donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   RSS Aik Magar Chehre Anaik


آرایس ایس ایک مگر چہرے انیک


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 

    راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ایک ایسی جماعت ہے جس کے ماتحت بہت سی چھوٹی بڑی تنظیمیں سرگرم ہیں۔ یہ جماعتیں اس کے چہرے کی طرح ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ جس طرح راون کے بہت سے چہرے تھے اسی طرح آرایس ایس کے بھی بہت سے چہرے ہیں۔آر ایس ایس (RSS) ایک ہندو قوم پرست جماعت ہے، جس کے اصول ہندوتو پر مبنی ہیں۔اس کا پورا نام راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ہے مگر آر ایس ایس کے نام سے مشہور ہے۔اس کی ماتحت جو جماعتیں ہیںسو ہیں مگر اس ملک میں بعض ایسی جماعتیں بھی ہیں جو باقاعدہ سنگھ پریوار کا حصہ نہیں ہیں مگر نظریاتی طور پر اس سے متفق ہیں۔آر ایس ایس کی شروعات سن ۱۹۲۵ء میں وجے دشمی کے دن ڈاکٹر کیشو ہیڈگیواڑ نے کی تھی۔سنگھ دنیا کا سب سے بڑا رضاکار ادارہ ہے۔اس کا سیاسی بازو ہے بھارتیہ جنتا پارٹی۔ جب کہ پہلے اس کا سیاسی بازو جن سنگھ تھا جس کا انضمام ۱۹۷۵ میں جنتا پارٹی میں ہوا اور مرکز میں مرار جی دیسائی کی قیادت میں ملی جلی سرکار بنی۔اس کے بعد سے آہستہ آہستہ اس تنظیم کی سیاسی اہمیت بڑھتی گئی اور اس کا احیاء نو بی جے پی جیسی سیاسی جماعت کے طور پر ہوا۔سنگھ کے قیام کے 75 سال بعد 2000 ء میں اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں این ڈی اے کی ملی جلی حکومت مرکز میںبنی۔

سنگھ کا تنظیمی ڈھانچہ

    سنگھ میں تنظیمی طور پر سب سے اوپر سرسنگھ چالک کا مقام ہوتا ہے جو پورے سنگھ کا  رہبر ورہنما ہوتا ہے۔ سرسنگھچالک کی تقرری نامزدگی کے ذریعے ہوتی ہے۔ ہر سرسنگھچالک اپنے جانشین کا اعلان کرتا ہے۔ یونین کے موجودہ سرسنگھچالک مسٹر موہن بھاگوت ہیں۔ سنگھ کی زیادہ تر  کارکردگی شاکھاکے ذریعے ہی ہوتی ہے، جس میں عوامی مقامات پر صبح یا شام کے وقت ایک گھنٹے کے لیے رضاکاروں کو باہمی ملن ہوتا ہے۔ فی الحال پورے ہندوستان میں سنگھ کی تقریبا پچاس ہزار سے زیادہ شاکھائیںلگتی ہیں۔ شاکھائوں کی عام سرگرمیوں میں کھیل، یوگا، وندنا اور بھارت اور دنیا کے ثقافتی پہلوؤں پر دانشورانہ بحث ومباحثہ شامل ہے۔سنگھ کی تنظیم مرکز،صوبہ،محکمہ، ضلع،تعلقہ، شہر،منڈل اورشاکھا کی سطح پر چلتی ہے۔

الزامات اور خدمات

    بابائے قوم مہاتما گاندھی نے ایک مرتبہ آر ایس ایس کے کیمپ کا دورہ کیا تو وہاں مکمل نظم و ضبط دیکھا اور چھوت چھات کی غیر موجودگی پائی۔ انہوں نے ذاتی طور پر پوچھ گچھ کی اور جانا کہ وہاں لوگ ایک ساتھ رہ رہے ہیں اور ایک ساتھ کھانا کر رہے ہیں۔ حالانکہ گاندھی جی کے قتل کے لئے آرایس ایس کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور ان کے قتل کے بعد سنگھ پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ بھارت چین جنگ میں وزیر اعظم جواہر لعل نہرو سنگھ کے کردار سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے سنگھ کو سن ۱۹۶۳ء کے یوم جمہوریہ کی پریڈ میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ صرف دو دن کی پیشگی اطلاع پر تین ہزار سے بھی زیادہ رضاکار وہاں موجود تھے۔قدرتی آفات کے موقع پر راحت اور باز آبادکاری پرانی روایت رہی ہے۔سیلاب، زلزلہ اور اس قسم کی آفات کے موقع پر سنگھ کو سرگرم رول میں دیکھا جات ہے ۔ حالانکہ دوسری طرف اس پر انتہا پسند ہونے اور فرقہ وارانہ فسادات کرانے کا الزام بھی لگتا ہے۔

