donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Nehru Ke Alayo Par Secularism Ki Khichrhi


نہرو کے الائو پر سیکولرازم کی کھچڑی


موقع پرست پارٹیوں کا سیکولر اتحاد یا مینڈک تولنے کی کوشش؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

    ایک بار پھر کانگریس کو پنڈت جواہر لعل نہرو کی یاد آئی ہے اور وہ سیکولر ازم کا راگ الاپنے لگی ہے۔ کیا وہ اپنا کھویا ہوا وقار پانے کے لئے ایک بار پھر نہرو اور گاندھی کا سہارا لیگی؟ کیا اسے ایک بار پھر سیکولرزم کی بیساکھی چاہئے؟ کیا علاقائی سیاسی پارٹیوں کو وہ اقتدار پانے کا زینہ بنانا چاہتی ہے؟ کیا کانگریس نتیش کمار، ملائم سنگھ، ممتا بنرجی، لالو پرساد یادو اور ایچ ڈی دیوی گوڑا جیسے لیڈروں کو متحد کرکے ایک بار پھر ملک پر قابض ہونا چاہتی ہے؟ کچھ ایسا ہی محسوس ہوا جب پنڈت جواہر لعل نہرو کی ۱۲۵ویں سالگرہ پر کانگریس کے پروگرام میں ان تمام لیڈروں کا اجتماع دیکھا گیا۔ سونیا گاندھی نے نہرو کے نظریات کی یاد دلائی اور سیکولرازم کا راگ الاپا تو دوسری طرف مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اتحاد کے معاملے میں پیش قدمی کی اور غیر بی جے پی پارٹیوںکے اتحاد کی بات کہہ کر اپنی دلی خواہش کا اظہار کردیا۔ اس پروگرام میں کمیونسٹ پارٹیوں کے لیڈران بھی آئے تھے جن سے ممتا بنرجی نے ملنے سے گریز نہ کیا اور یہاں تک کہہ ڈالا کہ اگر کسی اتحاد میں یہ پارٹیاں شامل ہونگی تب بھی انھیں اس میں شامل ہونے سے پرہیز نہیں ہے۔ سیکولر پارٹیوں کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے اور ملک کو اس کی جتنی ضرورت ہے، اس سے زیادہ انھیں خود ضرورت ہے مگر اہم سوال یہ ہے کہ اس قسم کا اتحاد کتنے دن چلے گا؟ کیا یہ مینڈک تولنے کی کوشش نہیں ہے؟ ان پارٹیوں کا ایک دوسرے سے مفاد ٹکراتا ہے اور ان کا وجود دوسرے کے وجود کی نفی پر قائم ہے، ایسے میں ان کا کب ملن ہوگا اور کب طلاق کہا نہیں جاسکتا۔یہ بھی سچائی ہے کہ ان میں سے بیشتر پارٹیاں ماضی میں بی جے پی کے ساتھ رہی ہیں اور این ڈی اے کا حصہ رہی ہیں، انھوں نے اپنے اپنے علاقوں میں بی جے پی کو تقویت پہنچایا ہے، اب وہ طاقت ہوکر انھیں کے لئے خطرہ بن گئی ہے تو اب متحد ہوکر اسے روکنے کا کیا مطلب ہے؟

نہرو کے بہانے ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش

    پنڈت جواہر لعل نہرو ایک سیکولر لیڈر تھے اور سوشلسٹ نظریات کے حامل تھے۔ انھیں احساس تھا کہ سیکولرزم اور سوشلزم کے سہارے ہی ہمارا ملک ترقی کرسکتا ہے اور ملک کے مختلف طبقات کو اسی کے ذریعے ایک دھاگے میں باندھے رکھا جاسکتا ہے لہٰذا ہمارے قوانین اور ابتدائی پالیسیوں کی بنیاد ہی اس پر رکھی گئی تھی۔مگر افسوس کہ ان کی موت کے بعد کانگریس نے اس پالیسی کو جاری نہیں رکھا اور تب تو حد ہی ہوگئی جب یہاں فرقہ وارانہ سیاست کو فروغ حاصل ہوا تو اس نے آر ایس ایس کے سخت ہندتو کے بدلے میں نرم ہندتو کو رویہ اپنائے رکھا۔ حال ہی میں کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے اپنی ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ کانگریس نظریاتی اعتبار سے بہت بلند ہے ۔ ہم نے کچھ غلطیاں ضرور کی ہیں مگر ہم اپنے نظریات پر قائم ہیں۔ اسی کے ساتھ نہرو کی ۱۲۵ویں سالگرہ کی تقریب میں کانگریس صدر سونیا گاندھی نے ایک بار پھر نہرو کے نظریات کی یاد دلائی نیز سیکولرازم کو ملک کی سالمیت اور وحدت کے لئے لازمی قرار دیا۔ انھون نے کہا کہ اس ملک کے لئے سیکولرازم ایک فطری ضرورت ہے۔ اسی کے تحت تمام نظریات اور مذاہب کو اہمیت مل سکتی ہے اور احترام مل سکتا ہے۔ اس کے بغیر نہ تو ہندوستان رہ سکتا ہے اور نہ ہندوستانیت۔یہ ملک کی تکثیریت کے لئے بھی لازمی ہے۔اس پروگرام میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کو مدعو کیا گیا تھا سوائے بی جے پی کے۔ ایسا لگتا تھا گویا اس پروگرام کا مقصد نہرو کی جینتی منانے سے زیادہ غیر بی جے پی پارٹیوں کو متحد کرنا ہے اور اس کی شروعات پارلیمنٹ کے سرمائی سشن سے ہوسکتی ہے۔

