donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Modi Ji ! In Amwat Ke Liye Kaun Hai Zimmedar


مودی جی! ان اموات کے لئے کون ہے ذمہ دار؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    دلی میں بینک سے روپئے تبدیل کرانے میں ناکام ایک لڑکی نے خودکشی کرلی اور محلہ والوں نے چندہ جمع کرکے اس کی تدفین کی۔ مدھیہ پردیش کے ساگر میں 69 سال کے ونود پانڈے سرکاری بینک میں اپنا پیسہ بدلوانے گئے تھے۔ گھنٹوں قطار میں کھڑے رہے پھربے ہوش ہو کر گر پڑے اور وہیں ان کی موت ہو گئی۔اترپردیش کے فیروز آباد میں ایک نرسنگ ہوم نے پیسے کی کمی کے سبب ایک نوزائیدہ بچے کا علاج کرنے سے انکار کر دیا۔ پیدائش کے 7 گھنٹے کے اندر اندر بچے کی موت ہو گئی۔ اس کے گھر والوں کا الزام ہے کہ بینک سے پیسے نہ نکال پانے کے سبب بچے کا علاج نہیں ہوپایا۔ یہاں تک کہ نئے نوٹ نہ ہونے کی وجہ سے بچے کی لاش بھی لے جانے سے روک دیاگیا۔کئی جگہوں سے سننے کو مل رہا ہے کہ بینک سے روپئے نہ نکال پانے کے سبب مریضوں کو ہسپتال سے چھٹی نہیں مل رہی ہے۔اسی طرح ممبئی کے ایک ہسپتال نے نوزائیدہ کو ایڈمٹ کرنے سے انکار کر دیا، جس سے بچے کی موت ہو گئی۔ یہاں بھی سبب وہی بینک سے پیسے نہ نکال پانا تھا۔ وشاکھاپٹنم میں 18 ماہ کا ایک بچہ مر گیا کیونکہ اس کے گھر والے ادویات خریدنے کے لئے بینک سے روپئے نہیں نکال پائے تھے اور پرائیویٹ ہسپتال نے پرانا نوٹ نہیں لیا۔ یوپی کے مین پوری میں ایک سال کے بچے کا علاج نہیں ہو سکاکیونکہ ماں باپ کے پاس سو سوکے نوٹ نہیں تھے۔ راجستھان کے متعدد اضلاع میں ایمبولینسوں نے نوزائیدہ بچوںکو ہسپتال لے جانے سے انکار کر دیا کیونکہ ان کے گھر والوں کے پاس نئی نوٹیں نہیں تھیں۔ یوپی کے کشی نگر میں ایک غریب دھوبن نے لوگوں کے میلے کپڑے دھو دھو کر دو ہزار روپئے جمع کئے تھے جب اسے معلوم ہوا کہ ہزار کے نوٹ اب بے کار ہوگئے تو وہ صدمے سے مر گئی۔ تلنگانہ میں 55 سال کی ایک خاتون کو لگا کہ 54 لاکھ بیکار ہو چکے ہیں جو اس نے اپنی زمین بیچ کر بیمار شوہر کے علاج اور بیٹی کی شادی کے لئے حاصل کئے تھے تواس نے خود کشی کر لی۔بنگال کے ہوڑہ میں ایک شوہر نے اپنی بیوی کو قتل کر دیا، کیونکہ وہ اے ٹی ایم سے خالی ہاتھ واپس آئی تھی۔ گجرات میں 47 سال کاایک کسان پرانے نوٹ تبدیل کرتے وقت ہارٹ اٹیک سے مر گیا۔ یہ تو صرف چند واقعات ہیں ورنہ مودی سرکار کی نوٹ بندی کے شکار لوگوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ ہندوستان میں ایک قتل پر بھی مقدمہ چلتا ہے اور جرم ثابت ہونے پر مجرم کو سزا دی جاتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ ان تمام اموات کے لئے کسی کو سزا ملے گی؟ کیا کسی کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہوگا؟ کیا کسی کو ان اموات کے لئے  مجرم ٹھہرایا جائے گا؟ ہرگز نہیں کیونکہ یہ تمام لوگ مودی سرکار کی نوٹ بندی کا شکار ہوئے ہیں اور اس کے لئے نوٹ بندی کے نفاذ کا غلط طریقہ ذمہ دارہے مگر انصاف وقانون تو پی ایم مودی کے گھر کی لونڈی ہے۔ جب ان سے سوال پوچھنے کے جرم میں ٹی وی چینل کا ٹیلی کاسٹ بند کرایا جاسکتا ہے تو ان اموات کے لئے انھیں کون مجرم ٹھہراسکتا ہے۔

