donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Muslim Personal Law Board Ko Iqtedar Tak Pahunchne Ka Zeena Na Banaya Jaye


مسلم پرسنل لا بورڈ کو اقتدار تک پہنچنے کا زینہ نہ بنایا جائے


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    مسلم پرسنل لاء بورڈ اسلامی شریعت کا تحفظ کر رہاہے یا اس کے کچھ مہم جو ممبران بورڈ کواپنے سیاسی مقاصد کی بجاآوری کے لئے استعمال کر رہے ہیں؟کیا یوگا جیسی ورزش کو اسلام سے جوڑ کر بورڈ کے کچھ لوگ مسلمانوں کو غیرمسلموں سے لڑانا چاہتے ہیں؟ کیا ملک کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے بیچ نفرت کے بیج بوکر وہ مسلمانوں کو ہی ہلاکت میں نہیں ڈال رہے ہیں؟ جس طرح مرکزی سرکار یوگا کے بہانے ملک کے اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹا رہی ہے اسی طرح مسلم پرسنل لاء بورڈ یوگا پر جنگ چھیڑ کر مسلمانوں کو غیر ضروری طور پر الجھانے کی کوشش میں ملوث نہیں ہے؟ کیا یوگا کے خلاف لڑائی چھیڑنے سے بہتر نہیں تھا کہ وہ مسلمانوں کو تعلیم کے میدان میں آگے لانے کے لئے میدان میں اترتا؟ ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے بہت سے مسائل ہیں مگر کیا ان کا حل تعلیم کے علاوہ کچھ اور ہوسکتا ہے؟حال ہی میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف اعلان کیا گیا ہے کہ وہ یوگا اور اسکولوں میں گیتا کی تعلیم کے خلاف مہم چلائے گا، مسلمانوں کو بیدار کرے گا اور اس کے خلاف کورٹ جائے گا۔ اس کے اعلان کے بعد کئی سطح پر سوالات اٹھ رہے ہیں اور مسلمانوں کو غیرضروری مسئلے میں الجھانے کا الزام لگ رہاہے جب کہ ان کے سامنے اس وقت بہت سے مسائل ہیں۔ آج مسلمانوں کا ایک طبقہ یہاں تک سوچ رہا ہے کہ بورڈ اپنا مقصد وجود کھوچکا ہے لہٰذا اسے تحلیل کردینا چاہئے ،اسی کے ساتھ اسے لگتا ہے کہ بورڈ کو کچھ لوگ اپنے سیاسی مقاصد کی بجا آوری کے لئے استعمال کر رہے ہیں تو دوسری طرف بورڈ کے بعض ارکان بڑے ہی فخر سے یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ ملت کا نمائندہ ادارہ ہے اور اس کے بکھرائو سے ہمارا ملی شیرازہ بھی بکھر جائے گا۔فی الحال ایک زمانے کے بعد بورڈر سرگرم دکھائی دے رہا ہے اور اس باراس کے نشانے پر مرکزی حکومت ہے۔

 
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اعتراضات

    آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کچھ ریاستی حکومتوں کے اپنے اسکولوں کے نصاب میں بھگوت گیتا کو شامل کئے جانے اور سوریہ نمسکار اور یوگا کی تعلیم کیخلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری طرف حکومت نے جواب دیا ہے کہ یوگا کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بورڈ کے ایگزیکٹیو اجلاس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ ’ اسکولوں میں گیتا کی تعلیم کو نصاب میں شامل کرنے کے راجستھان، ہریانہ اور مدھیہ پردیش حکومتوں کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گااور اسی طرح اسکولوں میں سوریہ نمسکار اور یوگا کی تعلیم کیخلاف بھی سپریم کورٹ سے فیصلہ حاصل کیا جائے گا۔ بورڈ کے ترجمان عبد الرحیم قریشی نے کہا کہ چونکہ اسلام میں صرف اللہ کی عبادت کا حکم ہے، ایسے میں سوریہ نمسکار، گیتا متن اور یوگا کو لے کر مسلم سماج کے اپنے جائز اعتراضات ہیں۔ اسکولوں میں مسلم بچے بھی پڑھتے ہیں لہٰذا ان چیزوں کو تمام بچوں پر مسلط نہیں کیا جاسکتاہے۔بیان کے مطابق مٹینگ میں ملک کے موجودہ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے تشویش ظاہر گئی کہ اس وقت فرقہ پرست طاقتیں ملک کو سیکولرزم کے راستے سے ہٹانے پر تلی ہوئی نظر آتی ہیں۔ تعلیم کو بھگوا رنگ دیا جا رہا ہے۔ اس سازش کیخلاف ملک گیر تحریک چلائی جائے گا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی طرف سے یہ باتیں تب کہی گئی تھیں جب ملک میں مرکزی سرکار کی طرف سے 21جون کو عالمی یوگا دیوس منانے کی تیاریاں چل رہی تھیں، بورڈ نے اسی وقت اس کیخلاف میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا تھا اورکہا تھا کہ ایک پینل تشکیل دیاجائے گا جو کہ مسلم بچوں کے درمیان یوگا اور سوریہ نمسکار کے غیر اسلامی ہو نے کے حوالے سے بیداری پیدا کرے گا۔ غورطلب ہے کہ اس مہم کی قیادت بورڈ کے نومنتخب کارگزارجنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی کریں گے۔ بورڈ کے ایک دوسرے ممبر ظفر یاب جیلانی نے کہا کہ یوگا دیوس غیر آئینی ہے۔ کس طرح ایک حکومت کسی مذہبی علامت یا روایت کو اسکول کے احاطے میں منظوری دے سکتی ہے۔ ہم نے اس کیخلاف راجستھان کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی ہے۔

