donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Wazeer Azam Ki Bargah Me Ulma Ki Hazri Ya Qaum Ko Zaleel Karne Ki Koshish


وزیر اعظم کی بارگاہ میں ’’علمائ‘‘ کی حاضری

 

یا قوم کو ذلیل کرنے کی کوشش


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


   آخر وزیراعظم کو اچانک مسلمانوں کی یاد کیوں آئی؟ کیا واقعی اقلیتوں کے تعلق سے ان کے نظریات میں تبدیلی آچکی ہے؟کیا وزیر اعظم نریندر مودی مسلمانوں کے قریب آنا چاہتے ہیں؟ وہ اب مسلمانوں کے ہمدرد بن چکے ہیں؟ کیا وہ لوک سبھا الیکشن میں مسلمانوں سے کئے ہوئے وعدے پورے کرنا چاہتے ہیں؟کیا حال ہی میں مسلم وفد سے ان کی ملاقات اسی راستے پر آگے بڑھنے کی کوشش ہے؟ آخر اس ملاقات کے لئے وزیر اعظم نے وہی وقت کیوں چنا جب وہ غیر ملکی دورے پر جانے والے تھے اور یوروپی ملکوں کے سامنے انھیں اپنی سیکولر شبیہ پیش کرنے کی ضرورت تھی؟ اس ملاقات کا مقصد کہیں یہ تو نہیں کہ وزیر اعظم دنیا کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ بھارت کا اکثریتی مسلم فرقہ ان کے ساتھ ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ انھوں نے خاموشی کے ساتھ ملاقات کا پروگرام کیوں بنایا ،جس بات کی مسلمانوں کو پہلے خبر ہونی چاہئے تھی ،انھیں وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والی پریس ریلیز سے ہوئی؟ یہ وفد اچانک کیوں ملا؟ اگر ملنا ہی تھا تو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو اس میں شامل کیوں نہیں کیا گیا؟ آخر کیا سبب تھا کہ کچھ مخصوص قسم کے تنگ نظر لوگوں کو ہی وزیر اعظم سے ملوانے کے لئے لایا گیا؟ اس کے پیچھے مسلمانوں کے اندر پہلے سے موجود اختلافات کو ہوا دینا مقصود تو نہیں تھا؟ آخر کیا وجہ تھی کہ وزیر اعظم کے سامنے بھی یہ مولوی مسلکی اختلافات کے مظاہرے سے نہیں چوکے اور وہابیوں کو دل کھول کو برا بھلا کہا؟ ان لوگوں کی ملاقات کا اہتمام کس نے کرایا اور کیوں؟اس وقت بہت سے سوال اٹھ رہے ہیں اور اگرکچھ سوالوں کا جواب ملتا ہے تو بعض سوالات مزید الجھن پیدا کرتے ہیں۔


    گزشتہ دنوں چند مسلمانوں پر مشتمل وفد نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی ۔ اس میں کوئی بھی ایسا مسلمان نہیں تھا جس

سے عام مسلمان متعارف ہوں۔ وزیر اعظم کے قریبی کہے جانے والے ظفر سریش والا کچھ دنوں سے اس کوشش میں ہیں کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور کچھ دوسری مسلم تنظیموں کے علماء ، دانشوروںاورسرکردہ مسلمانوں کو وزیر اعظم سے ملوائیں تاکہ وہ مسلمانوں کے مسائل حکومت کے سامنے رکھ سکیں مگر بیل منڈھے نہیں چڑھی ہے اور بورڈ کے ارکان میں شدید اختلافات ہیں۔ اسی بیچ اچانک میڈیا میں خبر آئی کہ مسلم علماء کے ایک وفد نے وزیر اعظم سے ملاقات کی ہے اور مسلم مسائل کو ان کے سامنے رکھا ہے۔ اس خبر نے بہتوں کو چونکایا کیونکہ اس میں شامل لوگوں سے کسی کو واقفیت نہیں تھی۔ نہ میڈیا کو بلایا گیا تھا اور نہ ہی عوام کو اس کی پیشگی جانکاری دی گئی تھی۔ وفد کے لوگوں نے کوئی پریس کانفرنس بھی نہیں کی اور اس مٹینگ کی جو تفصیلات سا منے آئیں وہ ایک پریس ریلیز سے آئیں جو وزیر اعظم کے دفتر نے جاری کی تھی۔