آخر کب تک کریں انتظار؟

     500 اور 1000 کے پرانے نوٹوں کو بند کردیا گیا ہے، جس کے بعد سے ہندوستان کے لوگوں نے اپنے گھر کا کام جیسے تیسے چلانا شروع کردیا ہے۔ اب زیادہ تر لوگوں کے گھر میں کیش کی قلت ہو گئی ہے، لہذا وہ قطار میں ہیں۔ رات رات بھر لوگ کمبل اور لحاف لے کر بینکوں کے سامنے قطاروں میں بیٹھے دیکھے جارہے ہیں۔ پورے ملک کا برا حال ہے اور دارالحکومت دہلی بھی اس میں شامل ہے۔ حالانکہ ان لائنوں میں کوئی نیتا، صنعت کار اور دھنا سیٹھ نہیں دکھائی دیا۔ یہاں تمام عام لوگ پریشان ہوتے نظر آرہے ہیں۔ نوٹ بندی ایک ایسا واقعہ ہے جس سے ایک ساتھ ہندوستان کی پوری آبادی متاثر ہوئی ہے۔ شہری علاقوں میں تو لو گ پریشان ہیں ہی مگردیہی علاقوں میں لوگوں کو اس سے زیادہ پریشانی ہو رہی ہے۔ قبائلی علاقوں میں تو بینک 25 سے 50 کلومیٹر دور ہیں اور وہ بھی بہت کم ہیں۔دیہی علاقوں میں اب تک صرف روپئے جمع ہورہے ہیں کیونکہ ان کے پاس کیش پہنچاہی نہیں ہے۔ خبر ہے کہ مجبوری میں غریب دیہی و قبائلی لوگ، تاجروں کو 5 سو کا نوٹ دے کر 300 کا سامان لے رہے ہیں۔ ان کا استحصال ہو رہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دونوں بڑے نوٹوں کو تبدیل کرنے کے فیصلے نے دھنناسیٹھوں کی نیند حرام کر دی ہے اور اس کا اثر سیاسی پارٹیوں کے ان نیتائوں پر بھی پڑ نا لازمی ہے جنھوں نے اپنے رسوخ کا استعمال کرکے خوب دونمبری دولت جمع کی ہے۔ حکومت کے اس فیصلے کی زد میں وہ سرکاری ملازمین بھی آئینگے جو رشوت کی کالی کمائی سے اپنی تجوریاں بھرتے رہے ہیں۔ وزیراعظم نے اشارہ دیا ہے کہ وہ کالے دھن کے خلاف مزید اقدام سے بھی گریز نہیں کرینگے مگر فی الحال حکومت کے فیصلے سے عوام پریشان ہیں اور وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ انھیں عوام پچاس دن کا وقت دیں وہ پورا ملک بدل کر رکھ دینگے مگر سوال یہ ہے کہ کیا پورا ملک پچاس دن تک بھوکا رہ سکتا ہے؟ وہ ماں پچاس دن کیسے انتظار کرے جس کے پاس بچے کے دودھ کے لئے پیسہ نہیں ہے؟ وہ مریض کیسے انتظار کرے جسے ڈاکٹر نے کہہ رکھا ہے کہ ایمرجنسی میں آپریشن کرنا ہوگا ورنہ اس کی موت ہوسکتی ہے؟ آخر ان سوالوں کا نریندر مودی جی کے پاس کیا جواب ہے؟

مودی جی، اسے آشیرواد نہیں گالی کہتے ہیں 

    نوٹ بندی کا فیصلہ قابل اطلاق ہو چکا ہے۔ اس منصوبہ کی سب تعریف کر رہے ہیں، مگر اس کے نفاذ کے طریقے پر ہر کوئی سوال اٹھا رہا ہے۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ نوٹ بندی کرکے غلط کیا گیا ہے مگر ہر کوئی پوچھ رہا ہے کہ جب پرانے نوٹ واپس لینے تھے تو انھیں تبدیل کرنے کے لئے مناسب انتظام کیوں نہیں کیا گیا؟عوام کو اس اس قدر پریشان کیوں کیا جارہا ہے؟ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو بینکوں کی لائنوں میں کھڑے وزیراعظم کی شان میں گستاخیاں کر رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وزیراعظم کو یہ غلط فہمی ہے کہ عام لوگ انھیں ’’آشیرواد ‘‘دے رہے ہیں۔ وزیراعظم اگر خود آکربینکوں اور اے ٹی ایم کے سامنے لگی لائنوں میں لوگوں کی باتیں سنیںتو انھیں احساس ہوگا کہ عوام سے کس قدر ’’آشیرواد ‘‘مل رہا ہے۔ موجودہ صورت حال سے ظاہر ہے کہ حکومت نے کرنسی کے متعلق ایک بڑا فیصلہ لینے سے پہلے تیاری نہیں کی تھی۔ آخر یہ خبر کیوں آرہی ہے کہ ابھی نوٹ پریس میں چھپ رہے ہیں، یہ کام پہلے کیوں نہیں کیا گیا؟ اگر بڑے نوٹ بندکرنے تھے تو چھوٹے نوٹ پہلے بازار میں بڑے پیمانے پر سرکولیٹ کیوں نہیں کئے گئے؟ بینکوں میں پہلے سے زیادہ نوٹ کیوں نہیں جمع رکھ گئے کہ عوامی مانگ کو پورا کیا جاسکے؟ اگر ایسا ہوتا تو ان سینکڑوں لوگوں کو موت سے بچایا جاسکتا تھا جو اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔عوام کو زحمت اور ملک کی معیشت کو لاکھوں کروڑ کے خسارے سے بچایا جاسکتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 914