ہوگیاجو چند دنوں کی رنگینیوں کے بعد ایک دیرپا اور صبر آزما بلکہ صبر شکن حالت میں تبدیل ہوگیا۔ مجھے خود اس عمر کا یقین نہیں آتاکہ ایسی حالت میں اپنی دماغی ریاضت اور اکتسابِ علم کے عمل کو کیسے جاری رکھ سکا۔ مجھے ہر وقت ایسا محسوس ہوتا تھاگویا میں ناگ پھنی کا کوئی گچھا نگل گیا ہوں۔‘‘  اسی طرح مشہور فلم اداکارراج کپور کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ پیدائشی عاشق تھے اور اپنی ایک ٹیچر سے بچپن میں ہی عشق کربیٹھے تھے۔ یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا اور شادی کے بعد وہ اداکارہ نرگس کے عشق میں گرفتار ہوگئے۔

    بہت سے معروف و غیر معروف لوگوں کی داستانہائے محبت شہرت کی حامل ہیں جن میںلیلیٰ ۔مجنوں، شیریں۔ فرہاد، ہیر۔ رانجھا، رومیو۔ جولیٹ کی داستانوں کو کلاسیکی درجہ بھی حاصل ہے۔ اس سے قطعِ نظر کہ ان داستانوں کا حقیقت سے کتنا تعلق ہے ایک بات تو پوری

طرح سچ ہے کہ محبت ایک حقیقی جذبہ ہے جسے انسان کے اندر قدرت کی طرف سے رکھا گیا۔اگر عالمی ادب کا جائزہ لیا جائے تو احساس ہوگا کہ جتنا کچھ اس موضوع پر لکھا گیا شاید کسی دوسرے موضوع پر نہ لکھا گیا ہو۔شاعروں اور ادیبوں کی نظر میں محبت ایک ایسا جذبہ ہے جسے سمجھا یا سمجھایا نہیں جا سکتا بس محسوس کیا جا سکتاہے۔

محبت معنیٰ والفاظ میں لائی نہیں جاتی
یہ وہ نازک حقیقت ہے جو سمجھائی نہیں جاتی

    غالبؔ جوانی میں محبت کا دم بھرتے رہے مگر ایک وقت ایسا بھی آیا جب انھوں نے اسے ’’دماغ کا خلل‘‘قرار دے کر کنارہ کشی اختیار کرلی۔

کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

    غالبؔ کی جھنجھلاہٹ کو ان کے اس مصرعے میں محسوس کیا جا سکتاہے مگر احساس محبت کے تعلق سے شیفتہؔ کا کہنا ہے کہ :

شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہؔ
اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی

    ادب سے فلم تک اور مذہب سے سائنس تک ہر جگہ اس موضوع پر صدیوں سے بحث جاری ہے مگر آج تک یہ طے نہیں ہوپایا کہ یہ جذبہ آخر ہے کیا؟ محبت ایک ایسا ناقابل فہم اوردشوارموضوع ہے جسے سمجھنا اور سمجھانا ناممکن سی بات لگتی ہے۔اسے سمجھنے اور سمجھانے کی جتنی بھی کوشش کی جاتی ہے،ناکامی ہاتھ لگتی ہے۔اس مسئلے کو سلجھانے کی ہرجدوجہد مزیدالجھنیں پیداکرتی ہے۔گویا ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔

