donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Uf Yeh Ramzan Ke Bhikari Aur Deen Ke Beopari


اف! یہ رمضان کے بھکاری اور دین کے بیوپاری


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    رمضان کی چوتھی تاریخ ہے اور صبح ہماری آنکھ کھلتی ہے سڑک سے آنے والی قوالی کی آواز سے۔ باہر جھانک کر دیکھا تو ایک شخص رکشے پر بیٹھا بھیک مانگ رہا تھا اور لوگوں کو متوجہ کرنے کے لئے قوالی کا رکارڈ لگا رکھا تھا۔ ابھی اسے گزرے ہوئے تھوڑا ہی وقفہ ہوا کہ پاس کی گلی سے نعت کا رکارڈ بجنے کی آواز آئی، میں سمجھ گیا کہ کوئی بھکاری رکشے میں رکارڈ لگاکر بھیک مانگ رہا ہوگا۔ میں چوتھی منزل پر واقع اپنے فلیٹ میں بیٹھا ، لیپ ٹاپ پرایک مضمون ٹائپ کر رہا تھا کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ میں نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک عورت کھڑی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی پیشہ ور بھکاریوں کے لہجے میں بولی ’’اللہ کے لئے زکوٰۃ ،خیرات سے کچھ مدد کرو بھائی صاحب،رمضان کا مہینہ ہے۔‘‘مجھے لکھتے وقت ڈسٹرب ہونا بالکل پسند نہیں، اسی لئے میں چوتھی منزل پر رہتا ہوں تاکہ کم سے کم ڈسٹرب ہو، مگر بھیک مانگنے والوں کا حوصلہ ہے کہ وہ اتنی بلندی پر بھی نہیں بخشتے۔ یہ ضروری نہیں کہ چوتھی منزل پر پہنچ کر بھیک مل ہی جائے مگر پھر بھی رسک لیتے ہیں۔ بات صرف آپ کے گھرکی نہیں بلکہ آپ کسی دکان پر کھڑے ہوں، ہوٹل کے سامنے ہوں، راستہ چل رہے ہوں،یا مسجد سے نماز پڑھ کر نکل رہے ہوں، آپ کو بھکاری مل جائیںگے۔ جمعہ کے روز مسجد کے باہر تو بھکاریوں کی پوری فوج بیٹھی ہوتی ہے، شب برأت میں قبرستانوں کے آس پاس ان کا جم غفیر ہوتا ہے اور رمضان المبارک کے پاک مہینے میں تو ایسا لگتا ہے کہ ان کی تعداد میں غیر معمولی برکت ہوچکی ہے۔ مسلم محلوں میں بھکاریوں کی آواز یں اکثر پریشان کردیتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بھکاری اتنے زیادہ کیوں ہیں اور رمضان میں ان کی کثرت کیوں ہوجاتی ہے؟آخر مسلمان بھکاری زیادہ کیوں دکھائی دیتے ہیں؟کیا مسلمانوں کے اندر بھیک مانگنے کی لعنت زیادہ ہے؟ اس کے لئے آئیے پہلے سرکاری اعداد وشمار پر نظر ڈالتے ہیں۔

 مردم شماری کی رپورٹ میں مسلمان بھکاری

   مردم شماری رپورٹ کے مطابق بھیک مانگنے والے سب سے زیادہ مسلمان ہیں۔ ملک کی کل آبادی میں مسلمانوں کی حصہ داری 14.23 فیصد ہے جبکہ ملک میں موجود ہر چوتھا بھکاری مسلمان ہے۔ گویا بھارت میں پچیس فیصد بھکاری، مسلمان ہیں۔ مردم شماری 2011 کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں فی الحال کل 30.7 لاکھ ایسے لوگ موجود ہیں جو کسی بھی طرح کا کام نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کو بھکاری کے زمرے میں رکھا گیا ہے اور ان لوگوں میں 25 فیصد کے قریب مسلمان ہیں۔ ایک انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق بھکاری کلاس میں زیادہ تر لوگ معاشرے کے ان خاص حصوں سے آتے ہیں، جنہیں عام طور پر نمائندگی نہیں ملی ہے یا سرکاری اسکیموں کا فائدہ نہیں مل رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں کل 72.89 کروڑ نان ورکر کیٹیگری کے لوگ ہیں جن میں سے 3.7 ملین لوگوں کو بھکاری کلاس میں رکھا گیا ہے۔ ان میں سے کل 760 92،لوگ مسلمان ہیں۔ مردم شماری 2001 کے مقابلے ملک میں بھکاریوں کی تعداد 41 فیصد تک کم ہوئی ہے۔مردم شماری 2001 کے مطابق اس وقت ملک میں بھکاریوں کی تعداد 60.3 لاکھ تھی۔ رپورٹ کے مطابق ملک کی 79.8 فیصد آبادی ہندو ہے اور بھکاریوں میں ان کا تناسب 72فیصد ہے یعنی آبادی کے تناسب سے کم۔ صرف 2.68 لاکھ ہندو ہی بھکاری کلاس میں آتے ہیں۔ ملک میں عیسائی 2.3 فیصد ہیں جبکہ بھکاریوں میں ان کا حصہ 0.88 فیصد ہے۔ بدھ مت کا0.52 فیصد، سکھ مت کا0.45 فیصد، جین مت کا -0.06 فیصد اور باقی کا حصہ 0.30 فیصد ہے۔ کل بھکاریوں میں 53.13 فیصد مرد جبکہ 46.87 فیصد خواتین بھکاری شامل ہیں۔ یہ تو سرکاری اعدادوشمار ہیں مگر زمینی سچائی اس سے بھی بڑھ کر محسوس ہوتی ہے۔ دلی، ممبئی، کلکتہ، حیدر آباد جیسے شہروں میں اگر آپ رمضان کے مہینے میں دیکھیں تو لاکھوں بھکاری نظر آتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا لاکھوں بھکاری ایک ہی شہر میں آگئے ہیں۔ یعنی سرکار نے جو اعداد وشمار بتائے ہیں ، ان سے کہیں زیادہ تعداد میں بھکاری موجود ہیں۔

