donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Teen Talaq Ki Aarh Me Common Civil Code Ki Sazish


تین طلاق کی آڑ میں کامن سول کوڈ کی سازش؟


 تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 

    ’’تین طلاق‘‘ کی جنگ کہاں تک جائیگی؟ کیا مودی حکومت اس کی آڑ میں کامن سول کوڈ کا راستہ صاف کر رہی ہے؟ کیا خود مسلم علماء وقائدین کا رویہ حکومت کے مقصد میں مددگار نہیں ہورہا ہے؟ آخر کیا سبب ہے کہ ہم اپنے مسائل کو خود حل کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور حکومت وکورٹ کو مداخلت کا موقع دیتے ہیں؟ اس قسم کے سوالات کا سبب یہ ہے کہ مجلس میں’’تین طلاق‘‘ کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور مرکزی حکومت کا موقف یہ ہے کہ مذکورہ حالت میں مسلم خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔ مرکزی حکومت کے ذرائع کے مطابق وہ سپریم کورٹ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے موقف کے خلاف تین بار طلاق کہنے کی روایت کی مخالفت کرے گی۔ مرکز کا خیال ہے کہ یہ عورتوں کے حقوق کا معاملہ ہے نہ کہ یکساں سول کوڈ کا ۔ واضح ہوکہ تین بار طلاق کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر عدالت عظمی نے اس ماہ کے شروع میں مرکزی حکومت سے چار ہفتے میں جواب طلب کیا تھا۔وزارت قانون اس ماہ کے آخر تک جواب سونپنے کی تیاری میں مصروف ہے۔ اس معاملے پر داخلہ، خزانہ اور خواتین واطفال کی ترقی کی وزارتوں کے بیچ مذاکرات بھی ہوئے ہیں۔ حکومت کے ذرائع کے مطابق مودی سرکار کا نظریہ اس پر یکساں سول کوڈ کا نہیں ہے بلکہ خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق ہے کیونکہ خواتین کے حقوق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آئین میں انہیں بھی مردوں کی طرح حق دیا گیا ہے۔ ایک مجلس میں تین بار طلاق کہہ کر بیوی سے چھٹکارا پانے کا رواج تو پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں بھی طلاق مرحلہ وار ہوتی ہے اور زبانی طور پر ایک ساتھ تین طلاق کو درست نہیں مانا جاتا ہے۔صرف بھارت کے حنفی علماء  اسے عین قرآن کی تعلیمات کے مطابق ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ واضح ہوکہ  ایک مجلس میں تین طلاق کے خلاف خود مسلم خواتین نے آوازاٹھائی ہے۔ اتراکھنڈ کی سائرہ بانو نے سب سے پہلے کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ اس کے بعد جے پور اور کولکتہ کی دو طلاق یافتہ خواتین نے بھی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اپنی درخواست میں تینوں خواتین نے تین بار طلاق کے علاوہ تعدد ازواج اور حلالہ کو بھی چیلنج کیا ہے۔معاملے کی حمایت میں مسلم خواتین کی بعض تنظیمیں بھی سامنے آئی ہیں اوران کے حمایت نامے دائر عرضیوں کے ساتھ منسلک ہیں۔ حالانکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء  بورڈ  اور جمعیت علماء ہند جیسی تنظیموں نے خواتین کی درخواست کی مخالفت کی ہے  بورڈنے کورٹ کے سامنے دائر جواب میں کہا ہے کہ مسلم پرسنل لاء کی موزونیت کی جانچ نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ قرآن سے لیا گیا ہے۔