مسلم وفد کی ملاقات

    وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ایک پریس ریلیز کے مطابق مسلم کمیونٹی کے ملک بھر سے آئے کچھ رہنماؤں اور علماء ومشائخ نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی اور انہیں اپنی تشویش سے آگاہ کیا۔وزیر اعظم کے سامنے بنیاد پرستی کو فروغ دینے کے رجحان اور دہشت گردی کے بڑھتے خطرے کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے رہنماؤں نے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے زیادہ یکجہتی دکھانے اور اجتماعی کوشش کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان لیڈروں نے مسلمانوں کے مقاماتِ مقدسہ ، مساجد اور مدارس کی جانب وزیر اعظم کی توجہ مبذول کرائی۔ نریندر مودی نے بھی مسلم مسائل کی طرف دھیان دینے کی بات دہرائی اور مسلمانوں کو خاص طور سے تعلیم کے میدان میں بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لئے حکومت سے مدد دینے کو کہا۔وزیر اعظم نے وفد کی بات کو غور سے سنا اور مسلم سماج کے تمام طبقوں کی شکایات کو دور کرنے میں مکمل تعاون دینے کا یقین دلایا۔ انہوں نے مسلم نوجوانوں کو باروزگار اورخوشحال بنانے پر زور دیا تاکہ وہ ملک کی تعمیر میں اہم کردار ادا کر سکیں۔ انہوں نے ان کی سماجی حیثیت کو بہتر بنانے اور ان کی تعلیم سے متعلق ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مکمل طور پرمدد دینے کا وعدہ کیا۔مسلم لیڈروں نے تیز اقتصادی ترقی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن کو فروغ دینے اور قومی سلامتی کو مضبوط کرنے کے لئے مسلم کمیونٹی کی طرف سے مکمل حمایت دینے کا وزیر اعظم کو یقین دلایا۔ ملاقات کے لئے آئے مسلم لیڈروں میں سید سلطان الحسن، مصباحی( اجمیر شریف)،مولانا غلام یاسین (شہر قاضی، وارانسی)، شیخ وسیم اشرفی،(امام تنظیم، ممبئی) مولانا تسلیم رضا(بریلی)،محمد حامد (قومی صدر، امام تنظیم، ناگپور) سید عبد راشد علی ( شہڈول، مدھیہ پردیش)، مولانا ابو بکر بسانی (ناگور شریف درگاہ، راجستھان) ، سید علی اکبر  (چنئی)حافظ عبدالحفیظ خان (امام، تنظیم بالاگھاٹ)شامل تھے۔

آخر کون ہیں یہ علمائ؟

    مسلمانوں کے لیڈر اور عالم دین کے طور پر جن حضرات نے نریندر مودی سے ملاقات کی وہ کون ہیں؟ یہ سوال اہم ہے کیونکہ عام ہندوستانی مسلمانوں کا رہنما ہونے کا دعویٰ کوئی بھی شخص نہیں کرسکتا۔ آج تک مسلمانوں نے کسی بھی عالم، شیخ یا سیاسی لیڈر کو اپنا رہنما قرار نہیں دیا اور نہ ہی کسی خودساختہ لیڈر کے پیچھے وہ دوڑے ہیں۔ جن لوگوں کو عام مسلمانوں کا لیڈر کہہ کر وزیر اعظم سے ملوایا گیا وہ اصل میں کسی خاص طبقے کے لیڈر بھی نہیں ہیں۔ میڈیا میں یہ خبر بھی آئی کہ یہ حضرات بریلوی مکتبہ فکر کے ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ انھیں بریلوی عوام تو