    اردو وفارسی میںمحبت کے مفہوم کو ادا کرنے کے لئے بے شمارالفاظ کا استعمال کیاجاتاہے جن میں سے کچھ خاص یہ ہیں۔ عشق، علاقہ، شغف، شوق، حزن، حرق، جنون،فتون،وجد،کلف وغیرہ وغیرہ، اسی طرح محبت کی تعریف بھی آج تک طے نہ کی جاسکی۔محبت کی تعریف بھی مختلف الفاظ اور محتلف انداز میں بیان کی جاتی ہے،مگرہر تعریف پڑھ کر کسی نہ کسی کمی کا احساس ہوتا ہے اور لگتا ہے کہ یہ تعریف جامع ومانع نہیں ہے۔کسی نے کہاتڑپتے دل کے ساتھ دائمی میلان کا نام محبت ہے تو کسی نے کہا تمام وابستہ چیزوں پرمحبوب کو ترجیح دینا محبت ہے۔کسی کاقول ہے کہ ہرحال میں محبوب کی موافقت کرنامحبت ہے تو کسی نے محب اور محبوب کی مراد کا ایک ہونا محبت بتایا ہے۔ کسی نے محبوب کی مراد کا محب پرراجح ہونا محبت سمجھا تو کسی نے سوائے محبوب کے ہر چیز کو دل سے مٹادینے کا نام محبت رکھا ۔کسی کی نظر میں حدود محبت کی حفاظت کرنا توکسی کے خیال میں محبوب کی معیت کو اپنے لئے باعث فرحت جاننا محبت ہے۔بعض نے رضائے محبوب کے حصول کے لئے تن من دھن کی قربانی تو بعض نے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب کو عزیز رکھنے کا نام محبت رکھا ہے۔کچھ لوگوں کے خیال میں محبت ایک ایسے اضطراب مسلسل کو کہا جاتا ہے جس میں سکون نہیں اور ایسے سکون کو کہا جاتا ہے جس میں اضطراب نہیں۔بعض اہلِ دل سمجھتے ہیں کہ محبوب کا محب کی روح سے بھی قریب ہونامحبت ہے۔تو بعض اہل نظر احکامِ عشق پر دل کی ثابت قدمی کو محبت کہتے ہیں۔حالانکہ اس بحث کے بعد بھی مسئلہ حل طلب ہی رہا۔

یہ اضطراب کیا ہے، حال کیا ہے، مدعا کیا ہے
وہ دیکھتے تو جانتا، وہ پوچھتے تو سوچتا

ایک محب کے لئے سب سے بڑی آرزودیدارِ محبوب اور وصالِ یارہے۔اس سے بڑی کوئی تمنا ہو ہی نہیں سکتی۔یہاں تک کہ ایک عاشق صادق کو اگر ساری دنیا دے کراپنے محبوب کی ایک جھلک ملتی ہے تویہ سودا مہنگا نہیں۔عاشق صادق وہی ہوتا ہے جس کے ہوش وحواس پراس کے محبوب کا تصور چھایا ہو۔بولے تو زبان پرمحبوب کا ذکرجاری ہوجائے۔اس کی خاطر اپنا سب کچھ لٹادینے کاجذبہ رکھتا ہو۔اس سے منسوب ہر چیز سے لگائو رکھتا ہو لیکن ایک محب کی تمنائوں کی معراج دیدارجمالِ محبوب ہی ہے۔دیداریارتمام غموں کو کافور کردیتا ہے اور عاشق کو ایک ایسی بے خودی وسر مستی کی کیفیت سے ہم آہنگ کردیتا ہے جس کا لطف بیان سے باہر ہے یا جسے بیان کرنے کے لئے الفاظ ہی پیدانہیں ہوئے۔ جب مجازی محبت میںانسان اس بلندی پرپہنچ سکتا ہے توحقیقی محبت کس مقام تک لے جائے گی یہ تصور سے باہر ہے۔

