donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   UP Ko Aag Lagane Ka VHP Ka Ghinauna Khel


اسمبلی انتخابات سے قبل یوپی کو آگ لگانے کا وی ایچ پی کا گھنائونا کھیل


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    ہندووں کے نقل مکانی کے بہانے اب یوپی کے گائوں گائوں میں فرقہ پرستی کا کھیل کھیلنے کی تیاری ہے۔ نقل مکانی کی چنگاری سے وشو ہندو پریشد اب پوری ریاست کو آگ لگانا چاہتا ہے۔ اسمبلی انتخابات قریب ہیں اور اس بہانے ہندووں اور مسلمانوں کو تقسیم کرکے ووٹوں کی فصل کاٹنے کے لئے سنگھ پریوار بے چین نظر آرہاہے۔ کیرانہ سے ہندووں کے نقل مکانی کا جو جھوٹ بھگوا پریوار کی طرف سے گڑھا گیا تھا اس کی حقیقت دنیا کے سامنے آچکی ہے مگر اس کے باجود ایک ہی جھوٹ کو بار بار دہرایا جارہاہے تاکہ وہ سچ لگنے لگے اور سادہ لوح ہندو ووٹروں کو محسوس ہونے لگے کہ ریاست میں ان کا وجود خطرے میں ہے جس کی حفاظت کے لئے بی جے پی کا اقتدار میں آنا ضروری ہے۔ یہی سبب ہے کہ کیرانہ کے بعد کاندھلہ اور اب دیوبند ،آگرہ اور میرٹھ میں بھی ہندووں کے نقل مکانی کا شوشہ چھوڑا جارہاہے۔ سنگھ پریوار اب اس ایشو کو ہندووں کے بیچ لے جانا چاہتا ہے تاکہ انھیں اس بھرم میں مبتلا کیا جاسکے کہ ہندو خطرے میں ہیں اور اترپردیش میں جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے پاکستان بنتے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں وی ایچ پی اور بجرنگ دل کی طرف سے سروے کا دعویٰ بھی کیا جارہاہے اور پروین توگڑیا سمیت وی ایچ پی کے علاقائی لیڈران بھی کام پر لگ گئے ہیں۔

پروین توگڑیا کا دعویٰ  

    وشو ہندو پریشد کے بین الاقوامی صدر پروین توگڑیا نے کئی علاقوں سے ہندوؤں کے نقل مکانی اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو لے کر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس نے پٹنہ میں ایک تقریر کے دوران کہا کہ اترپردیش ہی نہیں کئی ایسے علاقے ہیں جہاں سے ہندوؤں کی نقل مکانی ہو رہی ہے۔ حکومت ہند کو اس طرح کے معاملے میں ایک انکوائری کمیشن کا قیام کرنا ہوگا نیز ملک میں ہندوؤں اور مسلمانوں کیلئے ایک جیسی آبادی پالیسی کی ضرورت ہے۔ پروین توگڑیا کا کہنا تھا کہ کیرالہ، کشمیر، آسام، مغربی بنگال اور مہاراشٹر کے علاقے بھی اس قسم کا مسئلہ  ہے جو فکر کی بات ہے۔ اس نے کہا کہ ہزاروں گاؤں اور شہروں میں ہندوؤں کی نقل مکانی ہو رہی ہے۔ اس دوران اس نے ملک گیر بیداری مہم شروع کرنے کی بات بھی کہی ۔ توگڑیا کے مطابق وشوہندو پریشد اس سلسلے میں سروے کرارہاہے اور نقل مکانی کی وجوہات جاننے کی کوشش کر رہاہے۔