بورڈ کا موقف کیا ہے؟

    ایک ساتھ تین طلاق کو تین تسلیم کئے جانے کے معاملے پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ  نے سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ اگر اسے ختم کیا گیا تو مرد اپنی بیوی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اسے جلا کر مار سکتا ہے یا پھر اس کا قتل کر سکتا ہے۔ بورڈ نے کہا کہ، اگر میاں بیوی کے درمیان کسی بات کو لے کر جھگڑا ہوتو پھر وہ ساتھ نہ رہنے کا فیصلہ کر لیں گے، ایسے میں وہ الگ ہونے کے لئے قانونی عمل اپنائیں گے تو اس میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں شوہر غیر قانونی طریقے کو اپنا سکتا ہے۔ اس میں قتل کردینے، زندہ جلا دینے جیسے مجرمانہ طریقے شامل ہیں۔یہ بات بورڈ نے 2 ستمبر 2016کو سپریم کورٹ میں کہی۔ دراصل، سپریم کورٹ میں گزشتہ سال مسلم خواتین کے حقوق کو بنیاد بنا کر تین بار طلاق کہنے کے معاملے پر سماعت شروع ہوئی تھی۔ اسی بات کو لے کر اب بورڈ نے اپنا جواب دیا ہے۔ بہت سی خواتین کا کہنا تھا کہ مرد تین طلاق کے ذریعے انہیں ستاتے ہیں۔ مسلم پرسنل بورڈ نے کہا کہ تین بار طلاق کہنے کی قانونی حیثیت پر سپریم کورٹ فیصلہ نہیں لے سکتا۔ شوہر کو تین بار طلاق کہنے کی اسلام میں اجازت ہے کیونکہ وہ فیصلہ لینے کی بہتر پوزیشن میں ہوتے ہیں اور جلدی میں ایسا نہیں کرتے۔  مذہب میں حقوق کی قانونی حیثیت پر عدالت سوال نہیں اٹھا سکتا۔ قرآن کے مطابق طلاق سے بچنا چاہئے لیکن ضرورت ہونے پر اس کی اجازت ہے۔ بورڈ کی جانب سے دلیل دی گئی کہ طلاق کے قانونی عمل کواپنانے سے عورت کی دوسری شادی ہونے میں بھی پریشانی آ سکتی ہے۔ بورڈ نے کہا کہ شوہر ،عورت کو عدالت میں غلط کردار والی بتا سکتا ہے۔ بورڈ کی جانب سے دئے گئے ایفی ڈیوٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک غلط فہمی ہے کہ طلاق کے معاملے میں مسلمان مردوں کو یک طرفہ طاقت ملی ہوتی ہے۔یہ اختیار عورتوں کو بھی حاصل ہے۔ ساتھ ہی اسلام جب تعددازواج کی اجازت دیتا ہے تو یہ اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔بورڈ کے مطابق مرد کو ایک سے زیادہ شادی کی اجازت دینے کا انتظام عورت کے لئے فائدہ مند ہے۔ بیوی کے بیمار ہونے یا کسی اور بات کو بنیاد بنا کر شوہر اسے طلاق دے سکتا ہے لیکن شوہر کو دوسری شادی کی اجازت ہونے کی وجہ سے خواتین بچ جاتی ہیں۔بورڈ نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک بیوی کے رہتے دوسری شادی کی اجازت سے مرد غیر قانونی تعلق نہیں بناتا یا رکھیل نہیں رکھتا۔ اس طرح کے ناجائز تعلقات معاشرے کے لئے برے ہیں۔جائز طریقے سے دوسری شادی کی اجازت معاشرے کے مفاد میں ہے۔مسلم پرسنل بورڈ نے کورٹ میں چل رہی سماعت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پرسنل لاء مذہبی کتابوں پر مبنی ہے۔ سپریم کورٹ ان میں تبدیلی نہیں کر سکتا۔ بورڈ کی دلیل ہے کہ مذہبی بنیاد پر بنے قوانین کو آئین کی بنیاد پر نہیں پرکھا جا سکتا۔ ہر شہری کو ملے بنیادی حقوق، پرسنل لاء میں تبدیلی کی بنیاد نہیں بن سکتے۔  اس معاملے میں چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی صدارت والی بنچ نے سماعت کی۔ اس معاملے میں کئی خواتین نے پٹیشن دائر کی ہے۔ ان میں سے ایک عشرت جہاں بھی ہیں جنھیں فون پر طلاق دے دی گئی۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر مرتضیٰ انصاری نے انھیں دبئی سے فون پر تین طلاق کہی اور دوسری شادی کرلی اور ان کے چار بچوں کو بھی اپنے ساتھ لے گیا۔