کانگریس نے ہی سیکولر ازم کی قبر کھودی

    اس سچائی سے انکار ممکن نہیں کہ سیکولرازم ہی اس ملک کی بنیادی ضرورت ہے اور اس کے بغیر ملک کو متحد نہیں ر کھاجاسکتا مگر اسی کے ساتھ ایک دوسری حقیقت یہ ہے کہ کانگریس اور دوسری سیکولر سیاسی پارٹیوں نے اکثر وبیشتر اقتدار کے لئے اس معاملے میں سمجھوتہ کیا ہے۔ کانگریس ہمیشہ سیکولر ازم کا راگ الاپتی رہی ہے مگر جب بھی اسے اقتدار ملا ہے اس نے اس نے اس کی قبر کھودی ہے۔ اس نے بی جے پی اور شیوسینا کو محض اس لئے طاقت دی کہ اس کا خوف دکھا کر اقلیتوں کا ووٹ حاصل کیا جائے۔ کانگریس کے اندر ایک طبقہ ہمیشہ ایسا رہا ہے جو آرایس ایس کا حامی رہا ہے اور وہ خفیہ طور پر اس کے لئے کام کرتا رہا ہے۔ کانگریس کی کسی بھی سرکار نے سنگھ پر ایمانداری سے پابندی نہیں لگائی اور اسے جد وجہد کا موقع دیا۔ آج اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک پر اس کا قبضہ ہوچکا ہے اور کانگریس اقتدار کی دوڑ سے باہر جاچکی ہے۔ بابری مسجد کا ایشو کانگریس کی وجہ سے سنگھ پریوار کے ہاتھ لگا اور کانگریس کی سرکار میں ہی مسجد پر تالا لگا، پوجا پاٹ کے لئے تالا کھلا اور مسجد شہید کی گئی۔ مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کے لئے فرقہ وارانہ فسادات کانگریس کی متعدد سرکاروں میں ہوتے رہے اور سرکار کی سرپرستی فسادیوں کو ملتی رہی۔ آزاد بھارت کے اتہاس میں جھانکیں تو محسوس ہوگا کہ سیکولرازم کی قبر کھودنے اور سوشلزازم کو دفن کرنے میں پیش پیش کانگریس ہی رہی ہے مگر آج جب وہ اقتدار سے محروم ہے تو اسے پھر نہرو کی یاد آنے لگی ہے اور لگتا ہے کہ سنگھ پریوار کے نظریات سے ملک کے اتحادوسالمیت کو خطرہ ہے اور وہ جہاں ایک طرف بی جے پی مخالف عوام کو متحد کرنے میں لگی ہے تو دوسری طرف ان تمام نیتائوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں لگی ہے جن کے سیاسی مستقبل کے لئے بی جے پی خطرہ بن چکی ہے۔

