donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Taasub Se Pareshan Hindustani Musalman : Chhupa Rahe Hain Apni Pehchan


تعصب سے پریشان ،ہندوستانی مسلمان

،

چھپا رہے ہیں اپنی پہچان


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    ۳۰سالہ عائشہ بیگم کلکتہ کے ایک اسپتال میں صفائی کا کام کرتی ہے مگر اسے یہاں سب لوگ لکشمی کے نام سے جانتے ہیں۔ وہ کلکتہ سے ۵۰ کیلو میٹر دور رہتی ہے اور اسپتال آنے سے پہلے ایک ہندو عورت کا روپ اختیار کرلیتی ہے۔ اس کے ہاتھ میں سنکھ کی چوڑیاں ہوتی ہیں جو بنگالی ہند وعورتوں کی پہچان ہیں اور گلے میں ’’اللہ‘‘ لکھے ہوئے لاکیٹ کی جگہ ایک ہندو دیوی کے نام کا لاکٹ آجاتا ہے۔ اسپتال میں اسے سب لکشمی کے نام سے ہی جانتے ہیں۔ عائشہ عرف لکشمی کا کہنا ہے کہ میں نے نوکری حاصل کرنے کی بہت کوشش کی مگر مجھے کہیں کام نہیں ملا۔ پھر میں نے ایک روز ہندو بن کر کوشش کی اور فوراً اسپتال میں کام مل گیا۔ مجھ سے یہ بھی کہا گیا کہ تم اپنے جیسی اور بھی عورتوں کا کام پر لائو،یہاں ضرورت ہے۔ میں نے کہا کہ کچھ مسلمان عورتیں کام چاہتی ہیں،اگر اجازت ہوتو انھیں لائوں، تب کہا گیا کہ اگر ہندو عورتیں لائو تو اچھا ہوگا۔ اس دن سے آج تک عائشہ مسلمان ہونے کے باجود ہندو کا روپ اختیار کئے ہوئے ہے۔ کلکتہ کی نورجہاں (۴۲)کی کہانی بھی ایسی ہے جو ایک چھونپڑپٹی میں رہتی ہے مگر کام کرتی ہے ایک ہندو فیملی میں۔ وہ بتاتی ہے کہ میں نے اپنے گھر والوں کو بھی نہیں بتایا ہے کہ میں کہاں کام کرتی ہوں اور میرے دوست ورشتہ دار بھی نہیںجانتے ہیں۔ میں جہاں کام کرتی ہوں وہاں مجھے ایک ہندو عورت کے طور پر جانا جاتا ہے اور میں گلے میں منگل سوتر پہنتی ہوں۔ اگر انھیں معلوم ہوگیا کہ میں مسلمان ہوں تو مجھے مارڈالیں گے۔

    راجدھانی دہلی میں بی ایس پی کے ایک ممبرپارلیمنٹ کے گھر پر چند سال قبل ایک خاتون ملازم کو مردہ پایا گیا جس کے بعد پولس نے تفتیش شروع کی تو پتہ چلا کہ وہ ایک مسلمان عورت تھی جو ہندو نام اور روپ کے ساتھ یہاں کام کر رہی تھی۔ یہ تو چند مثالیں ہیں ورنہ بڑی تعداد میں ایسے مسلمان ملتے ہیں جو اپنی پہچان چھپا کر ملازمت حاصل کرتے ہیں۔ انھیں ایسا اس لئے کرنے پو مجبور ہونا پڑتا ہے کہ مسلم پہچان کے ساتھ انھیں ملازمت نہیں مل سکتی ہے۔ کلکتہ میں گھریلو ملازم سپلائی ایجنسی چلانے والے سودھین بوس کا کہنا ہے کہ میری ایجنسی کے ذریعے جن گائوں اور جھگیوں کی خواتین نے گھریلو ملازم کی نوکری پائی ہے ان میں سے نصف مسلمان ہیں مگر ہندو نام اور پہچان کے ساتھ ملازمت کر رہی ہیں کیونکہ مسلمان کو کوئی گھریلو ملازم رکھنے کو تیار نہیں ہے۔

