donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Gul Bakhshalvi
Title :
   Goli Haar Gayi Malala Jeet Gayi

 گولی ہار گئی  ملالہ جیت گئی ۔۔۔۔۔

 گل بخشالوی


    دنیائے اسلام کی عظیم مملکت پاکستان کی جنت نظر وادی سوات کی شہزادی فخر پختون قوم کی عظیم بیٹی ملالہ یوسف زئی نے امن اور خواتین کی تعلیم کے عزم پر نوبل انعام کا اعزاز10دسمبر 2014ءکو ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے سٹی ہال میں وصول کر لیا ۔سٹی ہال میں دنیا کے عظیم مدبر تشریف فرماتھے ملک غیر اسلامی تھا لیکن تقریب میں ابتداءہوئی اللہ ہو اللہ ہو سے دنیا نے دین مصطفےٰ کی شان دیکھی وجد کے عالم میں پاکستان کا خوبصورت چہرہ دیکھا ۔دین مصطفےٰ کے علمبرداروں نے اپنی بیٹی کے عزم اور حوصلے میں قوم کی پہچان دیکھی اور میرے پاکستان کی قوم نے اپنے قوم کی آن دیکھی ۔صرف اور صرف ملالہ یوسف زئی کے عزم وہمت کی بے مثال شان اور کردار ہیں ۔

    قوم سلام کرتی ہے اپنی عظیم بیٹی کو جس نے اوسلو سٹی ہال میں انتہائی کم عمری میں دنیائے عالم کو دین مصطفےٰ کی شان اور پیارے پاکستان کا خوبصورت چہرہ دیکھا یا۔ملالہ نے کہا میں اپنے والد کو سلام کرتی ہوں جس نے میری علمی پرواز کے پر نہیں کُترے ۔میں سلام کرتی ہوں اپنی ماں کو جس نے میری پرواز میں میری رہنمائی کی مجھے فخر ہے اپنی اُن سہیلیوں پر جو دہشت گردی کے لمحے میں میرے ساتھ رہیں ۔یہ نوبل انعام صرف میرا نہیں بلکہ اُن بچوں اور بچیوں کیلئے ہے جو تعلیم چاہتے ہیں اُن خوفزدہ بچیوں کا ہے جو امن چاہتی ہیں اُن بے زبان بچوں کا ہے جو تبدیلی چاہتے ہیں ۔آج بچوں پر ترس کھانے کا وقت نہیں اُن کے تابناک مستقبل کیلئے عملی اقدامات کا وقت ہے ۔میں چاہتی ہوں کہ دنیا کے ہر کونے میں امن ہو خواتین کو اُن کے بنیادی حقوق ملیں ۔بچوں کو چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی تعلیم کا بھرپور حق ملے میری کہانی کوئی انوکھی کہانی نہیں یہ آج کے دور میں ہر بچی کی کہانی ہے میں صرف ملالہ نہیں 6کروڑ بچیوں کی آواز ہوں ۔میں سوال کرتی ہوں دنیا کے طاقتور اور بااثر ممالک سے !بندوق تقسیم کرنا آسان ہے بچوں کے ہاتھ میں کتاب دینا مشکل ! ٹینک بنانا آسان ہے سکول بنانامشکل ! ایسا کیوںہے ؟

    میںنوبل انعام کیساتھ ملنے والی رقم ملالہ فنڈز کو دیتی ہوں اپنے آبائی علاقہ سوات اور شانگلہ میں تعلیم وتربیت پر خرچ کرنے کیلئے امن کا نوبل انعام میرے سفر کا نقطہ ¿ آغاز ہے اس انعام سے مجھے حوصلہ ملا بچوں کے حقوق کی مہم کو آواز ملی ،میں اپنی پختون بہنوں سے کہوں گی آؤ میرے دست بازو بن جاؤ تمہارا دشمن کمزور ہے ہمارا عزم طاقتور ہے آؤ علم حاصل کریں جہالت کا خاتمہ کریں طالبان کی گولی میرا راستہ نہ روک سکی گولی ہارگئی علم کی آواز جیت گئی ۔

