donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Muslim Personal Law Board Ki Majwaza Meeting Aur Muslim Masayel


مسلم پرسنل لاء بورڈ کی مجوزہ مٹینگ اور مسلم مسائل


کیابابری مسجد کے مسئلہ پر مسلم پرسنل لاء بورڈکے موقف میں تبدیلی آئے گی؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook


    بابری مسجد اور رام مندر کا تنازعہ کوئی مذہبی اور سماجی مسئلہ نہیں رہابلکہ یہ ایک سیاسی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس ایک مسئلے نے ملک کی سیاست پر جو اثر ڈالا ہے اس پر طویل تحقیق کی ضرورت ہے۔ اگر یہ تنازعہ نہ ہوتا تو بی جے پی نہ ہوتی اور سنگھ پریوار کا عروج نہ ہوا ہوتا۔ جنتادل، سماج وادی پارٹی، جنتال (یو) اور راشٹریہ جنتادل جیسی جماعتیں بھی نہ ہوتیں۔ لالو، نتیشن ملائم سنگھ جیسے لیڈروں کا ظہور نہ ہوا ہوتا اور کانگریس کا اس ملک سے خاتمہ بھی نہ ہوا ہوتا۔ بابری مسجد مسئلہ لمحوں کے خطا کی مثال ہے جس کی سزا صدیوں تک جاری رہے گی۔ اس سے صرف مسلمانوں کو نقصان نہیں ہوا بلکہ پورے ملک کا نقصان ہوا۔ اس کے سبب جو نقصان ہوا اس کی بھرپائی صدیوں میں نہیں ہوسکتی۔ ان دنوں خبریں آرہی ہیں کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی اس مسئلے پر فکرمند ہے اور ان کوششوں کو نظر انداز نہیں کر پا رہا ہے جو مسئلے کے حل کے لئے کی جارہی ہیں۔ بورڈ کی عنقریب ہونے والی مٹینگ میں اس مسئلے پر غور وفکر کیا جاسکتا ہے۔ یہ مٹینگ جے پور کے جامعہ ہدایہ میں ۲۰سے ۲۲ مارچ کے درمیان ہونے جارہی ہے۔ حالانکہ اس کی امید کم ہے کہ بورڈ اپنے پرانے نظریے میں کوئی تبدیلی کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس دیرینہ مسئلے کے حل پر بھارت کے ہندو اور مسلمان اتفاق کر لیں گے؟ کیا ہاشم انصاری اپنی زندگی میں ہی اس مسئلے کا حل نکلتے دیکھ لیںگے؟ مہنت گیان داس کے منصوبے پر وشو ہندو پریشد پانی تو نہیں پھیرے گا؟کیا مسئلہ اجودھیا جس طرح اس ملک میں تنازعے اور اختلاف کا سبب بنا تھا اسی طرح اب اس کے بطن سے امن ومحبت اور بھائی چارہ کا جنم ہوگا؟اس مسئلے کی تازہ صورت حال یہ ہے کہ ابھی پچھلے دنوں بابری مسجد کی زمین کے تنازع کے حل کیلئے نیا فارمولہ پیش کیا گیاہے ۔ مقدمہ لڑنے والے دو ہندو اور مسلم حضرات نے مسجد اور مندر ساتھ ساتھ تعمیر کرنے کی تجویز دی ہے۔ 16 ویں صدی کی تاریخی بابری مسجد کو 1992 ء میں ہندو انتہا پسندوں نے ڈھا دیا تھا اور مسلمانوں کو دوبارہ اس جگہ مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور نہ رام کی جائے پیدائش کا دعوی کرنے والے ہندو یہاں قبضہ جماسکے۔حالانکہ انھیں اس مقام پر پوجا کی کورٹ نے اجازت دے رکھی ہے۔ مسجد کا مقدمہ لڑنے والے مسلمان ہاشم انصاری اور ہندو تنظیم اکھاڑا پریشد کے سربراہ مہنت گیان داس نے مشترکہ طور پر تنازع کے حل کیلئے نیا فارمولہ   پیش کیا ہے ، جس کے تحت 70 ایکڑ زمین پر مسجد اور مندر دونوں تعمیر کیے جائینگے اور اس کے بیچ سو فٹ اونچی دیوار ہوگی۔ انصاری اور گیان داس دونوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں اپنی اپنی برادری کے رہنمائوں کی حمایت حاصل ہے ، اور عوام بھی اس منصوبے کو سراہ رہے ہیں۔حالانکہ اب تک یہ نہیں واضح ہوپایا ہے کہ ان دونوں حضرات کو کن کن رہنمائوں کی حمایت حاصل ہے اور اس نئے فارمولے کو کون کون سے لوگ قبول کرنے کو تیار ہیں؟مہنت کے قریبی لوگوں

کو کہنا ہے ہندو انتہا پسند تنظیم وشوہندو پریشد کو اس منصوبے سے دور رکھا جائے گا۔ فیض آباد اور ایودھیا کے بعض شہریوں کا خیال ہے کہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے سے دونوں فرقوں کے درمیان مدتوں سے چلا آرہا تنازعہ ختم ہوجائے گا اورہم آہنگی میں اضافہ ہوگا۔

