donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Modi Par Hamle Ko Taiyar , Bengal Ki Sherni


مودی پر حملے کو تیار،بنگال کی شیرنی


کیا سی پی ایم اور کانگریس مقابلہ کرپائیں گی ترنمول کانگریس کا؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    مغربی بنگال کی وزیر اعلی اور ترنمول کانگریس کی صدر ممتا بنرجی نے اگلے سال ہونے والے بنگال اسمبلی انتخابات میں اکیلے لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے انتخابی بگل بجا دیا ہے۔ وہ اپنی قوت میں اضافہ کے سبب خود اعتمادی سے بھری ہوئی ہیں۔ اس سے زیادہ اعتماد انھیں اس بات پر ہے کہ سی پی آئی ایم اورکانگریس میں ابھی اس قدر طاقت نہیں آئی ہے کہ وہ ترنمول کانگریس کا مقابلہ کرسکیں۔ اسی کے ساتھ بی جے پی اور نریندر مودی کی مقبولیت بھی اتار پر ہے اور لوک سبھا انتخابات میں جس تیزی کے ساتھ بی جے پی گراف اوپر گیا تھا اسی تیزی کے ساتھ اب اس کا سحر ٹوٹ رہا ہے۔ حالانکہ ریاست کے عوام کا ایک بڑا طبقہ ممتا بنرجی سے بھی بہت زیادہ خوش نہیں ہے مگر فی الحال اس کے پاس کوئی متبادل بھی نہیں ہے۔ حال ہی میں ممتا بنرجی نے کلکتہ کے مرکزی علاقے دھرم تلہ میں شہید دیوس پر ایک ریلی کی جس میں وہ پوری جولانی میں نظر آئیں اور تمام اپوزیشن پارٹیوں پر حملہ کرتے ہوئے ،آئندہ اسمبلی انتخابات میں تنہا مقابلے کا اعلان کیا ۔ اس موقع پر انہوں نے سی پی ایم، بی جے پی اور کانگریس کے مبینہ اتحاد کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ وہ ترنمول کو جتنی چیلنج دیں گے، ان کی نشستیں اتنی ہی کم ہوجائیں گی۔انہوں نے اگلے اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی جیت کا بھروسہ جتایا۔ ممتا نے اس موقع پر پارٹی میں گروپ بندی کرنے اور ذاتی مفاد والوں کو انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسے لوگوں کے لئے ترنمول میں کوئی جگہ نہیں ہے۔انہوں نے طالب علموں کو بھی نظم و ضبط برقرار رکھنے اور اساتذہ کا احترام کرنے کی نصیحت دی۔ وہ پارٹی کی جانب سے  دھرمتلہ علاقے میں منعقد شہید ریلی سے خطاب کر رہی تھیں۔ترنمول کانگریس لیڈرنے بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کی سخت کھنچائی کرتے ہوئے کہا کہ وہ ریاست کو ترقی کے لئے ایک دھیلا تک نہیں دے رہی ہے لیکن حکومت اس کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے گی۔ بی جے پی کو دغاباز پارٹی قرار دیتے ہوئے ممتا نے کہا کہ ریاست میں ایسی جماعتوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترنمول کی تحریک پہلے ریاست میں عرصے سے اقتدار پر قابض بایاں محاذ کے خلاف تھی لیکن اب ہماری تحریک ظلم کے خلاف ہے۔ یہ تحریک دہلی بھی پہنچ جائے گی۔ ترنمول سربراہ نے کہا کہ بلی کے گلے میں گھنٹی ہم لوگ ہی باندھیںگے۔