خانۂ دل میں کسی دن آپ کا آنا ہوا
یہ ہوئی رفعت کہ بامِ عرش تہہ خانا ہوا

    آج دنیا کے تمام مسائل کا حل عقل کی روشنی میں ڈھونڈا جارہا ہے اور تمام سوالات کے جواب علم وحکمت کے دائرے میں تلاش کئے جارہے ہیں۔ انسانی جسم سے جڑے ہوئے تمام معاملات میڈیکل سائنس کا موضوع ہیں۔اس نے جب محبت کے موضوع پر تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اس کے لئے چند قسم کے کیمیکل اور ہارمونس ذمہ دار ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کے اندر ان کی زیادتی ہوتی ہے وہ محبت میں زیادہ گرفتار ہوتے ہیں اور جن کے اندر ان کی کمی ہوتی ہے وہ اس کے کم شکار ہوتے ہیں۔بعض افراد بار بار گرفتارِ محبت ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ بچپن سے بڑھاپے تک جاری رہتا ہے،لہٰذا یہ کہنا غلط ہوگا کہ محبت زندگی میں صرف ایک سے ہوتی ہے اور ایک بار ہی ہوتی ہے۔عہد قدیم کے یونانی طبی ماہرین یہ سمجھتے تھے کہ آدمی کے خون اورPhlegmمیں محبت کے اسباب پوشیدہ ہیں مگر اب جدید تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کا مرکز خون نہیں بلکہ انسانی دماغ ہے۔ حالانکہ شاعروں اور ادیبوں نے ہمیشہ محبت کے لئے دل کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور درد محبت کا مرکز بھی دل کو قرار دیا ہے۔ وہ جہاں محبوب کا مسکن دل کو قرار دیتے ہیں وہیں اس کے درد کی جگہ بھی دل ہی کو سمجھتے ہیں۔

وہ میرے دل میں تھا میرا نہیں تھا
کبھی بھی فاصلہ ایسا نہیں تھا

     ۱۶۶۰ء میں پہلی بار طبی ماہرین نے یہ کہا کہ اس کے لئے آدمی کا دماغ ذمہ دار ہوتا ہے بعد میں تحقیق کاسلسلہ چلتا رہا اور نئے نئے انکشافات سامنے آتے رہے۔اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اس کے لئے دماغ کے مختلف اجزاء ذمہ دار ہوتے ہیں۔یہی خلیات اور کیمیکل جذبات کو بر انگیختہ بھی کرتے ہیں اور انسان کی خوشی اور غم کے لئے بھی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ TestosteronاورEstrogen کا عشق میں سب سے خاص کردار ہوتا ہے۔ یہ اجزاء مرد میں عموماًزیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں جس کے سبب مرد محبت کا میلان زیادہ رکھتے ہیں اور بیشتر اوقات پہل انھیں کی طرف سے ہوتی ہے۔ سائنسدانوں نے تحقیق کے دوران پایا کہ جب انسان کے دماغ کا وہ حصہ متحرک رہتا ہے، جہاں یہ اجزا ہوتے ہیں تو اسے محبت ہوجاتی ہے۔ وہ جب محبوب کو دیکھتا ہے تو دماغ کے خاص حصے میں تحریک پیدا ہوجاتی ہے اور دوسروں کو دیکھتے وقت اس حصے میں کسی قسم کی حرکت نہیں ہوتی۔ دماغ دل کو سگنل بھیجتا ہے اور خون کی رفتار تیز ہوجاتی ہے،جس سے دل میں گدگدی اور جسم میں جھرجھری ہونے لگتی ہے۔جو کیمیکل دل میں تبدیلی لاتا ہے اسے  Norepinephrinکا نام دیا گیا ہے، یہ ایک دوسرے کیمیکل Dopamaineکے ساتھ مل کر جذبات میں اتھل پتھل مچادیتا ہے اور انسان سرور کا احساس کرنے لگتا ہے۔ اسے

اسی سرور میں ڈوبے رہنا اچھا لگتا ہے اور وہ ساری دنیا سے بے رغبت ہوجاتا ہے۔یہ بے خودی کی ایک کیفیت ہوتی ہے جو اس کے نس نس میں بھر جاتی ہے۔ گویا خون میں شرارے بھر گئے ہوں اوروہ ہر حصے میں خون کے قطروں کے ساتھ دوڑ رہے ہیں۔

فطرت میری عشق و محبت قسمت میری تنہائی
کہنے کی نوبت ہی نہ آئی ہم بھی کسو کے ہولیں ہیں

