donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Gholam Ghaus
Title :
   Urdu Bachao Tahreek Sirf Nara Hai Ya Tahreek


 اردو  بچاو  تحریک  صرف  نعرہ  ہے  یا  سچائی  ؟


 از  :  غلام غوث  ،  کورمنگلا  ،  بنگلور  ۔ 

فون  :  9980827221


                 آجکل ہر جگہ اردو  بچاو کے نعرے لگ رہے ہیں  ۔مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اردو  کو بچانے اور اسے بھارت کے تمام باسیوں میں عام کر نے کی بات کر رہا ہے  ۔  اکثر ریاستوں میں اردو  اکاڈمیاں قائم ہیں جنکا واحد مقصد اردو کو فروغ دینا ہے  ۔  ریاستی حکومتیں ان اکاڈمیوں کو  کڑوڑوں روپیے سرکاری امداد دے رہے ہیں  ۔  مگر اردو کو کس طرح بچانا ہے اور اس کے لئے کیا راہیں نکالنا ہے اس پر غور و خوص کر نا اور عملی اقدام کر نا ایک مشکل کام لگ رہا ہے  ۔  سوائے کیرلا  ،  چنائی  اور آسام کے اردو پورے بھارت میں ہر مسلمان اور چند غیر مسلموں کے گھروں میں بولی جا تی ہے  ،  مگر اسکا زیادہ لکھنا پڑھنا کرناٹک  ،  آندھرا اور مہاراشٹرا میں ہے  ۔  سارا بھارت دیش آج سمجھ رہا پے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے اور خود مسلمان بھی اسکی بقا کے لئے ایسی جد و جہد میں مبتلا ہیں جیسے یہ صرف مسلمانوں ہی کی زبان ہے  جسمیں مسلمانوں کا تمام دینی اور دنیوی ذخیرہ محفوظ ہے  ۔  حالانکہ سچائی یہ ہے کہ یہ خاص مسلمانوں کی زبان نہیں ہے   ۔  یہ زبان در  اصل مسلم بادشاہوں نے  بھارت کی ملی جلی عوام پر حکومت کر نے کے لئے فارسی  ،  سنسکرت  ،  ہندی اور دیگر زبانوں کو ملا کر بنائی تھی  ۔  کچھ ریسرچ اسکالرس کا کہنا ہے کہ جب انگریزوں نے مسلم حکمرانوں سے سیاسی اقتدار چھین کر انہیں بیکار کر دیا تو یہ حکمران اور انکے ساتھی وقت گزارنے اور دل بھلائی کے لئے شعر و شاعری کی محفلوں کو فروغ دیا اور اپنے تمام غم و غصہ کو اور خیالی باتوں کو اشعارکی شکل میں پیش کر نا شروع کر دیا  ۔  اسطرح اردو زبان انگریزوں کے اقتدار کے باوجود فروغ پا تی رہی  ۔  آج بھی کچھ حضرات جو اردو اکاڈمیوں سے جڑے ہوے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ شعر و شاعری کی محفلیں کر دینے سے اردو فروغ پا جائے گی  ۔  مگر ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ ایسی محفلوں میں عام لوگ تو نظر نہیں آتے بلکہ کچھ پچاس یا سو حضرات  حصہ لیتے ہیں  ۔  ہر محفل میں یہی چہرے ہو تے ہیں جبکہ عام آدمی اپنی روزی روٹی کے چکر میں گھومتا رہتا ہے  ۔  اس سے صاف ظاہر ہے کہ ایسی محفلوں سے اور پرجوش تقاریر سے اردو کا بچنا اور اسکا فروغ مشکل ہے  ۔  اردو دنیا کی سب سے میٹھی زبان ہے  ،  ہمارا تمام علمی خزانہ اردو میں محقوظ ہے  ۔  اردو ہی ہماری مادری زبان ہے ۔ اسی لئے میں چاہتا ہوں کہ ہر کوئی اردو سیکھے  ،  اپنے بچوں کو اردو ہی میں پڑھائے  ،  اردو سے محبت کرے ،  تمام خط و کتابت اردو ہی میں کرے اور اردو اسکولوں کو آباد کرے  ۔  میں تو ہر کسی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو اردو اسکولوں میں ڈالے  ۔  مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہر کوئی مجھ سے سوال کر تا ہے کہ میں اپنے بچوں کو اردو اسکولوں میں داخلہ کیوں نہیں دلایا  ،  میرے بچے اردو کیوں نہیں جانتے ،  انگریزی کانونٹوں میں کیوں پڑھتے ہیں ؟  بیوقوف یہ نہیں جانتے کہ میں اپنے بچوں کو اردو اسکولوں میں ڈالکر انکا  مستقبل خراب کر نا نہیں چاہتا  ؛  اردو اسکولوں کے ٹیچر اچھی طرح جانتے ہیں کہ انکی اردو اسکولوں میں پڑھنے والے بچے بڑی مشکل سے ترقی کر تے ہیں  ۔  اسکا ثبوت یہ ہے کہ وہ خود اپنے بچوں کو خود اپنی اسکولوں میں داخلہ نہیں دلاتے بلکہ وہ اپنے بچوں کو انگریزی کانونٹوں میں پڑھا تے ہیں  ۔  اگر یقین نہ ہو تو چھان بین کر کے دیکھ لیجیے ۔ انکو بھی دیکھ لیجیے جو اردو کی پر جوش حمایت کر تے ہیں  ۔  اب کون منافق ہیں اور کون نہیں یہ خود آپکو معلوم ہو جائے گا ۔  میں نے تو اپنی تسلی کر لی ہے ؛  اب آپ بھی تسلی کر لیجیے  ۔  اب آپ ہی بتاییے کہ میں کیوں اپنے بچوں کا مستقبل چند ٹیچروں اور شاعروں کے لئے برباد کروں  ۔  اسی لئے میں دوسروں کو نصیحت کر تا ہوں کہ وہ اردو اسکولوں کو بند ہو نے سے بچانے کے لئے اپنے بچوں کا مستقبل داو پر لگائیں ۔  میں ہر جگہ اردو کے فروغ کے لئے دھوان دار تقریریں کر تا ہوں  ،  نعرے لگا تا ہوں اور دوسروں کو ورغلاتا ہوں  مگر خود اس جال میں نہیں آ تا  ۔  امریکہ میں بھی بھارت اور پاکستان کے عمر رسیدہ لوگ اردو کو بچانے کو لیکر غور و خوص میں مشغول ہیں  ۔  چند سال پہلے میری ملاقات  ایک نہایت ہی ہونہار اور قابل ترین مسلم نوجوان مسٹر اسد خان سے آسٹن میں ہوی  ۔  اس نوجوان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر مسلہ پر عام سوچ سے ہٹ کر  out of the box سوچتے ہیں جو ایک عام آدمی نہیں کر تا  ۔  انہوں نے کہاکہ آج ہندستان اور پاکستان ہر جگہ لوگ اردو اور ہندی فلمیں دیکھتے ہیں  ۔  جن فلموں کو ہم ہندی فلمیں کہتے ہیں وہ زیادہ تر اردو فلمیں ہو تی ہیں جنمیں تمام ڈائلاگ اور گانے نود فیصد اردو ہو تے ہیں  ۔  پچھلے ساٹھ سالوں سے عوام کی یہ عادت بن گئی ہے کہ وہ فلمی ڈائلاگ سمجھنے میں ماہر ہو گئے ہیں  ۔  ہندی کا نام ضرور ہے مگر وہ در اصل اردو ہے جسے ہر کوئی سمجھنے لگا ہے  ۔  مسلمانوں کا یہ مسلہ بھی ہے کہ انکے مسائل انگریزی اور کنڑا اخباروں میں بہت کم آتے ہیں جسکے سبب غیر مسلم حضرات انکے مسائل اور خیالات سے واقف نہیں ہیں  ۔  ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ کچھ ایسا طریقہ نکالا جائے جس سے مسلمانوں کے خیالات دوسرے غیر مسلموں تک پہنچیں  ۔  مسٹر اسد خان نے کہا کہ کیوں نہ ایک اخبار یا ویکلی یا ماہ نامہ ایسا نکالا جائے جس کی زبان تو اردو ہو مگر مگر حروف انگریزی ہوں  ۔  یہ طریقہ انگریزوں نے بھی اپنایا تھا جب نئی نئی حکومت انہیں ملی تھی اور وہ عوام کے خیالات معلوم کر نا چاہتے تھے  ۔  اس طرح ہم مسلمان اپنے خیالات غیر مسلموں تک پہنچا سکیں گے اور اردو کو بھی فروغ دے سکیں گے  ۔  عربی مدارس اور اردو اسکولوں میں اردو تو زمانے دراز سے رائج ہے مگر اس طرح کا اردو اخبار اردو اکاڈمیوں کی مدد سے نکال کر ہم اردو  کی  خدمت انجام دے سکتے ہیں  ۔  