دور خواص بھی نہیں جانتے ہیں۔ان میں سے ایک صاحب کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ وہ بنارس میں گزشتہ لوک سبھا الیکشن کے دوران اروند کجریوال کی حمایت میں سرگرم تھے نریندرمودی کی مخالفت کر رہے تھے مگر اب جب کہ مودی الیکشن جیت چکے ہیں اور سب سے بااثر منصب پر فائز ہیں تو وہ مودی کی بارگاہ میں حاضری کے لئے چل پڑے۔ ایک دوسرے صاحب کے بارے میں کہاجا تا ہے کہ وہ رام پور کے رہنے والے ہیں اور یہاں مسلمانوں کے بیچ اختلافات پیدا کرنے اور مسلک کے نام پر ان میں ٹکرائو پیدا کرنے میں وہ پیش پیش رہتے ہیں۔ا ن کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ مرکزی وزیر مختار عباس نقوی اور یوپی کے وزیر برائے شہری ترقیات اعظم خاں کے خلاف کفر کے فتوے تک جاری کر چکے ہیں اور انھیں تجدید نکاح اور تجدید ایمان کا حکم دے چکے ہیں۔ حالانکہ انھیں اکثر اعظم خان کی چوکھٹ پر دیکھا گیا ہے اور اندرون خانہ جو خبریں گردش کر رہی ہیں ان کے مطابق اس ملاقات کا اہتمام مختار عباس نقوی نے ہی کرایا تھا۔ وزیر اعظم سے ملنے والے وفد میں جو حضرات شامل تھے، ان میں سے بیشتر لوگوں کے بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں،حالانکہ ان کے متعلق یہ بتایا گیا ہے کہ وہ کسی درگاہ کے سجادہ نشیں ہیں ۔ ان میں سے کچھ لوگوں کو ان کے علاقے میں مقامی طور پر جانا جاتا ہے اور بہت اچھی شبیہہ نہیں رکھتے ہیں۔بعض ایسے حضرات بھی اس وفد میں شامل تھے جو مسلمانوں کے اندر خانہ جنگی کرانے کے لئے شہرت رکھتے ہیں اور مسلک کے نام پر بھولے بھالے مسلمانوں کو لڑاتے رہے ہیں۔ حالانکہ اسی دوران درگاہ اجمیر شریف کے دیوان کا کہنا ہے کہ ان کے نام سے کسی دوسرے شخص نے وزیر اعظم سے ملاقات کی ہے۔ درگاہ حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی کے موروثی سجادہ نشین اور دیوان سیدزین العابدین علی خان نے میڈیا میں چل رہی ان خبروں کی پرزور الفاظ میں تردید کی ہے، جس میں وزیر اعظم نریندر مودی سے ملے مسلمانوں کے وفد میں اجمیر کے سجادہ نشیں کو بھی شامل ہونا بتایا گیا ہے۔ ان کے دفتر سے تردید جاری کرتے ہوئے اس پر سخت اعتراض کیا گیااور کہا گیاکہ جو بھی شخص وزیر اعظم سے اجمیر کے سجادہ نشین کے طور پر ملا ہے، وہ اجمیر کا سجادہ نشین نہیں ہے۔ ان کے نام یا عہدے کا استعمال کرکے کوئی شخص اگر وزیر اعظم سے ملا ہے تو اس نے نہ صرف وزیر اعظم کو دھوکے میں رکھا ہے، بلکہ ملک کی سپریم سلامتی ایجنسی میں نقب لگا کر وزیر اعظم کی سیکورٹی کو بھی  دھوکہ دے گیا ہے۔دیوان کے اس بیان کو کس نظر سے دیکھا جائے یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔

مسلکی اختلافات کی جھلک

    مبینہ مسلم وفد جو وزیر اعظم سے ملاقات کے لئے گیا تھا اس نے جو باتیں کیں ، ان کی بیشتر تفصیلات صیغہ راز میں ہیں مگر ایک بات سامنے آئی ہے کہ انھوں نے وزیر اعظم سے کہا کہ وقف بورڈ اور اس جیسے اداروں میں وہابیوں کا تسلط ہوتا جارہا ہے ، یہاں تک کہ درگاہوں کی جائدادوں پر بھی یہی قابض ہوتے جاتے ہیں، لہٰذا اب وزیر اعظم مداخلت کریں اور اس قسم کے عہدے وہابیوں کے بجائے، ان کے ہم خیال لوگوں کو دیں۔ ہمیں یہ تو نہیں پتہ کہ مولویوں کی اس بات پر وزیر اعظم نے کیا جواب دیا مگر اس قسم کی باتوں سے وفد میں شامل لوگوں کی سوجھ بوجھ کے معیار کا پتہ چلتا ہے۔ غور طلب ہے کہ اس قسم کی باتیں صوفیہ کرام کے نظریات کے خلاف ہیں جن کے درگاہوں کی سجادہ نشینی کے یہ حضرات دعوے کرتے ہیں اور اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے نظریات سے بھی مطابقت نہیں رکھتیں جن کے مسلک کا یہ خود کو پیروکار بتاتے ہیں۔ ویسے بھی حماقت کا کوئی مذہب، مسلک اور مشرب نہیں ہوتا۔یاد رہے کہ جب ہلاکو خاں نے بغداد پر حملہ کیا تھا تو

