donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Urdu Ko KahaN KahaN Se Nikaloge


اردو کو کہاں کہاں سے نکالوگے؟


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی


    ہندوستان میں اردو کو جلا وطن کئے جانے کے بعد اردو کی اندھی مخالفت یہاں تک پہنچے گی ،یہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔اب دلی ہائی کورٹ میں ایک درخواست دی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دلی پولس اپنے کام کاج کی زبان میں جو اردو اور فارسی کے الفاظ استعمال کرتی ہے انھیں نکال باہر کیا جائے۔حالانکہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر کہاں کہاں سے اردو اور فارسی کے الفاظ کو باہر نکالا جائے ۔ پولس ہی نہیں ہمار ے ملک کی عدلیہ سے لے کر عام لوگوں کی زبان تک میں اردو کے ہزاروں الفاظ رائج ہیں۔ خود ہندی، ہندو اور ہندوستان کے الفاظ بھی اردو اور فارسی کے ہی ہیں، کیا انھیں بھی بدلا جائے گا؟علاوہ ازیں ہندوستان کی علاقائی زبانوں جیسے بنگلہ، آسامی، مراٹھی، گجراتی،بھوجپوری، اودھی وغیرہ میں بھی کثیر اردو الفاظ شامل ہیں۔ پولس اور عدالت کے اصطلاحات میں جو الفاظ شامل ہیں ان میں سے بعض اس طرح ہیں۔محرر، ضابطہ،جرم، مجرم، ملزم، مضروب، امروز،انکشاف، تحقیقات، مشتبہ وغیرہ۔ کیا تمام زبانوں سے اردو کو نکال باہر کرنا آسان ہوگا۔

ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی

    حا ل ہی میں دلی ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل داخل کی گئی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ دلی پولس کی اصطلاحات میں استعمال ہونے والے اردو کے الفاظ پر روک لگائی جائے۔اس میں مانگ کی گئی ہے کہ دہلی پولس کی روزمرہ کی زبان، اصطلاحات اور طریقہ کار میں استعمال ہونے والے اردو-پارسی کے انتہائی پرانے اور مشکل الفاظ کو اس کے کام کاج سے ہٹایا جائے۔ ایڈووکیٹ امت ساہنی کی طرف سے دائر اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ دہلی پولیس اپنے پولیس اسٹیشنوں میں ہونے والے روزانہ کام کاج، ایف آئی آر، گواہوں کے بیان درج کرنے اور عدالت میں داخل کاغذات سمیت دیگر کاموں میں کافی قدیم اور مشکل اردو اور پارسی الفاظ کا استعمال کرتی ہے۔ انہیں سمجھنے میں نہ صرف عام لوگوں بلکہ وکلاء کو بھی انتہائی دقت آتی ہے، لہذا انہیں پولیس کے الفاظ سے ہٹا دیا جائے اور ان کی جگہ ہندی اور انگریزی کے سادہ الفاظ کو استعمال کرنے کی ہدایت محکمہ پولیس کو دی جائے۔ ایڈووکیٹ ساہنی کی درخواست پر دہلی ہائی کورٹ کی چیف جسٹس جی روہنی اور جسٹس جینت ناتھ کی بینچ نے دہلی پولیس کمشنر بی ایس بسی اور دیگر کو نوٹس جاری کیا ہے۔ ساتھ ہی بینچ نے مدعا علیہان سے یہ بھی جواب دینے کو کہا ہے کیا دیگر ریاستوں کی پولیس اردو / پارسی الفاظ کی بجائے سادہ اردو / انگریزی الفاظ کا استعمال کر رہی ہے یا اس نے اپنے الفاظ میں انہیں بدلا ہے؟

 ارود الفاظ کو ہٹانے کے لئے دلیل

    ہائی کورٹ میں داخل درخواست میں ان الفاظ کو ہٹانے کو لے کرجو دلیل دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انصاف کا حق ہونے کی وجہ سے ملزم کو بھی سیدھی سادی زبان میں یہ جاننے کا حق ہے کہ اس کے خلاف کس قانون، دفعہ اور الزام کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ اگر ان الفاظ کو پولس کام کاج سے ہٹا دیا جائے تو اس سے پولیس محکمے کو بھی اردو اور پارسی زبان پڑھانے کی اضافی وقت، پیسہ اور ملازمین کو رکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ درخواست گزار نے مزید کہا ہے کہ عام آدمی کے ساتھ وکلاء اور یہاں تک کہ عدالتی افسران کو بھی کبھی کبھی ان الفاظ کو سمجھنے میں دقت آتی ہے۔ ساتھ ہی کئی ریاستیں اپنے یہاں پولیس کو یہ حکم دے چکی ہیں کہ وہ اپنے کاغذات سے ایسے مشکل الفاظ کو ہٹائے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہاں پولیس ٹریننگ کالج میں پولیس اہلکاروں کو اردو اور فارسی الفاظ کے استعمال کی تربیت دی جاتی ہے۔درخواست کے مطابق یہ دہلی پولیس کے حکام کے لئے بھی مشکل ہے کیونکہ انہیں ہی نہیں بلکہ ملزمان اور ان کے وکلاء اور عدالتی حکام کو بھی پولیس کارروائی سمجھنے کے لئے اردو اور فارسی الفاظ کو سیکھنا پڑتا ہے۔

دلی پولس کا جواب

    جہاں ایک طرف یہ مطالبہ اٹھ رہاہے کہ دلی پولس اپنی روزمرہ اصطلاحات سے اردو اور فارسی کے الفاظ کو ہٹائے، وہیں دوسری طرف دلی پولس نے اس کی مخالفت کی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ جس طرح کے الفاظ استعمال ہورہے ہیں انھیں چلنے دیا جائے۔وہ اس میں کسی قسم کے بدلائو کی حمایت میں نہیں ہے۔پولس نے چیف جسٹس جی روہنی اور جسٹس جینت ناتھ کے سامنے کہا ہے کہ وہ جن اصطلاحات کا استعمال کرتی ہے ،اسے عام آدمی بخوبی سمجھتا ہے، لہٰذا اس میں کسی بدلائو کی ضرورت نہیں ہے۔دلی پولس نے کہا ہے کہ اردو الفاظ کے خلاف دائر درخواست مسترد کردی جائے کیونکہ ان الفاظ کو ہٹانے سے عام لوگوں کو نئے الفاظ سمجھنے میں دشواری ہوگی۔ پولس نے اپنے حلف نامے میں کورٹ کو بتایا ہے کہ پولیس کی طرف سے استعمال کئے جانے والے ان الفاظ کو سمجھنے میںوکلاء سمیت کسی بھی شخص کو کوئی دقت نہیں ہوتی ہے۔ یہی نہیں، پولیس ٹریننگ کالج میں تربیت کے دوران ان الفاظ کے استعمال کے لئے کوئی اضافی وقت، پیسہ یا افرادی قوت بھی استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 631