تین طلاق پر ہنگامہ کیوں؟

    ہندوستان میں حنفی علماء کا کہنا ہے کہ طلاق دینے کا طریقہ یہی ہے کہ ایک مجلس میں ایک طلاق دی جائے لیکن اگر کوئی ایک مجلس میں تین طلاق دیتا ہے تو تین واقع ہوجاتی ہیں اور اب میاں بیوی میں کسی بھی رشتے کی گنجائش نہیں رہتی ہے۔ اس کے برعکس ساری دنیا کے مسلم ملکوں کے علماء ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک مانتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی علماء کا ایک طبقہ ایسا ہی مانتا ہے مگر مسلم پرسنل لاء بورڈ کا اصرار ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق کو تین مانا جائے۔جس کا اظہاراس نے اپنے حلف نامے میں کیا ہے۔ اسماء جہاں آرا جوکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ممبر ہیں کہتی ہیں کہ طلاق کے معاملے میں موجودہ مسلم لاء کو منسوخ کرنے کی کسی بھی کوشش کا نہ صرف مرد بلکہ کروڑوں مسلم خواتین بھی مخالفت کریں گی۔ مسلم عورتوں کی بعض تنظیموں کی طرف سے طلاق کو لے کر خواتین کے حق کے لئے جو تحریک چلائی جا رہی ہے ، انھیں قرآن اور حدیث کی صحیح معلومات نہیں ہے۔جب کہ بورڈ کے رکن عارف مسعود نے کہا کہ اسلام میں طلاق کی بات ناپسندیدہ ہے، لیکن اس کی اجازت دی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کی طرف سے میڈیا میں اس طرح کاپروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، گویا اسلام خواتین مخالف ہے اور صنفی تعصب کرنے والا مذہب ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ مرکز کی بی جے پی حکومت کی طرف سے مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کی ہم سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کمیونٹی کی چند خواتین تحریک چلا رہی ہیں، لیکن ان کے مطالبات کے حق میں کمیونٹی کی تمام خواتین نہیں ہیں۔ زیادہ تر خواتین شریعت کے قانون کو ماننے کے حق میں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عدالتیں مستقل حل نہیں دے سکتیں۔

    سپریم کورٹ میں ایک طرف بعض طلاق یافتہ خواتین ہیں، مسلم خواتین کی تنظیمیں ہیں اور ان کے ساتھ مرکزی سرکار ہے تو دوسری طرف مسلم پرسنل لاء بورڈ اور کچھ مسلم جماعتیں اور علماء ہیں۔ دونوں گروہوں کے بیچ ٹکرائو کی صورت حال ہے۔ جہان ایک طرف پہلے گروہ کا کہنا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق کہہ دینے کی حالت میں خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو دوسرا گروہ اس کے خلاف موقف رکھتا ہے اور اپنے موقف کے خلاف کسی بھی موقف کو اسلام میں مداخلت مانتا ہے۔  سوال یہ بھی ہے کہ دنیا کے جن ملکوں میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے طلاق کے دستور بنائے گئے ہیں کیا انھوں نے اسلام کو چھوڑ دیا ہے یا وہاں کے علماء ،قرآن وحدیث سے ناواقف ہیں؟ کیا دنیا بھر میں صرف ہندوستان کے حنفی علماء ہی اسلام اور قرآن وفقہ کو جانتے ہیں؟ آخر کیا سبب ہے کہ اپنی وقعت گنوا چکی ایک تنظیم کے چند لوگ مسلمانوں کو حکومت اور عدلیہ کے ساتھ ٹکرائو کے راستے پر لے جارہے ہیں؟ حکومت ہند مسلمانوں کی ہمدرد کبھی نہیں رہی ہے مگر فی الوقت جو پارٹی اقتدار میں ہے،اس کا نظریے کھلم کھلا مسلمانوں کے خلاف رہاہے۔ ایسے میں اس بات کا پورا امکان بن رہا ہے کہ وہ تین طلاق، تعدد ازدواج وغیرہ کا بہانہ بناکر اسلام کامن سول کوڈ لانے کی سازش رچے۔ یہ خبر بھی آرہی ہے کہ مرکزی حکومت نے کامن سول کوڈپر غور وفکر کی ذمہ داری لاء کمیشن کو دے چکی ہے۔  
کامن سول کوڈ کی سازش تو نہیں؟

