donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Kazab Bayani Ki Pahli Salgirah

کذب بیانی کی پہلی سالگرہ


حفیظ نعمانی

 

وزیر اعظم نریندر مودی کی کابینہ میں نتن گڈکری اس لئے اہم نہیں ہیں کہ وہ مقبول اور تجربہ کار ہیں۔ ان کی اہمیت اس لئے ہے کہ دس بارہ برس پہلے جب بی جے پی صدر کی مدت ختم ہوگئی تو پارٹی کے سامنے یہ مسئلہ آیا کہ صدر کسے بنایا جائے؟ اس وقت ایسے تیوروں کے ساتھ جیسے سب سے اہم شخصیت کے ہوتے ہیں۔ شری موہن بھاگوت نے اعلان کیا کہ اب صدر دہلی گروپ کا نہیں ہوگا بلکہ ہم بھیجیں گے۔ اور دوسرے دن مسٹر نتن گڈکری اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ آئے اور انہوں نے صدارت کا تاج اپنے سر پر رکھ لیا۔ اس وقت ہر سیاسی حلقہ سے آواز آئی کہ یہ کون؟ اور پھر شاید تین سال کے بعد ناگپور سے ہی حکم آیا کہ پارٹی کے دستور میں ترمیم کردی جائے اور جب گڈکری کی مدت ختم ہوجائے تو ان کو ہی دوبار صدر بنا دیا جائے۔ بی جے پی کے ہر اس لیڈر نے جو ہر موقع پر کہتا ہے کہ بی جے پی پر آر ایس ایس کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اس حکم پر بھی سر جھکا دیا اور دستور میں ترمیم کرکے ان کے لئے راستہ صاف کردیا۔ اب یہ گڈکری کی بدقسمتی تھی یا موہن بھاگوت کو شرمسار ہونا تھا کہ صدر گڈکری کی جعلسازیاں، فرضی کمپنیاں اور کروڑوں روپئے کے ہیرپھیر کا پردہ چاک ہوگیا۔ اس کے بعد بھی بھاگوت صاحب سے جتنا ہوسکا وہ ان کے پاپوں پر پردہ ڈالتے رہے لیکن جب انہیں اندازہ ہوگیا کہ اب صنم کے ساتھ وہ بھی ڈوب جائیں گے تب انہوں نے یہ کڑوا گھونٹ حلق سے اتارا اور گڈکری کے بجائے اپنے سے سب سے زیادہ قریب تر شری راج ناتھ سنگھ کو صدر بنانے کی اجازت دی۔

یہی داغ سابق صدر جو بھرشٹاچار کی وجہ سے صدارت سے ہٹائے گئے ہیں یعنی شری نتن گڈکری وہ مودی کے اہم وزیروں میں سے ایک ہیں جن کو یہ کہنے کی ذمہ دار سونپی گئی ہے کہ مودی سرکار کے ایک سال میں نہ کوئی گھوٹالہ ہوا اور نہ بھرشٹاچار شاید کسی ایسے کے لئے ہی کہا گیا تھا کہ ’’آنکھوں کے اندھے نام نورالعین‘‘ اور جب وہ اہم وزیر ہیں تو اخبار والے انہیں اہمیت دینے پر بھی مجبور ہیں اور ان کا انٹرویو لینے پر بھی۔ ایک اخبار کے ایڈیٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے اپنی اس مہارت کا پورا ثبوت دیا جو فرضی کمپنیوں کے کاروبار میں دکھائی تھی۔ ہر انٹرویو میں پہلا سوال یہی کیا جائے گا کہ آپ کا اپنی حکومت کے ایک سال کے بارے میں کیا کہنا ہے؟ کیا آپ مطمئن ہیں؟ کیا آپ جو چاہتے تھے وہ کرنے میں کامیاب ہوئے وغیرہ وغیرہ؟ جو کوئی رپورٹر کسی سے یہ سوال پوچھتا ہے اس کے پس منظر میں وہ دعوے ہوتے ہیں جو مودی صاحب نے الیکشن کے وقت کئے تھے کہ ہماری سرکار بنتے ہی مہنگائی ختم ہوجائے گی۔ بھرشٹاچار کرنے والے منھ چھپائے چھپائے پھریں گے۔ ہم 100  دن کے اندر وہ سارا کالا دھن دوسرے ملکوں سے لے آئیں گے جو برسوں سے وہاں پڑا ہے اور وہ اتنا ہے کہ ہر آدمی کے حصہ میں پندرہ لاکھ روپئے آئیں گے۔ اور 20  برس سے 35  برس کے اندر والے کروڑوں نوجوانوں کو روزگار مل جائے گا اور وہ سب جو آپ کو بھی یاد ہوگا۔

