donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Talba Ke Sath Sangh Pariwar Ki Jang


 طلبہ کے ساتھ سنگھ پریوارکی جنگ


کیا یہ تعلیمی اداروں کے بھگوا کرن کی کوشش کا حصہ ہے؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    کیا تعلیمی اداروں کے بھگوا کرن کی کوشش ہورہی ہے؟ کیا جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے کمیونسٹوں کے اثر کو ختم کرکے  یہاں ہندوادی طاقتوں کے اثرات قائم کرنے کی کوشش چل رہی ہے؟ کیا آر ایس ایس اور پولس متحد ہوگئے ہیں اور تعلیمی اداروں کے بھگواکرن کی کوشش میں ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں؟ کیا بی جے پی کی سرکار پولس اور سیکورٹی ایجنسیوں کو بھی آرایس ایس کی ونگ بنانے کے درپے ہے؟ دلی میں جے این یو میں جو کچھ ہوا اور اس سے پہلے آرایس ایس کے دفتر کے سامنے پولس اور آرایس ایس ورکروںنے جس طرح سے طلبہ پرحملہ کیا ،اس کے بعد ان سوالوں کا اٹھنا لازمی ہے۔جے این یو کو کمیونسٹ نظریات اور آزادی خیالی کا گڑھ مانا جاتا رہاہے اور یہاں کبھی بھی دائیں بازو کی تنگ نظری کو جگہ نہیں ملی مگر ان دنوں آرایس ایس کی طلبہ تنظیم اے بی وی پی مرکزی سرکار کی حمایت سے یہاں ہنگامہ پر آمادہ ہے۔ بہانہ یہ ہے کہ ایک پروگرام میں کچھ لوگوں نے ملک مخالف نعرے لگائے ہیں حالانکہ یہ ثابت نہیں ہوپایا ہے کہ اس قسم کے نعرے اسٹوڈنٹس یونین کے لڑکوں نے لگائے یا اے بی وی پی کے غنڈوں نے ہی دوسروں کو پھنسانے کے لئے یہ حرکت کی۔ اس معاملے میں طلبہ یونین صدر کنہیا کمار کو گرفتار کیا گیا ہے۔

آرایس ایس دفتر کے سامنے طلبہ پر حملہ

     کسی تعلیمی ادارے میں فرقہ پرستوں کی جانب سے ہنگامہ آرائی اور طلبہ پر حملہ کو ئی نئی بات نہیں ہے۔ آرایس ایس کو اب تک ایک فاشسٹ تنظیم کہا جاتا رہاہے اور اس کے کارکنوں کی طرف سے تشدد کے معاملے ماضی میں سامنے آتے رہے ہیں مگر دلی میں اس وقت تو حد ہی ہوگئی جب یہاں احتجاج کر رہے طلبہ وطالبات پر پولس نے بزن بول دیا۔ اس سلسلے میں ایک ویڈیو سامنے آیا ہے جس نے سچائی کو بے نقاب کردیا ہے۔30 سیکنڈ کے کلپ میں پولیس کے علاوہ کچھ دوسرے لوگ بھی نوجوانوں کو پیٹتے دکھائی دے رہے ہیں جو سول لباس میں ہیں۔ ایک مردکانسٹیبل کو ایک خاتون کو بالوں سے گھسیٹتے اور زمین پر گراتے دیکھا گیا۔ حالانکہ جو ویڈیو سامنے آیا ہے اس میں پولیس والے بھی بھگوا گمچھا گلے میں ڈالے ایک نوجوان کو پیٹ رہے ہیں۔دہلی پولیس کی زیادتی کا یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا ہے۔ اس میں پولیس کی وحشیانہ کارروائی سامنے آئی ہے۔اس میں پولس والے اور کچھ مبینہ آرایس ایس کے لوگ لڑکیوں کو بال پکڑ کر کھینچ رہے ہیں اور طلباء و طالبات کو وحشیانہ طور پرمار رہے ہیں۔ ان  کا قصور محض یہ تھا کہ RSS کے دفتر کے باہر مظاہرہ کر رہے تھے۔واضح ہوکہ اس احتجاج میں بائیں بازو کی 2 طلبہ تنظیمیں شامل تھیں۔ SFI اور AISF کے نوجوان کارکنوں نے احتجاجی ریلی کا اہتمام کیا تھا۔ اس میں جے این یو اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم بھی شامل تھے۔ اسے جھنڈے والان کے کیشو کنج تک جانا تھا جہاں RSS کا دفتر ہے۔ اس احتجاجی پروگرام کو انتظامیہ کی جانب سے سنگھ دفتر سے 2 کلومیٹر کے فاصلے تک جانے کی اجازت مل چکی تھی۔