مولانا ولی رحمانی کو مہم کی کمان

    مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اپنی پرانی روایات کے برخلاف نیا کارگذار جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی کوبنایا ہے جن کی عمر۷۲سال سے زیادہ ہے مگر جس عمرکے لوگوں کو اب تک بورڈ کاصدراور جنرل سکریٹری بنایا جاتا رہا ہے اس کے مقابلے میں انھیں ’’نوجوان‘‘ کہاجاسکتا ہے۔بہار ودھان سبھا کے سابق ممبرمولاناولی رحمانی، یوگا، گیتاکی تعلیم وغیرہ کے خلاف مہم چلائیںگے۔ بورڈمیں عام طور پر یہ عہدہ نہیں ہوتا تھا اور صدر وجنرل سکریٹری عام طور پر ایسے بزرگوں اور مریضوںکو بنایا جاتا ہے جو بستر مرگ تک ان عہدوں پر جمے رہتے ہیں۔ممبران بھی بیشتر عمررسیدہ ہوتے ہیں اور تاعمر بنے رہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ گزشتہ 42 سال میں بورڈ کو محض 4 ہی صدور میسر آسکے، جو اپنی اپنی وفات تک بورڈ کے صدر ہے۔ اسی طرح گزشتہ 42 سال میں بورڈ کو کل دو جنر ل سکریٹری نصیب ہوئے، جن میں سے ایک اپنی عمر اور شدید علالت کے باوجود ابھی تک جنرل سکریٹری کے عہدہ پر فائز ہیں۔حالانکہ بورڈ کے ضابطے کے مطابق ہر چار سال بعد تمام عہدوں پر انتخاب ہونا چاہئے۔اپنی ذمہ داریوں کے متعلق مولانا ولی رحمانی کا کہنا ہے کہ حکومت ملک کے اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے غیر ضروری مسائل میں لوگوں کو الجھا رہی ہے۔ انھوں نے گیتا کے چھٹے باب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یوگا اور سوریہ نمسکار ہندو مذہب کی مذہبی سرگرمیاں ہیں اور یہ مسلمانوں کے نظریے کے خلاف ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایسے معاملات میں مسلمانوں کو چوکنا رہنا چاہئے۔انہوں نے علماء  سے کہا کہ وہ جمعہ کی نماز کے وقت ان مسائل پر بات کریں اور مسلم کمیونٹی کو تحریک کے لئے تیار کریں۔غورطلب ہے کہ اس سے قبل دارالعلوم دیوبند کے علما کہہ چکے ہیں کہ یوگا میں اگر سوریہ نمسکار اور شرکیہ عمل نہ ہوں تو ،جائز ہے اور اسے اپنانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ بہت سے مسلم ممالک میں جاری ہے اور وہاں کے علماء اس کے خلاف نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ سعودی عرب جیسا شدت پسند مسلم ملک بھی اس کی حمایت میں ہے مگر اس کے برخلاف بورڈ کا موقف ہے کہ یوگا ہندو تہذیب سے جڑا ہوا ہے لہٰذا اسے نہیں اپنایا جاسکتا۔

فرقہ پرستوں کے لئے سنہرا موقع

    آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبر ظفریاب جیلانی نے انٹرنیشنل یوگا ڈے کے موقع پر منعقد سرکاری پروگرام اور منتروں کے تلفظ کو آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس معاملے میں سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائینگے۔ وہیںاپنے متنازعہ بیانات کے لئے مشہور سادھوی پراچی نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو ملک کی ترقی میں رکاوٹ بتایا ہے۔ اس نے کہا کہ ہے کہ اس بورڈ پر جلد سے جلد پابندی لگنا چاہئے۔سادھوی نے کہا کہ علماء کی خوشی کے لئے’’اوم‘‘ کا تلفظ کرنا بند نہیں کر سکتے۔ ان کے مطابق، اوم کا تلفظ اور سوریہ نمسکارکرنا ہندوؤں کی برسوں پرانی روایت رہی ہے۔ اگر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کورٹ جانا چاہتا ہے تو جا سکتا ہے۔ اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ جن مسلمانوں کو یوگا اور اوم کے تلفظ پر اعتراض ہے، وہ دنیا کے 177 ممالک کو چھوڑ کر کہیں بھی جا سکتے ہیں، کیونکہ ان تمام ممالک میں انٹرنیشنل یوگا ڈے منایا گیا ہے۔دوسری طرف بی جے پی کے قومی نائب صدر اوم ماتھر نے بھی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء  بورڈ پرنشانہ لگاتے ہوئے کہا کہ یوگا کو لے کر جنہیں بھی اعتراض ہے، وہ کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں۔یوگا کو 48 مسلم ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ اسے کسی مذہب اور ذات سے جوڑنا غلط ہے۔