    آپ پوچھتے ہوں گے آخر ملالہ ہے کون ! ملالہ سوات کی معصوم بیٹی ہے پختون غیرت مند معاشرے میں زندگی کی آنکھ کھولنے والی ملالہ اُس وقت گل مکئی بن گئی جب سوات اور گردونواح میں طالبان دہشت کی علامت تھے ۔گل مکئی BBCکیلئےءلکھا کرتی تھی ہم کس عذاب میں ہیں ظالمان کیا کررہے ہیں ۔وہ معصوم تھی لیکن طالبان سے خوفزدہ نہیں تھی ۔طالبان پریشان تھے کون ہے خفیہ رپورٹیں میڈیا کو دینے والا اور جب اُنہیں علم ہوا تو تلاش میں نکلے ۔گل مکئی سکول وین میں سہیلیوں کیساتھ سکول سے گھر جارہی تھی ظالمان آئے پوچھا تم میں ملالہ کون ہے ؟نشاندہی ہوئی تو گولی چلی لیکن یہ گولی موت کا پیغام نہ بن سکی بلکہ ملالہ اور اُس کی سہیلیوں کے خون میں امن اور حصولِ علم کی علامت بن گئی عزم واستقلال کی پہچان بن گئی ۔ملالہ جن کیلئے لکھتی تھی اُنہوں نے ہیرے کوبچانے کیلئے برطانیہ پہنچایا ۔اُس کے چہرے کی خوبصورت ساخت بدل گئی لیکن عزم جوان ہوگیا اور اس عزم پر دنیا نے اُس پر اعزازات کی برسات کر دی اور آخر اس مقام پر لاکھڑا کیا جس پر قوم بجا طور پر فخر کر سکتی ہے ۔

    نوبل انعام ملنے پر ملالہ یوسف زئی نے کہا میں قومی سیاست میں شہید بے نظیر بھٹو سے متاثر ہوں میں مستقبل میں قوم کی خدمت چاہتی ہوں اگر قوم نے مجھے میرے کردار کے اعزاز میں اعتماد کا ووٹ دیا تو میں پاکستان کی وزیر اعظم بننا چاہوں گی قومی سیاست میں اپنا کردار اداکروں گی اپنے وطن کی خدمت کرنا چاہتی ہوں اپنے دیس کو اندھیروں سے نکالنے کا عزم رکھتی ہوں ۔میرا خواب ہے میرا پاکستان دنیا کا عظیم ترین ملک بن جائے ۔وہ ملک جس میں ہر بچہ تعلیم حاصل کرے ہر فرد تعلیم یافتہ ہو آج نوبل انعام ملنے کے بعد میں خود کو زیادہ مضبوط سمجھنے لگی ہوں ۔میں جان گئی ہوں کہ جس شاہراہ کی مسافر ہوں دنیا کے عظیم مدبر میرے ساتھ ہیں ۔اس سے بڑا اعزاز اور کیا ہوسکتا ہے میں اس اعزاز پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں ۔میں جانتی ہوں میں اپنے قول وفعل ،عمل اور کردار میں اللہ رب العزت اور اپنے آپ کو جوابدہ ہوں آج میں فخر سے کہہ سکتی ہوں طالبان کی گولی ہارگئی ،ملالہ یوسف زئی جیت گئی ۔

    ملالہ یوسف زئی ! قوم تیرے حسین کردار اور عزم کو سلام کرتی ہے پاکستان تیرا ملک ہے کسی بھی وقت آسکتی ہے لیکن ابھی مت آؤ حالات تمہارے لےے ساز گار نہیں ۔اس قوم کے حکمران اپنی حفاظت نہیں کر سکتے تمہاری کیا حفاظت کریں گے قوم تو احسان فراموش قیادت کے زیر عتاب ہے تنگ نظری کی انتہاءہے ذاتی مفادات کیلئے لاشوں کی