آرایس ایس کی ذیلی تنظیمیں

    آر ایس ایس اور اس سے منسلک تنظیموں کو مختصر میں سنگھ پریوار کہا جاتا ہے۔ یہ تمام ایسی تنظیمیں ہیں جن کی آزاد شناخت ہے، پالیسیاں ہیں اور پروگرام بھی ہیں،لیکن بنیادی طور پر یہ تمام تنظیمیں نظریے کے معاملے میں سنگھ سے وابستہ ہیں۔ سنگھ سے وابستہ ایسی رجسٹرڈ تنظیموں کی تعداد چالیس سے اوپر ہے۔سیوا بھارتی،ودیابھارتی، سودیشی جاگرن منچ،اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد(طلبہ ونوجوان تنظیم)،وشو ہندو پریشد،بھارتیہ مزدور یونین، بھارتیہ کسان یونین،بجرنگ دل وغیرہ آرایس ایس کی ذیلی تنظیمیں ہیں جو اس کی رہنمائی میں مختلف میدانوں میں کام کرتی ہیں۔

سرگرم تنظیمیں

    وشو ہندو پریشد ایک ہندو توادی تنظیم ہے، جو آر ایس ایس کی ایک ذیلی جماعت کے طور پر کام کرتی ہے۔ وشو ہندو پریشد کا علامتی نشان برگد کا درخت ہے۔وشو ہندو پریشد کا قیام 1964 میں ہوا۔ اس بانیوں میں سوامی چنمیانند، ایس ایس آپٹے، ماسٹر تارا وغیرہ تھے۔اس وقت اس کی شاخیں دنیا کے کئی ممالک میں ہیں اور اکثر اس کے پروگرام ملک و بیرون ملک ہوتے رہتے ہیں جن میں ہندووں سے متحد ہونے کی اپیل کی جاتی ہے۔اس کے لیڈران کو مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف سخت بیانات دینے کے لئے بھی جانا جاتا ہے۔عام طور پریہ بھی دیکھاگیا ہے کہ اس کے بیشتر پروگراموں اور تحریکون کا مقصد سنگھ کے سیاسی بازو بی جے پی کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے۔رام مندر تحریک میں دونوں کا اشتراک رہا مگر سیاسی فائدہ بی جے پی کوملا۔

    بجرنگ دل آرایس ایس کی ذیلی تنظیم ہے جس میں خاص طور پر نوجوانوں کو جگہ دی جاتی ہے۔ اسی طرح خواتین کے لئے درگا واہنی ہے۔ سیوا بھارتی کے ذریعے خدمت خلق کا کام کیا جاتا ہے ور ودیا بھارتی کے تحت پورے ملک میں اسکول اور تعلیمی ادارے چلتے ہیں۔

مزدور اور کسان سنگھ

    بھارتیہ مزدور سنگھ ایک مزدور تنظیم ہے۔ اس کا قیام بھوپال میں۱۹۵۵ء میں عمل میں عمل میں آیا۔ قیام کے بعد سے اسے بہت تیز رفتار سے ترقی کرنے کا موقع ملا اور آج یہ ملک میں سب سے زیادہ ارکان والا مزدور یونین ہے۔دیگر مزدور تنظیموں کا نعرہ ہے’’ دنیا کے مزدورو! ایک ہو‘‘ مگر بھارتیہ مزدور سنگھ کا نعرہ ہے’’ مزورو دنیا کو ایک کرو !‘‘

    جس طرح سنگھ نے مزدوروں کے اندر اپنے رسوخ بنانے کے لئے مزدور سنگھ بنایا ہے اسی طرح کسانوں میں اپنی پیٹھ بنانے کے لئے اس نے بھارتیہ کسان سنگھ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی ہے۔ یہ تنظیم پورے ملک میں کسانوں کے مسائل اجاگر کرنے کا کام کرتی ہے۔ مرکزی حکومت کی لینڈ اکویزیشن بل کے خلاف بھی اس نے آواز اٹھایا ہے حالانکہ آر ایس ایس بل کی حمایت میں ہے۔

