donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Kash Nitish Ne Musalman Par Bharosa Kiya Hota

کاش نتیش نے مسلمان پر بھروسہ کیا ہوتا


حفیظ نعمانی

یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان جو سوچے وہ پورا ہی ہوجائے یا اگر ایک تجربہ کامیاب ہوجائے تو پھر ہر تجربہ کامیاب ہوجائے۔ 2004 ء کی بات ہے کہ این ڈی اے کی حکومت الیکشن میں ہار گئی۔ مقابلہ یوپی اے سے تھا جس کی چیئرپرسن مسز سونیا گاندھی تھیں۔ اصول کے اعتبار سے ان کو وزیر اعظم بننا چاہئے تھا اور شہرت بھی ہوئی کہ سونیا گاندھی وزیر اعظم بن جائیں گی لیکن اس شہرت کے بعد ملک میں بھونچال آگیا شردپوار جیسے مخلص کانگریسی نے یہ سمجھا کہ یہ موقع ہے کہ گرم لوہے پر چوٹ ماری جائے اور وزیراعظم کی کرسی پر قبضہ کرلیا جائے۔ انہوں نے مسز سونیا گاندھی کی حمایت کرنے کے بجائے ان کی ہاں میںہاں ملائی جنہوں نے یہ مسئلہ اُٹھا دیا کہ ایک ایسی عورت کو کیسے ملک کا وزیر اعظم بنا دیا جائے جو نہ ہندوستان میں پیدا ہوئی نہ اس کی تعلیم اور تربیت ہندوستان میںہوئی اور جس کے ماں باپ آج بھی اٹلی میں ہیں۔

اس مسئلہ کو جنہوں نے اُٹھایا ان میں سب سے زیادہ سخت لہجہ آج کی وزیر خارجہ اور وزیر گنگا ماں کا تھا۔ سوشما سوراج نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ میں اپنا سرمنڈوا لوں گی پانچ سال تک زمین میں چٹائی پر سوئوں گی اور صرف چنے کھاکر زندگی گذاروں گی ایسے ہی الفاظ مس اوما بھارتی کے لئے اور ان کے علاوہ بھی خود کانگریس کا ایک طبقہ اس پر اَڑ گیا کہ دستور میں تبدیلی کردی جائے اور لکھ دیا جائے کہ صدر جمہوریہ وزیر اعظم اور نائب صدر جیسے اہم عہدوں کے لئے یہ ضروری قرار دیا جائے کہ وہ ہندوستان میںپیدا ہوئے ہوں۔ یہ بہت بعد کی بات ہے کہ ان کے بیٹے راہل گاندھی اس پر اَڑگئے تھے کہ وہ وزیر اعظم نہ بنیں اس لئے کہ انہیں خطرہ تھا یا کوئی اشارہ ملا تھا کہ وہ اندرا گاندھی کی طرح ماردی جائیں گی۔ جسے آج یہ کہہ کر دھویا جارہا ہے کہ یہ اس کی آتما کی آواز تھی جسے کم از کم ہم تو نہیں مان سکتے۔ بہرحال ہوا یہ کہ سونیا گاندھی نے اچانک سردار منموہن سنگھ کا نام صدر کی خدمت میں پیش کرکے سب کے منھ بند کردیئے۔

ہندوستان کی تاریخ میں یہ واقعہ اپنی نوعیت کا اکیلا تھا اور اکیلا ہی رہتا کہ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے لوک سبھا کے الیکشن کے نتیجے سے افسردہ ہوکر بغیر کسی سے مشورہ کئے اپنے کو حکومت سے الگ کرلیا اور اپنے نزدیک جسے ڈاکٹر منموہن سنگھ جیسا فدوی، وفادار اور تابعدار سمجھا یعنی جتن رام مانجھی کو وزیر اعلیٰ کا حلف دلا دیا۔ نتیش کمار یہ کہہ رہے ہیں کہ مانجھی کا انتخاب پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں نہیں ہوا تھا بلکہ انہوںنے مانجھی کو اس کرسی پر بٹھا دیا تھا۔ کہا یہ جارہا ہے کہ نتیش کمار نے صرف یہ دیکھا تھا کہ وہ دلت نہیں مہادلت ہیں۔ بہار سے ہمارا کوئی خاص تعلق نہ کبھی رہا نہ اب ہے لیکن یہ تعلق ضرور ہے کہ بہار میں جمشید پور، گیا، بھاگل پور اور نہ جانے کتنی جگہ مسلمان قتل ہوئے ہیں اور ہمارے قلم نے جتنے آنسو بہار کے لئے بہائے ہیں شاید ملک کے کسی صوبہ کے لئے نہیں بہائے ہوں گے۔