    تعصب کا یہ معاملہ کسی ایک صوبے تک محدود نہیں ہے بلکہ پورے ملک میں چل رہا ہے۔ الہ آباد (یوپی)میں لائن ہوٹل چلانے والے فرحان علی کے ہوٹل پر بہت سے ٹرک ڈرائیور رکتے ہیں اور کھانا کھاتے ہیں مگر ان میں سے کوئی نہیں جانتا کہ وہ مسلمان ہے۔ کیونکہ اس نے اپنی پہچان چھپا رکھی ہے اور ہوٹل میں ہندو دیوی دیوتائوں کے پوسٹر لگا رکھے ہیں۔ اس کا ماننا ہے کہ اگر ٹرک والوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ مسلمان کا ہوٹل ہے تو وہ یہاں رکنا اور کھانا پسند نہیں کریں گے۔

    مسلمانوں کے ساتھ تعصب اوربھید بھائو وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات میں اس وقت سے بڑھ گیا ہے جب ۲۰۰۲ء میں یہاں فسادات ہوئے تھے اور نریندر مودی وزیر اعلیٰ تھے۔ نفرت انگیزی میں اس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب بھگوا تنظیموں نے کھلے عام مسلمانوں کے بائکاٹ کا اعلان کیا اور ریاستی حکومت نے اس پر خاموشی اختیار کرلی۔ اقلیتوں کے حقوق کی لڑائی لڑنے والی سوشل ورکرعائشہ پرویز کا کہنا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ تعصب عام بات ہے اور اسی وجہ سے وہ اپنی پہچان چھپانے پر مجبور ہیں۔ انھیں مسلم پہچان کے ساتھ جاب پانے میں دشواری ہوتی ہے۔

    حالات مجبور کر رہے ہیں کہ مسلمان اپنی شناخت چھپائیں مگر یہ صرف ایک حد تک ہی ممکن ہے۔ جن جگہوں پر بات ڈگریوں اور شناختی کارڈ کی ہو وہاں پہچان چھپانا ممکن نہیں ہے۔ مسلمانوں کے ملازمتوں میں کم ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے مسلمان ہونے کے سبب بیشتر انھیں انٹرویو کے لئے بھی نہیں بلایا جاتا۔

    سماجی ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ تعصب اور بھید بھائو کی تاریخی بنیادیں ہیں۔ یہاں ہزاروں سال سے چھوت چھات کا رواج رہا ہے اور معاشرہ اونچ نیچ میں بنٹا رہا ہے۔ یہاں دلتوں اور پسماندہ برادریوں کے ساتھ بھی بھید بھائو برتا جاتا رہا ہے۔ آج اگر چہ جدید تعلیم اور جدید فکر آرہی ہے مگر یہاں کے لوگ آج بھی پرانی روایتوں سے پوری طرح پیچھا نہیں چھڑا سکے ہیں۔ یہاں مانا جاتا رہا ہے کہ کسی دلت یا مسلمان کے چھو جانے سے چیز ناپاک ہوجاتی ہے۔ دلتوں کو مندر میں آنے یا کنواں سے پانی بھرنے سے اسی سبب روکا جاتا رہا ہے۔ موجودہ سماج کی فکر میں تبدیلی ضرور آئی ہے مگر آج بھی وہ ماضی کی روایات سے پوری طرح پیچھا نہیں چھڑاپایا ہے۔کسی کو مسلمانوں کے کھانے پینے کی عادتوں سے پرہیز ہے تو کسی کو ان کے نماز پڑھنے سے پریشانی ہے۔ غور طلب ہے کہ ۱۹۷۰ کی دہائی میں بجاج کمپنی میں مسلمانوں کو صرف اس لئے نہیں رکھا جاتا تھا کہ نماز کے وقت چھٹی چاہتے تھے۔      