مسلم راشٹر منچ

     آر ایس ایس کی شناخت ایک مسلم مخالف تنظیم کے طور پر رہی ہے مگردسمبر، 2002 میں ایک انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے سنگھ نے مسلم کمیونٹی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔اسی کے نتیجے میں مسلم راشٹر منچ وجود میں آیا۔ سابق سنگھ سربراہ سدرشن نے میڈیا کی نظروں سے کافی حد تک دور رہتے ہوئے مسلم کمیونٹی کے درمیان کام کیا۔سنگھ پریوار کی اس تنظیم کے رہنما سنگھ کی طرف سے اندریش کمار ہیں۔ اس کے قومی کنوینر پرانی دہلی کے ایک تاجر محمد افضال ہیں۔سوال اٹھتا ہے کہ آخر اس پلیٹ فارم کی تشکیل کے پیچھے سنگھ کی منشا کیا ہے؟ سنگھ کو مسلمانوں کی قیادت والے اس طرح کے پلیٹ فارم کی ضرورت کیوں پڑی؟سنگھ کے ترجمان ’’پانچ جنیہ‘‘ کے سابق ایڈیٹر بلدیو شرما جواب دیتے ہیں کہ، ’’ دیکھئے، ہندوستان کا مسلم سماج بھارتی سماج کا ایک انتہائی اہم حصہ ہے، لیکن بدقسمتی سے کچھ لوگوں نے مسلمانوں کے اندر خوف پیدا کر دیا ہے۔ ملک کا مسلمان خود کو مرکزی دھارے کا حصہ محسوس کرے، یہ سنگھ کی مسلسل کوشش ہے۔یہی کام اس پلیٹ فارم کے ذریعے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔حالانکہ اس کے ایک پروگرام میں شرکت کرچکے ایم اختر کا کہنا ہے کہ منچ کے جلسوں میں مسلمانوں کو کنفیوزڈ کرنے کا کام کیا جاتا ہے۔

آرایس ایس کے نئے چہرے

    حالیہ دور میں سنگھ پریوار سے منسلک جن نئی جماعتوں کا نام سامنے آیا ہے ان میں دھرم جاگرن سمنوے سمیتی بھی ہے ۔ یہ جماعت مسلمانوں، عیسائیوں اور بودھوں کو ہندو بنانے کا کام کرتا ہے۔ پچھلے دنوں یہ خوب چرچا میں رہا جب ’’گھر واپسی‘‘ کا ایشو میڈیا میں چھایا ہوا تھا۔ اترپردیش میں یہ خاص طور پر سرگرم ہے اور اس کے ایک لیڈر نے بیان دیا تھا کہ وہ بھارت سے مسلمانوں اور عیسائیوں کا وجود ختم کردے گا۔ اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا ملک کی قدیم ترین ہندتوا دی تنظیم ہے۔ اس کا باقاعدہ طور پر سنگھ سے الحاق نہیں ہے مگر نظریاتی اعتبار سے دونوںایک ہیں۔ نیشنل ہندو مومنٹ کی سرگرمیاں گوا اور مہاراشٹر میں ہیں جو ہندووں کو اس بات پر اکساتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کنوینٹ اسکولوں میں نہ بھیجیں کیونکہ اس سے ان کا کلچر بگڑ جائے گا۔راشٹریہ ہندوآندولن کا میدان کار بھی مہاراشٹر کا علاقہ ہے۔ یہ تنظیم عام طور پر ایسی فلموں کے خلاف تحریک چلاتی ہے جو اسے ہندو نظریات کے خلاف لگتی ہیں۔ اس نے عامر خان کی ’’پی کے‘‘کے خلاف تحریک چلائی تھی۔راشٹروادی شیو سینا نامی تنظیم پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی مخالفت کرتی ہے۔ہندو جن جاگرتی سمیتی نامی تنظیم بھی اسی قسم کے کاموں میں ملوث ہے۔ہندو دھرم سینا مدھیہ پردیش میں سرگرم ہے اور یہاں اس پر بعض گرجا گھروں پر حملے  کے الزام لگے ہیں۔ہندو مکل کاچھی کا نام تمل نادو کے لوگوں کے لئے نیا نہیں ہے۔ یہاں لیفٹ نظریہ رکھنے والے قلم کاروں اور ادیبوں کی مخالفت میں یہ پیش پیش رہی ہے۔ ہندو راشٹر سینا مہاراشٹر کے پونے میں سرگرم رہی ہے اور یہاں اس کے لوگوں کو ایک قتل میں ملوث پایا گیا ہے۔   


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 489