donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Punjab Me Dahshat Gardana Hamla


پنجاب میں دہشت گردانہ حملہ


ایک بار پھر ’’خالصتانی‘‘ خطرے کی گھنٹی


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    پنجاب میں حالیہ دہشت گردانہ حملہ کیا خالصتان تحریک کے زندہ ہونے کا اشارہ ہے؟ کیا ایک بار پھر یہاں آگ وخون کی بارش ہونے والی ہے؟ان سوالوں کا اٹھنا اس لئے بھی لازم ہے کہ یہاں ان دنوں خالصتان تحریک کے مقتول لیڈر بھنڈراں والے کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ پنجاب کے گرداس پور میں کئی گھنٹوں تک جاری رہے تصادم کے بعد تینوں حملہ آور مارے گئے ۔پنجاب پولیس کے مطابق تین شدت پسندوں نے گرداس پور کے دینانگرپولس اسٹیشن پر علی الصبح حملہ کیا تھا۔پنجاب پولیس کے سربراہ سمیدھ سنگھ سینی کے مطابق، تینوں شدت پسند آرمی کے یونیفارم میں تھے۔وہ آٹومیٹک ہتھیاروں، چینی میک کے گرینیڈ اور GPS سسٹم سے لیس تھے۔پولیس کے مطابق اس حملے میں تینوں حملہ آوروں کے علاوہ، پنجاب پولیس کے ایس پی سمیت چار پولیس اہلکار اور تین شہری ہلاک ہو گئے۔کئی لوگ زخمی بھی ہوئے ۔پولس  ذرائع کے مطابق حملہ آور پاکستان سے آئے تھے اور مسلمان تھے۔البتہ شک ہے کہ ان کے مقامی لوگوں سے رابطے ہونگے۔وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے بھی پارلیمنٹ کے اندر بیان دیتے ہوئے کہاکہ حملہ آورپاکستان سے آئے تھے۔ان تمام باتوں سے یہ قیاس آرائی تیز ہوچکی ہے کہ یہ دہشت گرد کسی خالصتان نواز گروپ کی مدد کے لئے آئے تھے۔

    سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا ایک بار پھر ’’خالصتان‘‘ کا بھوت بوتل سے باہر آئے گا؟ کیا پھر علاحدگی پسندی کی تحریک شروع ہوگی؟ کیا ایک بار پھر پنجاب میں آگ لگنے والی ہے؟کیا پھر ملک کو ٹوڑنے کی کوشش ہوگی؟ اس کھیل کے پیچھے آخر کون ہے؟ کیا ہمارا پڑوسی ملک پاکستان یہاں آگ اور خون کا کھیل کھیلنا چاہتا ہے؟ یہ سوالات آج اس لئے اٹھ رہے ہیں کیونکہ سکھ نوجوانوں میں ایک بار پھربھنڈراں والا کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔اسے سنت و مہاتما کا درجہ دیا جارہا ہے اور ایک روحانی رہنما وشہید کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ چند مہینے قبل جموں میں بھنڈراں والا کے پوسٹر ہٹانے پر ہنگامہ بپا ہوگیا اور درجنوں افراد زخمی ہوئے جن میں پولس والے بھی شامل تھے۔ ایک سکھ نوجوان کی موت ہوگئی اور یہاں دفعہ۱۴۴نافذ کرکے حالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش ہوئی۔ جموں کے بعد سری نگر میں بھی احتجاج ومظاہرے ہوئے اور حکومت مخالف نعرے گائے گئے۔ امرتسر کے گولڈن ٹمپل میں بھی نعرے لگے اور کرپان لہرائے گئے۔ یہ موقع تھا جون کے پہلے ہفتے میں آپریشن بلیو اسٹار کی برسی کا،جس کا استعمال ملک مخالف سرگرمیوں کو بڑھانے کے لئے کیا گیا دوسری طرف گولڈن ٹمپل میں شیو سینا کے لوگ سیاست کرنے کے لئے گھس آئے اور ٹکرائو شروع ہوگیا۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حالیہ دنوں میں سکھ نواجوان بھنڈراں والا کی تصویر والی ٹی شرٹس میں نظر آنے لگے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب ایک خاص پروگرام اور مقصد سے کیا جارہا ہے۔

