donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Hindustan Ki aakhri Yourupi Tajdar

ہندوستان کی آخری یوروپی تاجدار


حفیظ نعمانی

 

2004 ء کے لوک سبھا الیکشن میں کانگریس نے بی جے پی اور ان کی اتحادی پارٹیوں کو شکست دے دی۔ آزادی کے بعد ہندومہا سبھا جن سنگھ پھر بی جے پی اور آر ایس ایس نے اپنی ساری طاقت جھونک دی، کانگریس کی حمایت کی سزا کے طور پر ہزاروں مسلمانوں کو موت کی نیند سلا دیا اور دلت کہی جانے والی برادریوں کے ہزاروں غریبوں کا جینا حرام کردیا یہاں تک کہ 1977 ء آیا اور انہیں جنتا پارٹی حکومت میں حصہ دار بننا نصیب ہوا۔ لیکن ان کے سب سے بڑے اٹل جی وزیر خارجہ بن سکے اور اڈوانی جی وزیر اطلاعات و نشریات، اس سے بس اتنا ہوا کہ حکمرانی کا ذائقہ ملا اور ڈھائی سال کے بعد وہ بھی سب خاک میں مل گیا۔ اس وقت ان کی پارٹی جن سنگھ تھی۔ اس کے دستور میں کیا تھا یہ ہمیں نہیں معلوم لیکن جنتاپارٹی سے الگ ہونے کے بعد اٹل جی نے مشورہ کے بعد پارٹی کا نام بھی بدل کر بھارتیہ جنتا پارٹی رکھ دیا اور اس کے جھنڈے میں پتلی سی ایک ہری پٹی لگاکر یہ اشارہ دیا کہ یہ صرف ہندوئوں کی پارٹی نہیں ہے بلکہ اس میں مسلمان بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ ان کے اس اعلان کے بعد اس میں وہ مسلمان شریک ہوئے جو اگر نہ شریک ہوتے تب بھی ایسے ہی رہتے جیسے جے شری رام کہنے کے بعد تھے یا ہیں۔ اتنی جدوجہد اور اٹھا پٹخ کے بعد 1998 ء میں بی جے پی کانگریس سے ملک کا اقتدار لینے میں کامیاب ہوپائی۔ لیکن اکیلی پارٹی حکومت بنانے کے قابل نہیں تھی اس لئے انہیں تعاون کی ضرورت پیش آئی اور جب انہوں نے مدد کے لئے پکارا تو وہ تمام چھوٹی بڑی پارٹیاں جنہیں کانگریس سے اختلاف تھا وہ بی جے پی کے پرچم کے نیچے آگئیں اور ان کی تعداد 18  تھی۔

ہمارا نظام ایسا ہے کہ حکومت چاہے جس محاذ کی ہو اس کی شہ رگ وزیر اعظم کے ہاتھ میں رہتی ہے۔ یہی وہ بیماری ہے جس کی بنا پر مدد کی آواز پر آنے والے یہ کہتے ہوئے الگ ہوجاتے ہیں کہ جیسی کانگریس ویسے ہی حکومت بی جے پی کی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب 2004 ء کا الیکشن آیا تو اٹل جی کو حمایت دینے والی دس پارٹیاں ناراض ہوکر جاچکی تھیں لیکن اٹل جی کو یقین تھا کہ وہ پھر حکومت بنالیں گے اس لئے کہ انہوں نے صرف حکومت کی خاطر پچاس برس تک کشمیر کی دفعہ 370  کو ختم کرنے، یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے اور اجودھیا میں رام مندر بنانے کے مطالبہ کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا تھا۔ اٹل جی کو توقع تھی کہ انہیں ہندوئوں کے ان مطالبات کو نظرانداز کرنے کا یہ انعام ملے گا کہ معقول تعداد میں مسلمانوں کے ووٹ مل جائیں گے۔ اس کے علاوہ ایک بڑا کام یہ کیا کہ انہوں نے مسلمانوں کو حمایت کے لئے پکارا اور ان کی آواز پر نہ جانے کتنے ملت فروش اور ضمیر فروش ان کے دربار میں آگئے اور اشرفیوں سے بھری تھیلیاں لے کر گئے۔ ان میں مساجد اور عیدگاہوں کے امام بھی تھے دینی مدارس کے علماء بھی شاعر بھی ادیب بھی اور نہ جانے کون کون۔ لیکن یہ ساری کوششیں بیکار گئیں اور مسلمانوں کو گجرات میں لگے زخموں کی تکلیف نے انہیں پھر کانگریس کی طرف واپس کردیا اور اٹل جی سابق وزیر اعظم بن کر رہ گئے۔