تنازعہ اور اس کا حل

    میڈیا میں آئی خبروں کے مطابق بابری مسجد معاملے پر ہاشم انصاری اور اکھاڑہ پریشد کے سربراہ مہنت گیان داس نے حال ہی میں ایک قرارداد پر بحث کرنے کے لئے ہنومان گڑھی میں ملاقات کی ہے ۔ اس ملاقات کے بعد یہ خبر عام ہوگئی کہ اس تنازعہ کو ایک بار پھر کورٹ سے باہر حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔  65 سال سے جاری اس تنازعہ کے حل کے لئے دونوں فریق ایک نئے  فارمولے کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ غور طلب ہے کہ اس کیس میں ہندوؤں کا مدعی نرموہی اکھاڑا ہے، جو کہ اکھاڑہ پریشد کے تحت ہی آتا ہے۔معاصر انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس میں چھپی خبر کے مطابق ہاشم انصاری سے ملاقات کے بارے میں بتاتے ہوئے داس نے کہا، میں نے ان سے ملاقات کی ہے اور ہم کورٹ کے باہر ہی معاملہ حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فی الحال کچھ باتوں پر کشمکش کی حالت ہے۔ اطلاعات کے مطابق متنازع مقام پر مسجد اور مندر دونوں بنانے کی تجویز ہے۔ دونوں کے درمیان 100 فٹ کا فاصلہ ہوگا اور دونوں کے بیچ میں ایک سو فٹ اونچی دیوار تعمیر کردی جائیگی تاکہ کسی قسم کی دشواری مسجد یا مندر میں آنے والوں کے ساتھ نہ ہو۔ قارئین کے حافظے میں تازہ کرتے چلیں کہ  30 ستمبر 2010 کو ہائی کورٹ نے بھی کچھ ایسا ہی فیصلہ سنایا تھا۔ کورٹ نے اس زمین کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا جس میں سے ایک حصہ مسلمانوں کو دینے کو کہا گیا تھا مگر اس فیصلے سے نہ مسلمانوں کو اتفاق تھا اور نہ ہندووں کو لہٰذا انھوں نے سپریم کورٹ میں اپیل کردی اور یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ حالانکہ تازہ فارومولے پر اتفاق رائے پر دونوں فریق کو شبہ ہے۔ مہنت گیان داس کہتے ہیں کہ جب تک حتمی فیصلہ نہیں ہو جاتا تب تک کچھ بھی کہا نہیں جا سکتا۔ جب کہ  ہاشم انصاری کے بیٹے اقبال انصاری نے کہا، 'میرے والد نے مہنت گیان داس سے ملاقات کی ہے۔ ہم نے عدالت کے باہر معاملہ حل کرنے کے امکانات پر بات کی۔ہم ملک کی یکجہتی کے لئے معاہدے کو تیار ہیں۔ یاد رہے کہ بابری مسجد مقدمہ 1949 سے چل رہا ہے۔ اس کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں جاری ہے۔ ہاشم انصاری کے علاوہ اس معاملے میں چھ اور فریق ہیں جن میں سنی سینٹرل وقف بورڈ بھی شامل ہے۔جس کا دعویٰ ہے کہ مسجد کی زمین اس کی ملکیت ہے کیونکہ تمام سنی مساجد اسی بورڈ کے تحت آتی ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کی طرف سے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اس مقدمے کو دیکھ رہا ہے۔بورڈ کی طرف سے اس معاملے کے وکیل ظفر یاب  جیلانی نے کہا ہے کہ انصاری کی کوشش  سے اس معاملے پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا ہے۔حالانکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو ہاشم انصاری اور مہنت دونوں نے ابھی تک فارمولے پر مذاکرے سے دور رکھا ہے۔ دوسری طرف ایودھیا رام جنم بھومی ٹرسٹ کے صدر مہنت نرتیہ گوپال داس کا کہنا ہے کہ ایودھیا میں رام للا کے مندر کی تعمیر ضرور ہوگی۔ مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ مندر کی تعمیر میں آنے والی تمام رکاوٹیں مرکزی حکومت دور کر لے گی۔ انہوں نے کہا کہ اب اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر کو شروع کرنے کا وقت آ گیا ہے۔  اس کے لئے وہ جلد وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کریں گے۔ ایودھیا میں بھگوان رام کے مندر کا خواب ہر سناتن دھرم پریمی کے جذبات سے منسلک ہے۔ اس کے لئے جنگ لڑی گئی اب وقت آ چکا ہے کہ اس کو
عملی شکل دیا جائے۔