معزز بھکاری

     اب بھکاریوں کی ایک دوسری قسم کی بھی بات کرلیں۔ یہ وہ بھکاری ہیں جو سماج میں معزز ہیں۔ بھیک دینے والوں سے بہتر کھاتے ہیں، اعلیٰ قسم کے کپڑے پہنتے ہیں اور آرام دہ مکانوں میں رہتے سہتے ہیں۔وہ کوئی کام نہیں کرتے مگر پھر بھی ان کے آرام وآسائش میں روزبروز اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ آپ نے سمجھا یہ کون سے بھکاری ہیں؟ جی یہ ’’مولوی نما ‘‘بھکاری ہیں جویتیموں، غریبوں، مسکینوں کا حق مارکر زکوٰۃ وخیرات خود ہڑپ جاتے ہیں۔ ان کا جال بھارت سے لے کر سعودی عرب تک پھیلا ہوا ہے اور ہر سال زکوٰۃ وصدقات کے کروڑوں روپئے ہضم کرجاتے ہیں۔ یہ کہیں مدرسہ کے نام پر پیسے لیتے ہیں تو کہیں این جی او کے نام پر رقم جمع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ دینی مدارس کے غریب ونادار طلبہ زکوٰۃ وخیرات کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ ہندوستان میں اگر اسلام زندہ ہے اور اللہ اکبر کی صدائیں دلوں کو گرمارہی ہیں تو یہ دینی مدرسوں کے وجود کی برکت ہے۔ عام مسلمان ان دینی اداروں سے اسی لئے محبت کرتے ہیں اور ان کے تئیں اپنے دل میں احترام وعقیدت کا جذبہ رکھتے ہیں ،اور ان کے اسی جذبے کا استحصال کرتے ہیں وہ ’’مولوی نما بھکاری‘‘ جو مدرسہ نہیں چلاتے یا چھوٹا موٹا مدرسہ دکھانے کے لئے کھول لیتے ہیں اور ملک وبیرون ملک سے زکوٰۃ وخیرات جمع کرکے اپنی عیش گاہیں تعمیر کراتے رہتے ہیں۔ آپ کو کئی ایسے لوگ مل جائینگے جنھوں نے اپنی پوری زندگی میں کوئی پیشہ نہیں اپنایا اور کبھی ملازمت تک نہیں کی مگر ان کے گھر میں دولت کی ریل پیل ہے۔ ان میں سے کوئی چھوٹا سا مدرسہ چلا تا ہے تو کوئی این جی او چلاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان کے پاس پیسے کہاں سے آئے؟ کس نے دیئے؟ آسمان سے برسے یا زمین سے دفینہ نکلا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ غرباء ومساکین کے نام پر جو پیسے جمع ہوئے یا این جی او کے نام پر عرب ممالک سے جو صدقات آئے،انھیں اپنے اکائونٹ میں جمع کرلیا گیا؟ ظاہر ہے کہ اسے ہم نہ تو تجارت کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی صنعت وحرفت۔ یہ سیدھے طور پرفراڈ اور جعل سازی ہے جسے بھیک مانگنے کے مہذب طریقے کے ذریعے کیا گیا ہے۔اسلام کی نظر میں بھیک مانگنا گناہ ہے اور زکوٰۃ وفطرہ اور صدقے کی رقم صرف وہی شخص لے سکتا ہے جس کے پاس زندگی گزارنے کا کوئی دوسرا راستہ باقی نہ ہو۔ اس کے مستحق سات قسم کے لوگ ہیں جن کا بیان قرآن کریم میں آیا ہے مگر جس طرح سے اس رقم کو غیر مستحق لوگ حاصل کر رہے ہیں، وہ بھی اپنے آپ میں ایک تشویش کی بات ہے۔ اس قسم کے لوگوں سے سب سے زیادہ ان دینی مدرسوں کا نقصان ہوتا ہے جو دن رات دین کی خدمت میں مصروف ہیں۔ زکوٰۃ وصدقات جمع کرنے والے کئی لوگ تو اونچے رسوخ رکھتے ہیں اور بعض نے تو پارلیمنٹ اور اسمبلی تک رسائی حاصل کرلی ہے۔   