اسمبلی انتخابات کی تیاری

    مغربی بنگال میں آئندہ سال اسمبلی انتخابات ہیں مگر تیاری ابھی سے شروع ہوچکی ہے۔سبھی پارٹیاں جوڑ تور میں لگی ہوئی ہیں اور لیڈران ٹکٹ کے لئے جگاڑ میں ہیں۔ ووٹروں کو لبھانے اورمخالف پارٹی سے انھیں دور کرنے کی کوششیں بھی سبھی پارٹیوں کی طرف سے چل رہی ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو ملنے والے ووٹ سے ترنمول کانگریس میں جو خوف پیدا ہوا تھا وہ میونسپل انتخابات کے بعد نکل چکاہے اور اس کی خوداعتمادی لوٹ آئی ہے۔ بی جے پی نے یہاں اپنی زمین کی تلاش میں پورا زور لگا دیا تھا مگر حالیہ انتخابی نتائج نے اسے مایوس کیا ہے اور سنگھ پریوار کے لیڈران کی بنگال میں جو آمد ورفت بڑھی تھی وہ اچانک تھم سی گئی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ممتا بنرجی نے بھگوا طوفان کو فی الحال تھام لیا ہے ۔ دوسری طرف کانگریس کے حلقے میں شدیدمایوسی چھائی ہوئی ہے اور وہ ایک ووٹ کٹوا پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔ اس کے ممبران اسمبلی اپنی سیٹیں بچانے کے لئے ترنمول کانگریس میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ حالانکہ پارٹی لیڈران کے اندر اعتماد پیدا کرنے کے لئے راہل گاندھی نے کچھ ہی دن قبل مغربی بنگال کا دورہ کیا مگر اس کے باوجود ممبران اسمبلی کی بھگدڑ جاری ہے۔ یہاں تک کہ پارٹی کا ایک طبقہ چاہتا ہے کہ کانگریس تنہا الیکشن لڑنے کے بجائے ترنمول کانگریس کے ساتھ مل کر الیکشن لڑے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو اس کا صفایا ہوجائے گا۔ کمیونسٹ بھی اپنی کھوئی ہوئی زمین کو واپس لینے کے لئے ہرممکن کوشش کر رہے ہیں مگر ابھی تک ان کی کوشش بارآور ثابت ہوتی نہیں لگتی۔  اسی کے ساتھ ممتا بنرجی مسلمانوں کو لبھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتی ہیں۔ حالانکہ ان کے دور اقتدار میں مسلمانوں کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی سمت میں کوئی بڑا کام نہیں ہوا مگر باوجود اس کے وہ مسلمانوں کی ہمدرد دکھائی دینے کی کوشش میں کامیاب رہیں۔

ممتا کا جلوہ برقرار؟

    ۲۰۱۶ء میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے لئے ترنمول کانگریس کے حوصلے بلند ہیں۔پچھلے دنوںسیمی فائنل سمجھے جا رہے مغربی بنگال کے بلدیاتی انتخابات میں حکمران ترنمول کانگریس نے کامیابی کا پرچم لہرا دیا تھا۔ اس جیت سے ترنمول کانگریس نے اپنے مخالفین کو پیغام دیا ہے کہ ریاست کے اقتدار سے اسے بے دخل کرنا آسان نہیں ہے۔تاریخی فتح کے بعد وزیر اعلی ممتا بنرجی نے کہا کہ ترنمول کی جیت ان کی مخالف طاقتوں کے لئے کرارا جواب ہے، جو ان کی اور پارٹی کی تصویر خراب کرنے کی مہم چلا رہی ہیں۔حالانکہ اصل اپوزیشن بایاں محاذ نے ممتا بنرجی کے اس دعوے کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ انتخابی نتائج عوام کی صحیح رائے کا اظہار نہیں کرتے، کیونکہ اس الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی اور تشدد ہوا ہے۔ ووٹروں کو ووٹ دینے سے روکا گیا ہے۔ وہیں ممتا بنرجی نے دعوی کیا کہ ریاست میں انتخابات مکمل طور پر آزاد اور پرامن طریقے سے ہوئے۔غور طلب ہے کہ کولکتہ میونسپل کارپوریشن سمیت ریاست کی 92میونسپلٹیوںکے لئے انتخابات  ہوئے تھے جن میں سے 71 پر ترنمول کانگریس، پانچ پر سی پی ایم اور چار پر کانگریس نے قبضہ کیا تھا، جبکہ بی جے پی ایک بھی شہری باڈی پر قبضہ نہیں کر سکی۔ 12بلدیات میں کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہیںملی تھی۔ حالانکہ سال 2010 میں ہوئے باڈی انتخابات میں ترنمول کو 66 میونسپلٹیوں پر ہی قبضہ ملاتھا۔ تب لیفٹ پارٹیوں کا 25 شہری اکائیوں پر قبضہ ہوا تھا جو اس بار گھٹ کر محض پانچ رہ گیا ہے۔ کئی بلدیاتی ادارے ایسے ہیں جہاں اپوزیشن جماعتوں کا اکاؤنٹ بھی نہیں کھل سکا۔ اس تاریخی کامیابی کے بعد ریاست میں وزیر اعلی ممتا بنرجی کا قد اور بڑا ہو گیا ہے۔شاردا گھوٹالے کی وجہ سے پارٹی کی پوزیشن ڈانواڈول لگ رہی تھی اور سابق جنرل سکریٹری مکل رائے جیسے کئی بڑے لیڈر ممتا بنرجی سے دور ہو گئے تھے۔اس کے علاوہ پارٹی کے کئی لیڈروں کے نام شاردا گھوٹالے میں آنے کی وجہ سے ترنمول کانگریس کی ساکھ کو بہت دھکا لگا تھا۔ ایسے میں یہ باڈی الیکشن ممتا بنرجی کے لئے انفرادی ساکھ کا سوال بن گئے تھے۔ وہیں دوسری طرف اس گھوٹالے کے بہانے بی جے پی مغربی بنگال میں اپنی پکڑ مضبوط کرنے کی پرزور کوشش کر رہی تھی۔ اپنی اصلی حیثیت کے تعین کے لئے اس کے سامنے میونسپل انتخابات تھے، لیکن بی جے پی ایک بھی میونسپلٹی بورڈ میں اکثریت حاصل نہیں کر سکی۔ ایسے مایوس کن نتائج سے بی جے پی کو خاصا دھچکا لگا ۔