ہر ضلع میں ’’پاکستان‘‘

    اترپردیش میں الیکشن کے پیش نظر ہندووں کے نقل مکانی کے مفروضے کو کس طرح سیاسی رنگ دینے کی کوشش ہورہی ہے اس کا اندازہ وی ایچ پی کے لیڈروں کی باتوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ وی ایچ پی کے جنرل سکریٹری سریندر جین نے حال ہی میإ کہا ہے کہ کیرانہ ہی نہیں، ویسٹ یوپی کے ایسے 60 سے زائد گاؤں اور قصبے ہیں جہاں سے ہندو نقل مکانی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ویسٹ یوپی میں کئی مقامات پر ’’منی پاکستان‘‘ بن رہے ہیں۔ یہی حال رہا تو کچھ دنوں بعد ہندو خود داری سے نہیں جی سکے گا۔ سریندر جین نے کہا کہ ویسٹ یوپی کے بگڑتے حالات پر سابق گورنر ٹی راجیشور راؤ نے اپنی رپورٹ دی تھی۔ جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو ہندو یہاں خود داری سے نہیں رہ سکے گا۔انھوں نے کہا کہ اگر سابق گورنر کی رپورٹ پر توجہ دی جاتی تو آج یہ حالات نہیں ہوتے۔انھوں نے الزام لگایا کہ ویسٹ یوپی میں مسلم اکثریت والے علاقوں سے ہو رہی ہندوؤں کی نقل مکانی کے قصورواروں کو ووٹ بینک کے لئے تحفظ دیا جا رہا ہے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ ہندو لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ، ریپ اور تاجروں سے تاوان وغیرہ کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ ویسٹ یوپی میں بڑھتے ہوئے جرائم کی وجہ سے لڑکیاں اسکول نہیں جاتیں۔ تاجر خود داری کے ساتھ اپنا کاروبار نہیں کر پا رہے ہیں۔ وہ اونے پونے داموں میں اپنے کاروبار اور گھر بیچ کر فرار ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مزیدکہا کہ وی ایچ پی ایسی جگہوں پر سروے کرا رہا ہے، جہاں سے ہندو خاندان ہجرت کر رہے ہیں۔ سریندر جین نے دعوی کیا کہ ابھی تک کے سروے میں سامنے آیا ہے کہ ریاست کا کوئی ضلع اس مسئلے سے اچھوتا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سروے مکمل ہونے پر وی ایچ پی نقل مکانی کا پورا سچ عوام کے سامنے رکھے گی۔سریندرجین نے کہا کہ ویسٹ یوپی میں رام پور، سنبھل، امروہہ، بجنور، سہارنپور، شاملی، میرٹھ، مظفر نگر سمیت تقریبا تمام اضلاع میں مسلم اکثریت والے علاقوں سے ہندوؤں کی نقل مکانی ہو رہی ہے۔ ایسے کئی علاقے ان اضلاع میں ہیں، جہاں ہندو آبادی اب 10 فیصد سے نیچے چلی گئی ہے۔ ان کے مطابق میرٹھ کی بینک کالونی، پٹیل نگر، ہاپوڑ روڈ کی کئی کالونیاں ایسی ہیں جہاں سے ہندو خاندان نقل مکانی کر گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ضلع کے پھلاودا، شاہ جہاں پور، کٹھور، پیپل کھیڑی، ہررا، سیوال خاص ، کھیوائی وغیرہ سے ہندو خاندان ہجرت کر رہے ہیں۔

آگرہ میں بھی کیرانہ جیسے حالات؟

    وشو ہندو پریشد کا الزام ہے کہ شاملی کے کیرانہ اورکاندھلا میں ہی ہندوؤں نے نقل مکانی نہیں کی بلکہ، آگرہ کے لوہامنڈی علاقے سے بھی دہشت کے سبب گزشتہ پانچ سالوں میں ساڑھے تین سو سے زائد ہندو نقل مکانی کر چکے ہیں۔ وشو ہندو پریشد کا دعویٰ ہے کہ اس نے سروے کراکر فہرست تیار کر لی ہے۔ جلد ہی اسے عام کیا جائے گا۔تاہم شہید نگر اور دیگر علاقوں سے بھی بھاگنے والوں کی تلاش کی جا رہی ہے۔ واضح ہوکہ وی ایچ پی اسے ایشو بنا کر پردیش سطح پر لے جانا چاہتی ہے۔ اس سمت میں پریشد کی مرکزی قیادت کی جانب سے ہدایات بھی جاری کر دی گئی ہیں مگر، مقامی سطح پر وی ایچ پی نے اس پر کافی پہلے ہی کام شروع کر دیا تھا۔ پریشد کے ذرائع کی مانیں تو تنظیم نے اپنے کارکنوں کی ٹیم بنا کر لوہامنڈی کے جٹ پورا، کھاتی پاڑا، موتی گنج، بلوچ پورا میں سروے کرایا ہے۔ اس کے لئے ان علاقوں کی پانچ سال پہلے کی ووٹر لسٹ اور موجودہ ووٹر لسٹ میں میل کرایا گیا۔ وی ایچ پی کے مطابق اس میں پایا گیاکہ ان علاقوں میں اس درمیان 350 سے زائد ہندو نقل مکانی کر چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر لوگوںکو تلاش کرلیاگیا ہے۔ ان میں سے جلد ہی کچھ لوگوں کو سامنے لایا جائے گا۔تاہم تنازعہ میں پڑنے کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے کچھ خاندان کھل کر سامنے نہیں آنا چاہتے۔ وشو ہندو پریشد کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس کے سروے کے مطابق، زیادہ ہندوؤں نے مسلمانوں کے دہشت کے سبب نقل مکانی کی ہے۔مسلمانوں کے علاقے میں بڑھتے ہوئے تسلط کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے لوگ خاندان سمیت رہنے میں غیر آرام دہ محسوس کرنے لگے تھے، لہٰذا دہشت کے چلتے اپنے گھر بیچ کر دوسرے علاقوں میں شفٹ ہو گئے ہیں۔ جب کہ کچھ تاجر عدم تحفظ کے خوف کی وجہ سے اپنی دکانیں بند کر کے جا چکے ہیں۔ واضح ہوکہ اسی سال فروری کے آخر میں مٹولا علاقے میں ہندو لیڈر ارون کے قتل کے وقت بھی مختلف ہندوتنظیموں نے اس مسئلے کو ہندو۔مسلم رنگ دینے کی کوشش کی تھی۔ ان تنظیموں کا الزام تھا کہ ماضی میں ارون اور اس کا خاندان مٹولا علاقے میں ہی رہتا تھامگر،دبنگ مسلمانوں نے اس کے خاندان کا رہنا مشکل کر دیا تھاجس کی وجہ سے ارون کے خاندان کو دوسری جگہ منتقل ہونا پڑا تھا۔