ہر وزیر جیسے جواب دیتے ہوئے بھاگ جاتا ہے ایسے ہی انہوں نے کہہ دیا کہ دوسری پارٹی (کانگریس) کو آپ نے 65  برس دیئے ہیں ساٹھ مہینے تو دیجئے اور پھر بھی ہم نے بہت کچھ کیا۔ پھر جب ان سے کالے دھن کا سوال کیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے قانون بنا دیا ہے اب کالا دھن ملک سے باہر نہیں جا پائے گا۔ جیسے 65 برس جو حکومت رہی اس نے قانون بنا دیا تھا کہ کالا دھن اپنے دیس میں نہ رکھو باہر بھیج دو۔ گڈکری صاحب نے جھلاکر کہا کہ آپ ہم سے ایک سال کے لئے سوال کرتے ہیں یہ کیوں نہیں معلوم کرتے کہ 65  سال میں کانگریس نے کیا کیا؟ اب انہیں کون بتائے کہ انہوں نے جو پاپ کئے تھے اسی کی سزا تھی کہ 6  برس اٹل جی نے حکومت کی اور یہ بھی اسی کی سزا ہے کہ آپ وزیر ہیں اور آپ کی فرضی کمپنیوں کا کوئی ذکر بھی نہیں کرتا۔
گڈکری صاحب نے کہا کہ ہم نے ایک سال میں مسلمانوں پر کوئی حملہ نہیں کیا؟ اور میں ایک ذمہ دار منتری کی حیثیت سے آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اقلیتوں کے خلاف کچھ نہیں ہوگا۔ انٹرویو لینے والے نے ان سب کے نام گنادیئے جو مسلمانوں کے خلاف زہر اُگل رہے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ تھا کہ ان بیانات کے خلاف ہماری پارٹی نے اپنا موقف ظاہر کردیا اور جواب پر ہم تو ہنس دیئے تھے۔ ہوسکتا ہے آپ بھی مسکرادیئے ہوں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ میرا بیٹا کسی کو قتل کردے اور میں اپنا موقف ظاہر کرکے اس کے متعلق کہہ دوں کہ اس قتل سے ہمارے گھرانے کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یہ اس کا اپنا فعل ہے۔

مسٹر گڈکری تحویل آراضی بل کی حمایت میں اس طرح سے میدان میں ہیں جیسے یہ بل انہوں نے ہی تیار کیا ہے۔ وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ جس کا جی چاہے میرے مقابلہ پر آکر بحث کرلے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے وعدہ کیا ہے کہ 2021 ء تک ہر ہندوستانی کے پاس اپنا مکان ہوگا۔ اب یہ بتایئے کہ زمین نہیں ہوگی تو کیا ہوا میںمکان بنائیں گے؟ حیرت کی بات ہے کہ اگر میرے پاس زمین ہے اور مکان نہیں ہے تو اگر کوئی مجھ سے کہے کہ تم اپنے مکان کے قابل زمین دے دو تو سرکار تمہارا مکان بناکر تمہیں دے دے گی تو کون تیار نہیں ہوگا؟ ہم اپنی معذوری کی بنا پر دس برس سے لکھنؤ سے باہر کہیں نہیں گئے ہیں اور لکھنؤ میں یا میڈیکل کالج یا ایکسرے کرانے یا سہارا اسپتا ل گومتی نگر، یا کسی ایسی جگہ جہاں وہیل چیئر جاسکے۔ اتنے ہی مقامات میں دیکھا کہ لکھنؤ کچھ سے کچھ ہوگیا اور گھر بیٹھے معلوم ہوتا رہتا ہے کہ وہ آدمی جس کے پاس باپ دادا کا پرانا مکان تھا جس میں دو چار دُکانیں بھی تھیں اور اپنے رہنے کی جگہ تھی وہ اب پانچ منزلہ فلیٹ اور دو دُکانیں بلڈر کو دے دی اس نے اسے فروخت کرکے اپنی لاگت بھی نکال لی اور دو چار لاکھ کا فائدہ بھی ہوگیا۔

صرف دس سال میں اس اسکیم سے لکھنؤ کا چہرہ بھی بدل گیا اور صحت بھی اچھی ہوگئی۔ مودی سرکار زمین کسان کی مرضی کے بجائے یہ کہہ کر کیوں نہیں لیتی کہ تمہارے لئے مکان تمہارے لئے اسپتال اور بینک تمہارے بچوں کے لئے اسکول ہم بنائیں گے زمین تم دے دو۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت پر قبضہ کیا تو وہ بھی صرف جھوٹے وعدوں پر اور اب ہر وزیر جھوٹ بول رہا ہے۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ سب سے زیادہ مودی صاحب ان کے بعد ہر وزیر عوام سے معافی مانگتا کہ ہم جو چاہتے تھے وہ ہم نہیں کرسکے اور بتاتا کہ کس کس وجہ سے نہیں کرسکے اور آئندہ ہم کیا کیا کریں گے؟ اور اس کے لئے آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں۔

کیا یہ مودی سرکار کے ڈوب مرنے کی بات نہیں ہے کہ جب مودی پارلیمنٹ میں پہلی بار داخل ہونے کے لئے گئے تو انہوں نے اس کی سیڑھی پر ماتھا ٹیکا۔ سینٹرل ہال میں اپنی پہلی تقریر میں انہوں نے سب سے زیادہ زور سے جو بات کہی وہ یہ تھی کہ اس پاک پارلیمنٹ میں جتنے ممبر اسے ناپاک کرنے والے ہوں گے انہیں سپریم کورٹ کے مشورہ سے جیل بھجوا دوں گا۔ انہوں نے ہی یہ بھی کہا تھا کہ یہ سرکار غریبوں کی ہے اور صرف غریبوں کا کام کرے گی۔ اور حالت یہ ہے کہ ناپاک ممبر تو کیا جاتے وزیر بھی ایسے بنائے جن پر الزامات ہیں اور بی جے پی پارٹی کی صدر بھی اسے بنایا جس پر ایک نہیں نہ جانے کتنوں کو قتل کرانے کا الزام ہے اور جو ضمانت پر باہر ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ مودی اسے اپنی سرکار کہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف ایک کھلونا ہیں اور وہ جس کا کھلونا ہیں اس کے نزدیک ہندوستان کو اکھنڈ بھارت بنانا ہے جس کے سر پر کالی ٹوپی ہو ہونٹ پر موٹی مونچھ سفید قمیص خاکی نیکر پائوں میں چپل اور ہاتھ میں لاٹھی یا گلے میں ڈھول۔

(یو این این)

***********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 543