    Dopamine وہ کیمیکل ہے جو نشہ اور نشیلی دوائوں کے استعمال کے وقت انسانی جسم میں پیدا ہوجاتا ہے اور جواری کے اندر جوا کھیلتے وقت متحرک ہوجاتا ہے۔گویا جسم کے جو اجزاء نشیلی دوائوں سے متحرک ہوکر آدمی کے اندر مسرت اور خوشی کا احساس پیدا کرتے ہیں وہی احساس محبت بھی پیدا کرتے ہیں۔ یعنی جیسے نشے کی حالت میں آدمی سوچنے سمجھنے کی اپنی صلاحیت کھودیتا ہے اسی طرح محبت میں بھی وہ سوچنے سمجھنے کے لائق نہیں رہتا۔وہ صرف اسی سرور میں ڈوبا رہنا چاہتا ہے۔ جس طرح سے نشے کا عادی سب کچھ اس کے پیچھے قربان کرنے کو تیار رہتا ہے اسی طرح محبت کرنے والا شخص بھی محبت میں نفع نقصان پر دھیان نہیں دیتا اور سب کچھ لٹا نے اور دنیا کی ہر ذلت کو برداشت کرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ماہر عشقیات اور Rutger Universityکی محققہ ہیلین فشر کے مطابق  DopamineاورNorepinephrineہی وہ کیمیکلس ہیں جن کی وجہ سے بے خوابی، بے چینی جیسی حالت پیدا ہوتی ہے۔اسی سے دورانِ خون میں تیزی آتی ہے ، سانسیں لمبی لمبی چلنے لگتی ہیں اور دل زور زور سے دھڑکنے لگتا ہے۔


    محبت کرنے والے آپس میں بوس وکنار کیوں کرتے ہیں؟ ایک دوسرے سے لپٹتے کیوں ہیں؟ دونوں اپنے جسموں کو ایک دوسرے کے ساتھ مس کیوں کرتے ہیں؟ ان سوالوں کا جواب ماہرین یہ دیتے ہیں کہ محبت کرنے والوں میں ایک خاص قسم کا کیمیکل پیدا ہوتا ہے جسےOxytocine  کہا جاتا ہے۔یہی اس کے لئے ذمہ دار ہوتا ہے۔ یہ کیمیکل بچے کو دودھ پلانے والی ماں کے اندر بھی پیدا ہوتا ہے جس کے سبب وہ بچے کو بار بار چومتی ہے، گلے لگاتی ہے اور اپنے سینے سے بھینچ کر رکھتی ہے۔

    محبت کا اثر عموماً اٹھارہ مہینوں تک بہت زبردست طریقے سے رہتا ہے مگر اس کے بعد کم ہونے لگتا ہے اور عاشق معمول پر آنے لگتا ہے۔ اسی طرح ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ اگر آدمی کی نگاہوں کے سامنے اس کا محبوب مسلسل رہے تو پھر اس کا جی بھرجاتا ہے اور جلد ہی وہ اس نشے سے آزاد ہونے لگتا ہے۔بہت سے لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ محبت میں گرفتار ہوکر شادیاں کر لیتے ہیں اور چند سال بعد ہی وہ ایک دوسرے کو بوجھ سمجھنے لگتے ہیں پھر طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جس وقت انھوں نے شادی کا فیصلہ کیا تھا تو محبت کے سرور میں ڈوبے ہوئے تھے اور سوچنے سمجھنے کی فطری قوت سے محروم ہوچکے تھے،اسی لئے ایک دوسرے کی خامیوں کو نہیں دیکھ پائے مگر جب یہ خمار ختم ہوا اور دماغ صحیح ڈھنگ سے کام کرنے کے لائق ہوگیا تو ایک دوسرے کی حقیقت نظر آئی اور نتیجہ کے طور پر نفرت کرنے لگے۔ جب نگاہوں سے محبت کا پردہ ہٹتا ہے اور زمینی سچائیاں سامنے آتی ہیں تو اسے محسوس ہونے لگتا ہے:

غم اور ہیں دنیا میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

(یو این این)

***********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 505