دیوبند سے ہندووں کی نقل مکانی؟

     کیرانہ ممبرپارلیمنٹ حکم سنگھ کے بعد اب بجرنگ دل نے دیوبند کے 40 ایسے خاندانوں کی فہرست جاری کی ہے جن کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ بدمعاشوں کے خوف کی وجہ سے ہندوخاندان اپنی پراپرٹی بیچ کر محفوظ مقامات پر نقل مکانی کر گئے ہیں۔ لسٹ کے مطابق، کیرانہ، کاندھلا سمیت پورے ویسٹ یوپی میں کئی ایسے شہر اور قصبے ہیں جہاں سے ہندو خاندان بگڑتے لاء اینڈ آرڈر، جرائم، رنگداری، تاوان اور بدمعاشوں کے خوف کی وجہ سے فرار کرنے پر مجبور ہوئے۔ایک پریس کانفرنس میں بجرنگ دل کے صوبائی کنوینروکاس تیاگی نے فہرست جاری کرتے ہوئے کہاکہ ویسٹ یوپی کشمیر بننے کی راہ پر ہے۔ اس کے باوجود یوپی حکومت ووٹ بینک کی سیاست میں لگی ہے۔انھوں نے کہا کہ اس کی مثال اپریل 2013 کو دیوبند میں ہوئی بغاوت ہے۔ اس میں رورل ایس پی کے گنر سے لوٹی گئی رائفل کا آج تک پتہ نہیں چل سکا ہے۔ سناتن دھرم فیڈریشن کے قومی صدر مہنت سوامی روپیدرانند مہاراج نے کہا،سازش کے تحت ہندوؤں کی نقل مکانی ہورہی ہے۔انھوں نے مطالبہ کیا کہ دیوبند معاملے کی بھی ایڈمنسٹریشن کو جانچ کرانی چاہئے۔

    کیرانہ میں ہندو وں کے نقل مکانی کا سچ جاننے کے لئے ریاستی حکومت کے اصرار پرکچھ سنتوں نے کیرانہ کا دورہ کیا تھا اور پایا کہ بی جے پی کی طرف سے جھوٹ بولا گیاہے، جن لوگوں نے بھی مہاجرت کی ہے وہ بہتر مستقبل اور روزگار کے اچھے امکانات کے پیش نظر گئے۔ یوپی حکومت نے بھی اپنی سطح پر انکوائری کرائی جس میں بی جے پی کا جھوٹ سامنے آیا مگر باوجود اس کے بھگوا سنگٹھن اب بھی اس کھیل میں لگے ہوئے ہیں اور ریاست کا ماحول بگاڑ رہے ہیں۔ان کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے مگر اکھلیش سرکارکی طرف سے ڈھلمل رویہ اختیار کیا جارہاہے۔ اندیشہ ہے کہ اگر نفرت کے اس سیلاب کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی تو بہت کچھ برباد ہوجائے گا۔ 

(بشکریہ نئی دنیا۔یواین این)


***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 495