موقع پرستوں کا سیکولر محاذ

    بھارت میں سیکولر پارٹیاں کبھی بھی متحد نہیں رہی ہیں اور انھوں نے اکثر اقتدار کے لئے موقع پرستی کا ثبوت دیا ہے۔بی جے پی کی بڑھتی قوت سے ان دنوں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی کرسی خطروں کی زد میں ہے۔ یہاں خطرہ صرف انھیں کو نہیں ہے بلکہ کمیونسٹ پارٹیوں کو بھی ہے جو فی الحال اپوزیشن میں ہیں مگر ممکن ہے آئندہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی ان سے یہ مقام بھی چھین لے۔ ممتا بنرجی جب نہرو کی جینتی تقریبات کے سلسلے میں راجدھانی دلی میں تھیں تو انھوں نے کہا کہ وہ تمام سیکولر پارٹیوں کا اتحاد چاہتی ہیں۔اسے انھوں نے وقت کی ضرورت قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فرقہ پرستی ہمارے سماج کے لئے ایک کینسر کی طرح ہے اور اس سے ہمارے ملک کی سالمیت اور یکجہتی کو خطرہ ہے۔ انھوں نے ملائم سنگھ یادو کے سیکولر محاذ کی مخالفت نہیں کی بلکہ اسی کی توسیع کی بات کہی اور تمام پارٹیوں کے اتحاد کے لئے آواز بلند کی۔ وہ اس کے لئے بھی تیار دکھیں کہ اگر سی پی آئی ایم اور کمیونسٹ پارٹیاں متحد ہوتی ہیں تو انھیں ایسے محاذ میں شمولیت سے انکار نہیں ہوگا۔ اس اتحاد کی ابتدا اسی سرمائی پارلیمانی اجلاس سے ہوسکتی ہے جب یہ تمام پارٹیاں مرکزی سرکار کو گھیرنے کی مشترکہ کوشش کرینگی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ وہی ممتا بنرجی ہیں جو ایک مدت تک این ڈی اے کا حصہ رہی ہیں۔ مغربی بنگال میں بی جے پی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا اور اٹل بہاری واجپائی حکومت میں شامل رہی ہین۔ وہ تو بابری مسجد انہدام کے ملزم لعل کرشن اڈوانی کی بھی حامی رہی ہیں اور ان کی مدد سے یہاں بی جے پی نے اپنی جگہ بنائی۔ یونہی کانگریس کے ساتھ جو پارٹیاں بی جے پی مخالف اتحاد بنا رہی ہیں ان میں نتیش کمار کی جنتادل (یونائیٹیڈ) بھی شامل ہوگی جو کبھی این ڈی اے کا حصہ تھی اور اس کی مدد سے تقریباً بیس سال تک بی جے پی طاقتور ہوتی رہی۔ نتیش کمار اٹل بہاری واجپائی کی کابینہ میں وزیر رہے اور لعل کرشن اڈوانی کو وزیر اعظم بنائے جانے کے بھی حامی رہے ہیں۔ کرناٹک کے لیڈر اور سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوی گوڑا بھی این ڈی کے ساتھ رہے ہیں اور ان کی پارٹی جنتادل (سیکولر)کرناٹک میں بی جے پی کی معاون رہی ہے۔ یہاں دونوں پارٹیوں نے مل کر ایک مدت تک سرکار چلائی ہے۔ ایسے میں اگر یہی پارٹیاں سیکولر ازم کے نام پر متحد ہورہی ہیں تو اسے موقع پرستی کے سوااور کیا کہاجاسکتا ہے۔ لالوپرساد یادو اور ملائم سنگھ یادو کو مسلمانوں کا ووٹ ملتا رہا ہے لہٰذا وہ کھل کر بی جے پی کے ساتھ نہیں جاسکتے تھے مگر انھوں نے پچھلے دروازے سے بی جے پی کی مدد ضرور کی ۔ ظاہر ہے ان تمام شکست خوردہ لیڈروں کو سیکولر ازم سے کوئی ہمدردی نہیں ہے مگر آج ان کی کرسی چھن چکی ہے اور ان کا وجود خطرے میں نظر آرہا ہے تو انھیں سیکولرازم اور قومی یکجہتی کی یاد آرہی ہے۔ کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیاں الگ الگ راستے پر چلتی رہیں اور ایک دوسرے ک وکمزور کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ منموہن سرکار کو کمیونسٹوں کی حمایت ملی مگر امریکہ سے ایٹمی قرار کے ایشو پر ان کے بیچ دوری بڑھ گئی۔ بنگال میں ممتا بنرجی اور کمیونسٹوں کے بیچ زبردست ٹکرائو رہا ہے مگر آج دو کٹر حریف اپنے وجود کی لڑائی میں ساتھ آنے لگے ہیں۔ بہار میں لالو اور نتیش پہلے ہی متحد ہوچکے ہیں۔ بہرحال آج وقت کی ضرورت ہے کہ تمام نام نہاد سیکولر پارٹیاں متحد ہوجائیں، اگر وہ متحد نہیں ہوئیں تو ملک کا جو ہو، سوہو، مگر ملک سے نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا وجود ضرور ختم ہوجائے گا۔

رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔     

Comments


Login

You are Visitor Number : 490