کانگریس کی واپسی ایسا ہی انقلاب تھا جیسا 2014 ء میں پھر ہوا اور شری مودی اٹل جی سے زیادہ مقبول لیڈر بن کر اُبھرے جبکہ اٹل جی کے مقابلہ میں وہ ایک معمولی ورکر سے زیادہ نہیں تھے۔ اب مسز سونیا کو وزیر اعطم بننا تھا لیکن وہ کیوں نہیں بنیں؟ اب یہ بات عام ہوچکی ہے اور یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو اپنی جگہ وزیر اعظم کیوں بنایا؟ اس پیشکش کو قبول کرتے وقت سردار جی نے یہ کیوں نہیںسوچا کہ وہ نہ لوک سبھا کے ممبر ہیں نہ وہ عوامی آدمی ہیں نہ انہوں نے کہیں اپنی سیاسی زمین بنائی ہے اس کے باوجود وہ وزیر اعظم بن کر مسز سونیا گاندھی کے ایک پرائیویٹ سکریٹری سے زیادہ کیا بن سکیں گے؟ دس سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے ایک بھی فیصلہ ایسا نہیں کیا جو صرف ان کا اپنا ہو۔ مثلاً کوئلے کی وزارت۔ ہوسکتا ہے کہ ان سے پہلے بھی کسی وزیر اعظم نے یہ قلمدان اپنے پاس رکھا ہو۔ وہ ہمیں یاد نہیں اس کے حقیر ہونے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اٹل جی نے اپنی حکومت میں شاہ نواز کو اسٹیٹ منسٹر بناکر مرلی منوہر جوشی کے ساتھ لگا دیا تھا۔ 15  دن کے بعد شاہ نواز نے اٹل جی سے کہا کہ میں صبح دفتر کھلواکر بیٹھتا ہوں اور شام کو بیکار بیٹھ کر واپس چلا جاتا ہوں جوشی جی نے نہ کوئی کام دیا نہ مجھے بلاکر بتایا کہ مجھے کیا کرنا ہے؟ اٹل جی مرلی منوہر جوشی کو جانتے تھے انہوں نے ان سے تو کچھ نہیں کہا۔ شاہ نواز کو کوئلے کی وزارت دے دی جبکہ انہیں کسی محکمہ کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے یہ محکمہ اپنے پاس سونیاجی کے کہنے پر لیا ہوگا شاید اس لئے کہ کوئلے کی کانیں الاٹ ہونے والی تھیں اور ان میں اندر سے کچھ باہر سے کچھ کے فارمولے کے مطابق من چاہی دولت ملنے والی تھی۔ مسز سونیا نے اپنی ساس کو بھی دیکھا تھا کہ وہ ہر صوبہ سے اور مرکز کے ہر وزیر سے پارٹی فنڈ کے نام سے آندھی کے آموں کی طرح سونے کے بسکٹ قبول کرتی تھیں اور شوہر کو بھی دیکھا تھا کہ 11  بجے رات سے 2  بجے تک تین گھنٹے صرف آئی ہوئی دولت ٹھکانے لگانے میں گذارتے تھے۔