    پہلے خبر آچکی ہے کہ کامن سول کوڈ مرکزی سرکار کے زیرغور ہے اور اب سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ، حلالہ اور تعدد ازواج پر بحث نے سوال کھڑا کردیا ہے کہ کیا مرکزی سرکار واقعی ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنا چاہتی ہے یا پھر اترپردیش اسمبلی انتخابات کے پیش نظر ،یہ شگوفہ چھوڑا گیا ہے؟ کیا اس قانون کو پاس کرانے کے لئے اس کے پاس پارلیمنٹ میںدوتہائی اکثریت ہے؟ اگر نہیں ہے تو اس نے یہ شوشہ کیوں چھوڑا؟کہیں وہ اس قانون کے بہانے مسلمانوں کو سڑک پر تو نہیں لاناچاہتی؟ یا پھراسے بہانہ بناکر سیکولر ہندووں کو بھی اپنے پالے میں کرنا چاہتی ہے؟ آخر کیا سبب ہے کہ کامن سول کوڈ کا شوشہ چھوڑے جانے کے بعد ہی سے مسلمان نشانے پر آگئے ہیں اور یہ سوال کوئی نہیں پوچھتا کہ کیا تمام ہندو برادریاں، سکھ، جین اور قبائلی اسے قبول کرنے کو تیار ہیں؟ کیا جنوبی ہند کے ہندو شمالی ہند کے ہندووں کے طریقے کو اپنائینگے ؟ کیا ملک بھر کے قبائلی اپنے صدیوں پرانے طریقے کو چھوڑنے پر رضامند ہوجائینگے؟ دراصل  ملک میں یکساں سول کوڈ لاگو کرنے کے امکان کا پتہ لگانے کے لئے مودی حکومت لاء کمیشن کو خط لکھ چکی ہے۔ لاء کمیشن سے قانون کے مسودے کا مطالبہ کرنے کی بجائے صرف رائے مانگنے سے نہ صرف آئینی دفعات پر بلکہ حکومت کی نیت پر بھی سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔ اگر مودی سرکار کو یکساں سول کوڈ نافذ کرنا ہے تو اسے قانون کا مسودہ تیار کرانا چاہئے تھا مگر اس نے ایسا کرنے کی بجائے لاء کمیشن سے صرف اس کی رائے مانگی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قانون بنانے کے بجائے صرف اس پر سیاست کرنا چاہتی ہے۔بی جے پی کے سینئر رہنما لعل کرشن اڈوانی نے کہا تھا کہ شاہ بانو کیس سے ہماری سیاست کو نئی زندگی ملی تھی مگر سوال یہ ہے کہ کیا اب کامن سول کوڈ سے نریندر مودی کو اترپردیش میں نئی زندگی ملے گی؟ ہمیں امید ہے کہ قانونی مسودہ کی تیاری میں ہی ٹکرائو شروع ہوجائے گا اور ملک کے مختلف طبقات اس کی مخالفت کرینگے، مسلمانوں کو سڑک پر اترنے کی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی۔البتہ اگر مسلمان شدید ردعمل کے ساتھ سامنے آئینگے تو سنگھ پریوار کا مقصد پورا ہوجائے گا اور جو کھیل وہ کھیلنا چاہتا ہے ، کھیلنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ یہ جال ہی لایا گیا ہے مسلمانون کو پھنسانے کے لئے اس لئے ہوشیار رہنا چاہئے۔ اسی کے علماء اور قائدین کو بھی چاہئے کہ اپنے دل ودماغ کو کھلا رکھیں اور تنگ نظری کے مظاہرے سے بچیں۔ اختلافی مسائل پر ذرا محتاط طریقے سے اظہار خیال کریں۔ طلاق ثلاثہ کے معاملے میں ایسا نہیں ہورہا ہے اور بعض علماء اور تنظیموں کے سخت موقف کے سبب یہ ایشو بن رہا ہے۔ اس معاملے میں نرمی اختیار کرنا چاہئے کیونکہ ہمارے مخالفین علماء کے سخت نظریے کو اسلام کی تنگ نظری بناکر پیش کرتے ہیں۔

 (یو این این)

 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments


Login

You are Visitor Number : 595