اس سے اکثر غیر مسلم اردو پڑھیں گے اور ہمارے خیالات اور مسائل سے بھی آگاہ ہو تے رہیں گے  ۔  اردو کو روزی رووٹی سے جوڑ نے کی کوشش بھی ہو رہی ہے اور اسے کئی ریاستوں میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ بھی دیا گیا ہے  ۔  ایسے میں یہ تیسری کوشش بھی اردو کو فروغ دینے میں کافی مددگار ثابت ہو گی  ۔  اردو اسکولوں کا میعار اس وقت تک اچھا نہیں ہو گا جب تک کہ خود اس کے ٹیچروں کے بچے ان اسکولوں میں نہیں پڑھتے جیسا اب سے پچاس سال پہلے ہوا کر تا تھا   ۔  ٹیچروں کے بچوں کا ان اسکولوں میں نہیں پڑھنا اس بات کا ثہوت ہے کہ اردو اسکولوں کا میعار  گھٹیا ہے اور اردو سیکھنے سے بچوں کا مستقبل روشن نہیں ہو تا  ۔  ریسرچ اسکالرس کا کہنا ہے کہ بچے سات سال کی عمر میں بارہ زبانیں ایک ساتھ سیکھ سکتے ہیں  ۔  تو کیوں نہ ہم آج کے دور میںجب ساری دنیا میں انگریزی  کو فوقیت حاصل ہے ہم پرئمری سطح سے ہی تین زبانیں اردو  ،  مقامی زبان اور انگریزی سکھائیں اور پھر پانچویں جماعت سے انگریزی کو فرسٹ لینگویج بنا کر مقامی زبان کو دوسرا درجہ اور اردو کو آپشنل سبجکٹ کا درجہ دے دیں  ۔  اس سے اردو کمپلسری نہ ہو تے ہوے بھی ہر بچہ اردو لکھ پڑھ سکتا ہے  ۔  عربی مدرسے تو اردو عربی اور انگریزی کے ساتھ مقامی زبان پانچویں سال سے آسانی کے ساتھ سیکھ سکتے ہیں   ۔  راجندر سچر نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ہر اسکول  ، کانونٹ اور کالج جہاں کم سے کم 25 مسلم بچے ہیں وہاں اردو کو ایک آپشنل سبجکٹ کے طور پر لاگو کر سکتے ہیں  ۔  یہ کام ہم ہر ریاست میں سرکار کی جانب سے لاگو کر سکتے ہیں  ۔  اس طرح اردو بھی پروان چڑھے گی اور اردو دان بھی زیادہ ہو جائیں گے اور مجھ جیسے بھی اپنے بچوں کو اردو اسکولوں میں داخلہ دلائیں گے  ۔  اردو کی کسمپرسی پر کئی مضامیں اخباروں میں آ رہے ہیں مگر  اردء اکاڈمی کے ذمہ دار ایسے خاموش ہیں جیسے ہم صرف بکواس کر رہے ہیں اور وہی سب کچھ کر رہے ہیں  ۔ نہ کچھ لکھتے ہیں اور نہ ہی ہم جیسوں سے فون پر بات کر تے ہیں  ۔ سچ تو یہ ہے کہ اردء اکاڈمی سے نہ اردو  کو فائدہ ہو رہا ہے اور نہ ہی اردو دانوں کو ۔ صرف مشاعرے کر نے والوں کو کچھ مالی مدد شاید مل رہی ہے  ۔  اصل خدمت تو اردو  اخبار کر رہے ہیں  اور عربی مدرسے کر رہے ہیں  ۔ بہتر یہی ہو گا کہ اردو اکاڈمی کو جو مالی امداد حکومت دے رہی ہے اسے اردو اخباروں کی انجمن کو دے دی جائے اور اسی کو چیر مین بنا دیا جائے  ۔   آج گھریلو کام کر نے والی آیا بھی اپنے کسی ایک بچہ کو کانونٹ میں تعلیم دلانے میں فخر محسوس کر رہی ہے  ۔ ہمارے بچے انگریزی کانونٹوں میں پڑھیں اور غریبوں کے اردو اسکولوں میں یہ کہاں کا انصاف ہے  ۔   میرے اس خیال پر تنقید ضرور کیجیے مگر غور بھی ضرور کیجیے ۔  صرف جذبات اور باتوں سے اردو بچ نہیں سکتی  اور اگر بچ نہ سکی تو مسلمانوں کا کوئی نقصان بھی نہیں ہو گا  ۔ 

(یو این این)

*********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 549