مسز سونیا گاندھی کی سرپرستی میں سردار منموہن سنگھ نے دس سال وزیر اعظم کی ذمہ داری سنبھالی۔ اور نہ جانے کتنے ایسے مواقع آئے کہ ہم نے لکھا کہ یہ اس کی سزا ہے کہ سب کو آزمائوں گی مسلمان کو نہیں آزمائوں گی۔ یہی غلطی مسٹر نتیش کمار سے ہوئی حالانکہ ان کے سامنے اُترپردیش کی مثال تھی کہ جنہوں نے مس مایاوتی کو سائیکل سے اتارکر گھوڑی پر بٹھایا اس کو انہوں نے مٹی میںملایا۔ دلت ہوں یا مہادلت جمہوریت میں یہ اتنا خطرناک ہتھیار ہے کہ ہمیں وہ دن یاد ہے جب 30  بیگھہ زمین کے جھگڑے میںمایاوتی نے کہا تھا کہ میرے دادا نے میرے باپ کو یہ کہہ کر دی تھی کہ میری پوتی پڑھنے میںتیز ہے اس کی آمدنی سے اسے تعلیم دلانا۔ اسی مایاوتی نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ایک چماری کے پیٹ سے پیدا ہونے والی دلت لڑکی اعلیٰ ذات والوں کو برداشت نہیں ہورہی۔ دلت اور مہادلت ذات تو اس وقت ہے جب شادی بیاہ کا مسئلہ ہو لیکن جب جمہوریت کی آزمائش ہو تو یہ ہتھیار ہوجاتا ہے اور یہی غلطی نیتش بابو نے کی اگر وہ مانجھی کی جگہ کسی مسلمان کو وزیر اعلیٰ بنا دیتے تو انہیں دھکیّ کھانے نہ پڑتے۔

اس وقت بنگال اور بہار دونوں کے گورنر شری کیسری ناتھ ترپاٹھی ہیں بی جے پی کے لئے وہ اتنے اہم ہیں کہ جب 2002 ء میںملائم اور مایا نے مل کر حکومت بنائی تھی اور مایاوتی نے اپنی فطرت کے مطابق چھ مہینے پہلے وزیر اعلیٰ رہ کر حکومت سے الگ ہوکر اسے گرادیا تھا تو ملائم سنگھ اسی طرح گرم پتھروں پر کھڑے رہ گئے تھے جیسے آج نتیش کھڑے ہیں۔ بھلا ہو امرسنگھ کا کہ وہ راج ناتھ سنگھ کو بلاکر لائے اور گورنر سے اس حالت میں ملائم سنگھ کو دعوت نامہ دلوادیا کہ پچاس ممبر کم تھے اور جب ہائوس کے اندر اکثریت ثابت کرنے کی تاریخ آئی تو مایاوتی کے تمام ممبر ملائم سنگھ کے ساتھ آگئے اور ساڑھے چار سال حکومت کی۔ مس مایاوتی نے جب کبھی بی جے پی سے مل کر حکومت بنائی تب بھی یہی کیا ملائم سنگھ کے ساتھ بھی یہی کیا اور رونا اس بات کا کہ میںدلت ہوں اور آج وہ ایسی دلت ہیں کہ کسی سیاسی لیڈر کے پاس شاید ہی اتنی دولت ہو۔

نتیش کمار کے پڑوس کی بات تھی وہ اُترپردیش کی دلت کو دیکھ رہے تھے اب اگر انہیں پھر بھی یہ خیال ہوا کہ دلت میرے جوتوں پر پالش کرے گا۔ تو حیرت ہے۔ ہم ان کے گورنر کے متعلق بتادیں کہ کیسری ناتھ ترپاٹھی وہ ہیں کہ جب راج ناتھ سنگھ اور بی جے پی کے اپوزیشن لیڈر لال جی ٹنڈن نے ملائم سنگھ سے سودا کیا تو ایک شرط یہ تھی کہ وہ مایاوتی کے آدمی توڑ لیں بی جے پی کے نہیں اور دوسری شرط یہ تھی کہ کیسری ناتھ ترپاٹھی اسپیکر رہیں گے اور وہ پانچ سال اسپیکر رہے۔ آج وہی ترپاٹھی اس نتیش کمار سے گن گن کر بدلے لیں گے جن کا اشارہ ان کے سب سے بڑے دشمن شری نریندر مودی دیں گے اور یہ انہوں نے ان سے مل کر بھی دیکھ لیا اور صدر سے مل کر بھی۔ اب اوپر اوپر جو چاہیں کریں اندر اندر الیکشن کی تیاری کریں اس لئے کہ دہلی کا زخمی شیر بہار کو کھانے کے لئے جیسا تڑپ رہا ہوگا اسے بس وہی جان سکتا ہے۔

(یو این این)

**************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 485