کروڑوں مسلمانوں کو ہلاکت میں ڈالنے کی کوشش؟

    اس وقت مسلم پرسنل لاء بورڈ نے جو جنگ چھیڑ رکھی ہے اس پر سابق ممبر پارلیمنٹ اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبر محمد ادیب کا کہنا ہے کہ سوریہ نمسکار اور گیتا پاٹھ کا جو شوشہ چھوڑا گیا ہے اسے بورڈ نے بہت سنجیدگی سے لیا ہے اور اس سلسلے میں ہم کورٹ تک جاسکتے ہیں۔یہ شریعت کا معاملہ ہے اور بورڈ اس پر خاموش نہیں بیٹھے گا۔انھوں نے فخریہ طور پر یہ بھی دعویٰ کیا کہ بورڈ مسلمانوں کے سبھی طبقوں کی نمائندگی کرتا ہے۔حالانکہ اس قسم کی مہم جوئی کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسرراشد شاز تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے الفاظ ہیں کہ ’’ہمارے لئے یہ بات باعث تشویش ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی بھلی بری ایک انجمن،جسے عامۃ الناس شریعت کے حوالے سے معتبراور مقدس جانتے ہیں اس پر ایسے مہم جو نوجوانوں کا قبضہ ہوجائے جن کے دامن غیر مسلم سیاسی پارٹیوں کی وفاداریوں سے آلودہ ہوں،جن کے جہاد کی حیثیت نوراکشتی سے زیادہ نہ ہو، اور جسے اگر فی الفور روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو ہندوستانی مسلمان ایک غیر ضروری تحریک چھیڑ کر اندیشہ ہے کہ ایک نئے عذاب میں مبتلا ہوجائیں۔سوایک ایسے نازک موقع پر جب بے بصیرت اور جذباتی قیادت محض اپنی مہم جوئی کے لئے پچیس کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کوہذیانی کیفیت میں مبتلا کرنے کی کوشش کر رہی ہو،ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ امت کے دردمندوں کو اصل صورت حال سے آگاہ کردیں۔‘‘

      راشدشاز کے علاوہ بھی مسلمانوں کا ایک سنجیدہ طبقہ مانتا ہے کہ مسلمانوں کو تحریک کے راستے پر ڈال کر کچھ لوگ راجیہ سبھا تک رسائی کا راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔حالانکہ اس تحریک سے مسلمانوں کا کوئی بھلا نہیں ہونے والا ہے۔جو لوگ یوگا کے خلاف تحریک چلانے میں زیادہ زور مار رہے ہیں ان کی وفاداریاں مختلف سیاسی پارٹیوں کے وابستہ ہیں اور ان کے عزائم ملی مفاد میں نہیں دکھائی دیتے۔کلکتہ ہائی کورٹ کے وکیل انوار عالم خاں بورڈ کے متعلق سوال اٹھاتے ہیں کہ عدالتیں روز غیر شرعی فیصلے کر رہی ہیں، مگر بورڈ نے اب تک کتنے مقدمات خود عدالتوں میں داخل کیے ہیں؟ اصلاح معاشرہ کی تحریک کا کیا انجام ہوا؟ دار القضاۃکے ملک کے گوشے گوشے میں قائم کرنے کے فیصلے کا کیا حشر ہوا؟ بورڈ کے قیام سے اب تک شریعت لاء کی تدوین کا کام کیوں نہیں ہوا؟باوجود اس کے سیاسی نوعیت کے معاملات کو بورڈ میںکیوں گھسیٹاجارہاہے؟ وہ کہتے ہیں کہ بورڈ کی گزشتہ ۴۲سال کی کارکردگی کا رکارڈاٹھاکردیکھ لیجئے، اس نے آج تک کوئی بھی کام مکمل نہیں کیا ہے۔اس کی سب سے کامیاب مہم تھی شاہ بانو کیس میں،مگر اس مہم سے جو قانون بنا وہ ادھورا ہے جس کے سبب آج بھی شریعت کے خلاف کورٹوں کے فیصلے آرہے ہیں۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 583