دلی پولس یا پرائیویٹ آرمی

    نئی دہلی میں آر ایس ایس کے دفتر کے سامنے دلت طالب علم روہت ویملا کی خود کشی کو لے کر مظاہرہ کر رہے لوگوں کو پیٹنے کا ویڈیو سامنے آنے کے بعد دہلی پولیس تنقید وںکے گھیرے میں آ گئی۔ مظاہرین میں طالبات بھی شامل تھیں جنہیں آر ایس ایس دفتر کے قریب مارا پیٹا گیا۔ دراصل عام آدمی پارٹی کے ایک کارکن نے ایک ویڈیو جاری کیا ہے جس میں دہلی پولیس طلباء و طالبات کو وحشیانہ طور پرپیٹ رہی ہے۔ یہ ویڈیو 30 جنوری کا ہے۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا جس پر لوگوں نے سخت رد عمل ظاہر کیا۔ دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے بی جے پی اور RSS پر الزام لگایا کہ وہ دہلی پولیس کا استعمال پرائیویٹ آرمی کی طرح کر ہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چاہے FTII ہو، حیدرآباد یونیورسٹی یا پھر IIT ،مودی حکومت طالب علموں سے جنگ کر رہی ہے۔  ویڈیو کو لے کر تنقید کرتے ہوئے آپ کی دہلی یونٹ کے کنوینر دلیپ پانڈے نے ٹوٹر پر لکھا کہ بھارتی سیاست کا معیار کتنا نیچے چلا گیا ہے۔ مرد پولیس اہلکاروں نے خواتین مظاہرین کو مارا پیٹا ، آر ایس ایس کارکن بھی دہلی پولیس کے ساتھ بربریت میں شامل تھے۔ دہلی خواتین کمیشن کی صدر سوات مالیوال نے واقعہ کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے پروگرام کو کنٹرول کرنے کے لئے خواتین کانسٹیبلوں کے موجود نہ ہونے پر سوال اٹھایا۔ اسی درمیان مبینہ طور پر پیٹے گئے ایک صحافی نے کہا کہ میں احتجاج کی رپورپوٹنگ کے لئے گیاتھا اور دہلی پولیس کے لوگوں نے مجھے مارا پیٹا نیز میرا کیمرہ بھی توڑ دیا۔ دلی پولیس اہلکار کا رویہ جارحانہ تھا، شاید اس وجہ سے کیونکہ میں ریلی کے پیچھے سے تصاویر کھینچ رہاتھا۔فوٹو گرافر کا نام راہل ہے۔

پولس کا جھوٹ

    جہاں ایک طرف طلبہ کی پٹائی کی گئی وہیں دوسری طرف پولس کمشنر نے بھی اس معاملے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔ انھوں نے معاملے کو الگ رخ دینے کے لئے کہا کہ احتجاجی طلبہ کے ہی دو گروہ آپس میں لڑپڑے تھے حالانکہ ویڈیو میں جو سچائی نظر آرہی ہے وہ ان کی بات کو جھٹلانے کے لے کافی ہے۔ حالانکہ  طالب علموں کی پٹائی والے ویڈیو پر دہلی پولیس کمشنر بی ایس بسی نے کہا کہ ویڈیو کی جانچ کی جائے گی۔ اگر کہیں غلطی ہوئی ہے تو کارروائی کی جائے گی۔ جب کہ ا سپیشل پولیس کمشنر (لاء اینڈ آرڈر) نے مرکزی رینج کے جوائنٹ سی پی، ایس گوتم سے اس معاملے کی تحقیقات کرکے رپورٹ دینے کو کہا ہے۔ دہلی پولیس نے ٹویٹ کرکے اس کی تصدیق کی۔ وہیں، اس معاملے پر پولیس کا کہنا ہے کہ نہ تو کسی کو حراست میں لیا گیا اور نہ ہی کسی طرح کی طاقت کا استعمال کیا گیا۔

اس پورے معاملے کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ مرکزی حکومت کی سرپرست آر ایس ایس خود ہی پولس کو کنٹرول کر رہی ہے اور دہشت زدہ کرنے کی اس کی ذہنیت یہاں بھی کام کر رہی ہے۔اس واقعے نے خواتین کے تعلق سے اس کی ذہنیت کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ واضح ہوکہ آرایس ایس کی رکنیت خواتین کو نہیں دی جاتی ہے۔

    آرایس ایس کے دفتر کے سامنے طلبہ کی پٹائی کو ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں اے بی وی پی کی غنڈہ گردی سامنے آئی۔ ستم ظریقی یہ ہے کہ ان سبھی معاملات میں مرکزی حکومت اور پولس نے اے بی وی پی کے غنڈوں کی مدد اور تائید کی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا مودی سرکار کے آنے کے بعد سے انصاف کا جنازہ اٹھ چکا ہے اور حکومت خود ہنگامہ آرائی کرنے والوں کی صف میں شامل ہوگئی ہے؟ کیا یہ تمام کوششیں تعلیم کے بھگوا کرن کا حصہ ہیں ،جس کے لئے مرکزی حکومت پابند عہد ہے؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ملک کے سسٹم کے لئے ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی جمہوری اور سیکولر روایات کے لئے بھی خطرناک ہوگا۔

 
 
................

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 675