سونیا گاندھی ان دونوں کی جانشین تھیں اور جانشین دوسرے اور تیسرے درجہ کا ہوتا ہے اسی لئے انہوں نے وزیر اعظم سے کہا ہوگا کہ کوئلے کے اندر کا سونا پہلے نکال کر پارٹی فنڈ میں جمع کردیں پھر جب یہ محکمہ خالی ڈبہ رہ جائے تو جیسوال کو دے دیں۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ اس دنیا سے بہت دور تھے۔ سیاسی اور شاہی کھلاڑیوں کے کھیل ان کے لئے بالکل نئے تھے اور نہ انہوں نے ہندوستان کے کسی وزیر اعظم کے پاس عدالت کا سمن آتا ہوا دیکھا تھا اور وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان جیسے معصوم، امانت اور دیانت کے مینار کو سریش کلماڈی اور راجہ کی طرح جعلسازی، مجرمانہ سا فرش اور گھوٹالے کا ملزم بنایا جائے گا۔ اگر ہمارا شبہ غلط ہو تو ہم معافی مانگ لیں گے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مسز سونیا اس کھیل سے واقف ہوں اور انہوں نے ہی سردار جی کو اس لئے اس جال میں پھنسایا ہو کہ وہ کسی بھی وقت واپسی کا فیصلہ نہ کریں۔ آپ نے نہ جانے کتنی بار سنا اور دیکھا ہوگا کہ وزیر اعظم ہوتے ہوئے ڈاکٹر منموہن سنگھ سونیا جی کے پاس ایسے نظر آتے تھے جیسے سونیا مرلی منوہر جوشی ہوں اور سردار جی شاہ نواز حسین۔ اور یہ تو اس بے رحمی کی انتہا تھی کہ وزیر اعظم امریکہ میں تھے وہاں اوبامہ ہی نہیں پاکستان کے نواز شریف بھی تھے صرف دو گھنٹہ کے بعد ان کی امریکی صدر سے اہم ملاقات ہونے والی تھی اتنے میں ملک اور دنیا کے سارے ٹی وی چینل غصہ میں بھرے ہوئے راہل گاندھی کو دکھانے لگے اور انہوں نے سنایا وہ کہہ رہے تھے کہ داغی ممبران پارلیمنٹ کی عدالت کی طرف سے سزا سنانے کے بعد بھی رکنیت ختم کرنے کے خلاف منموہن کابینہ کا اتفاق رائے سے تیار کیا ہوا آرڈی ننس بیہودہ، لغو اور مہمل ہے اسے پھاڑکر پھینک دینا چاہئے۔ راہل کانگریس کے نائب صدر تھے وہ نہ صدر تھے اور نہ یوپی اے محاذ کے کوئی ذمہ دار ان کی سب سے بڑی طاقت ان کا سونیا کا بیٹا ہونا تھی۔ یہ وہ حرکت تھی جس کے بعد اگر کوئی ڈپٹی منسٹر بھی کسی دوسرے ملک میں کسی ڈپٹی منسٹر سے ملنے والا ہوتا تو اسے بغیر ملے واپس چلا آنا چاہئے تھا اور اپنے آنے سے پہلے پردیس سے ہی استعفیٰ کا اعلان کردینا چاہئے تھا۔ لیکن سردار جی وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی اس ذلت بھرے بیان کے بعد امریکہ میں سونیا کے ہر حکم کی تعمیل کرکے واپس آئے اور آکر احتجاج کا ایک لفظ بھی کہے بغیر کابینہ کے جلسے میں گئے اور اپنے ہی آرڈی ننس کو جو سونیا کے حکم سے تیار کیا تھا واپس لینے کا فیصلہ کیا اور خون کے آنسو روتے ہوئے چلے آئے۔ ان کی اس ذلت سے سارا ملک غمزدہ تھا لیکن وہ غلامی کا پٹکا باندھے صرف اس لئے کھڑے تھے کہ سونیا صاحبہ نے کوئلہ کی کھان میں لٹاکر انہیں کندن نہیں کوئلہ بنا دیا تھا۔

؎  ’ایک شور ہے ساحل پر جب ڈوب گیا کوئی‘۔

 پوری کانگریس سردار جی کے ساتھ ہے اور وہ سونیا جو 2009 ء میں اگر وزیر اعظم کا حلف لے لیتیں تو سب خاموش رہتے لیکن انہیں بادشاہ گر بنے رہنے میں یہ فائدہ ہوا کہ ملک کی آدھی دولت ہضم کرنے کے بعد بھی وہ دودھ کی دُھلی ہیں اور وفاداری کی قیمت اپنی عزت اپنی آبرو ساری عمر کی قربانی اور نیک نامی قربان کرنے کے بعد ان کے کانوں میں آواز آرہی ہے کہ منموہن سنگھ ولد…… حاضر ہو ۔ غلام کانگریسی آواز لگا رہے ہیں کہ سونیا منموہن سنگھ کے پیچھے چٹان بنی کھڑی ہیں۔ شاید اس لئے کہ وہ پیچھے کو نہ گریں آگے کو گریں تاکہ وہ بے داغ رہیں۔ مسز سونیا کے لئے اب منموہن سنگھ بے مصرف ہیں اور سونیا بہرحال ہندوستان کی بیٹی نہیں ہیں حکومت واپس آئے نہ آئے انہوں نے وزیر اعظم کی بیوی بن کر پھر ایک وزیر اعظم کی آقا بن کر جتنا بھی لینا تھا لے لیا وہ اٹلی جائیں تب بھی اور ہندوستان میں رہیں تب بھی سونے کے جھولے میں جھولیں گی۔

(یو این این)


***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 498