جموں میں ہنگامہ کیوں ہواتھا؟

    پنجاب اور جموں کی سرحد ملتی ہے اور جموں میں بھی سکھوں کی بڑی آبادی ہے۔ یہاں کے حالات کا پنجاب پر اثر پڑتا ہے۔ پچھلے دنوںجموں میں ہزاروں سکھ نوجوانوں اور پولیس کے درمیان جھڑپ میں ایک نوجوان کی موت ہو گئی تھی اور دو پولیس والے زخمی ہو گئے۔ اس واقعے کے سبب پنجاب میں بھی بے چینی محسوس کی گئی تھی۔ واقعہ کے بعد رانی باغ(جموں) علاقے میں کرفیو لگا دیا گیا تھا۔ سکھوں کی بھیڑ خالصتانی لیڈر جرنیل سنگھ بھنڈراںوالے کے پوسٹر ہٹانے کے خلاف مظاہرہ کر رہی تھی۔پولیس کے مطابق 6 جون کو بھنڈراوالے کی برسی سے پہلے ایک مقامی تنظیم نے بھنڈراںوالے کے پوسٹر لگائے تھے۔ یہ پوسٹر ہٹائے جانے سے ناراض سکھ مظاہرین لاٹھیاں اور کرپانوں سے لیس ہوکر آر ایس پورہ روڈ پر جمع ہوئے اور ٹریفک روک دیا۔ پولیس نے انہیں ہٹانے کے لئے لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے گولے چھوڑے۔پولیس اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے کچھ مظاہرین نے جموں پٹھان کوٹ شاہراہ روکنے کی کوشش کی۔ خبروں کے مطابق ان میں سے کچھ نے خالصتان حامی نعرے بھی لگائے۔ موقع پر بھاری پولیس فورس پہنچی اور مظاہرین سے سڑک پر ٹریفک بحال کرنے کو کہا لیکن سکھ نوجوانوں نے پولیس پر پتھراؤ شروع کر دیا۔پولیس کے مطابق بھیڑ کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج کیا گیا اور ٓانسوگیس کے گولے چھوڑے گئے۔ پتھراؤ میں دو پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔مظاہرین کی مانگ تھی کہ جس ایس ایچ او نے بھنڈراں والا کاپوسٹر ہٹایا تھا اسے معطل کیا جائے۔

بھنڈراں والا کی مقبولیت میں اضافہ

    بھنڈراں والا ۱۹۸۰ء کی دہائی میں پنجاب کا علاحدگی پسند لیڈر تھا جس نے گولڈن ٹمپل میں ہتھیار جمع کرلئے تھے ۔ اس کے خلاف اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ایکشن لینا پڑا تھا ۔ فوج نے ۱۹۸۴میں ۳۔۸ جون کے دوران یہاں کارروائی کی تھی جس میں بھنڈراں والا اور اس کے ساتھی علاحدگی پسند مارے گئے تھے۔سکھوں کے مقدس ترین گردوارے گولڈن ٹمپل کو بھی اس سے نقصان پہنچا تھا جس کے وجہ سے اس طبقے میں نارضگی پھیل گئی تھی اور اندار گاندھی کے قتل کا سبب بھی یہی ناراضگی بن گئی۔ ان دنوں ایک بار پھر جس طرح بھنڈراں والا کی مقبولیت سکھوں میں بڑھ رہی ہے اسے خطرے کی گھنٹی مانا جارہا ہے۔آل پارٹیز سکھ کوآرڈینیشن کمیٹی کے صدر جگموہن سنگھ رینا نے کہا، پولیس نے غیر ضروری طور پر جموں میں ہمارے لیڈر بھنڈراںوالے کے پوسٹر ہٹا کر ماحول کو بگاڑا۔وہ ایک سکھ لیڈر تھے اور سکھوں میں مذہبی تعلیم عام کرنے میںان کا بڑا کردار رہا ہے۔رینا نے کہا،  ہم چاہتے ہیں کہ ملزم پولیس افسران کو گرفتار کر اور انہیں معطل کر انصاف کیا جائے۔ بھنڈراوالے ہمارے دل میں بستے ہیں۔ ہمارے نوجوان جو ٹی شرٹ پہنتے ہیں، اس پر بھنڈراںوالے کی تصاویر ہیں۔کیا وہ (پولیس) اسے بھی ہٹائنیگے۔ ہمارے نوجوان، ان کے لئے اپنی جان دینے کو تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھنڈراںوالے کی یاد میں سکھوں کی طرف سے ہر گردوارے میں منعقد ہونے والے پروگرام جاری رہیں گے، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔

 امرتسر میں بھی ہنگامہ

    گزشتہ ۶ جون کو امرتسر کے گولڈن ٹمپل میں بھنڈراں والا کی برسی منانے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں سکھ جمع ہوگئے جن میں مردوں اور عورتوں کے علاوہ بچے بھی شامل تھے۔ خبروں کے مطابق یہاں د وگروہ جمع ہوگئے تھے جن میں سے ایک علاحدگی پسند تھا اور دوسرا اس کا مخالف تھا اور ان دونوں کے بیچ جھڑپ میں کئی افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ غور طلب ہے کہ اس تاریخ کو یہ لوگ ہرسال جمع ہوتے ہیں اور یوم شہادت مناتے ہیں۔ اسی تاریخ کو ۱۹۸۴ میں آپریشن بلو اسٹار عمل میں آیا تھاجب علاحدگی پسند سکھوں کے استیصال کے لئے اس وقت کی وزیر اعظم اندر گاندھی نے یہاں فوج کو اتار دیا تھا۔ اس موقع پر علاحدگی پسند خالصتانی تحریک کے لیڈر بھنڈراں والا سمیت کئی دوسرے لوگ بھی مارے گئے تھے۔

نئی نسل کے نئے ہیرو

    آپریشن بلوسٹار میں بھنڈراںوالے کے ساتھ مارے گئے آل انڈیا سکھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سربراہ کے بھائی امریک سنگھ کے 27 سالہ اکلوتے بیٹے ترلوچن سنگھ کا کہنا ہے، سکھوں نے زمین کے اس انمول ٹکڑے کی قیمت اپنا خون دے کر ادا کیا ہے۔بھٹی والی کے گورنمنٹ اسکول میں کمپیوٹر سائنس کے استاد مکتسر ترلوچن اور جالندھر میں پراپرٹی ڈیلر بھنڈراںوالے کے بیٹے 40 سالہ ایشور سنگھ، تیزی سے ابھرتی ہوئی اس بنیاد پرستی کے نمائندے ہیں جو خونی ہتھیار لہراتے دہشت گردوں کے درمیان اپنے ہیرو کو تلاش رہی ہے۔ اکال تخت کے جتھیدار گربچن سنگھ انہیں اور دوسرے دہشت گردوں کے بچوں کو شال اوڑھاکر سروپا پیش کرچکے ہیں۔ ان میں بھائی امریک سنگھ کی بیوی گرمیت کور اور اندرا گاندھی کے قاتل ستونت سنگھ کی ماں پیار کور بھی تھیں۔جتھیدار نے ببر خالصہ انٹرنیشنل کے دہشت گرد بلونت راجوانا کو ’’زندہ شہید‘‘ کا خطاب دیا تھا جو 1995 میں پنجاب کے وزیر اعلی بینت سنگھ اور 17 دیگر لوگوں کے قتل کے الزام میں پھانسی کا انتظار کر رہا ہے۔ 1982 سے 1994 کے درمیان علیحدگی پسند اور دہشت گرد تنظیم رہے دل خالصہ نے بھی آپریشن بلیو اسٹار کی برسی منائی ہے۔

پنجاب کی تاریخ کا سیاہ ورق

    پنجاب میں علاحدگی پسندی کے دوران، ڈیڑھ دہائی میں 40ہزار سے زیادہ لوگوں کی جان گئی اور خوف کے اس دور کا اختتام اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب  بینت سنگھ کے قتل کے ساتھ ہوا۔ مرنے والوں میں دو ہزار پولس اہلکار اور سیکورٹی فورسز کے جوان بھی شامل تھے ۔ان میں 8ہزارسے زیادہ دہشت گرد اور خالصتان حامی تھے۔ دہشت گرد عام شہریوں کو ٹرینوں اور بسوں سے باہر نکال کر بہت ہی قریب سے گولی مار دیا کرتے تھے۔ مرنے والے عام لوگوں میں 60 فیصد سے زیادہ سکھ ہی تھے۔اب بھی ایسی کئی ویب سائٹس اور فیس بک جیسی سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر پیج ہیں جنہیں بیرون ملک رہنے والے خالصتان حامی چلا رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بھنڈراوالے کو سکھ مذہب کے محافظ اور سب سے بڑے سنت کے طور پر دیکھا جائے۔