کچھ تلخ سچائیاں 

      اعدادوشماراور زمینی حقائق کی روشنی میں بجا طور پر سوال اٹھتے ہیں کہ مسلمان بھکاری کیوں بن گئے ہیں؟ انھیں کس نے مجبور کیا ہے کہ وہ بھیک مانگیں؟ آخر کیا اسباب ہیں کہ مسلمانوں کے اندر بھکاریوں کی تعداد زیادہ ہے؟ یہ سوالات آج اس لئے اٹھ رہے ہیں کہ خود سرکاری رپورٹ کہتی ہے کہ ہندوستان کے بھکاریوں میں سب سے زیادہ تناسب مسلمانوں کا ہے۔ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ جس قوم نے تقریبا آٹھ سو سال تک ہندوستان پر حکومت کیا وہ گزشتہ چند برسوں میں بھکاری کیسے بن گئی؟ ظاہر ہے کہ نریندرمودی کے تین سال کے دور حکومت میں تو یہ نہیں ہوا ۔ آزادی کے ستر برسوں میں سب سے زیادہ کانگریس نے حکومت کیا ہے اور مسلمان اس کے لئے ووٹ بینک بنے رہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حال کے لئے سب سے زیادہ کانگریس ذمہ دار ہے۔ اس کے لئے مسلمان خود بھی ذمہ دار ہیں اور ان کے لیڈر بھی ذمہ دار ہیں جو انھیں جذباتی مسائل میں الجھائے رہے مگر ان کی تعلیمی اور اقتصادی حالت کو درست کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ لوگ مسلمان ہونے کی وجہ سے بھکاری ہیں؟ اصل میںبھکاری کون نہیں ہے؟ ہندو بھی ہیں، عیسائی بھی ہیں، بدھسٹ بھی ہیں، سکھ بھی ہیں۔ جس کا پیٹ نہیں بھرے گا، وہ کیا کرے گا؟ ڈاکہ ڈالے گا، چوری کرے گا یا بھیک مانگے گا۔بھیک مانگنا سب سے زیادہ آسان ہے۔ اگرچہ بھیک مانگنا بھی قانونی جرم ہے۔ بھیک مانگنے والے کو پولیس پکڑ سکتی ہے۔ اس کے لئے دو تین سال کی سزا بھی ہو سکتی ہے لیکن بھیک مانگنے کی اپنی اپنی وجہ ہوتی ہے۔ وہ وجہ آپ کو سزا نہیں، احترام بھی دلاتی ہے۔ لیڈران، سادھو سنت، مداری وغیرہ نے بھیک مانگنے کے لیے ایک فائن آرٹ دے دیا ہے۔! چندہ دو !! عطیہ دو !!! زکوۃ دو !!! لیکن ہم جن بھکاریوں کی یہاں بات کر رہے ہیں، وہ دوسروں کے رحم و کرم پر زندہ رہنے والے لوگ ہیں۔ اس طرح کے لوگ تمام مذاہب اور قوموں میں پائے جاتے ہیں۔ اس پر مسلمانوں کی اجارہ داری نہیں ہے، تو پھر مسلمانوں میں ہی بھکاری اتنے زیادہ کیوں ہے؟ اس کا اہم سبب ان کا سماجی اور اقتصادی پس منظر ہے۔ وہ لوگ مسلمان بننے کے پہلے کیا تھے؟ ہزار یا پانچ سو سال پہلے ،جب وہ ہندو تھے، تب بھی وہ اکثر غریب تھے، محنت کش تھے، مزدور تھے۔ وہ مشکل سے گزر بسر کرتے تھے۔مسلمان بننے پر بھی ان کی حالت وہی رہی بلکہ بدتر ہو گئی اور آزادی کے ستر برسوں میں وہ مزید غریب ہوئے کیونکہ کئی سطح پر انھیں پیچھے رکھنے کی دانستہ کوششیں ہوئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 940