       
کون تعصب کا شکار نہیں؟

    اس وقت سماجی ماہرین کے بیچ ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے بحث جاری ہے کہ وہ تعصب کا شکار ہیں؟ کیا ان کے ساتھ صرف اس لئے بھید بھائو کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں؟کیا بھارت میں  مسلمان ہونا جرم بن چکا ہے؟ کیا مسلمانوں کو سوچی سمجھی سازش کے تحت سرکاری وغیر سرکاری ملازمتوں سے دور رکھا جاتا ہے؟ کیا ان کے بچوں کو اچھے تعلیمی اداروں میں داخلے سے محروم رکھا جاتا ہے؟ کیا انھیں سرکاری اسکیموں میں حصہ داری صرف اس لئے نہیں ملتی ہے کہ وہ مسلمان ہیں ؟کیابھارتی مسلمانوں کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ تعصب ہے؟ ان تمام سوالوں کا جواب دے دیا ہے ہرے کرشنا کمپنی کے ایک ای میل نے جو ممبئی کے ذیشان نامی نوجون کو بھیجا گیا تھا۔حالانکہ میڈیا میں خبر آنے کے بعد سے اب مذکورہ کمپنی کے خلاف کارروائی اور جانچ کی بات کہی جارہی ہے مگر سچائی سامنے آچکی ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ بھارت میں تعصب صرف ایک ذیشان کے ساتھ نہیں برتا گیاہے بلکہ ہر مسلمان کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی سطح پر اس کا شکار ہوتا ہے۔فخرالدین علی احمد، اے پی جے عبدالکلام، عظیم ہاشم پریم، ایم ایف حسین،دلیپ کمار اور محمد رفیع جیسے لوگ بھی تعصب سے نہیں بچ پائے۔بالی وڈ کے سپر اسٹارس شاہ رخ، سلمان، عامر تک اس تعصب سے محفوظ نہیں ہیں۔ کھیل کے اسٹارس عرفان پٹھان، یوسف پٹھان، محمد کیف ، اظہرالدین اور ثانیہ مرازاتک کو کسی نہ کسی جگہ پر تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شبانہ اعظمی اور جاوید اختر تک کو پاش علاقوں میں مکان ملنا مشکل ہوجاتا ہے ،محض اس وجہ سے کے ان کے نام مسلمان جیسے ہیں۔ بات یہیں تک نہیں ہے اگر کوئی مسلمان یہاں وزیر ،گورنر یا صدر جمہوریہ بن جائے تو بھی ملک کے تئیں اس کی وفاداری مشکوک رہتی ہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین جب ملک کے صدر تھے تو ان کے خلاف افواہیں پھیلائی جاتی تھیں کہ انھوں نے خفیہ ٹرانسمیشن لگا رکھا ہے اور بھارت کی خبریں پاکستان کو دیتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے کہ نائب صدر جموریہ حامد انصاری پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے قومی پرچم کو سلامی نہیں دی۔ حالانکہ طریقے کے مطابق وہ خود سلامی لے رہے تھے اور انھیں پرچم کو سلامی نہیں دینی تھی۔ بات یہ ہے کہ جب اونچے عہدوں پر بیٹھے ہوئے مسلمان تعصب کا شکار ہوتے رہتے ہیں تو عام مسلمانوں کی بات ہی کیا ہے؟حالانکہ ایک دوسری سچائی یہ بھی ہے کہ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں اقلیتوں کے ساتھ تعصب نہیں برتاجاتاہو۔ مسلمان جس قدر بھارت میں بھید بھائو کا شکار ہوتے ہیں، اس سے زیادہ عرب ملکوں میں غیر مسلموں کو تعصب کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ حالانکہ جس طرح بھارت خود کو سیکولر اور مذہبی اعتبار سے غیر جانبدارظاہر کرتا ہے یہ ممالک ایسا نہیں کرتے ہیں۔ بھارت میں مختار عباس نقوی جیسے مسلمان ہی قابل قبول ہوتے ہیں اور وہ بھی اس وقت تک جب تک وہ مسلمانوں کے مخالفین کے تلوے چاٹتے رہیں۔ظاہر ہے کہ ذیشان کے ساتھ جو کچھ ہوا،اس میں کچھ عجیب نہیں ہے کیونکہ ہم سب کہیں نہ کہیں اس قسم کے حالات کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ایک کمپنی نے صاف طور پر کہہ دیا کہ ہم مسلمان کو جاب نہیں دیتے جب کہ اس ملک کی لاکھوں کمپنیاں بغیر مسلمان کا نام لئے معذرت کر لیتی ہیں۔ یوجی سی کے ایک سروے کے مطابق مسلمانوں کا نام دیکھ کر ہی انھیں انٹرویو کے لئے کال لیٹر نہیں بھیجا جاتا۔ صرف ایک تہائی انٹرویو کے لئے بلائے جاتے ہیں۔ کمیشن کے محقق پروفیسر سکھدیو تھوراٹ کے مطابق مسلمان ہونے کا مطلب ہے کہ انٹرویو کے لئے کال لیٹر کے چانسیز کم ہوجاتے ہیں۔