ماضی کی طرف واپسی

    ایسا لگتا ہے کہ گولڈن ٹیمپل سے چلائے گئے تشدد کے زہریلے دورکی ایک بار پھر واپسی ہورہی ہے جس میں لوگوں کو گولی مار دی جاتی تھی، ریل یا بس سے مسافروں کو اتار کر موت کے حوالے کر دیا جاتا تھا۔ علاحدگی پسند لیڈروں کو اک بار پھر مقبولیت مل رہی ہے اور ایک طبقہ موت کے بعد انھیں ہیرو بنانے میں لگا ہے۔نئی نسل ان کے تعلق سے عقیدت کے جذبات پال رہی ہے جو ملک کے لئے خطرناک اشارہ ہے۔بھنڈراں والے کی یادگار قائم ہورہی ہے۔ دل خالصہ کے 45 سالہ جنرل سکریٹری کنورپال سنگھ کہتے ہیں کہ، میموریل کی تعمیر سنت بھنڈراںوالے کے آدرشوں کو حاصل کرنے کی سمت میں بڑی کامیابی ہے۔ کنورپال سنگھ پہلے دہشت گرد ہوا کرتے تھے۔اب وہ خالصتان کے لئے جان دینے والوں کو ہیرو بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے علاحدگی پسند لیڈروں کوسکھوں کی نفسیات میں ایک سیاسی اور مذہبی شخصیت کے طور پر بٹھانے میں اپنی زندگی کے 14 سال جھونک دیئے۔دل خالصہ پر سے 6 اگست، 1998 کو پابندی ہٹا لی گئی تھی اور یہ خالصتان کے قیام کے مقصد سے اعلانیہ طور پر کام کرنے لگا۔اسے برطانیہ، امریکہ، کینیڈا وغیرہ میں بیٹھے خالصتان حامیوں سے خوب دولت آتی ہے جس کا استعمال یہ پروپیگنڈے کو انجام دینے کے لئے کرتا ہے۔کنورپال کہتے ہیں، ہم نے ہر ممکن طریقے کو اپنی تحریک کے لئے اپنا یا ہے۔ امرتسر ریلوے اسٹیشن کے ساتھ دل خالصہ کے ہیڈکوارٹر فریڈم ہاؤس کے ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھے کنورپال کہتے ہیں، سیمینار، بھنڈراںوالے کی تصاویر والے اسٹیکرز، ٹی شرٹ، ہم نے ہر اس چیز کا استعمال کیا ہے جس سے پنجاب کے عام لوگوں کے شعور میں بھنڈراںوالے کی یاد بس جائے۔

    حالانکہ پنجاب کے 75 سالہ سابق پولیس سربراہ کے پی ایس گل کو دہشت گردی کے لوٹ آنے کا کوئی خطرہ نظر نہیں آتا۔ وہ کہتے ہیں، یہ لوگ زیادہ اہمیت نہیں رکھتے اور ان پر ہنسی ہی آتی ہے۔ انہیں ہلکے میں لینا چاہئے۔جب کہ ایک دوسرے سابق پولیس اہلکار (ایس ایس پی) اقبال سنگھ مانتے ہیں کہ پنجاب آہستہ آہستہ تشدد کے دور کی طرف بڑھ رہا ہے۔ فی الحال، پنجاب میں 200 سے زیادہ بھگوڑے دہشت گرد ہیں جو الگ الگ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں مطلوب ہیں۔ وہ کہتے ہیں، جب 1970 کے بعد اور 1980 کی دہائی کے شروع میں پہلی بار تشدد بھڑکا تھا، اس وقت کے مقابلے یہ تعداد چار گنا زیادہ ہے۔

    آج پنجاب کے حالات پر نظر رکھنے والوں کو یہاں ایک بار پھر تشدد کے دور کی واپسی کا خطرہ محسوس ہورہا ہے اور اس اندیشے کو پختہ کیا ہے گرداس پور کے دینا نگر تھانے پر دہشت گردانہ حملے کے واقعے نے۔پولس کہہ رہی ہے کہ وہ معاملے کی ہر ممکنہ پہلو سے جانچ کر رہی ہے۔ حالانکہ وہ صاف طور پر اس بات کو نہیں مان رہی ہے کہ پنجاب میں خالصتانی دور کی واپسی ہورہی ہے مگر اصل متن کو سمجھنے والے حاشیئے اور بین السطور کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 591