    -- سیاست کھیلتے ہیں آپ کہتی ہیں بے نظیر بھٹو میری آئیڈیل ہیں ۔جانتی ہونا ایک بدبخت نے اُس کے سرکانشانہ لیا ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں دنیا نے دیکھا لیکن قیادت اور قانون کی آنکھوں پر پٹی تھی نہ دیکھ سکی اُس کے شوہر 5سال تک حکمران رہے کہتا تھا قاتل کو جانتا ہوں لیکن بتاؤں گا نہیں آپ کی آئیڈیل کے والد ذوالفقار علی بھٹو دنیا کے عظیم سیاستدان جس نے مجیب الرحمان سے کہا قوم کو ایک جامع آئین کی ضرورت ہے آؤ مل کر خوبصورت اور طاقتور پاکستان بنائیں اُدھر تمہاری 161نشستیں ہیں ادھر میری 81نشستیں ہیں ۔دوسرے دن ایک اخبار نے سُرخی لگائی اُدھر تم ،ادھر ہم !دشمن کےلئے ایک سُرخی اخبار کی کافی تھی حقائق کو کسی نے نہیں سوچا ،اخبار کی سُرخی پر تحریک چلی ایک آمرنے اُسے تختہ دار پر ماورائے عدالت قتل کر دیا ۔
    دور کیوں جائیں کل کی بات ہے ۔فیصل آباد میں کیا ہوا ،دنیا نے دیکھاکہ ایک شخص پولیس کے تحفظ میں شہریوں پر براہِ راست گولی چلا رہا ہے لیکن شناخت تک نہ ہوئی پاکستان میں ظلم وبربریت کے خلاف اُٹھنے والی آواز نے مطالبہ کیا ۔حقائق جاننے کیلئے کھاتے کھول دو حکومت نے کتے کھول دئےے ۔ملالہ صرف آپ نہیں پوری قوم بخوبی جانتی ہے ۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اُس نے ایٹم بم بنا کر پاکستان کی نہ صرف سرحدیں محفوظ کیں بلکہ دنیا اسلام کیلئے پاکستان کے قلعہ کی دیواریں مضبوط کردیں ۔خود پرست حکمرانوں نے اُسے زندہ درگور کر دیا ۔بانی پاکستان کی تاریخی رہائش گاہ کو آگ لگادی ۔عبدالستار ایدھی جیسی عالمی خدمت گار معصوم شخصیت کا گھر لوٹ لیا !


    کیا توقع رکھتی ہیں آپ اپنی قوم کے تنگ نظر لوگوں سے؟ میں جب آپ کو سلام لکھتا ہوں تو کچھ دوست مجھ سے سوال کر تے ہیں صرف ملالہ ہی کیوں ؟جانے وہ یہ سوال پاکستان آرمی اور پاکستانی حکومت سے کیوں نہیں کرتے جنگ میں تو سینکڑوں جوان شہید ہوتے ہیں اپنے وجود سے بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے آگے خود کو اُڑادیتے ہیں ”نشانِ حیدر عزیز بھٹی“کو کیوں دیا جاتا ہے ۔

    ملالہ یوسف زئی اس وقت قوم کی آنکھوں پر خودپرستوں نے بے ضمیری اور تنگ نظری کی پٹیاں باندھ رکھی ہیں قوم اپنے دماغ سے نہیں سوچتی وظیفہ خورملاؤں ،تنخواہ دار افسر شاہی اور ضمیر فروش حکمرانوں کی سوچ کو سوچ رہی ہے اس لےے ابھی وقت نہیں ہے پاکستان آنے کا ۔اگر برطانیہ میں الطاف حسین لاشوں کی سیاست پر قوم کا امن برباد کر سکتا ہے تو آپ علم کے چراغ روشن کرکے قوم کو خوابِ غفلت سے جگاسکتی ہیں آپ کا خواب خوبصورت پاکستان ہے تو خوبصورت پاکستان کیلئے ضرورت ہے علم کی روشنی !یہی ہمارے اور آپ کے نبی کا فرمان ہے !،علم کے چراغ جلاؤ دنیا بہت آگے جاچکی ہے خواتین کے حقوق ہم اُس وقت سوچیں گے جب ہمارے دماغ روشن ہوں دل گلزار بنیں گے اور یہ کیسے ہوگا یہ علم سے ہوگا ۔


    غیر ملکی آپ کے کردار میں آپ کی عظمت جان گئے ہیں ہم پاکستانی نہیں جانتے قوم کچھ بھی کہے اپنے نبی کے پیغام کو عام کر و علم کے چراغ جلاؤاور انشاءاللہ وہ وقت آئے گا جب آپ نیلسن مینڈیلا کی طرح سرزمین پاک پر اُتریں گی قومی آباؤ اجداد کے خوابوں کی تعبیر میں پاکستان کی تقدیر بدلنے کے لیے!

        تمہارے چاہنے والے پاکستان سے محبت کرنے والے آپ کی علمی عظمت کیلئے دعا گو ہیں ۔


    ٭٭٭

Comments


Login

You are Visitor Number : 527