تنازعہ کیا ہے؟

    مذہب کی بنیاد پر نوجوان کو نوکری دینے سے انکار کرنے والی ہرے کرشنا ڈائمنڈ ایکسپورٹ کمپنی کے رویے پر مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ نے تشویش ظاہر کی ہے اور پولیس نے معاملہ درج کرلیا ہے۔ قومی اقلیتی کمیشن نے کمپنی سے وضاحت طلب ہے اور کارروائی کی دھمکی دی ہے۔اس معاملے میں وزیر اعلیٰ پھڈنویس نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ یہ مکمل طور پر غلط ہے۔کمپنی کو مہارت کی غیر موجودگی میں کسی کو منتخب نہیں کرنے کا حق ہے لیکن مذہب کے نام پر کام سے انکار پوری طرح ناقابل قبول ہے۔سینئر پولیس انسپکٹر س نے بتایا کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 153 بی (قومی سالمیت کے تئیں مقدمہ) اور 153 بی 1 بی (کسی شخص کو اس بنیاد پر اس کے ہندوستان کے شہری کے ناطے حاصل حقوق سے محروم کرنا کہ وہ کسی مذہب، نسل یا زبان یا علاقائی گروپ یا ذات یا برادری کا رکن ہے) کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق اس طرح کے جرم میں تین سال تک کی قید ہو سکتی ہے۔واضح ہوکہ کمپنی کی ممبئی یونٹ میں 19 مئی کو ایم بی اے گریجویٹ ذیشان علی نے ملازمت کے لئے درخواست دی تھی۔ اسے 15 منٹ کے بعد کمپنی کا ای میل ملا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ وہ صرف غیر مسلموں کو ہی کام دیتی ہے۔ ذیشان نے لیٹر فیس بک پر پوسٹ کر دیا۔ اس کے بعد تنازعہ بڑھ گیا۔ اس پر کمپنی کی طرف سے صفائی دی گئی کہ، ہماری کسی بھی یونٹ میں ملازمین کو کام پر رکھتے وقت ذات مذہب نہیں صرف قابلیت دیکھی جاتی ہے۔ ممبئی میں ہماری 3 جویلری یونٹ میں ابھی 1000 ملازمین ہیں۔ ان میں 71 مسلم ملازمین کام کر رہے ہیں۔ تنازعہ ایچ آر سے وابستہ نئی خواتین ملازم کے بیان کی وجہ سے ہوا ہے۔ ہم بین الاقوامی سطح پر جویلری کا کاروبار کرتے ہیں۔ ایسی ذہنیت نہیں رکھ سکتے ہیں۔جو بھی قابل اورہنرمند ہوں گے اور ہمیں ضرورت ہوگی تو انہیں ہمارے یہاں ضرور کام دیا جائے گا۔اس درمیان ہرے کرشنا ایکسپوٹرس پرائیویٹ لمیٹڈ نے ای میل میں کہا، یہ ایک بڑی بھول ہے اور رکاوٹ ہمارے ایچ آر انٹرن نے کی ہے جس کے خلاف مناسب کارروائی کی جا رہی ہے۔کمپنی نے میڈیا کو بھیجے وضاحت میں کہا ہے کہ کمپنی کسی مذہب، نسل، ذات یا جنس کے تئیں تعصب کے بغیر کام کرتی ہے۔ ہمارے گروپ کی کمپنیوں میں 28 ریاستوں کے لوگ کام کر رہے ہیں جن میں سے کچھ 12 سال سے زیادہ وقت سے ہیں۔