مسلمان مسلکی بحثوں میں الجھے ہوئے تھے اور اسے بلانے والا بھی ایک ’’مسلمان‘‘ ہی تھا جو مسلکی عصبیت سے دوچار تھا۔ جس قسم کی باتیں مبینہ علماء ومشائخ نے مودی کے سامنے کیںانھیں پڑھ کر ایسا محسوس ہوا کہ ہم بھی تاریخ کی جانب لوٹ رہے ہیں۔

وزیر اعظم سے ملاقات کا اہتمام کس نے کرایا؟

    وزیر اعظم نریندر مودی بہت مصروف رہتے ہیں اور ان کے پاس اپنے منتریوں سے ملنے کا وقت بھی نہیں رہتا ہے ایسے میں اس مبینہ مسلم وفد کو ان سے ملوانے کا اہتمام کس نے کرایا؟ اس سلسلے میں پہلا نام تو مختار عباس نقوی کا آتا ہے جو مرکزی کابینہ میں اقلیتی امور کے وزیر ہیں۔ دوسرا نام جنتا دل (یو) کے ایک لیڈٖر کا آتا ہے جنھیں ابھی پچھلے دنوں نتیش کمار نے راجیہ سبھا کا ممبر بنا دیا تھا۔ ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ وہ نتیش کمار کے لئے کس قدر مفید ثابت ہونگے مگر فی الحال جس طرح وہ نریندر مودی سے قربت بنانے می

 لگے ہوئے ہیں ، وہ نتیش کمار کے لئے کوئی اچھا پیغام نہیں ہے۔

آخر وزیر اعظم کو مسلم وفدسے ملنے کی ضرورت کیوں پڑی؟

    اگر وزیر اعظم مسلمانوں کے مسائل میں دلچسپی رکھتے ہیں تو اچھی بات ہے، ایک حکومت کے سربراہ کے طور پر ان کی ذمہ داری بنتی ہے۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ مسلمان لیڈران ان سے ملیں اور مسلمانوں کے مسائل ان کے سامنے پیش کریں۔ ظاہر ہے کہ جس کو عوام نے اقتدار سونپا ہے، اسی کے پاس اس ملک کے شہری اپنے مسائل لے کر جائیں گے۔ یہ کام اگر مسلمانوں کے سمجھدار اور پڑھے لوگ حضرات کریں تو بہتر ہے، مگر جس جلد بازی میں کچھ لوگوں کو مسلمان لیڈر کے طور پر وزیر اعظم سے ملوایا گیا وہ اپنے آپ میں شکوک وشبہات پیدا کرتا ہے۔ وزیر اعظم، فرانس، جرمنی اور کینیڈا کے دورے پر جانے والے تھے اور یہاں سیکولرزم کے سوال پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔بی جے پی اور نریندر مودی کی عالمی شبیہ ایک شدت پسند ہندتو وادی کی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ وہ فرانس اور یوروپ کو پیغام دینا چاہتے تھے کہ وزیر اعظم کے طور پر وہ ’’راج دھرم‘‘نبھا رہے ہیں اور سب کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں۔ ویسے وزیر اعظم اگر مسلمانوں کے مسائل میں واقعی دلچسپی رکھتے ہیں تو انھیں سیدھے طور پر مسلمانوں سے رابطہ کرنا چاہئے ، انھیں روزگار اور تعلیم کے مساوی مواقع دینا چاہئے اور اپنے ان لیڈروں کو کنٹرول میں رکھنا چاہئے جو اشتعال انگیزی کرکے ملک کے فرقہ وارانہ ماحول کو خراب کرتے رہتے ہیں۔

(یو این این)

************************

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 487