کمیونسٹوں کی جدوجہد

    کمیونسٹوں کا گڑھ کہے جانے والے بنگال میں ان دنوں کمیونسٹوں کو جد وجہدسے گزرنا پڑ رہا ہے ۔ حالانکہ اس کا ایک نقصان ریاست کو یہ ہوا ہے کہ ان کے جانے کے بعد سے یہاں بی جے پی مضبوط ہوئی ہے۔بلدیاتی انتخابات سے قبل لیفٹ پارٹیوں کے سینئر لیڈروں کو پارٹی کی بہتر کارکردگی کی امید تھی، لیکن پارٹی ایک بار پھر اوندھے منہ گر پڑی۔بائیں محاذ کی گرفت مغربی بنگال کے دیہی علاقوں میں ہے، شہری علاقوں میں اس کی پکڑ کمزور ہوئی ہے۔ ایسے میں بائیں محاذ کو اپنے وجود کی لڑائی دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ شہری علاقوں میں بھی لڑنی پڑرہی ہے۔ مغربی بنگال کے مسلمانوں کا رجحان زیادہ تر ترنمول کانگریس کی طرف ہے۔ ایسے میں سی پی آئی (ایم) کو ریاست میں بااثر واپسی کے لئے اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی کرنی ہو گی اور اس کی ذمہ داری اب نومنتخب سیکرٹری جنرل سیتارام یچوری کے کندھوں پر ہے۔ وہ بائیں محاذ کی ڈوبتی نیا کیسے پار لگاتے ہیں، یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ بایاں محاذ اور ترنمول کانگریس کے ووٹ میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ ترنمول کانگریس کے پاس۳۳ فیصد ووٹ ہیں اور لیفٹ پارٹیوں کے پاس ۳۰فیصد ہیں مگر جس انداز میں پولنگ ہوتی ہے اس کا فائدہ ترنمول کو ملتا ہے۔ ایسے میں تھوڑی سی محنت سے بایاں محاذ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔

کانگریس میں بھگدڑ

    بنگال میں سب سے برا حال کانگریس کا ہے جس کے لوگوں میں بھگدڑ مچی ہوئی ہے۔ممتابنرجی نے شہید دیوس کی ریلی میں تنہا الیکشن لڑنے کا اعلان کرکے کانگریس کے حلقوں میں مزید سراسیمگی پیدا کردی ہے۔ممبران اسمبلی کو لگنے لگا ہے کہ اگر وہ کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے ہیں تو ان کی ضمانت بچنی بھی مشکل ہے ایسے میں ان میں سے بیشتر ترنمول کانگریس سے ٹکٹ کی خواہش رکھتے ہیں۔ کئی ممبران اسمبلی تواپنی سیٹیں پکی کرنے کے ارادے سے ترنمول میں شامل ہوچکے ہیں اور بعض عنقریب شامل ہونے والے ہیں۔ انھیں لوگوں میں ایک نام مغربی بنگا ل کانگریس کے سابق صدر ڈاکٹر مانس بھوئیاں کا بھی ہے۔ان کی کانگریس سے ناراضگی کا سبب یہ ہے کہ انھیں پارٹی صدر کے عہدے سے ہٹادیا گیا تھا۔ غورطلب ہے کہ ۲۰۱۱ء میں کانگریس نے ترنمول کانگریس کے ساتھ اتحاد کرکے الیکشن لڑا تھا اور مانس بھوئیاں بھی ممتا سرکار میں وزیر بنے تھے مگر بعد میں دونوں پارٹیوں کے بیچ اختلافات بڑھے اور بیان بازیوں کا سلسلہ شروع ہوا جس میں سب سے پیش پیش مانس بھوئیاں ہی تھے۔

     کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے چند مہینے قبل بنگال کا دورہ کیا تھا جس کا مقصد یہاں پارٹی کو دوبارہ زندہ کرنا تھا ۔انھوں نے اپنی تقریر میں ممتا سرکار کو بھی نشانہ بناتے ہوئے کہا تھاکہ ریاست میں ترقی نہیں ہو پا رہی ہے۔ پہلے جو حکومت تھی وہ بائیں محاذ کی حکومت تھی اور ممتا بنرجی کی موجودہ حکومت بھی کوئی خاص کام نہیں کر پائی ہے۔ پردیش کی ترقی متاثر ہو رہی ہے۔ اگر پردیش میں ترقی کے کام کر سکتی ہے تو وہ صرف کانگریس کر سکتی ہے۔انھوں نے ہگلی میں جوٹ مل مزدوروں سے بھی بات چیت کی۔لوک سبھا انتخابات کے دوران، ملی ہار کے بعد راہل گاندھی کا یہ پہلا بنگال دورہ تھا۔ لوک سبھا انتخابات میں ریاست کی کل 42 سیٹوں میں سے ترنمول کو 34، کانگریس کو چار اور بی جے پی،سی پی آئی (ایم) کو دو دو نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔

بی جے پی کی امیدوں پر اوس

    بی جے پی کو مغربی بنگال میں تیزی سے مقبولیت مل رہی تھی اور پہلی بار لوک سبھا انتخابات میں اسے یہاں تقریباً ۱۷فیصد ووٹ ملے تھے۔42 لوک سبھا حلقوں میں سے 30 میں بی جے پی تیسرے اور تین میں دوسرے مقام پر رہی تھی اور اسے ریاست میں کل 16.8 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔اسی طرح اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں بھی بی جے پی نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ایسے میں امید کی جا رہی تھی کہ بی جے پی اسمبلی انتخابات میں ریاست میں کمزور ہوتے بائیں محاذ کی جگہ بھرنے میں کامیاب ہوگی اور وہاں اہم اپوزیشن پارٹی کے طور پر ابھرے گی، لیکن بلدیاتی انتخابات میںمایوس کن کارکردگی بی جے پی کے خوابوں پربجلی بن کر گری۔تازہ صورت حال میں بی جے پی کو اسمبلی انتخابات کے لئے اپنی حکمت عملی میں بدلائو کرنا پڑا ہے ۔ بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ نے گزشتہ دنوں مغربی بنگال کا دورہ کرکے پارٹی کو مضبوط بنانے کی پرزور کوشش کی ، لیکن ان کی ساری قواعد بیکار ثابت ہوئی۔

مسلمانوں کو خوش کرنے کی کوشش

    مغربی بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت ابھی بھی ممتا بنرجی کے ساتھ نظر آتی ہے اور وہ انھیں خوش کرنے کی کوشش بھی کرتی رہتی ہیں۔ انھوں نے پچھلے دنوں علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال کو بنگال کے دورے پر بلایااور اس موقع کا استعمال مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے کیا۔ مقامی اخبارات میں اس دورے کو اس طرح پیش کیا گیا گویا ولید اقبال کی آمد سے اردو زبان کے تمام مسائل حل ہوگئے۔ اسی کے ساتھ انھوں نے ابھی حال ہی میں عالیہ ڈیمڈ یونیورسٹی میں اردو کا شعبہ بھی قائم کرایا۔ ان کے ان اقدام کو الیکشن کی تیاری کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ مقامی اہل اردو کا کہنا ہے کہ جب اردو میڈیم کے پرائمری اور ہائی اسکول نہیں بچیں گے تو یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے قیام سے کیا فائدہ؟ یہاں اردو میڈیم اسکولوں کی حالت بہت بری ہے۔ جس پیسے کا استعمال ولید اقبال کو بلانے، مشاعرہ کرانے اور خواہ مخواہ کی نمائش پر کیا گیا اس سے کئی اردو اسکولوں کا بھلا ہوسکتا تھا۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اب بھی یہاں مسلمانوں کے روزگار، رہائش اور اوقاف جیسے مسائل پر کچھ کام نہیں ہوا ہے۔ممتا بنرجی ان میدانوں میں بہت کچھ کرسکتی تھیں ۔   

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 502