    یاد رہے کہ یہ وہی کمپنی ہے، جس نے 20 اکتوبر، 2014 کو اپنے 1201 ملازمین کو کار، فلیٹ اور جویلری گفٹ میں دی تھی۔ سورت شہر میں جب یہ پروگرام منعقد ہوا تھا، تب پورے ہیرا صنعت اور کارپوریٹ ورلڈ میں ہلچل مچ گئی تھی۔اسی کمپنی نے سال 2013 میں بھی 70 ملازمین کو کار دی تھی۔کمپنی میں 7700 ملازمین کام کر رہے ہیں۔کمپنی نے پرفارمینس کرائٹیریا طے کیا ہوا ہے، جس میں ملازمین کے رویے، کمپنی کی ترقی میں شراکت وغیرہ کو دیکھ کر  پوائنٹ دیئے جاتے ہیں۔

کمپنی کے جواب سے جب ذیشان ہکا بکا رہ گیا

    اس پورے تنازعے پر ذیشان علی خان کا کہنا ہے کہ، میں نوکری ڈھونڈ رہا تھا، مجھے ملک کی ایک معروف اکسپورٹ کمپنی ہرے کرشنا اکسپوٹرس پرائیویٹ لمیٹڈ میں جاب کے بارے میں پتہ چلا۔میں نے سوچا کہ ان کے ساتھ اپنا کریئر شروع کرنے کے لئے یہ ایک شاندار موقع ہوگا۔اپنے تلخ تجربے کو شیئر کرتے ہوئے خان نے بتایا، 'میں نے ملازمت کے لئے درخواست کیا تھا اور 15 منٹ کے اندر اندر ہی مجھے ان سے یہ جواب مل گیا کہ ہم افسوس کے ساتھ آپ کو مطلع کرتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کو ملازمت پر نہیں رکھتے۔ جب میں نے اس کے بارے میں پڑھا تو میں ہکا بکا رہ گیا۔میں نے اسے فیس بک پر ڈال دیا۔خان نے کہا ایسے وقت میں جب وزیر اعظم نریندر مودی بیرون ملک کا دورہ کر رہے ہیں اور انہیں سرمایہ کاری کرنے اور ’’میک ان انڈیا‘‘مہم کو آگے لے جانے کے لئے مدعو کر رہے ہیں، تب معروف برآمد گھرانے امیدواروں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر مسترد کر رہے ہیں۔ خان کے والد محمد علی نے بتایا کہ ان کے 22 سالہ بیٹے نے ملازمت کے لئے درخواست کیا تھا لیکن مسلم ہونے کی وجہ سے اسے مسترد کر دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس امتیاز کے خلاف انصاف کی مانگ کو لے کر پولس میں رابطہ کیا ہے۔ریاست کے اقلیتی امور کے وزیر ایکناتھ کھڑکے نے کہا کہ حکومت معاملے میں تحقیقات کرے گی۔اقلیتی امور کے وزیر مملکت مختار عباس نقوی نے کہا مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی نہ تو ہمارے نظام میں اور نہ ہی آئین میں اجازت دی گئی ہے۔ اگر کوئی معاملہ ہوا ہے جس میں صرف مذہب کی بنیاد پر نوکری دینے سے انکار کر دیا گیا تو میرا خیال ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے۔