وشو ہندو پریشد راستے کا روڑا

    بابری مسجد اور رام جنم بھومی کا تنازعہ ایک طویل مدت سے جاری ہے اور اسے حل کرنے کے لئے جہاں ایک طرف کورٹ کچہری کا سہارا لیا گیا وہیں دوسری طرف اسے حل کرنے کے لئے اعلانیہ اور خفیہ گفتگو بھی ہوئی۔ ابھی پچھلے دنوں سابق جج پالوک باسو نے بھی مسئلے کے حل کی کوشش کی تھی اور مقامی ہندووں ومسلمانوں کو جمع کرکے انھیں اس بات پر راضی کرلیا تھا کہ بابری مسجد کے مقام پر مندر تعمیر کرلیا جائے اور یہان سے تھوڑے فاصلے پر آرا مشین کے پاس مسجد کی تعمیر ہوجائے۔ چند مقامی لوگوں نے اس پر اتفاق بھی کرلیا تھا مگر عام ہندووں اور مسلمانوں کو یہ تجویز پسند نہیں آئی تھی۔ اب ہاشم انصاری اور مہنت گیان داس نے نیا فارمولہ پیش کیا ہے ۔ یہ کتنا آگے بڑھے گا پتہ نہیں۔ اس کی حمایت میں بھی کچھ لوگ سامنے آئے ہیں مگر عام مسلمان یا ہندو اس کی حمایت کریں گے یا نہیں ،یہ وقت بتائے گا۔ ہندتواوادی تنظیم وشو ہندو پریشد نے اس نئے فارمولے کی حمایت نہیں کی ہے۔ اس نے مرکزی حکومت سے بار بار اپیل کی ہے کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق مندر کی تعمیر کرائے اور ہندووں سے کئے گئے وعدے کو پورا کرے۔  حالانکہ حکومت کی طرف سے اب تک خاموشی ہے اور مودی سرکار اس معاملے میں کچھ بھی کہنے سے بچ رہی ہے۔ وشو ہندو پریشد کا ماننا ہے کہ بابری مسجد کی زمین پر صرف ہندووں کا حق ہے اور یہاں مندر تعمیر ہوگا۔ مسلمان اگر مسجد تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو اجودھیا سے باہر کسی دوسر ے مقام پر مسجد کی تعمیر کرلیں۔ وشو ہندو پریشد مندر کی تعمیر کے لئے ایک مدت سے تحریک چلا رہا ہے جس میں اسے بی جے پی کی حمایت میں بھی ملتی رہی ہے۔ بی جے پی نے خود  ہر الیکشن میں وعدہ کیا تھا کہ وہ اگر قتدار میں آئی تو مسجد کے مقام پر شاندار رام مندر کی تعمیر کے لئے راستہ ہموار کرے گی مگر اب جب وہ اقتدار میں آچکی ہے تو اس مسئلے پر خاموش ہے۔ وشو ہندو پریشد نے اسے حال ہی میں دھمکی دی ہے کہ وہ اپنے وعدے کو پورا کرے اور مندر کی تعمیر کی اجازت دے۔ یاد رہے کہ مسجد ومندر کا یہ تنازعہ ایک مدت سے حل طلب ہے اور اس پر خوب سیاست ہوئی ہے۔ بی جے پی کو اقتدار تک پہنچانے میں اس تنازعے کا بڑا ہاتھ تھا۔

مسلمان قبول کریں گے یہ حل؟

    بابری مسجد مسئلے کے عدالت سے باہر حل کا جو فارمولہ سامنے آیا ہے اس سے نہ صرف وشو ہندو پریشد کو اتفاق نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے اندر بھی ایک بڑا طبقہ اس سے اختلاف ظاہر کر رہا ہے۔ بعض علماء کی طرف سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مسجد قیامت تک کے لئے مسجد ہی رہتی ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ مسجد کی زمین مندر بنانے کے لئے ہندووں کے حوالے کردے۔ اسی طرح وقف کی زمین پر بھی مندر نہیں بن سکتا ہے اور جو ۷۰ ایکڑ اکوائر زمین ہے وہ گنج شہیداں قبرستان کی ہے۔ اگر ان میں سے کسی بھی جگہ پر مندر بنانے کا فارمولہ آتا ہے تو مسلمان کیسے اتفاق کرسکتے ہیں جب کہ انھیں اللہ کی جانب سے یہ حق ہی حاصل نہیں ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی بار بار کہہ چکا ہے کہ سپریم کورٹ اس مقدمے میں جو فیصلہ سنائے گا وہی آخری ہوگا اور وہی اس مسئلے کا حل ہوگا۔ اب بورڈ کی آئندہ ہونے والی مٹینگ میں بھی یہ ایشو زیربحث آسکتا ہے۔ اسی کے ساتھ امید ہے کہ مٹینگ میں دیگر کئی ایشوز زیر بحث آسکتے ہیں جن میں ’’گھرواپسی‘‘کا مسئلہ، جانوروں کے

ذبیحہ کا مسئلہ اور  دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کی بے جا گرفتاری کا ایشو شامل ہے۔ حالانکہ اسی کے ساتھ یہ بھی سچائی ہے کہ بورڈ ایک غیر موثر ادارہ ہے جو مٹینگیں کرنے اور بیانات جاری کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کرپاتا ہے۔

(یو این این)

***********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 573