تعصب سے کون بچ پایا ہے؟

    بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ تعصب کے واقعات آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں اور اپنے فیلڈ میں اعلیٰ حیثیت رکھنے والے بھی اس تعصب سے نہیں بچ پاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال شاہ رخ کا ایک انٹرویو ہے جو انھوں نے ایک معروف میگزین کو دیا تھا۔ بھارتی فلموں کے سپراسٹار شاہ رخ خان نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان میں مسلمان ہونے کے باعث انھیں بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شاہ رخ خان نے ’آوٹ لک ٹرننگ پوائنٹس‘ نامی ایک میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان میں مسلمان ہونے کے باعث انھیں بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ پر ہونے والے گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد کے ماحول میں بھارت میں مسلمان ہونا ایک بڑا مسئلہ ہوگیا ہے۔انہوں نے کہا میں کبھی کبھی بغیر کسی وجہ کے سیاستدانوں کے نشانے پر ہوتا ہوں۔ مجھ پر کئی بار اس طرح کے بھی الزامات لگائے گئے ہیں کہ اپنے ملک سے زیادہ پڑوسی ملک کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہوں۔غور طلب ہے کہ شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے نے کہا تھا کہ شاہ رخ خان کو پاکستان چلے جانا چاہیے۔ حالانکہ یہ بات شاہ رخ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اداکارہ شبانہ

اعظمی اور ان کے شوہر گیت گار جاوید اختر نے بھی کہا تھا کہ انھیں مسلمان ہونے کے سبب اچھے علاقے میں رہائش لئے مکان نہیں ملتا۔سلمان خان کو اس لئے کئی بار سیاستدانوں کے نشانے پر آنا پڑا کہ ان کے والد سلیم خان کا تعلق ایک مسلمان گھرانے سے ہے۔ سنجے دت نجی محفلوں میں یہ کہتے ہیں کہ انھیں اس لئے جیل جانا پڑا کہ ان کی ماں مسلمان تھیں۔ٹی وی چینل آئی بی این 7نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا تھا جس میں یہ سامنے آیا تھا کہ دہلی اور نوئیڈا میں ہندو مکان مالک مسلمانوں کو کرائے پر مکان نہیں دینا چاہتے ہیں۔یہ تمام مثالیں ثابت کرتی ہیں کہ بھارت میں بڑے پیمانے پر تعصب کام کر رہا ہے۔مسلمان بچوں کو اچھے اسکولون میں داخلہ نہ ملنے کے سبب مسلم محلوں کے اسکولوں میں جانا پڑتا ہے اور نتیجہ کے طور پر وہ مخصوص قسم کے ماحول کے عادی ہوجاتے ہیں اور مقابلہ جاتی امتحانات میں بھی نہیں آپاتے ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری سبھی سیکتر میں مسلمان تعصب کی وجہ سے نہیں آپاتے ہیں ۔ اگر فلم اور کرکٹ کے میدان میں مسلمان نظر آتے ہیں تو صرف اس لئے کہ یہاں صلاحیت بولتی ہے اور وہ اپنے ٹیلنٹ کی بنیاد پر یہاں جگہ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہاں امیتابھ اور جیا بچن مل کر اپنے بیٹے کو اسٹار نہیں بنا پاتے ہیں مگر دلی کا ایک غیر فلمی گھرانے کا نوجوان آکر فلم بینوں کے دلوں پر راج کرتا ہے تو صرف اور صرف اپنی قابلیت اور ہنر کی بنیاد پر۔متعصبانہ رویہ ملک اور قوم کے لئے فائدہ مند نہیں ہے ۔ تعصب کے خلاف نہ صرف کارروائی ہونی چاہئے اور ہرے کرشنا اکسپورٹرس جیسی کمپنیوں کے لائسنس رد ہونے چاہئیں بلکہ سرکاری سطح پر جاری تعصب کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 423